الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ترمذي
كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: مسنون ادعیہ و اذکار
45. باب مِنْهُ
45. باب: مسافر کو الوداع کہتے وقت پڑھی جانے والی دعا سے متعلق ایک اور باب۔
حدیث نمبر: 3444
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا سَيَّارٌ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أُرِيدُ سَفَرًا فَزَوِّدْنِي، قَالَ: " زَوَّدَكَ اللَّهُ التَّقْوَى "، قَالَ: زِدْنِي، قَالَ: " وَغَفَرَ ذَنْبَكَ "، قَالَ: زِدْنِي بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، قَالَ: " وَيَسَّرَ لَكَ الْخَيْرَ حَيْثُمَا كُنْتَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! میں سفر پر نکلنے کا ارادہ کر رہا ہوں، تو آپ مجھے کوئی توشہ دے دیجئیے، آپ نے فرمایا: اللہ تجھے تقویٰ کا زاد سفر دے، اس نے کہا: مزید اضافہ فرما دیجئیے، آپ نے فرمایا: اللہ تمہارے گناہ معاف کر دے، اس نے کہا: مزید کچھ اضافہ فرما دیجئیے، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ نے فرمایا: جہاں کہیں بھی تم رہو اللہ تعالیٰ تمہارے لیے خیر (بھلائی کے کام) آسان کر دے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3444]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 274) (حسن صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح الكلم الطيب (170 / 123 / التحقيق الثاني)

46. باب مِنْهُ
46. باب: سابقہ باب سے متعلق ایک اور باب۔
حدیث نمبر: 3445
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُسَافِرَ فَأَوْصِنِي، قَالَ: " عَلَيْكَ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالتَّكْبِيرِ عَلَى كُلِّ شَرَفٍ "، فَلَمَّا أَنْ وَلَّى الرَّجُلُ قَالَ: اللَّهُمَّ اطْوِ لَهُ الْأَرْضَ وَهَوِّنْ عَلَيْهِ السَّفَرَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں سفر پر نکلنے کا ارادہ کر رہا ہوں تو آپ مجھے کچھ وصیت فرما دیجئیے، آپ نے فرمایا: میں تجھے اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں اور نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں کہیں بھی اونچائی و بلندی پر چڑھو اللہ کی تکبیر پڑھو، (اللہ اکبر کہتے رہو) پھر جب آدمی پلٹ کر سفر پر نکلا تو آپ نے فرمایا: «اللهم اطو له الأرض وهون عليه السفر» اے اللہ! اس کے لیے مسافت کی دوری کو لپیٹ کر مختصر کر دے اور اس کے لیے سفر کو آسان بنا دے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3445]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجھاد 8 (2771) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (2771)

