الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح البخاري کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:

صحيح البخاري
كِتَاب الْوَصَايَا
کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
25. بَابُ اسْتِخْدَامِ الْيَتِيمِ فِي السَّفَرِ وَالْحَضَرِ إِذَا كَانَ صَلاَحًا لَهُ، وَنَظَرِ الأُمِّ وَزَوْجِهَا لِلْيَتِيمِ:
25. باب: سفر اور حضر میں یتیم سے کام لینا جس میں اس کی بھلائی ہو اور ماں اور سوتیلے باپ کا یتیم پر نظر ڈالنا۔
حدیث نمبر: 2768
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ لَيْسَ لَهُ خَادِمٌ، فَأَخَذَ أَبُو طَلْحَةَ بِيَدِي، فَانْطَلَقَ بِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَنَسًا غُلَامٌ كَيِّسٌ فَلْيَخْدُمْكَ، قَالَ: فَخَدَمْتُهُ فِي السَّفَرِ وَالْحَضَرِ، مَا قَالَ لِي لِشَيْءٍ صَنَعْتُهُ لِمَ صَنَعْتَ هَذَا هَكَذَا، وَلَا لِشَيْءٍ لَمْ أَصْنَعْهُ لِمَ، لَمْ تَصْنَعْ هَذَا هَكَذَا".
ہم سے یعقوب بن ابراہیم بن کثیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا ‘ ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی خادم نہیں تھا۔ اس لیے ابوطلحہ (جو میرے سوتیلے باپ تھے) میرا ہاتھ پکڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! انس سمجھ دار بچہ ہے۔ یہ آپ کی خدمت کیا کرے گا۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفر اور حضر میں خدمت کی ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کبھی کسی کام کے بارے میں جسے میں نے کر دیا ہو ‘ یہ نہیں فرمایا کہ یہ کام تم نے اس طرح کیوں کیا ‘ اسی طرح کسی ایسے کام کے متعلق جسے میں نہ کر سکا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ تو نے یہ کام اس طرح کیوں نہیں کیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: 2768]
26. بَابُ إِذَا وَقَفَ أَرْضًا وَلَمْ يُبَيِّنِ الْحُدُودَ فَهْوَ جَائِزٌ، وَكَذَلِكَ الصَّدَقَةُ:
26. باب: اگر کسی نے ایک زمین وقف کی (جو مشہور و معلوم ہے) اس کی حدیں بیان نہیں کیں تو یہ جائز ہو گا، اسی طرح ایسی زمین کا صدقہ دینا۔
حدیث نمبر: 2769
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ:"كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَكْثَرَ أَنْصَارِيٍّ بِالْمَدِينَةِ مَالًا مِنْ نَخْلٍ، وَكَانَ أَحَبُّ مَالِهِ إِلَيْهِ بَيْرُحَاءَ مُسْتَقْبِلَةَ الْمَسْجِدِ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَدْخُلُهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَاءٍ فِيهَا طَيِّبٍ، قَالَ أَنَسٌ: فَلَمَّا نَزَلَتْ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ سورة آل عمران آية 92 قَامَ أَبُو طَلْحَةَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ سورة آل عمران آية 92 وَإِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِي إِلَيَّ بَيْرُحَاءَ وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلَّهِ أَرْجُو بِرَّهَا، وَذُخْرَهَا عِنْدَ اللَّهِ، فَضَعْهَا حَيْثُ أَرَاكَ اللَّهُ، فَقَالَ: بَخْ، ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ أَوْ رَايِحٌ، شَكَّ ابْنُ مَسْلَمَةَ وَقَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ، وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الْأَقْرَبِينَ، قَالَ أَبُو طَلْحَةَ: أَفْعَلُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَسَمَهَا أَبُو طَلْحَةَ فِي أَقَارِبِهِ، وَفِي بَنِي عَمِّهِ". وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، وَيَحْيَى بْنُ يَحْيَى، عَنْ مَالِكٍ رَايِحٌ.
