الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح البخاري کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:

صحيح البخاري
كِتَاب الْإِجَارَةِ
کتاب: اجرت کے مسائل کا بیان
16. بَابُ مَا يُعْطَى فِي الرُّقْيَةِ عَلَى أَحْيَاءِ الْعَرَبِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ:
16. باب: سورۃ فاتحہ پڑھ کر عربوں پر پھونکنا اور اس پر اجرت لے لینا۔
حدیث نمبر: Q2276
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَحَقُّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللَّهِ، وَقَالَ الشَّعْبِيُّ: لَا يَشْتَرِطُ الْمُعَلِّمُ إِلَّا أَنْ يُعْطَى شَيْئًا فَلْيَقْبَلْهُ، وَقَالَ الْحَكَمُ: لَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا كَرِهَ أَجْرَ الْمُعَلِّمِ، وَأَعْطَى الْحَسَنُ دَرَاهِمَ عَشَرَةً، وَلَمْ يَرَ ابْنُ سِيرِينَ بِأَجْرِ الْقَسَّامِ بَأْسًا، وَقَالَ: كَانَ يُقَالُ السُّحْتُ: الرِّشْوَةُ فِي الْحُكْمِ، وَكَانُوا يُعْطَوْنَ عَلَى الْخَرْصِ.
‏‏‏‏ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ کتاب اللہ سب سے زیادہ اس کی مستحق ہے کہ تم اس پر اجرت حاصل کرو۔ اور شعبی رحمہ اللہ نے کہا کہ قرآن پڑھانے والا پہلے سے طے نہ کرے۔ البتہ جو کچھ اسے بن مانگے دیا جائے لے لینا چاہئیے۔ اور حکم رحمہ اللہ نے کہا کہ میں نے کسی شخص سے یہ نہیں سنا کہ معلم کی اجرت کو اس نے ناپسند کیا ہو اور حسن رحمہ اللہ نے (اپنے معلم کو) دس درہم اجرت کے دیئے۔ اور ابن سیرین رحمہ اللہ نے قسام (بیت المال کا ملازم جو تقسیم پر مقرر ہو) کی اجرت کو برا نہیں سمجھا۔ اور وہ کہتے تھے کہ (قرآن کی آیت میں) «سحت» فیصلہ میں رشوت لینے کے معنی میں ہے اور لوگ (اندازہ لگانے والوں کو) انداز لگانے کی اجرت دیتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِجَارَةِ/حدیث: Q2276]
حدیث نمبر: 2276
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" انْطَلَقَ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفْرَةٍ سَافَرُوهَا حَتَّى نَزَلُوا عَلَى حَيٍّ مِنْ أَحْيَاءِ الْعَرَبِ، فَاسْتَضَافُوهُمْ، فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمْ، فَلُدِغَ سَيِّدُ ذَلِكَ الْحَيِّ، فَسَعَوْا لَهُ بِكُلِّ شَيْءٍ، لَا يَنْفَعُهُ شَيْءٌ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَوْ أَتَيْتُمْ هَؤُلَاءِ الرَّهْطَ الَّذِينَ نَزَلُوا لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ عِنْدَ بَعْضِهِمْ شَيْءٌ فَأَتَوْهُمْ، فَقَالُوا: يَا أَيُّهَا الرَّهْطُ، إِنَّ سَيِّدَنَا لُدِغَ وَسَعَيْنَا لَهُ بِكُلِّ شَيْءٍ لَا يَنْفَعُهُ، فَهَلْ عِنْدَ أَحَدٍ مِنْكُمْ مِنْ شَيْءٍ؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: نَعَمْ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْقِي، وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَقَدِ اسْتَضَفْنَاكُمْ فَلَمْ تُضَيِّفُونَا، فَمَا أَنَا بِرَاقٍ لَكُمْ حَتَّى تَجْعَلُوا لَنَا جُعْلًا فَصَالَحُوهُمْ عَلَى قَطِيعٍ مِنَ الْغَنَمِ، فَانْطَلَقَ يَتْفِلُ عَلَيْهِ، وَيَقْرَأُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2، فَكَأَنَّمَا نُشِطَ مِنْ عِقَالٍ فَانْطَلَقَ يَمْشِي وَمَا بِهِ قَلَبَةٌ، قَالَ: فَأَوْفَوْهُمْ جُعْلَهُمُ الَّذِي صَالَحُوهُمْ عَلَيْهِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: اقْسِمُوا، فَقَالَ: الَّذِي رَقَى، لَا تَفْعَلُوا حَتَّى نَأْتِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَذْكُرَ لَهُ الَّذِي كَانَ فَنَنْظُرَ مَا يَأْمُرُنَا، فَقَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرُوا لَهُ، فَقَالَ: وَمَا يُدْرِيكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ، ثُمَّ قَالَ: قَدْ أَصَبْتُمُ اقْسِمُوا وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ سَهْمًا، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَقَالَ شُعْبَةُ: حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ، سَمِعْتُ أَبَا الْمُتَوَكِّلِ بِهَذَا.
