الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ترمذي
كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: احوال قیامت، رقت قلب اور ورع
حدیث نمبر: 2481
حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي مَرْحُومٍ عَبْدِ الرَّحِيمِ بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ تَرَكَ اللِّبَاسَ تَوَاضُعًا لِلَّهِ وَهُوَ يَقْدِرُ عَلَيْهِ دَعَاهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ حَتَّى يُخَيِّرَهُ مِنْ أَيِّ حُلَلِ الْإِيمَانِ شَاءَ يَلْبَسُهَا " , هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ حُلَلِ الْإِيمَانِ: يَعْنِي مَا يُعْطَى أَهْلُ الْإِيمَانِ مِنْ حُلَلِ الْجَنَّةِ.
معاذ بن انس جہنی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص زینت کا لباس خالص اللہ کی رضا مندی اور اس کی تواضع کی خاطر چھوڑ دے باوجود یہ کہ وہ اسے میسر ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو قیامت کے دن تمام خلائق کے سامنے بلائے گا تاکہ وہ اہل ایمان کے لباس میں سے جسے چاہے پسند کرے، اور پہنے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- «حلل الإيمان» سے جنت کے وہ لباس مراد ہیں جو اہل ایمان کو دیئے جائیں گے۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2481]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 11302) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، الصحيحة (717)

40. باب مِنْهُ
40. باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 2482
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا زَافِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " النَّفَقَةُ كُلُّهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا الْبِنَاءَ فَلَا خَيْرَ فِيهِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، هَكَذَا قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ حَمَيْدٍ، شَبِيبُ بْنُ بَشِيرٍ وَإِنَّمَا هُوَ شَبِيبُ بْنُ بِشْرٍ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نفقہ سب کا سب اللہ کی راہ میں ہے سوائے اس نفقہ کے جو گھر بنانے میں صرف ہوتا ہے کیونکہ اس میں کوئی خیر نہیں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2482]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 901) (ضعیف) (سند میں زافر سخت وہم کے شکار ہو جاتے تھے، اور شبیب روایت میں غلطیاں کر جاتے تھے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (1061) ، التعليق الرغيب (2 / 113) // ضعيف الجامع الصغير (5994) //

حدیث نمبر: 2483
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ، قَالَ: أَتَيْنَا خَبَّابًا نَعُودُهُ وَقَدِ اكْتَوَى سَبْعَ كَيَّاتٍ، فَقَالَ: لَقَدْ تَطَاوَلَ مَرَضِي، وَلَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا تَمَنَّوْا الْمَوْتَ " لَتَمَنَّيْتُ، وَقَالَ: " يُؤْجَرُ الرَّجُلُ فِي نَفَقَتِهِ كُلِّهَا إِلَّا التُّرَابَ، أَوْ قَالَ: فِي الْبِنَاءِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
حارثہ بن مضرب کہتے ہیں کہ ہم خباب رضی الله عنہ کے پاس عیادت کرنے کے لیے آئے، انہوں نے اپنے بدن میں سات داغ لگوا رکھے تھے، انہوں نے کہا: یقیناً میرا مرض بہت لمبا ہو گیا ہے، اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے نہ سنا ہوتا کہ موت کی تمنا نہ کرو، تو میں ضرور اس کی تمنا کرتا، اور آپ نے فرمایا: آدمی کو ہر خرچ میں ثواب ملتا ہے سوائے مٹی میں خرچ کرنے کے، یا فرمایا: گھر بنانے میں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2483]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 970 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح ومضى (970) // هذا رقم الدعاس، وهو عندنا برقم (776 - 984) //