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے امام مالک نے ‘ ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے ‘ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا آپ بیان کرتے تھے کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کھجور کے باغات کے اعتبار سے مدینہ کے انصار میں سب سے بڑے مالدار تھے اور انہیں اپنے تمام مالوں میں مسجد نبوی کے سامنے بیرحاء کا باغ سب سے زیادہ پسند تھا۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس باغ میں تشریف لے جاتے اور اس کا میٹھا پانی پیتے تھے۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی «لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون‏» نیکی تم ہرگز نہیں حاصل کرو گے جب تک اپنے اس مال سے نہ خرچ کرو جو تمہیں پسند ہوں۔ تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اٹھے اور آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون‏» تم نیکی ہرگز نہیں حاصل کر سکو گے جب تک اپنے ان مالوں میں سے نہ خرچ کرو جو تمہیں زیادہ پسند ہوں۔ اور میرے اموال میں مجھے سب سے زیادہ پسند بیرحاء ہے اور یہ اللہ کے راستہ میں صدقہ ہے ‘ میں اللہ کی بارگاہ سے اس کی نیکی اور ذخیرہ آخرت ہونے کی امید رکھتا ہوں۔ آپ کو جہاں اللہ تعالیٰ بتائے اسے خرچ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاباش یہ تو بڑا فائدہ بخش مال ہے یا آپ نے بجائے «رابح» رابع کے «رايح» کہا یہ شک عبداللہ بن مسلمہ راوی کو ہوا تھا۔۔۔ اور جو کچھ تم نے کہا میں نے سب سن لیا ہے اور میرا خیال ہے کہ تم اسے اپنے ناطے والوں کو دے دو۔ ابوطلحہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں ایسا ہی کروں گا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے عزیزوں اور اپنے چچا کے لڑکوں میں تقسیم کر دیا۔ اسماعیل ‘ عبداللہ بن یوسف اور یحییٰ بن یحییٰ نے مالک کے واسطہ سے۔ «رابح» کے بجائے «رايح» بیان کیا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: 2769]
حدیث نمبر: 2770
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَجُلًا، قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أُمَّهُ تُوُفِّيَتْ، أَيَنْفَعُهَا إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ قَالَ:" نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّ لِي مِخْرَافًا وَأُشْهِدُكَ أَنِّي قَدْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَنْهَا".
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو روح بن عبادہ نے خبر دی ‘ کہا ہم کو زکریا بن اسحاق نے بیان کیا کہ مجھ سے عمرو بن دینار نے بیان کیا عکرمہ سے اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ ایک صحابی سعد بن عبادہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ان کی ماں کا انتقال ہو گیا ہے۔ کیا اگر وہ ان کی طرف سے خیرات کریں تو انہیں اس کا فائدہ پہنچے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ہاں۔ اس پر ان صحابی نے کہا کہ میرا ایک پُر میوہ باغ ہے اور میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے وہ ان کی طرف سے صدقہ کر دیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: 2770]
27. بَابُ إِذَا أَوْقَفَ جَمَاعَةٌ أَرْضًا مُشَاعًا فَهْوَ جَائِزٌ:
27. باب: اگر کئی آدمیوں نے اپنی مشترک زمین جو «مشاع» تھی (تقسیم نہیں ہوتی تھی) وقف کر دی تو جائز ہے۔
حدیث نمبر: 2771
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبِنَاءِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: يَا بَنِي النَّجَّارِ ثَامِنُونِي بِحَائِطِكُمْ هَذَا، قَالُوا: لَا، وَاللَّهِ لَا نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلَّا إِلَى اللَّهِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا ‘ ان سے ابوالتیاح یزید بن حمید نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے ‘ انہوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مدینہ میں) مسجد بنانے کا حکم دیا اور بنی نجار سے فرمایا تم اپنے اس باغ کا مجھ سے مول کر لو۔ انہوں نے کہا کہ ہرگز نہیں اللہ کی قسم ہم تو اللہ ہی سے اس کا مول لیں گے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: 2771]
