الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ترمذي
كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: زہد، ورع، تقوی اور پرہیز گاری
حدیث نمبر: 2369
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَاعَةٍ لَا يَخْرُجُ فِيهَا وَلَا يَلْقَاهُ فِيهَا أَحَدٌ، فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ , فَقَالَ: " مَا جَاءَ بِكَ يَا أَبَا بَكْرٍ؟ " فَقَالَ: خَرَجْتُ أَلْقَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْظُرُ فِي وَجْهِهِ وَالتَّسْلِيمَ عَلَيْهِ، فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ جَاءَ عُمَرُ، فَقَالَ: " مَا جَاءَ بِكَ يَا عُمَرُ؟ " قَالَ: الْجُوعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَأَنَا قَدْ وَجَدْتُ بَعْضَ ذَلِكَ فَانْطَلَقُوا إِلَى مَنْزِلِ أَبِي الْهَيْثَمِ بْنِ التَّيْهَانِ الْأَنْصَارِيِّ "، وَكَانَ رَجُلًا كَثِيرَ النَّخْلِ وَالشَّاءِ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ خَدَمٌ فَلَمْ يَجِدُوهُ، فَقَالُوا لِامْرَأَتِهِ: أَيْنَ صَاحِبُكِ؟ فَقَالَتْ: انْطَلَقَ يَسْتَعْذِبُ لَنَا الْمَاءَ، فَلَمْ يَلْبَثُوا أَنْ جَاءَ أَبُو الْهَيْثَمِ بِقِرْبَةٍ يَزْعَبُهَا، فَوَضَعَهَا ثُمَّ جَاءَ يَلْتَزِمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُفَدِّيهِ بِأَبِيهِ وَأُمِّهِ، ثُمَّ انْطَلَقَ بِهِمْ إِلَى حَدِيقَتِهِ فَبَسَطَ لَهُمْ بِسَاطًا، ثُمَّ انْطَلَقَ إِلَى نَخْلَةٍ، فَجَاءَ بِقِنْوٍ فَوَضَعَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَفَلَا تَنَقَّيْتَ لَنَا مِنْ رُطَبِهِ "، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَرَدْتُ أَنْ تَخْتَارُوا، أَوْ قَالَ: تَخَيَّرُوا مِنْ رُطَبِهِ وَبُسْرِهِ فَأَكَلُوا وَشَرِبُوا مِنْ ذَلِكَ الْمَاءِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَذَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مِنَ النَّعِيمِ الَّذِي تُسْأَلُونَ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ظِلٌّ بَارِدٌ، وَرُطَبٌ طَيِّبٌ، وَمَاءٌ بَارِدٌ &qquot;، فَانْطَلَقَ أَبُو الْهَيْثَمِ لِيَصْنَعَ لَهُمْ طَعَامًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَذْبَحَنَّ ذَاتَ دَرٍّ "، قَالَ: فَذَبَحَ لَهُمْ عَنَاقًا أَوْ جَدْيًا فَأَتَاهُمْ بِهَا، فَأَكَلُوا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَلْ لَكَ خَادِمٌ "، قَالَ: لَا، قَالَ: " فَإِذَا أَتَانَا سَبْيٌ فَأْتِنَا "، فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَأْسَيْنِ لَيْسَ مَعَهُمَا ثَالِثٌ، فَأَتَاهُ أَبُو الْهَيْثَمِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اخْتَرْ مِنْهُمَا "، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ اخْتَرْ لِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْمُسْتَشَارَ مُؤْتَمَنٌ خُذْ هَذَا فَإِنِّي رَأَيْتُهُ يُصَلِّي وَاسْتَوْصِ بِهِ مَعْرُوفًا "، فَانْطَلَقَ أَبُو الْهَيْثَمِ إِلَى امْرَأَتِهِ فَأَخْبَرَهَا بِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتِ امْرَأَتُهُ: مَا أَنْتَ بِبَالِغٍ مَا قَالَ فِيهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا أَنْ تَعْتِقَهُ، قَالَ: فَهُوَ عَتِيقٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَبْعَثْ نَبِيًّا وَلَا خَلِيفَةً إِلَّا وَلَهُ بِطَانَتَانِ، بِطَانَةٌ تَأْمُرُهُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَاهُ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَبِطَانَةٌ لَا تَأْلُوهُ خَبَالًا، وَمَنْ يُوقَ بِطَانَةَ السُّوءِ فَقَدْ وُقِيَ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خلاف معمول ایسے وقت میں گھر سے نکلے کہ جب آپ نہیں نکلتے تھے اور نہ اس وقت آپ سے کوئی ملاقات کرتا تھا، پھر آپ کے پاس ابوبکر رضی الله عنہ پہنچے تو آپ نے پوچھا: ابوبکر تم یہاں کیسے آئے؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اس لیے نکلا تاکہ آپ سے ملاقات کروں اور آپ کے چہرہ انور کو دیکھوں اور آپ پر سلام پیش کروں، کچھ وقفے کے بعد عمر رضی الله عنہ بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے پوچھا: عمر! تم یہاں کیسے آئے؟ اس پر انہوں نے بھوک کی شکایت کی، آپ نے فرمایا: مجھے بھی کچھ بھوک لگی ہے ۱؎، پھر سب مل کر ابوالہیشم بن تیہان انصاری کے گھر پہنچے، ان کے پاس بہت زیادہ کھجور کے درخت اور بکریاں تھیں مگر ان کا کوئی خادم نہیں تھا، ان لوگوں نے ابوالھیثم کو گھر پر نہیں پایا تو ان کی بیوی سے پوچھا: تمہارے شوہر کہاں ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ وہ ہمارے لیے میٹھا پانی لانے گئے ہیں، گفتگو ہو رہی تھی کہ اسی دوران! ابوالہیشم ایک بھری ہوئی مشک لیے آ پہنچے، انہوں نے مشک کو رکھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ گئے اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، پھر سب کو وہ اپنے باغ میں لے گئے اور ان کے لیے ایک بستر بچھایا پھر کھجور کے درخت کے پاس گئے اور وہاں سے کھجوروں کا گچھا لے کر آئے اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا۔ آپ نے فرمایا: ہمارے لیے اس میں سے تازہ کھجوروں کو چن کر کیوں نہیں لائے؟ عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے چاہا کہ آپ خود ان میں سے چن لیں، یا یہ کہا کہ آپ حضرات پکی کھجوروں کو کچی کھجوروں میں سے خود پسند کر لیں، بہرحال سب نے کھجور کھائی اور ان کے اس لائے ہوئے پانی کو پیا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یقیناً یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کے بارے میں قیامت کے دن سوال کیا جائے گا اور وہ نعمتیں یہ ہیں: باغ کا ٹھنڈا سایہ، پکی ہوئی عمدہ کھجوریں اور ٹھنڈا پانی، پھر ابوالھیثم اٹھ کھڑے ہوئے تاکہ ان لوگوں کے لیے کھانا تیار کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: دودھ والے جانور کو ذبح نہ کرنا، چنانچہ آپ کے حکم کے مطابق انہوں نے بکری کا ایک مادہ بچہ یا نر بچہ ذبح کیا اور اسے پکا کر ان حضرات کے سامنے پیش کیا، ان سبھوں نے اسے کھایا اور پھر آپ نے ابوالھیثم سے پوچھا؟ کیا تمہارے پاس کوئی غلام ہے؟ انہوں نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا: جب ہمارے پاس کوئی قیدی آئے تو تم ہم سے ملنا، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو قیدی لائے گئے جن کے ساتھ تیسرا نہیں تھا، ابوالھیثم بھی آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو پسند کر لو، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ خود ہمارے لیے پسند کر دیجئیے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک جس سے مشورہ لیا جائے وہ امین ہوتا ہے۔ لہٰذا تم اس کو لے لو (ایک غلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) کیونکہ ہم نے اسے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور اس غلام کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، پھر ابوالھیثم اپنی بیوی کے پاس گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں سے اسے باخبر کیا، ان کی بیوی نے کہا کہ تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کو پورا نہ کر سکو گے مگر یہ کہ اس غلام کو آزاد کر دو، اس لیے ابوالھیثم نے فوراً اسے آزاد کر دیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے کسی نبی یا خلیفہ کو نہیں بھیجا ہے مگر اس کے ساتھ دو راز دار ساتھی ہوتے ہیں، ایک اسے بھلائی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے، جب کہ دوسرا ساتھی اسے خراب کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا، پس جسے برے ساتھی سے بچا لیا گیا گویا وہ بڑی آفت سے نجات پا گیا ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2369]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 123 (5128)، سنن ابن ماجہ/الأدب 37 (3745) (وکلاہما بقولہ: ”المستشار مؤتمن“) ویأتي عند المؤلف في الأدب 57 (2822) (تحفة الأشراف: 14977) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1641) ، مختصر الشمائل (113)