41. باب مِنْهُ
41. باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 2484
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ طَهْمَانَ أَبُو الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، قَالَ: جَاءَ سَائِلٌ فَسَأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ , فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لِلسَّائِلِ: أَتَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَتَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَتَصُومُ رَمَضَانَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: سَأَلْتَ وَلِلسَّائِلِ حَقٌّ إِنَّهُ لَحَقٌّ عَلَيْنَا أَنْ نَصِلَكَ، فَأَعْطَاهُ ثَوْبًا , ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَا مِنْ مُسْلِمٍ كَسَا مُسْلِمًا ثَوْبًا إِلَّا كَانَ فِي حِفْظِ مِنَ اللَّهِ مَا دَامَ مِنْهُ عَلَيْهِ خِرْقَةٌ " , قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
حصین کہتے ہیں کہ ایک سائل نے آ کر ابن عباس رضی الله عنہما سے کچھ مانگا تو ابن عباس نے سائل سے کہا: کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے کہا: کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے کہا: کیا تم رمضان کے روزے رکھتے ہو؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے کہا: تم نے سوال کیا اور سائل کا حق ہوتا ہے، بیشک ہمارے اوپر ضروری ہے کہ ہم تمہارے ساتھ حسن سلوک کریں، چنانچہ انہوں نے اسے ایک کپڑا دیا اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: جو کوئی مسلمان کسی مسلمان بھائی کو کوئی کپڑا پہناتا ہے تو وہ اللہ کی امان میں اس وقت تک رہتا ہے جب تک اس کپڑے کا ایک ٹکڑا بھی اس پر باقی رہتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2484]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5409) (ضعیف) (سند میں خالد بن طہمان مختلط ہو گئے تھے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (1920) ، التعليق الرغيب (3 / 112) // ضعيف الجامع الصغير (5217) //

42. باب مِنْهُ
42. باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 2485
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَوْفِ بْنِ أَبِي جَمِيلَةَ الْأَعْرَابِيِّ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، قَالَ: " لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ انْجَفَلَ النَّاسُ إِلَيْهِ وَقِيلَ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجِئْتُ فِي النَّاسِ لِأَنْظُرَ إِلَيْهِ فَلَمَّا اسْتَثْبَتُّ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرَفْتُ أَنَّ وَجْهَهُ لَيْسَ بِوَجْهِ كَذَّابٍ، وَكَانَ أَوَّلُ شَيْءٍ تَكَلَّمَ بِهِ أَنْ قَالَ: " أَيُّهَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلَامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصَلُّوا وَالنَّاسُ نِيَامٌ، تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن سلام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو لوگ آپ کی طرف دوڑ پڑے، اور کہنے لگے: اللہ کے رسول آ گئے، اللہ کے رسول آ گئے، اللہ کے رسول آ گئے، چنانچہ میں بھی لوگوں کے ساتھ آیا تاکہ آپ کو دیکھوں، پھر جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک اچھی طرح دیکھا تو پہچان گیا کہ یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہو سکتا، اور سب سے پہلی بات جو آپ نے کہی وہ یہ تھی لوگو! سلام پھیلاؤ، کھانا کھلاؤ اور رات میں جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز پڑھو، تم لوگ سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو گے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2485]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الإقامة 174 (1334)، والأطعمة 1 (3251) (تحفة الأشراف: 5331)، و مسند احمد (5/451) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1334 و 3251)

43. باب مِنْهُ
43. باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 2486
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْنٍ الْمَدَنِيُّ الْغِفَارِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي , عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الطَّاعِمُ الشَّاكِرُ بِمَنْزِلَةِ الصَّائِمِ الصَّابِرِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھانا کھا کر اللہ کا شکر ادا کرنے والا (اجر و ثواب میں) صبر کرنے والے روزہ دار کے برابر ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2486]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الصوم 55 (1764، 1765) (تحفة الأشراف: 13072)، و مسند احمد (2/283) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1764 و 1765)

