الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ترمذي
كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: حج کے احکام و مناسک
34. باب مَا جَاءَ فِي الرَّمَلِ مِنَ الْحَجَرِ إِلَى الْحَجَرِ
34. باب: حجر اسود سے حجر اسود تک رمل کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 857
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " رَمَلَ مِنْ الْحَجَرِ إِلَى الْحَجَرِ ثَلَاثًا وَمَشَى أَرْبَعًا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالَ الشَّافِعِيُّ: إِذَا تَرَكَ الرَّمَلَ عَمْدًا فَقَدْ أَسَاءَ وَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ، وَإِذَا لَمْ يَرْمُلْ فِي الْأَشْوَاطِ الثَّلَاثَةِ لَمْ يَرْمُلْ فِيمَا بَقِيَ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَيْسَ عَلَى أَهْلِ مَكَّةَ رَمَلٌ وَلَا عَلَى مَنْ أَحْرَمَ مِنْهَا.
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود سے حجر اسود تک تین پھیروں میں رمل ۱؎ کیا اور چار میں عام چل چلے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- جابر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے،
۴- شافعی کہتے ہیں: جب کوئی جان بوجھ کر رمل کرنا چھوڑ دے تو اس نے غلط کیا لیکن اس پر کوئی چیز واجب نہیں اور جب اس نے ابتدائی تین پھیروں میں رمل نہ کیا ہو تو باقی میں نہیں کرے گا،
۵- بعض اہل علم کہتے ہیں: اہل مکہ کے لیے رمل نہیں ہے اور نہ ہی اس پر جس نے مکہ سے احرام باندھا ہو۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 857]
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3074)

35. باب مَا جَاءَ فِي اسْتِلاَمِ الْحَجَرِ وَالرُّكْنِ الْيَمَانِي دُونَ مَا سِوَاهُمَا
35. باب: بیت اللہ کے دوسرے کونوں کو چھوڑ کر صرف حجر اسود اور رکن یمانی کے استلام کا بیان۔
حدیث نمبر: 858
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، وَمَعْمَرٌ، عَنْ ابْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَمُعَاوِيَةُ لَا يَمُرُّ بِرُكْنٍ إِلَّا اسْتَلَمَهُ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ: " إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَسْتَلِمُ إِلَّا الْحَجَرَ الْأَسْوَدَ، وَالرُّكْنَ الْيَمَانِيَ " فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: لَيْسَ شَيْءٌ مِنْ الْبَيْتِ مَهْجُورًا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنْ لَا يَسْتَلِمَ إِلَّا الْحَجَرَ الْأَسْوَدَ، وَالرُّكْنَ الْيَمَانِيَ.
ابوالطفیل کہتے ہیں کہ میں ابن عباس رضی الله عنہما کے ساتھ تھا، معاویہ رضی الله عنہ جس رکن کے بھی پاس سے گزرتے، اس کا استلام کرتے ۱؎ تو ابن عباس نے ان سے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود اور رکن یمانی کے علاوہ کسی کا استلام نہیں کیا، اس پر معاویہ رضی الله عنہ نے کہا: بیت اللہ کی کوئی چیز چھوڑی جانے کے لائق نہیں ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عمر سے بھی روایت ہے،
۳- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ حجر اسود اور رکن یمانی کے علاوہ کسی کا استلام نہ کیا جائے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 858]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5780) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

36. باب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَافَ مُضْطَبِعًا
36. باب: احرام کی چادر کو داہنی بغل کے نیچے کر کے دونوں کناروں کو بائیں کندھے پر ڈال کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طواف کرنے کا بیان۔​
حدیث نمبر: 859
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنْ ابْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " طَافَ بِالْبَيْتِ مُضْطَبِعًا وَعَلَيْهِ بُرْدٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثُ الثَّوْرِيِّ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِهِ، وَهُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَعَبْدُ الْحَمِيدِ هُوَ ابْنُ جُبَيْرَةَ بْنِ شَيْبَةَ، عَنْ ابْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَى بْنُ أُمَيَّةَ.
یعلیٰ بن امیہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اضطباع کی حالت میں ۱؎ بیت اللہ کا طواف کیا، آپ کے جسم مبارک پر ایک چادر تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہی ثوری کی حدیث ہے جسے انہوں نے ابن جریج سے روایت کی ہے اور اسے ہم صرف کے انہی طریق سے جانتے ہیں،
۳- عبدالحمید جبیرہ بن شیبہ کے بیٹے ہیں، جنہوں نے ابن یعلیٰ سے اور ابن یعلیٰ نے اپنے والد سے روایت کی ہے اور یعلیٰ سے مراد یعلیٰ بن امیہ ہیں رضی الله عنہ۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 859]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الحج 50 (1883)، سنن ابن ماجہ/المناسک 30 (2954)، (تحفة الأشراف: 11839)، مسند احمد (4/222)، سنن الدارمی/المناسک 28 (1885) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (2954)