حدیث نمبر: 2370
حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا وَأَبُو بَكْرٍ , وَعُمَرُ فَذَكَرَ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَحَدِيثُ شَيْبَانَ أَتَمُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي عَوَانَةَ , وَأَطْوَلُ، وَشَيْبَانُ ثِقَةٌ عِنْدَهُمْ صَاحِبُ كِتَابٍ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، وَرُوِيَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَيْضًا.
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے (مرسل) روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی الله عنہما گھر سے نکلے، اس کے بعد راوی نے مذکورہ حدیث جیسی حدیث بیان کی، لیکن اس میں ابوہریرہ کا ذکر نہیں کیا، شیبان کی (سابقہ) حدیث ابو عوانہ کی (اس) حدیث سے زیادہ مکمل اور زیادہ طویل ہے، شیبان محدثین کے نزدیک ثقہ اور صاحب کتاب ہیں ۱؎، ابوہریرہ رضی الله عنہ سے یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی مروی ہے، اور یہ حدیث ابن عباس سے بھی مروی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2370]
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح انظر ما قبله (2369)

حدیث نمبر: 2371
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا سَيَّارُ بْنُ حَاتِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي مَنْصُورٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي طَلْحَةَ، قَالَ: شَكَوْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجُوعَ وَرَفَعْنَا عَنْ بُطُونِنَا عَنْ حَجَرٍ حَجَرٍ " فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ حَجَرَيْنِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ابوطلحہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے (جنگ خندق کے دوران) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھوک کی شکایت کی اور اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھایا جن پر ایک ایک پتھر بندھا ہوا تھا سو آپ نے اپنے مبارک پیٹ سے کپڑا اٹھایا تو اس پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2371]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3773) (ضعیف) (سند میں سیار بن حاتم وہم کے شکار ہو جایا کرتے تھے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف مختصر الشمائل (112)

حدیث نمبر: 2372
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، قَال: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ , يَقُولُ: أَلَسْتُمْ فِي طَعَامٍ وَشَرَابٍ مَا شِئْتُمْ؟ " لَقَدْ رَأَيْتُ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا يَجِدُ مِنَ الدَّقَلِ مَا يَمْلَأُ بِهِ بَطْنَهُ , قَالَ: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ تم لوگ جو چاہتے ہو کھاتے پیتے ہو حالانکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں دیکھا کہ ردی کھجوریں بھی اس مقدار میں آپ کو میسر نہ تھیں جن سے آپ اپنا پیٹ بھرتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2372]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزہد 1 (2977) (تحفة الأشراف: 11621) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح مختصر الشمائل (110)

حدیث نمبر: 2372M
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى أَبُو عَوَانَةَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي الْأَحْوَصِ، وَرَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ , عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنْ عُمَرَ.
ابو عوانہ اور ان کے علاوہ کئی لوگوں نے سماک بن حرب سے ابوالاحوص کی حدیث کی طرح روایت کی ہے، شعبہ نے یہ حدیث «عن سماك عن النعمان بن بشير عن عمر» کی سند سے روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2372M]
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح مختصر الشمائل (110)

40. باب مَا جَاءَ أَنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ
40. باب: دل کی بے نیازی اور استغناء اصل دولت ہے
حدیث نمبر: 2373
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بُدَيْلِ بْنِ قُرَيْشٍ الْيَامِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَ الْغِنَى عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ، وَلَكِنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو حَصِينٍ اسْمُهُ: عُثْمَانُ بْنُ عَاصِمٍ الْأَسَدِيُّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مالداری ساز و سامان کی کثرت کا نام نہیں ہے، بلکہ اصل مالداری نفس کی مالداری ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2373]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الرقاق 15 (6446)، صحیح مسلم/الزکاة 40 (1051)، سنن ابن ماجہ/الزہد 9 (4137) (تحفة الأشراف: 12845)، وحإ (2/243، 261، 315، 390، 438، 443، 539، 540) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4137)