47. باب مَا يَقُولُ إِذَا رَكِبَ النَّاقَةَ
47. باب: اونٹنی پر سوار ہو تو کیا پڑھے؟
حدیث نمبر: 3446
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ، قَالَ: شَهِدْتُ عَلِيًّا أُتِيَ بِدَابَّةٍ لِيَرْكَبَهَا، فَلَمَّا وَضَعَ رِجْلَهُ فِي الرِّكَابِ، قَالَ: " بِسْمِ اللَّهِ ثَلَاثًا، فَلَمَّا اسْتَوَى عَلَى ظَهْرِهَا قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ، ثُمَّ قَالَ: سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ {13} وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ {14} سورة الزخرف آية 13-14 ثُمَّ قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ ثَلَاثًا، وَاللَّهُ أَكْبَرُ ثَلَاثًا، سُبْحَانَكَ إِنِّي قَدْ ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ "، ثُمَّ ضَحِكَ، قُلْتُ: مِنْ أَيِّ شَيْءٍ ضَحِكْتَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ كَمَا صَنَعْتُ، ثُمَّ ضَحِكَ، فَقُلْتُ: مِنْ أَيِّ شَيْءٍ ضَحِكْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: إِنَّ رَبَّكَ لَيَعْجَبُ مِنْ عَبْدِهِ إِذَا قَالَ: رَبِّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ غَيْرُكَ "، وَفِي الْبَابِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
علی بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں علی رضی الله عنہ کے پاس موجود تھا، انہیں سواری کے لیے ایک چوپایہ دیا گیا، جب انہوں نے اپنا پیر رکاب میں ڈالا تو کہا: «بسم اللہ» میں اللہ کا نام لے کر سوار ہو رہا ہوں اور پھر جب پیٹھ پر جم کر بیٹھ گئے تو کہا: «الحمد للہ» تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، پھر آپ نے یہ آیت: «سبحان الذي سخر لنا هذا وما كنا له مقرنين وإنا إلى ربنا لمنقلبون» پاک ہے وہ ذات جس نے اسے ہمارے قابو میں کیا ورنہ ہم ایسے نہ تھے جو اسے ناتھ پہنا سکتے، لگام دے سکتے، ہم اپنے رب کے پاس پلٹ کر جانے والے ہیں، پڑھی، پھر تین بار «الحمد للہ» کہا، اور تین بار «اللہ اکبر» کہا، پھر یہ دعا پڑھی: «سبحانك إني قد ظلمت نفسي فاغفر لي فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت» پاک ہے تو اے اللہ! بیشک میں نے اپنی جان کے حق میں ظلم و زیادتی کی ہے تو مجھے بخش دے، کیونکہ تیرے سوا کوئی ظلم معاف کرنے والا نہیں ہے، پھر علی رضی الله عنہ ہنسے، میں نے کہا: امیر المؤمنین کس بات پر آپ ہنسے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے ویسا ہی کیا جیسا میں نے کیا ہے، پھر آپ ہنسے، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کس بات پر ہنسے؟ آپ نے فرمایا: تمہارا رب اپنے بندے کی اس بات سے خوش ہوتا ہے جب وہ کہتا ہے کہ اے اللہ میرے گناہ بخش دے کیونکہ تیرے سوا کوئی اور ذات نہیں ہے جو گناہوں کو معاف کر سکے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3446]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجھاد 81 (2602) (تحفة الأشراف: 10248) (صحیح) (سند میں ابواسحاق مختلط راوی ہیں، اس لیے اس کی روایت میں اضطراب کا شکار بھی ہوئے ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود رقم 2342)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الكلم الطيب (172 / 126) ، صحيح أبي داود (2342)

حدیث نمبر: 3447
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَارِقِيِّ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ إِذَا سَافَرَ فَرَكِبَ رَاحِلَتَهُ كَبَّرَ ثَلَاثًا، وَيَقُولُ: سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ {13} وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ {14} سورة الزخرف آية 13-14، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِي سَفَرِي هَذَا مِنَ الْبِرِّ وَالتَّقْوَى، وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضَى، اللَّهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا الْمَسِيرَ وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَ الْأَرْضِ، اللَّهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ وَالْخَلِيفَةُ فِي الْأَهْلِ، اللَّهُمَّ اصْحَبْنَا فِي سَفَرِنَا وَاخْلُفْنَا فِي أَهْلِنَا "، وَكَانَ يَقُولُ: إِذَا رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ: " آيِبُونَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر فرماتے تو اپنی سواری پر چڑھتے اور تین بار «اللہ اکبر» کہتے۔ پھر یہ دعا پڑھتے: «سبحان الذي سخر لنا هذا وما كنا له مقرنين وإنا إلى ربنا لمنقلبون» ۱؎ اس کے بعد آپ یہ دعا پڑھتے: «اللهم إني أسألك في سفري هذا من البر والتقوى ومن العمل ما ترضى اللهم ہوں علينا المسير واطو عنا بعد الأرض اللهم أنت الصاحب في السفر والخليفة في الأهل اللهم اصحبنا في سفرنا واخلفنا في أهلنا» اے اللہ! میں اپنے اس سفر میں تجھ سے نیکی اور تقویٰ کا طالب ہوں اور ایسے عمل کی توفیق مانگتا ہوں جس سے تو راضی ہو، اے اللہ تو اس سفر کو آسان کر دے، زمین کی دوری کو لپیٹ کر ہمارے لیے کم کر دے، اے اللہ تو سفر کا ساتھی ہے، اور گھر میں (گھر والوں کی دیکھ بھال کے لیے) میرا نائب و قائم مقام ہے، اے اللہ! تو ہمارے ساتھ ہمارے سفر میں رہ، اور گھر والوں میں ہماری قائم مقامی فرما، اور آپ جب گھر کی طرف پلٹتے تو کہتے تھے: «آيبون إن شاء الله تائبون عابدون لربنا حامدون» ہم لوٹنے والے ہیں اپنے گھر والوں میں ان شاءاللہ، توبہ کرنے والے ہیں، اپنے رب کی عبادت کرنے والے ہیں، حمد بیان کرنے والے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3447]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المناسک 75 (1344)، سنن ابی داود/ الجھاد 79 (2599) (تحفة الأشراف: 7348)، و مسند احمد (2/144)، وسنن الدارمی/الاستئذان 42 (2715) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2339)