37. باب مَا جَاءَ فِي تَقْبِيلِ الْحَجَرِ
37. باب: حجر اسود کو بوسہ لینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 860
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ، قَالَ: رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يُقَبِّلُ الْحَجَرَ، وَيَقُولُ: " إِنِّي أُقَبِّلُكَ وَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ لَمْ أُقَبِّلْكَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عابس بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی الله عنہ کو حجر اسود کا بوسہ لیتے دیکھا، وہ کہہ رہے تھے: میں تیرا بوسہ لے رہا ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ تو ایک پتھر ہے، اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ لیتا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عمر کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوبکر اور ابن عمر سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 860]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 50 (1597)، و57 (1605)، (1610)، صحیح مسلم/الحج 41 (1270)، سنن ابی داود/ المناسک 47 (1873)، سنن النسائی/الحج 147 (2940)، سنن ابن ماجہ/المناسک 27 (2943)، (تحفة الأشراف: 10473)، مسند احمد (1/26، 46) (صحیح) وأخرجہ کل من: موطا امام مالک/الحج 36 (115)، مسند احمد (1/21، 34، 35، 39، 51، 53، 54)، سنن الدارمی/المناسک 42 (1906) من غیر ہذا الطریق۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2943)

حدیث نمبر: 861
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ عَرَبِيٍّ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ " عَنِ اسْتِلَامِ الْحَجَرِ، فَقَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَلِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ ". فَقَالَ الرَّجُلُ: أَرَأَيْتَ إِنْ غُلِبْتُ عَلَيْهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ زُوحِمْتُ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: اجْعَلْ أَرَأَيْتَ بِالْيَمَنِ، رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَلِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ. قَالَ: وَهَذَا هُوَ الزُّبَيْرُ بْنُ عَرَبِيٍّ، رَوَى عَنْهُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، وَالزُّبَيْرُ بْنُ عَدِيٍّ كُوفِيٌّ يُكْنَى أَبَا سَلَمَةَ، سَمِعَ مِنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رَوَى عَنْهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ تَقْبِيلَ الْحَجَرِ، فَإِنْ لَمْ يُمْكِنْهُ وَلَمْ يَصِلْ إِلَيْهِ اسْتَلَمَهُ بِيَدِهِ وَقَبَّلَ يَدَهُ، وَإِنْ لَمْ يَصِلْ إِلَيْهِ اسْتَقْبَلَهُ إِذَا حَاذَى بِهِ وَكَبَّرَ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ.
زبیر بن عربی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ابن عمر رضی الله عنہما سے حجر اسود کا بوسہ لینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے چھوتے اور بوسہ لیتے دیکھا ہے۔ اس نے کہا: اچھا بتائیے اگر میں وہاں تک پہنچنے میں مغلوب ہو جاؤں اور اگر میں بھیڑ میں پھنس جاؤں؟ تو اس پر ابن عمر نے کہا: تم (یہ اپنا) اگر مگر یمن میں رکھو ۱؎ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے چھوتے اور بوسہ لیتے دیکھا ہے۔ یہ زبیر بن عربی وہی ہیں، جن سے حماد بن زید نے روایت کی ہے، کوفے کے رہنے والے تھے، ان کی کنیت ابوسلمہ ہے۔ انہوں نے انس بن مالک اور دوسرے کئی صحابہ سے حدیثیں روایت کیں ہیں۔ اور ان سے سفیان ثوری اور دوسرے کئی اور ائمہ نے روایت کی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے۔ ان سے یہ دوسری سندوں سے بھی مروی ہے۔
۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ حجر اسود کے بوسہ لینے کو مستحب سمجھتے ہیں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو اور آدمی وہاں تک نہ پہنچ سکے تو اسے اپنے ہاتھ سے چھو لے اور اپنے ہاتھ کا بوسہ لے لے اور اگر وہ اس تک نہ پہنچ سکے تو جب اس کے سامنے میں پہنچے تو اس کی طرف رخ کرے اور اللہ اکبر کہے، یہ شافعی کا قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 861]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 60 (1611)، سنن النسائی/الحج 155 (2949)، (تحفة الأشراف: 6719)، مسند احمد (2/152) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: albanistatus_desc