28. بَابُ الْوَقْفِ كَيْفَ يُكْتَبُ:
28. باب: وقف کی سند کیوں کر لکھی جائے۔
حدیث نمبر: 2772
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَصَابَ عُمَرُ بِخَيْبَرَ أَرْضًا، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَصَبْتُ أَرْضًا لَمْ أُصِبْ مَالًا قَطُّ أَنْفَسَ مِنْهُ، فَكَيْفَ تَأْمُرُنِي بِهِ، قَالَ: إِنْ شِئْتَ حَبَّسْتَ أَصْلَهَا، وَتَصَدَّقْتَ بِهَا، فَتَصَدَّقَ عُمَرُ أَنَّهُ لَا يُبَاعُ أَصْلُهَا، وَلَا يُوهَبُ، وَلَا يُورَثُ فِي الْفُقَرَاءِ، وَالْقُرْبَى، وَالرِّقَابِ، وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَالضَّيْفِ، وَابْنِ السَّبِيلِ، لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ، أَوْ يُطْعِمَ صَدِيقًا غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبداللہ بن عون رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں ایک زمین ملی (جس کا نام ثمغ تھا) تو آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مجھے ایک زمین ملی ہے اور اس سے عمدہ مال مجھے کبھی نہیں ملا تھا ‘ آپ اس کے بارے میں مجھے کیا مشورہ دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر چاہے تو اصل جائیداد اپنے قبضے میں روک رکھ اور اس کے منافع کو خیرات کر دے۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اس شرط کے ساتھ صدقہ (وقف) کیا کہ اصل زمین نہ بیچی جائے، نہ ہبہ کی جائے اور نہ وراثت میں کسی کو ملے اور فقراء، رشتہ دار، غلام آزاد کرانے ‘ اللہ کے راستے (کے مجاہدوں) مہمانوں اور مسافروں کے لیے (وقف ہے) جو شخص بھی اس کا متولی ہو اگر دستور کے مطابق اس میں سے کھائے یا اپنے کسی دوست کو کھلائے تو کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ مال جمع کرنے کا ارادہ نہ ہو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: 2772]
29. بَابُ الْوَقْفِ لِلْغَنِيِّ وَالْفَقِيرِ وَالضَّيْفِ:
29. باب: مالدار محتاج اور مہمان سب پر وقف کر سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 2773
حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَجَدَ مَالًا بِخَيْبَرَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ، قَالَ:" إِنْ شِئْتَ تَصَدَّقْتَ بِهَا، فَتَصَدَّقَ بِهَا فِي الْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ، وَذِي الْقُرْبَى، وَالضَّيْفِ".
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن عون نے بیان کیا ‘ ان سے نافع نے بیان کیا ‘ ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں ایک جائیداد ملی تو آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کے متعلق خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر چاہو تو اسے صدقہ کر دو۔ چنانچہ آپ نے فقراء ‘ مساکین ‘ رشتہ داروں اور مہمانوں کے لیے اسے صدقہ کر دیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: 2773]
30. بَابُ وَقْفِ الأَرْضِ لِلْمَسْجِدِ:
30. باب: مسجد کے لیے زمین کا وقف کرنا۔
حدیث نمبر: 2774
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، حَدَّثَنَا أَبُو التَّيَّاحِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ" لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ أَمَرَ بِبِنَاءِ الْمَسْجِدِ، وَقَالَ: يَا بَنِي النَّجَّارِ ثَامِنُونِي بِحَائِطِكُمْ هَذَا، قَالُوا: لَا، وَاللَّهِ لَا نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلَّا إِلَى اللَّهِ".
