57. عورت کا اپنے باپ کے چہرے سے خون کو دھو دینا (درست ہے)۔
سیدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے لوگوں نے پوچھا کہ کس چیز سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زخم کا علاج کیا گیا تو وہ بولے کہ اس کا جاننے والا مجھ سے زیادہ (اب) کوئی باقی نہیں رہا (چنانچہ بتلایا کہ) امیرالمؤمنین علی رضی اللہ عنہ اپنی ڈھال میں پانی لے آتے تھے اور سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور سے خون دھوتی تھیں۔ پھر ایک چٹائی لا کر جلائی گئی اور (راکھ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخم میں بھر دی گئی۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 180]
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ میں مسواک لیے ہوئے مسواک کر رہے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ”اع، اع“ کرتے جاتے تھے اور مسواک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ میں تھی گویا کہ آپ قے کرتے تھے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 181]
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اٹھتے تو اپنے منہ (دانتوں) کو مسواک سے رگڑتے (صاف کرتے) تھے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 182]
59. مسواک کا بڑے شخص کو دینا (سنت ہے)۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے خواب میں اپنے آپ کو مسواک سے دانت صاف کرتے ہوئے دیکھا۔ پھر (میں نے دیکھا کہ) میرے پاس دو شخص آئے، ایک ان میں دوسرے سے بڑا تھا، میں نے ان میں سے چھوٹے کو مسواک دے دی تو مجھ سے کہا گیا کہ ”بڑے کو دے دیجئیے۔“ پھر میں نے وہ مسواک ان میں سے بڑے کو دے دی۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 183]
60. اس شخص کی فضیلت (کا بیان) جو باوضو سوئے۔
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھ سے) فرمایا: ”جب تم اپنی خواب گاہ میں آؤ تو نماز کی طرح وضو کر لیا کرو۔ پھر اپنے داہنے پہلو پر لیٹ جاؤ پھر اس کے بعد کہو ”اے اللہ! میں نے تجھ سے امیدوار اور خائف ہو کر اپنا منہ تیری جناب میں جھکا دیا اور اپنا (ہر) کام تیرے سپرد کر دیا اور میں نے تجھے اپنا پشتی بان و پناہ دہندہ بنا لیا اور (میں یقین رکھتا ہوں کہ) تجھ سے (یعنی تیرے غضب سے) سوا تیرے پاس کے کوئی پناہ و نجات کی جگہ نہیں ہے۔ اے اللہ! میں اس کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل فرمائی ہے اور تیرے اس نبی پر (بھی) جسے تو نے (ہدایت خلق کے لیے) بھیجا ہے۔“ پس اگر تم اپنی اسی رات میں مر جاؤ گے تو ایمان پر (مرو گے) اور ان کلمات کو تمام ان باتوں کے بعد کہو جو تم کرنا چاہتے ہو (یعنی اس کے بعد کلام نہ کرو)۔“ سیدنا براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ان کلمات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دہرایا پھر جب میں آمنت بکتابک الّذی انزلت پر پہنچا تو میں نے کہہ دیا ورسولک (یعنی) ”اور تیرے رسول پر“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ونبیّک الّذی ارسلت بلکہ ”اور تیرے اس نبی پر (بھی) جسے تو نے (ہدایت خلق کے لیے) بھیجا ہے۔“ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 184]