48. باب مَا ذُكِرَ فِي دَعْوَةِ الْمُسَافِرِ
48. باب: مسافر کی دعا کا بیان۔
حدیث نمبر: 3448
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ الصَّوَّافُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثُ دَعَوَاتٍ مُسْتَجَابَاتٌ: دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ، وَدَعْوَةُ الْمُسَافِرِ، وَدَعْوَةُ الْوَالِدِ عَلَى وَلَدِهِ "،
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین طرح کی دعائیں مقبول ہوتی ہیں: مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا، اور باپ کی بد دعا اپنے بیٹے کے حق میں۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3448]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1905 (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، الصحيحة (598 - 1797)

حدیث نمبر: 3448M
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، نَحْوَهُ، وَزَادَ فِيهِ: مُسْتَجَابَاتٌ لَا شَكَّ فِيهِنَّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ هَذَا الَّذِي رَوَى عَنْهُ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ يُقَالُ لَهُ: أَبُو جَعْفَرٍ الْمُؤَذِّنُ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ غَيْرَ حَدِيثٍ، وَلَا نَعْرِفُ اسْمَه.
ہشام دستوائی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے اسی سند کے ساتھ، اسی جیسی حدیث روایت کی، انہوں نے اس حدیث میں «ثلاث دعوات مستجابات» کے الفاظ بڑھائے ہیں، (یعنی بلاشبہہ ان کی قبولیت میں کوئی شک نہیں ہے)
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے۔
۲- اور ابو جعفر رازی کا نام میں نہیں جانتا، (لیکن) ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3448M]
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، الصحيحة (598 - 1797)

49. باب مَا يَقُولُ إِذَا هَاجَتِ الرِّيحُ
49. باب: جب آندھی آئے تو کیا پڑھے؟
حدیث نمبر: 3449
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ أَبُو عَمْرٍو الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَأَى الرِّيحَ قَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِهَا وَخَيْرِ مَا فِيهَا وَخَيْرِ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَشَرِّ مَا فِيهَا وَشَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وفي الباب، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہوا چلتی ہوئی دیکھتے تو کہتے: «‏‏‏‏اللهم إني أسألك من خيرها وخير ما فيها وخير ما أرسلت به وأعوذ بك من شرها وشر ما فيها وشر ما أرسلت به» اے اللہ! میں تجھ سے اس کی خیر مانگتا ہوں، اور جو خیر اس میں ہے وہ چاہتا ہوں اور جو خیر اس کے ساتھ بھیجی گئی ہے اسے چاہتا ہوں، اور میں اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور جو شر اس میں چھپا ہوا ہے اس سے پناہ مانگتا ہوں اور جو شر اس کے ساتھ بھیجی گئی ہے اس سے پناہ مانگتا ہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس باب میں ابی بن کعب سے بھی روایت ہے اور یہ حدیث حسن ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3449]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الاستسقاء 3 (899/15) (تحفة الأشراف: 17385) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (2757)