41. باب مَا جَاءَ فِي أَخْذِ الْمَالِ
41. باب: حلال اور جائز طریقہ سے مال و دولت حاصل کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2374
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي الْوَلِيدِ، قَال: سَمِعْتُ خَوْلَةَ بِنْتَ قَيْسٍ , وَكَانَتْ تَحْتَ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، تَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ مَنْ أَصَابَهُ بِحَقِّهِ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَرُبَّ مُتَخَوِّضٍ فِيمَا شَاءَتْ بِهِ نَفْسُهُ مِنْ مَالِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ لَيْسَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا النَّارُ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو الْوَلِيدِ اسْمُهُ: عُبَيْدُ سَنُوطَا.
حمزہ بن عبدالمطلب کی بیوی خولہ بنت قیس رضی الله عنہما کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: یہ مال سرسبز اور میٹھا ہے ۱؎ جس نے اسے حلال طریقے سے حاصل کیا اس کے لیے اس میں برکت ہو گی اور کتنے ایسے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کے مال کو حرام و ناجائز طریقہ سے حاصل کرنے والے ہیں ان کے لیے قیامت کے دن جہنم کی آگ تیار ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2374]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15829) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1592) ، المشكاة (4017 / التحقيق الثانى)

42. باب مِنْهُ
42. باب: درہم و دینار کے پجاری ملعون ہیں۔
حدیث نمبر: 2375
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الصَّوَّافُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لُعِنَ عَبْدُ الدِّينَارِ لُعِنَ عَبْدُ الدِّرْهَمِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيث مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْضًا أَتَمَّ مِنْ هَذَا وَأَطْوَلَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دینار کا بندہ ملعون ہے، درہم کا بندہ ملعون ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،
۲- یہ حدیث اس سند کے علاوہ «عن أبي صالح عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے مروی ہے اور یہ بھی سند اس سے زیادہ مکمل اور طویل ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2375]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12248) (ضعیف) (سند میں حسن بصری مدلس ہیں، اور ابوہریرہ رضی الله عنہ سے ان کا سماع بھی نہیں ہے، اور روایت عنعنہ سے ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (5180 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (4695) //

43. باب مِنْهُ
43. باب: دولت کی ہوس اور جاہ طلبی دین کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔
حدیث نمبر: 2376
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدِ بْنِ زُرَارَةَ، عَنِ ابْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلَا فِي غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْءِ عَلَى الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِينِهِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَيُرْوَى فِي هَذَا الْبَابِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يَصِحُّ إِسْنَادُهُ.
کعب بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو بھوکے بھیڑیئے جنہیں بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیا جائے اتنا نقصان نہیں پہنچائیں گے جتنا نقصان آدمی کے مال و جاہ کی حرص اس کے دین کو پہنچاتی ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے، اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں لیکن اس کی سند صحیح نہیں ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2376]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 11136)، وانظر: مسند احمد (3/456، 460)، وسنن الدارمی/الرقاق 21 (2772) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الروض النضير (5 - 7)

44. باب مِنْهُ
44. باب: دنیا سے بے رغبتی کا بیان۔
حدیث نمبر: 2377
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، أَخْبَرَنِي الْمَسْعُودِيُّ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: نَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حَصِيرٍ , فَقَامَ وَقَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِهِ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , لَوِ اتَّخَذْنَا لَكَ وِطَاءً، فَقَالَ: " مَا لِي وَمَا لِلدُّنْيَا مَا أَنَا فِي الدُّنْيَا إِلَّا كَرَاكِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا " , قَالَ: وفي الباب عن ابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر سو گئے، نیند سے بیدار ہوئے تو آپ کے پہلو پر چٹائی کا نشان پڑ گیا تھا، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم آپ کے لیے ایک بچھونا بنا دیں تو بہتر ہو گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے دنیا سے کیا مطلب ہے، میری اور دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے ایک سوار ہو جو ایک درخت کے نیچے سایہ حاصل کرنے کے لیے بیٹھے، پھر وہاں سے کوچ کر جائے اور درخت کو اسی جگہ چھوڑ دے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2377]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 3 (4109) (تحفة الأشراف: 9443) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4109)


Previous    4    5    6    7    8    9    10    11    12    Next