الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سلسله احاديث صحيحه کل احادیث (4103)
حدیث نمبر سے تلاش:

سلسله احاديث صحيحه
المناقب والمثالب
فضائل و مناقب اور معائب و نقائص
حدیث نمبر: 3179
-" أو ما علمت ما شارطت عليه ربي؟ قلت: اللهم إنما أنا بشر فأي المسلمين لعنته أو سببته فاجعله له زكاة وأجرا".
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمی آئے، انہوں نے آپ سے کوئی بات کی، جسے میں نہ سمجھ سکی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں آ گئے اور ان پر لعن طعن کیا۔ جب وہ چلے گئے تو میں نے (‏‏‏‏طنزیہ انداز میں) کہا: اے اللہ کے رسول! جو بھلائی ان بیچاروں کو ملی ہے، وہ تو کسی کے حق میں نہیں آئی ہو گی؟ آپ نے پوچھا: وہ کیسے؟، میں نے کہا: آپ نے ان پر لعن طعن اور سب و شتم کیا (‏‏‏‏ یہ ان کی بدبختی ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تجھے اس شرط کا علم نہیں، جو میں نے اپنے رب سے لگائی ہے؟ میں نے کہا: اے اللہ! میں بشر ہی ہوں، میں جس مسلمان پر لعن طعن کروں یا اسے گالی گلوچ کروں، تو تو اس چیز کو اس کے حق میں باعث تزکیہ اور باعث اجر بنا دے۔ [سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3179]
2137. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اوپر لگائی گئی تہمتوں کا جواب کیسے دیتے تھے؟
حدیث نمبر: 3180
-" أولئك خيار عباد الله عند الله يوم القيامة: الموفون المطيبون".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بدو سے ایک وسق ذخرہ یعنی عجوہ کھجور کے عوض ایک یا چند اونٹنیاں خریدیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر واپس آئے، کھجوریں تلاش کیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ نہ ملا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بدو کے پاس گئے اور فرمایا: اللہ کے بندے! میں نے تجھ سے ایک وسق ذخرہ کھجور کے عوض اونٹنی خریدی، لیکن تلاش کرنے کے باوجود مجھے کھجور نہ مل سکی۔ اس نے کہا: ہائے عہد شکنی! لوگوں نے اسے برا بھلا کہتے ہوئے کہا: اللہ تجھے ہلاک کرے، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عہد شکنی کر سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (‏‏‏‏اپنے صحابہ سے) فرمایا: اسے کچھ نہ کہو، صاحب حق آدمی باتیں کرتا رہتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر لوٹے اور واپس آ کر فرمایا: اللہ کے بندے! میں نے تجھ سے اونٹنی خریدی تھی، میرا خیال تھا کہ میرے پاس طے شدہ قیمت ہو گی، لیکن تلاش کے باوجود کچھ نہ ملا۔ اس بدو نے کہا: ہائے! یہ تو دھوکہ بازی ہے! لوگوں نے اسے زجر و توبیخ کی اور کہا: اللہ تیرا ستیاناس کرے، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دھوکہ کر سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو چھوڑ دو، حقدار آدمی باتیں کرتا رہتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو تین دفعہ ایسے ہی کیا، لیکن کسی کو (‏‏‏‏اصل مقصد) سمجھ نہ آ سکا۔ بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو حکم دیتے ہوے فرمایا: خولہ بنت حکیم بن امیہ کے پاس جاؤ اور اسے میرا پیغام دو کہ اگر تیرے پاس ایک وسق ذخرہ کھجور ہے تو مجھے بطور قرض دیدے، میں ان شاء اللہ بعد میں تجھے واپس کر دوں گا۔ وہ صحابی گیا اور واپس آ کر کہا کہ خولہ کہتی ہیں: جی ہاں! اے الله کے رسول! میرے پاس کھجوریں موجود میں، آپ کسی آدمی کو لینے بھیج دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو حکم دیا کہ جاؤ اور اس کا قرضہ ادا کر دو۔ وہ گیا اور اس کا قرضہ چکا دیا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: وہ بدو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ میں تشریف فرما تھے اور اس نے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے، آپ نے قرض چکا دیا ہے اور بہت عمدہ انداز میں ادا کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ہاں روز قیامت بہترین بندے وہ ہوں گے جو اچھے انداز میں ادائیگیاں کرتے ہیں۔ [سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3180]
2138. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عاجزی
حدیث نمبر: 3181
-" هون عليك، فإني لست بملك إنما أنا ابن امرأة من قريش كانت تأكل القديد".
سیدنا قیس بن حازم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کے سامنے کھڑا ہو گیا، اس پر خوف کی وجہ سے کپکپی طاری ہو گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذرا پرسکون ہو جاؤ (اور فکر مت کرو) میں بادشاہ نہیں ہوں، میں تو سوکھا گوشت کھانے والی ایک قریشی عورت کا بیٹا ہوں۔ [سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3181]
2139. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے کا فیصلہ کب کیا گیا؟
حدیث نمبر: 3182
-" كتبت نبيا وآدم بين الروح والجسد".
سیدنا میسرہ فجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کو بطور نبی کب لکھا گیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس وقت جب سیدنا آدم علیہ السلام روح اور جسم کے درمیان تھے۔ [سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3182]
2140. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاحیہ انداز بھی حقائق پر مشتمل ہوتا تھا
حدیث نمبر: 3183
-" إني لا أقول إلا حقا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آیا آپ بھی ہمارے ساتھ مذاق کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں جو کچھ کہتا ہوں، وہ حق ہوتا ہے۔ [سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3183]
2141. آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحمت تھے
حدیث نمبر: 3184
-" يا أيها الناس إنما أنا رحمة مهداة".