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے بیان کیا، ان سے ابوالمتوکل نے بیان کیا، اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم سفر میں تھے۔ دوران سفر میں وہ عرب کے ایک قبیلہ پر اترے۔ صحابہ نے چاہا کہ قبیلہ والے انہیں اپنا مہمان بنا لیں، لیکن انہوں نے مہمانی نہیں کی، بلکہ صاف انکار کر دیا۔ اتفاق سے اسی قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا، قبیلہ والوں نے ہر طرح کی کوشش کر ڈالی، لیکن ان کا سردار اچھا نہ ہوا۔ ان کے کسی آدمی نے کہا کہ چلو ان لوگوں سے بھی پوچھیں جو یہاں آ کر اترے ہیں۔ ممکن ہے کوئی دم جھاڑنے کی چیز ان کے پاس ہو۔ چنانچہ قبیلہ والے ان کے پاس آئے اور کہا کہ بھائیو! ہمارے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے۔ اس کے لیے ہم نے ہر قسم کی کوشش کر ڈالی لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ کیا تمہارے پاس کوئی چیز دم کرنے کی ہے؟ ایک صحابی نے کہا کہ قسم اللہ کی میں اسے جھاڑ دوں گا لیکن ہم نے تم سے میزبانی کے لیے کہا تھا اور تم نے اس سے انکار کر دیا۔ اس لیے اب میں بھی اجرت کے بغیر نہیں جھاڑ سکتا، آخر بکریوں کے ایک گلے پر ان کا معاملہ طے ہوا۔ وہ صحابی وہاں گئے اور «الحمد لله رب العالمين» پڑھ پڑھ کر دم کیا۔ ایسا معلوم ہوا جیسے کسی کی رسی کھول دی گئی ہو۔ وہ سردار اٹھ کر چلنے لگا، تکلیف و درد کا نام و نشان بھی باقی نہیں تھا۔ بیان کیا کہ پھر انہوں نے طے شدہ اجرت صحابہ کو ادا کر دی۔ کسی نے کہا کہ اسے تقسیم کر لو، لیکن جنہوں نے جھاڑا تھا، وہ بولے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر پہلے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کر لیں۔ اس کے بعد دیکھیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا حکم دیتے ہیں۔ چنانچہ سب حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تم کو کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ بھی ایک رقیہ ہے؟ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے ٹھیک کیا۔ اسے تقسیم کر لو اور ایک میرا حصہ بھی لگاؤ۔ یہ فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔ شعبہ نے کہا کہ ابوالبشر نے ہم سے بیان کیا، انہوں نے ابوالمتوکل سے ایسا ہی سنا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِجَارَةِ/حدیث: 2276]
17. بَابُ ضَرِيبَةِ الْعَبْدِ، وَتَعَاهُدِ ضَرَائِبِ الإِمَاءِ:
17. باب: غلام لونڈی پر روزانہ ایک رقم مقرر کر دینا۔
حدیث نمبر: 2277
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" حَجَمَ أَبُو طَيْبَةَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَ لَهُ بِصَاعٍ أَوْ صَاعَيْنِ مِنْ طَعَامٍ، وَكَلَّمَ مَوَالِيَهُ فَخَفَّفَ عَنْ غَلَّتِهِ أَوْ ضَرِيبَتِهِ".