44. باب مِنْهُ
44. باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 2487
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ بِمَكَّةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، أَتَاهُ الْمُهَاجِرُونَ , فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَا رَأَيْنَا قَوْمًا أَبْذَلَ مِنْ كَثِيرٍ وَلَا أَحْسَنَ مُوَاسَاةً مِنْ قَلِيلٍ مِنْ قَوْمٍ نَزَلْنَا بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ، لَقَدْ كَفَوْنَا الْمُؤْنَةَ، وَأَشْرَكُونَا فِي الْمَهْنَإِ حَتَّى لَقَدْ خِفْنَا أَنْ يَذْهَبُوا بِالْأَجْرِ كُلِّهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا مَا دَعَوْتُمُ اللَّهَ لَهُمْ وَأَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِمْ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ کے پاس مہاجرین نے آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! جس قوم کے پاس ہم آئے ہیں ان سے بڑھ کر ہم نے کوئی قوم ایسی نہیں دیکھی جو اپنے مال بہت زیادہ خرچ کرنے والی ہے اور تھوڑے مال ہونے کی صورت میں بھی دوسروں کے ساتھ غم خواری کرنے والی ہے۔ چنانچہ انہوں نے ہم کو محنت و مشقت سے باز رکھا اور ہم کو آرام و راحت میں شریک کیا یہاں تک کہ ہمیں خوف ہے کہ ہماری ساری نیکیوں کا ثواب کہیں انہیں کو نہ مل جائے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بات ایسی نہیں ہے جیسا تم نے سمجھا ہے جب تک تم لوگ اللہ سے ان کے لیے دعائے خیر کرتے رہو گے اور ان کا شکریہ ادا کرتے رہو گے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2487]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 755) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (3206) ، التعليق الرغيب (2 / 56)

45. باب مِنْهُ
45. باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 2488
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو الْأَوْدِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِمَنْ يَحْرُمُ عَلَى النَّارِ؟ أَوْ بِمَنْ تَحْرُمُ عَلَيْهِ النَّارُ؟ عَلَى كُلِّ قَرِيبٍ هَيِّنٍ سَهْلٍ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسے لوگوں کی خبر نہ دوں جو جہنم کی آگ پر یا جہنم کی آگ ان پر حرام ہے؟ جہنم کی آگ لوگوں کے قریب رہنے والے، آسانی کرنے والے، اور نرم اخلاق والے پر حرام ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2488]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9347) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (935)

حدیث نمبر: 2489
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ , قَالَ: قُلْتُ عَائِشَةَ: أَيُّ شَيْءٍ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ إِذَا دَخَلَ بَيْتَهُ؟ قَالَتْ: " كَانَ يَكُونَ فِي مَهْنَةِ أَهْلِهِ فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ قَامَ فَصَلَّى " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
اسود بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی الله عنہا سے پوچھا کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے گھر میں داخل ہوتے تھے تو کیا کرتے تھے؟ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں کے کام کاج میں مشغول ہو جاتے تھے، پھر جب نماز کا وقت ہو جاتا تو کھڑے ہوتے اور نماز پڑھنے لگتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2489]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 44 (676)، النفقات 8 (5363)، والأدب 40 (6039) (تحفة الأشراف: 15929) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح مختصر الشمائل (293)

46. باب مِنْهُ
46. باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 2490
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ زَيْدٍ التَّغْلَبِيِّ، عَنْ زَيْدٍ الْعَمِّيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَقْبَلَهُ الرَّجُلُ فَصَافَحَهُ لَا يَنْزِعُ يَدَهُ مِنْ يَدِهِ حَتَّى يَكُونَ الرَّجُلُ يَنْزِعُ، وَلَا يَصْرِفُ وَجْهَهُ عَنْ وَجْهِهِ حَتَّى يَكُونَ الرَّجُلُ هُوَ الَّذِي يَصْرِفُهُ، وَلَمْ يُرَ مُقَدِّمًا رُكْبَتَيْهِ بَيْنَ يَدَيْ جَلِيسٍ لَهُ " , قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب کوئی شخص آتا اور آپ سے مصافحہ کرتا تو آپ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نہیں نکالتے جب تک وہ شخص خود اپنا ہاتھ نہ نکال لیتا، اور آپ اپنا رخ اس کی طرف سے نہیں پھیرتے، جب تک کہ وہ خود اپنا رخ نہ پھیر لیتا، اور آپ نے اپنے کسی ساتھی کے سامنے کبھی پاؤں نہیں پھیلائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2490]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الأدب 21 (3716) (تحفة الأشراف: 841) (ضعیف) (سند میں زید العمی ضعیف راوی ہیں، مگر مصافحہ والا ٹکڑا دیگر احادیث سے ثابت ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف إلا جملة المصافحة فهي ثابتة، ابن ماجة (3716)


Previous    4    5    6    7    8    9    10    11    12    Next