سیدنا ابوصالح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‏‏‏‏لوگو! میں رحمت مجسم بن کر آیا ہوں، جو (‏‏‏‏اہل جہان کے لیے) ایک ہدیہ ہے۔ [سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3184]
حدیث نمبر: 3185
- (إنِّي لم أُبعَث لعّاناً، وإنما بعثتُ رحمةً).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کہا گیا: اے اللہ کے رسول! مشرکوں کے حق میں بددعا کیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے لعنت کرنے والا نہیں، رحمت والا بنا کر بھیجا گیا۔ [سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3185]
2142. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دشمنوں کے لیے بھی مجسمۂ رحمت تھے
حدیث نمبر: 3186
-" أخر عني يا عمر! إني خيرت فاخترت وقد قيل (لي): * (استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة فلن يغفر الله لهم) *. لو أعلم أني لو زدت على السبعين غفر له لزدت".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ جب عبداللہ بن ابی (‏‏‏‏منافق) مرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی نماز جنازہ کے لیے بلایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور جب نماز کے ارادے سے کھڑے ہوئے تو میں گھوم کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہو گیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! کیا اللہ تعالیٰ کے دشمن عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ (‏‏‏‏ پڑھنے لگے ہیں)، جس نے فلاں فلاں دن ایسے ایسے کہا تھا؟ ان دنوں کو شمار بھی کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواباً مسکرا دیے۔ جب میں نے بہت زیادہ اصرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر! پیچھے ہٹ جاؤ، مجھے اختیار دیا گیا اور میں نے (‏‏‏‏ ‏‏‏‏اس اختیار کو) قبول کر لیا، مجھے (‏‏‏‏ ‏‏‏‏اللہ تعالیٰ کی طرف سے) کہا گیا ہے: «اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّـهُ لَهُمْ» (۹-التوبة:۸۰) ‏‏‏‏ ‏‏‏‏اے محمد! آپ ان کے لیے بخشش طلب کریں یا نہ کریں، اگر آپ ستر دفعہ بھی بخشش طلب کریں تو پھر بھی اللہ تعالیٰ ان کو ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ اگر مجھے علم ہوتا کہ ستر سے زائد دفعہ بخشش طلب کرنے سے اسے بخش دیا جائے گا تو میں زیادہ دفعہ کر دیتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی، اس کی میت کے ساتھ چلے اور فارغ ہونے تک اس کی قبر پر کھڑے رہے۔ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جرات کرنے پہ بڑا تعجب ہو رہا تھا، اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ اللہ کی قسم! تھوڑے وقت کے بعد ہی یہ دو آیات نازل ہوئیں: «وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ» (۹-التوبة:۸۴) اے محمد! منافقوں میں سے جو بھی مرے، آپ اس کی نماز جنازہ کبھی نہ پڑھائیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں، انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور فسق کی حالت میں مرے ہیں۔ (‏‏‏‏ ان آیات کے نزول کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی منافق کی نماز جنازہ نہ پڑھی اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ فوت ہو گئے۔ [سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3186]
2143. اونٹ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے مالک کی شکایت کرنا
حدیث نمبر: 3187
-" ما لبعيرك يشكوك؟ زعم أنك سانيه حتى إذا كبر تريد أن تنحره (لا تنحروه واجعلوه في الإبل يكون معها)".
منہال بن عمرو، سیدنا یعلیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: میرا خیال ہے کہ جس کثرت سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، اتنا کسی نے نہیں دیکھا ہو گا، پھر انہوں نے بچے کا معاملہ، کھجور کے دو درختوں کا معاملہ اور اونٹ کا معاملہ ذکر کیا۔ اونٹ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرے اونٹ کو کیا ہوا؟ یہ شکایت کر رہا ہے کہ تم اسے سینچائی کے لیے رہٹ میں چلاتے رہے اور جب یہ بوڑھا ہو گیا تو تم اسے ذبح کرنا چاہتے ہو، اس کو ذبح نہ کرو اور اسے اونٹوں میں چھوڑ دو، ان کے ساتھ چلتا پھرتا رہے گا۔ [سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3187]
2144. زمین و آسمان کی ہر چیز کو علم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، ماسوائے . . .
حدیث نمبر: 3188
-" ما بين السماء إلى الأرض أحد إلا يعلم أني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا عاصي الجن والإنس".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلتے رہے، حتیٰ کہ ہم بنونجار کے ایک باغ تک جا پہنچے، اس میں ایک اونٹ تھا، جو آدمی اس باغ میں داخل ہوتا وہ اونٹ اس پر ٹوٹ پڑتا تھا، لوگوں نے یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی، آپ اس کے پاس آئے اور اس کو بلایا، وہ اپنا ہونٹ زمین پر رگڑتا ہوا آیا، یہاں تک کہ آپ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‏‏‏‏لگام لاؤ۔ آپ نے اسے لگام ڈالی اور اس کے مالک کو تھما دی، پھر، ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: زمین و آسمان کی ہر چیز جانتی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں، ماسوائے نافرمان جنوں اور انسانوں کے۔ [سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3188]

Previous    1    2    3    4    5    6    Next