38. باب مَا جَاءَ أَنَّهُ يَبْدَأُ بِالصَّفَا قَبْلَ الْمَرْوَةِ
38. باب: سعی کی شروعات مروہ کے بجائے صفا سے کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 862
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " حِينَ قَدِمَ مَكَّةَ طَافَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا وَأَتَى الْمَقَامَ فَقَرَأَ: " وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى سورة البقرة آية 125 " فَصَلَّى خَلْفَ الْمَقَامِ، ثُمَّ أَتَى الْحَجَرَ فَاسْتَلَمَهُ، ثُمَّ قَالَ: " نَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللَّهُ بِهِ "، فَبَدَأَ بِالصَّفَا وَقَرَأَ: " إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ يَبْدَأُ بِالصَّفَا قَبْلَ الْمَرْوَةِ، فَإِنْ بَدَأَ بِالْمَرْوَةِ قَبْلَ الصَّفَا لَمْ يُجْزِهِ وَبَدَأَ بِالصَّفَا، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِيمَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ، وَلَمْ يَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ حَتَّى رَجَعَ، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ: الْعِلْمِ إِنْ لَمْ يَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ حَتَّى خَرَجَ مِنْ مَكَّةَ، فَإِنْ ذَكَرَ وَهُوَ قَرِيبٌ مِنْهَا رَجَعَ فَطَافَ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، وَإِنْ لَمْ يَذْكُرْ حَتَّى أَتَى بِلَادَهُ أَجْزَأَهُ وَعَلَيْهِ دَمٌ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ , وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنْ تَرَكَ الطَّوَافَ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ حَتَّى رَجَعَ إِلَى بِلَادِهِ فَإِنَّهُ لَا يُجْزِيهِ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، قَالَ: الطَّوَافُ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ وَاجِبٌ لَا يَجُوزُ الْحَجُّ إِلَّا بِهِ.
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت مکہ آئے تو آپ نے بیت اللہ کے سات چکر لگائے اور یہ آیت پڑھی: «‏‏‏‏(واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى» مقام ابراہیم کو مصلی بناؤ یعنی وہاں نماز پڑھو (البقرہ: ۱۲۵)، پھر مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھی، پھر حجر اسود کے پاس آئے اور اس کا استلام کیا پھر فرمایا: ہم (سعی) اسی سے شروع کریں گے جس سے اللہ نے شروع کیا ہے۔ چنانچہ آپ نے صفا سے سعی شروع کی اور یہ آیت پڑھی: «إن الصفا والمروة من شعائر الله» صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں (البقرہ: ۱۵۸)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ سعی مروہ کے بجائے صفا سے شروع کی جائے۔ اگر کسی نے صفا کے بجائے مروہ سے سعی شروع کر دی تو یہ سعی کافی نہ ہو گی اور سعی پھر سے صفا سے شروع کرے گا،
۳- اہل علم کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے کہ جس نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہیں کی، یہاں تک کہ واپس گھر چلا گیا، بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اگر کسی نے صفا و مروہ کے درمیان سعی نہیں کی یہاں تک کہ وہ مکہ سے باہر نکل آیا پھر اسے یاد آیا، اور وہ مکے کے قریب ہے تو واپس جا کر صفا و مروہ کی سعی کرے۔ اور اگر اسے یاد نہیں آیا یہاں تک کہ وہ اپنے ملک واپس آ گیا تو اسے کافی ہو جائے گا لیکن اس پر دم لازم ہو گا، یہی سفیان ثوری کا قول ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اگر اس نے صفا و مروہ کے درمیان سعی چھوڑ دی یہاں تک کہ اپنے ملک واپس آ گیا تو یہ اسے کافی نہ ہو گا۔ یہ شافعی کا قول ہے، وہ کہتے ہیں کہ صفا و مروہ کے درمیان سعی واجب ہے، اس کے بغیر حج درست نہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 862]
تخریج الحدیث: «انظر رقم: 856 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1374)