50. باب مَا يَقُولُ إِذَا سَمِعَ الرَّعْدَ،
50. باب: بجلی کی گرج سنے تو کیا کہے؟
حدیث نمبر: 3450
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ، عَنْ أَبِي مَطَرٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ إِذَا سَمِعَ صَوْتَ الرَّعْدِ وَالصَّوَاعِقِ، قَالَ: اللَّهُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِكَ، وَلَا تُهْلِكْنَا بِعَذَابِكَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذَلِكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بجلی کی گرج اور کڑک سنتے تو فرماتے: «اللهم لا تقتلنا بغضبك ولا تهلكنا بعذابك وعافنا قبل ذلك» اے اللہ! تو اپنے غضب سے ہمیں نہ مار، اپنے عذاب کے ذریعہ ہمیں ہلاک نہ کر، اور ایسے برے وقت کے آنے سے پہلے ہمیں بخش دے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3450]
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة 269 (927) (تحفة الأشراف: 7041)، و مسند احمد (2/100) (ضعیف) (سند میں ابو مطر مجہول راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (1042) ، الكلم الطيب (158 / 111) // ضعيف الجامع الصغير (4421) ، المشكاة (1521) //

51. باب مَا يَقُولُ عِنْدَ رُؤْيَةِ الْهِلاَلِ
51. باب: نیا چاند (ہلال) دیکھے تو کیا پڑھے؟
حدیث نمبر: 3451
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ سُفْيَانَ الْمَدِينِيُّ، حَدَّثَنِي بِلَالُ بْنِ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ إِذَا رَأَى الْهِلَالَ قَالَ: اللَّهُمَّ أَهْلِلْهُ عَلَيْنَا بِالْيُمْنِ وَالْإِيمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
طلحہ بن عبیداللہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب چاند دیکھتے تھے تو کہتے تھے: «اللهم أهلله علينا باليمن والإيمان والسلامة والإسلام ربي وربك الله» اے اللہ! مبارک کر ہمیں یہ چاند، برکت اور ایمان اور سلامتی اور اسلام کے ساتھ، (اے چاند!) میرا اور تمہارا رب اللہ ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3451]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5015) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1816) ، الكلم الطيب (161 / 114)

52. باب مَا يَقُولُ عِنْدَ الْغَضَبِ
52. باب: غصہ آنے پر کیا پڑھے؟
حدیث نمبر: 3452
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: اسْتَبَّ رَجُلَانِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى عُرِفَ الْغَضَبُ فِي وَجْهِ أَحَدِهِمَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي لَأَعْلَمُ كَلِمَةً لَوْ قَالَهَا لَذَهَبَ غَضَبُهُ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ "، وفي الباب، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدٍ.
معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ دو آدمیوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپس میں گالی گلوچ کیا ان میں سے ایک کے چہرے سے غصہ عیاں ہو رہا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر وہ اس کلمے کو کہہ لے تو اس کا غصہ کافور ہو جائے، وہ کلمہ یہ ہے: «أعوذ بالله من الشيطان الرجيم» میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں راندے ہوئے شیطان سے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں سلیمان بن سرد سے بھی روایت ہے، اور یہ حدیث مرسل (منقطع) ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3452]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 4 (4780) (تحفة الأشراف: 11342)، و مسند احمد (5/240) (حسن) (عبد الرحمن بن ابی لیلی کا معاذ رضی الله عنہ سے سماع نہیں ہے، نسائی نے یہ حدیث بسند عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ عن ابی بن کعب روایت کی ہے، جو متصل سند ہے، نیز یہ حدیث جیسا کہ ترمذی نے ذکر کیا، سلیمان بن صرد سے آئی ہے، اس لیے یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، اور سلیمان بن صرد کی حدیث متفق علیہ ہے۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح


Previous    5    6    7    8    9    10    11    12    13    Next