الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سلسله احاديث صحيحه کل احادیث (4103)
حدیث نمبر سے تلاش:

سلسله احاديث صحيحه
الايمان والتوحيد والدين والقدر
ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان
حدیث نمبر: 71
-" كل امرئ مهيأ لما خلق له".
سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم لوگ جو عمل کر رہے ہیں،آیا ان کا (پہلے ہی سے فیصلہ کر کے) ان سے فارغ ہوا جا چکا ہے یا ہم ازسرِنو عمل کر رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس معاملے (کا فیصلہ کر کے) اس سے فراغت حاصل کی جا چکی ہے۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! تو پھر عمل کاہے کا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس آدمی کو جس عمل کے لیے پیدا کیا گیا اسے اسی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ [سلسله احاديث صحيحه/الايمان والتوحيد والدين والقدر/حدیث: 71]
حدیث نمبر: 72
- (إنَّ أول شيءٍ خَلَقَهَ الله عزَّ وجلَّ: القلمُ، فأخذَهُ بيمينه- وكلتا يديهِ يمين- قال: فكتبَ الدنيا وما يكونُ فيها من عملٍ معمولٍ: بِرَّ أو فجورٍ، رطب أو يابس، فأحصاهُ عندَه في الذِّكر، ثم قال: اقرَأُوا إن شئتم: (هذا كتابُنا يَنْطِقُ عليكم بالحق إنا كنا نَسْتَنْسِخُ ما كنتم تعملون) ؛ فهل تكون النسخةُ إلا مِنْ أمرٍ قد فُرغَ منه).
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا، اسے اپنے داہنے ہاتھ میں پکڑا۔ اور اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ اور دنیا کو، اور دنیا میں کی جانے والی ہر نیکی و بدی اور رطب و یابس کو لکھا اور سب چیزوں کو اپنے پاس لوح محفوظ میں شمار کر لیا پھر فرمایا: اگر چاہتے ہو تو (اس مصداق والی یہ آیت) پڑھ لو: «هذا كتابُنا يَنْطِقُ عليكم بالحق إنا كنا نَسْتَنْسِخُ ما كنتم تعملون» یہ ہے ہماری کتاب جو تمہارے بارے میں سچ مچ بول رہی ہے، ہم تمہارے اعمال لکھواتے جاتے ہیں (سورۃجاثیہ:29)۔ لکھنا اور نقل کرنا اسی امر میں ہوتا ہے جس سے فارغ ہوا جا چکا ہو۔ [سلسله احاديث صحيحه/الايمان والتوحيد والدين والقدر/حدیث: 72]
35. تقدیر برحق ہے، لیکن انسان کا اختیار
حدیث نمبر: 72M
-" هؤلاء لهذه وهؤلاء لهذه".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مٹھیوں کے بارے میں فرمایا: اس مٹھی والے (بندے) اس (جنت) کے لیے اور اس مٹھی والے (بندے) اس (جہنم) کے لیے ہیں۔ [سلسله احاديث صحيحه/الايمان والتوحيد والدين والقدر/حدیث: 72M]
حدیث نمبر: 73
-" إن الله عز وجل خلق آدم، ثم أخذ الخلق من ظهره وقال: هؤلاء إلى الجنة ولا أبالي وهؤلاء إلى النار ولا أبالي، فقال قائل: يا رسول الله فعلى ماذا نعمل؟ قال: على مواقع القدر".
سیدنا عبدالرحمٰن بن قتادہ سلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، پھر ان کی پیٹھ سے ان کی اولاد کو نکالا اور فرمایا: یہ جنت کے لیے ہیں اور میں بےپروا ہوں اور یہ جہنم کے لیے ہیں اور میں کوئی پروا نہیں کرتا۔ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کس چیز کے مطابق عمل کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تقدیر کے مطابق۔ [سلسله احاديث صحيحه/الايمان والتوحيد والدين والقدر/حدیث: 73]
حدیث نمبر: 74
-" إن الله عز وجل قبض قبضة فقال: في الجنة برحمتي، وقبض قبضة فقال: في النار ولا أبالي".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے ایک مٹھی بھری اور فرمایا: یہ میری رحمت سے جنت میں ہوں گے اور دوسری مٹھی بھری اور فرمایا: یہ جہنم میں ہوں گے اور میں کوئی پروا نہیں کرتا۔ [سلسله احاديث صحيحه/الايمان والتوحيد والدين والقدر/حدیث: 74]
حدیث نمبر: 75
-" خلق الله آدم حين خلقه فضرب كتفه اليمنى، فأخرج ذرية بيضاء كأنهم الذر، وضرب كتفه اليسرى، فأخرج ذرية سوداء كأنهم الحمم، فقال للذي في يمينه: إلى الجنة ولا أبالي وقال للذي في كتفه اليسرى: إلى النار ولا أبالي".
سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا تو اس کے دائیں کندھے پر ضرب لگائی اور وہاں سے سفید رنگ کی اولاد نکالی، جو چھوٹی چیونٹیوں کی جسامت کی تھی۔ پھر بائیں کندھے پر ضرب لگائی اور کوئیلوں کی طرح سیاہ اولاد نکالی۔ پھر دائیں طرف والی اولاد کے بارے میں کہا: یہ جنت میں جائیں گے اور میں کوئی پرواہ نہیں کرتا اور بائیں کندھے سے نکلنے والی اولاد کے بارے میں کہا: یہ جہنم میں جائیں گے اور میں بےپرواہ ہوں۔ [سلسله احاديث صحيحه/الايمان والتوحيد والدين والقدر/حدیث: 75]
حدیث نمبر: 76
-" إن الله تبارك وتعالى قبض قبضة بيمينه فقال: هذه لهذه ولا أبالي وقبض قبضة أخرى، يعني: بيده الأخرى، فقال: هذه لهذه ولا أبالي".
ابونضرہ کہتے ہیں ایک صحابی بیمار ہو گئے، اس کے ساتھی اس کی تیمارداری کرنے کے لیے اس کے پاس گئے، وہ رونے لگ گئے۔ ان سے پوچھا گیا: اللہ کے بندے! کیوں رو رہے ہو؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو یہ نہیں فرمایا تھا کہ اپنی مونچھیں کاٹ دو اور پھر اسی چیز پر برقرار رہنا، یہاں تک کہ مجھے آ ملو۔؟ اس نے کہا: کیوں نہیں، (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعی یہ بشارت مجھے دی تھی) لیکن میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا کہ بیشک اللہ تبارک و تعالیٰ نے دائیں ہاتھ سے (اپنے بندوں کی) ایک مٹھی بھری اور فرمایا: اس مٹھی والے (جنت) کے لیے ہیں اور مجھے کسی کی پروا نہیں ہے پھر دوسرے ہاتھ سے دوسری مٹھی بھری اور فرمایا کہ اس مٹھی والے (جہنم) کے لیے ہیں اور میں کسی کی پروا نہیں کرتا۔ (میرے رونے کی وجہ یہ فکر ہے کہ) میں یہ نہیں جانتا کہ میں کس مٹھی میں ہوں گا۔ [سلسله احاديث صحيحه/الايمان والتوحيد والدين والقدر/حدیث: 76]
36. تقدیر کے موضوع پر گفتگو کرنے والے بدترین لوگ ہیں
حدیث نمبر: 77
-" أخر الكلام في القدر لشرار أمتي في آخر الزمان".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تقدیر (کے انکار پر) مشتمل گفتگو کو پچھلے زمانوں میں میری امت کے بدترین لوگوں تک مؤخر کر دیا گیا ہے۔ [سلسله احاديث صحيحه/الايمان والتوحيد والدين والقدر/حدیث: 77]
37. بوقت تخلیق ایمان یا کفر کا فیصلہ
حدیث نمبر: 78
-" خلق الله يحيى بن زكريا في بطن أمه مؤمنا، وخلق فرعون في بطن أمه كافرا".
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے زکریا (علیہ السلام) کو پیدا کیا تو اپنی ماں کے پیٹ میں ہی مومن تھے اور جب فرعون کو پیدا کیا تو وہ اپنی ماں کے پیٹ میں ہی کافر تھا۔ [سلسله احاديث صحيحه/الايمان والتوحيد والدين والقدر/حدیث: 78]
38. مبلغین کی صفات
حدیث نمبر: 79
-" ادعوا الناس، وبشرا ولا تنفرا، ويسرا ولا تعسرا".
سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ اپنے باپ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا اور فرمایا: لوگوں کو (اسلام کی) دعوت دینا، خوشخبریاں سنانا، متنفر نہ کرنا اور آسانیاں پیدا کرنا (دین کو) دشوار نہ بنا دینا۔ میں نے کہا: دو قسم کی شراب، جو ہم یمن میں تیار کرتے تھے، کے بارے میں شرعی حکم کی وضاحت کریں: «بتع» یعنی شہد کی نبیذ جو سخت ہو کر (شراب کی صورت اختیار کر لے)۔ اور «مزر» یعنی مکئی کی نبیذ، وہ بھی سخت ہو کر (شراب کی صورت اختیار کر جائے)۔ راوی کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حد درجہ جامع و مانع کلمات عطا کئے گئے تھے۔ آپ نے فرمایا: میں ہر اس نشہ آور چیز سے منع کرتا ہوں جو نماز سے بے ہوش کر دے (وہ جس چیز كي بھی بنی ہوئی ہو)۔ صحیح مسلم کی روایت میں «ولا تعسرا» کی بجائے «وعلما» اور لوگوں کو تعلیم دینا کے الفاظ ہیں۔ [سلسله احاديث صحيحه/الايمان والتوحيد والدين والقدر/حدیث: 79]

Previous    4    5    6    7    8    9    10    11    12    Next