ہم سے محمد بن یوسف بیکندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ابوطیبہ حجام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پچھنا لگایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجرت میں ایک صاع یا دو صاع غلہ دینے کا حکم دیا اور ان کے مالکوں سے سفارش کی کہ جو محصول اس پر مقرر ہے اس میں کچھ کمی کر دیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِجَارَةِ/حدیث: 2277]
18. بَابُ خَرَاجِ الْحَجَّامِ:
18. باب: پچھنا لگانے والے کی اجرت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2278
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" احْتَجَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَعْطَى الْحَجَّامَ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن طاؤس نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا اور پچھنا لگانے والے کو اجرت بھی دی۔ اگر پچھنا لگوانا ناجائز ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ پچھنا لگواتے نہ اجرت دیتے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِجَارَةِ/حدیث: 2278]
حدیث نمبر: 2279
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" احْتَجَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَعْطَى الْحَجَّامَ أَجْرَهُ، وَلَوْ عَلِمَ كَرَاهِيَةً لَمْ يُعْطِهِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے خالد نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا اور پچھنا لگانے والے کو اجرت بھی دی، اگر اس میں کوئی کراہت ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے کو دیتے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِجَارَةِ/حدیث: 2279]
حدیث نمبر: 2280
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَيَحْتَجِمُ، وَلَمْ يَكُنْ يَظْلِمُ أَحَدًا أَجْرَهُ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے مسعر نے بیان کیا، ان سے عمرو بن عامر نے بیان کیا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی مزدوری کے معاملے میں کسی پر ظلم نہیں کرتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِجَارَةِ/حدیث: 2280]
19. بَابُ مَنْ كَلَّمَ مَوَالِيَ الْعَبْدِ أَنْ يُخَفِّفُوا عَنْهُ مِنْ خَرَاجِهِ:
19. باب: اس کے متعلق جس نے کسی غلام کے مالکوں سے غلام کے اوپر مقررہ ٹیکس میں کمی کے لیے سفارش کی۔
حدیث نمبر: 2281
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُلَامًا حَجَّامًا فَحَجَمَهُ، وَأَمَرَ لَهُ بِصَاعٍ أَوْ صَاعَيْنِ، أَوْ مُدٍّ أَوْ مُدَّيْنِ، وَكَلَّمَ فِيهِ، فَخُفِّفَ مِنْ ضَرِيبَتِهِ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے بیان کیا، اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پچھنا لگانے والے غلام (ابوطیبہ) کو بلایا، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پچھنا لگایا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک یا دو صاع، یا ایک یا دو مد (راوی حدیث شعبہ کو شک تھا) اجرت دینے کے لیے حکم فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کے مالکوں سے بھی) ان کے بارے میں سفارش فرمائی تو ان کا خراج کم کر دیا گیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِجَارَةِ/حدیث: 2281]
20. بَابُ كَسْبِ الْبَغِيِّ وَالإِمَاءِ:
20. باب: رنڈی اور فاحشہ لونڈی کی خرچی کا بیان۔
حدیث نمبر: Q2282
وَكَرِهَ إِبْرَاهِيمُ أَجْرَ النَّائِحَةِ وَالْمُغَنِّيَةِ. وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وَلا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَنْ يُكْرِههُّنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِنْ بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة النور آية 33، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: فَتَيَاتِكُمْ إِمَاءَكُمْ.
‏‏‏‏ اور ابرہیم نخعی نے نوحہ کرنے والیوں اور گانے والیوں کی اجرت کو مکروہ قرار دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ النور میں) یہ فرمان «ولا تكرهوا فتياتكم على البغاء إن أردن تحصنا لتبتغوا عرض الحياة الدنيا ومن يكرههن فإن الله من بعد إكراههن غفور رحيم‏» اپنی باندیوں کو جب کہ وہ پاک دامنی چاہتی ہوں، زنا کے لیے مجبور نہ کرو تاکہ تم اس طرح دنیا کی زندگی کا سامان ڈھونڈو، لیکن اگر کوئی شخص انہیں مجبور کرتا ہے تو اللہ ان پر جبر کئے جانے کے بعد (انہیں) معاف کرنے والا، ان پر رحم کرنے والا ہے (قرآن کی آیت میں لفظ) «فتياتكم»،‏ «إماؤكم‏.‏» کے معنی ہے (یعنی تمہاری باندیاں)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِجَارَةِ/حدیث: Q2282]
حدیث نمبر: 2282
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ، وَمَهْرِ الْبَغِيِّ، وَحُلْوَانِ الْكَاهِنِ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام نے بیان کیا، ان سے ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، زانیہ (کے زنا) کی خرچی اور کاہن کی مزدوری سے منع فرمایا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِجَارَةِ/حدیث: 2282]
حدیث نمبر: 2283
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كَسْبِ الْإِمَاءِ".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن حجادہ نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باندیوں کی زنا کی کمائی سے منع فرمایا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِجَارَةِ/حدیث: 2283]

Previous    1    2    3    4    Next