39. باب مَا جَاءَ فِي السَّعْىِ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ
39. باب: صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 863
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " إِنَّمَا سَعَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ لِيُرِيَ الْمُشْرِكِينَ قُوَّتَهُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ الَّذِي يَسْتَحِبُّهُ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنْ يَسْعَى بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، فَإِنْ لَمْ يَسْعَ وَمَشَى بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ رَأَوْهُ جَائِزًا.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی، تاکہ مشرکین کو اپنی قوت دکھا سکیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عائشہ، ابن عمر اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم اسی کو مستحب سمجھتے ہیں کہ آدمی صفا و مروہ کے درمیان سعی کرے، اگر وہ سعی نہ کرے بلکہ صفا و مروہ کے درمیان عام چال چلے تو اسے جائز سمجھتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 863]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5741)، مسند احمد (1/255) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 864
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ جُمْهَانَ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَمْشِي فِي السَّعْيِ، فَقُلْتُ لَهُ: " أَتَمْشِي فِي السَّعْيِ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، قَالَ: لَئِنْ سَعَيْتُ لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْعَى، وَلَئِنْ مَشَيْتُ لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي وَأَنَا شَيْخٌ كَبِيرٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرُوِي عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ نَحْوُهُ.
کثیر بن جمہان کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی الله عنہما کو سعی میں عام چال چلتے دیکھا تو میں نے ان سے کہا: کیا آپ صفا و مروہ کی سعی میں عام چال چلتے ہیں؟ انہوں نے کہا: اگر میں دوڑوں تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوڑتے بھی دیکھا ہے، اور اگر میں عام چال چلوں تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عام چال چلتے بھی دیکھا ہے، اور میں کافی بوڑھا ہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- سعید بن جبیر کے واسطے سے ابن عمر سے اسی طرح مروی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 864]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الحج 56 (1904)، سنن النسائی/الحج 174 (2979)، سنن ابن ماجہ/المناسک 43 (2988)، (تحفة الأشراف: 7379)، مسند احمد (2/53) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2988)

40. باب مَا جَاءَ فِي الطَّوَافِ رَاكِبًا
40. باب: سواری پر طواف کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 865
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الصَّوَّافُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، وَعَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " طَافَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَاحِلَتِهِ فَإِذَا انْتَهَى إِلَى الرُّكْنِ أَشَارَ إِلَيْهِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ، وَأَبِي الطُّفَيْلِ، وَأُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يَطُوفَ الرَّجُلُ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ رَاكِبًا إِلَّا مِنْ عُذْرٍ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر بیت اللہ کا طواف کیا جب ۱؎ آپ حجر اسود کے پاس پہنچتے تو اس کی طرف اشارہ کرتے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں جابر، ابوالطفیل اور ام سلمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کی ایک جماعت نے بیت اللہ کا طواف، اور صفا و مروہ کی سعی سوار ہو کر کرنے کو مکروہ کہا ہے الا یہ کہ کوئی عذر ہو، یہی شافعی کا بھی قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 865]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 61 (1612)، و62 (1613)، و74 (1632)، والطلاق 24 (5293)، سنن النسائی/الحج 160 (2958)، (تحفة الأشراف: 6050) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2948)

41. باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الطَّوَافِ
41. باب: طواف کعبہ کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 866
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَمَانٍ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ خَمْسِينَ مَرَّةً، خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، سَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: إِنَّمَا يُرْوَى هَذَا عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلُهُ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے بیت اللہ کا طواف پچاس بار کیا تو وہ اپنے گناہوں سے اس طرح نکل آئے گا جیسے اسی دن اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں انس اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۲- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث غریب ہے،
۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ تو ابن عباس سے ان کے اپنے قول سے روایت کیا جاتا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 866]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5531) (ضعیف) (سند میں سفیان بن وکیع یحییٰ بن یمان شریک القاضی اور ابواسحاق سبیعی سب میں کلام ہے، صحیح بات یہ ہے کہ یہ ابن عباس کا اپنا قول ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (5102) // ضعيف الجامع الصغير (5682) //


Previous    2    3    4    5    6    7    8    9    10    Next