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالصمد نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے والد (عبدالوارث) سے سنا، ان سے ابوالتیاح نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد بنانے کے لیے حکم دیا اور فرمایا اے بنو نجار! اپنے باغ کی مجھ سے قیمت لے لو۔ انہوں نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم! ہم تو اس کی قیمت صرف اللہ سے مانگتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: 2774]
31. بَابُ وَقْفِ الدَّوَابِّ وَالْكُرَاعِ وَالْعُرُوضِ وَالصَّامِتِ:
31. باب: جانور اور گھوڑے اور سامان اور سونا چاندی وقف کرنا۔
حدیث نمبر: Q2775
وَقَالَ الزُّهْرِيُّ: فِيمَنْ جَعَلَ أَلْفَ دِينَارٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَدَفَعَهَا إِلَى غُلَامٍ لَهُ تَاجِرٍ يَتْجِرُ بِهَا وَجَعَلَ رِبْحَهُ صَدَقَةً لِلْمَسَاكِينِ وَالْأَقْرَبِينَ، هَلْ لِلرَّجُلِ أَنْ يَأْكُلَ مِنْ رِبْحِ ذَلِكَ الْأَلْفِ شَيْئًا، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ جَعَلَ رِبْحَهَا صَدَقَةً فِي الْمَسَاكِينِ، قَالَ: لَيْسَ لَهُ أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا.
‏‏‏‏ زہری رحمہ اللہ نے ایسے شخص کے بارے میں فرمایا تھا۔ جس نے ہزار دینار اللہ کے راستے میں وقف کر دیئے اور انہیں اپنے ایک تاجر غلام کو دے دیا تھا کہ اس سے کاروبار کرے اور اس کے نفع کو اس شخص نے محتاجوں اور ناطے والوں کے لیے صدقہ کیا۔ کیا وہ شخص ان اشرفیوں کے نفع میں سے کچھ کھا سکتا ہے، جب کہ اس نے نفع کو محتاج پر صدقہ نہ کیا ہو تو کہا کہ اس کے لیے لائق نہیں کہ اس سے کچھ کھائے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: Q2775]
حدیث نمبر: 2775
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ عُمَرَ حَمَلَ عَلَى فَرَسٍ لَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَعْطَاهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَحْمِلَ عَلَيْهَا رَجُلًا، فَأُخْبِرَ عُمَرُ أَنَّهُ قَدْ وَقَفَهَا يَبِيعُهَا، فَسَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنْ يَبْتَاعَهَا، فَقَالَ: لَا تَبْتَعْهَا، وَلَا تَرْجِعَنَّ فِي صَدَقَتِكَ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن قطان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ بن عمری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا، اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنا ایک گھوڑا اللہ کے راستے میں (جہاد کرنے کے لیے) ایک آدمی کو دے دیا۔ یہ گھوڑا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عمر رضی اللہ عنہ نے دیا تھا ‘ تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد میں کسی کو اس پر سوار کریں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ جس شخص کو یہ گھوڑا ملا تھا ‘ وہ اس گھوڑے کو بازار میں بیچ رہا ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا وہ اسے خرید سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہرگز اسے نہ خرید۔ اپنا دیا ہوا صدقہ واپس نہ لے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: 2775]
32. بَابُ نَفَقَةِ الْقَيِّمِ لِلْوَقْفِ:
32. باب: وقف کی جائیداد کا اہتمام کرنے والا اپنا خرچ اس میں سے لے سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 2776
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا يَقْتَسِمُ وَرَثَتِي دِينَارًا، وَلَا دِرْهَمًا مَا تَرَكْتُ بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِي، وَمَئُونَةِ عَامِلِي فَهُوَ صَدَقَةٌ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں ابوالزناد نے ‘ انہیں اعرج نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو آدمی میرے وارث ہیں ‘ وہ روپیہ اشرفی اگر میں چھوڑ جاؤں تو وہ تقسیم نہ کریں ‘ وہ میری بیویوں کا خرچ اور جائیداد کا اہتمام کرنے والے کا خرچ نکالنے کے بعد صدقہ ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: 2776]

Previous    1    2    3    4    5    6    Next