الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


مشكوة المصابيح کل احادیث (6294)
حدیث نمبر سے تلاش:

مشكوة المصابيح
كتاب فضائل القرآن
كتاب فضائل القرآن
--. حافظ القرآن کی مثال
حدیث نمبر: 2189
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّمَا مَثَلُ صَاحِبِ الْقُرْآنِ كَمَثَلِ صَاحِبِ الْإِبِلِ الْمُعَقَّلَةِ إِنْ عَاهَدَ عَلَيْهَا أَمْسَكَهَا وَإِنْ أَطْلَقَهَا ذَهَبَتْ»
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حافظ قرآن، بندھے ہوئے اونٹوں کے مالک کی طرح ہے، اگر وہ اس کا خیال رکھے گا تو اسے روکے رکھے گا اور اگر اسے چھوڑ دے گا تو وہ چلے جائیں گے۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2189]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (5031) و مسلم (226/ 789)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

--. قرآن جب تک پڑھنا چاہئے جب تک دل چاہے
حدیث نمبر: 2190
وَعَنْ جُنْدُبِ بْنِ عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «اقرؤوا الْقُرْآنَ مَا ائْتَلَفَتْ عَلَيْهِ قُلُوبُكُمْ فَإِذَا اخْتَلَفْتُمْ فَقومُوا عَنهُ»
جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قرآن اس وقت تک پڑھو جب تک تمہارے دل اس پر متوجہ ہوں، اور جب تمہارے خیالات منتشر ہو جائیں تو پھر اسے پڑھنا چھوڑ دو۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2190]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (5060) و مسلم (3. 4 / 2667)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

--. قرآنی الفاظ کی ادئیگی کا بیان
حدیث نمبر: 2191
وَعَنْ قَتَادَةَ قَالَ: سُئِلَ أَنَسٌ: كَيْفَ كَانَتْ قِرَاءَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: كَانَت مدا مَدًّا ثُمَّ قَرَأَ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ يَمُدُّ بِبَسْمِ اللَّهِ وَيَمُدُّ بِالرَّحْمَنِ وَيَمُدُّ بِالرَّحِيمِ. رَوَاهُ البُخَارِيّ
قتادہ بیان کرتے ہیں، انس رضی اللہ عنہ سے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی قراءت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: وہ مد کے ساتھ تھی، پھر انہوں نے (بسم اللہ الرحمن الرحیم) پڑھی، اور (بسم اللہ) اور (الرحمن) اور (الرحیم) کو مد کے ساتھ پڑھا (یعنی لمبا کر کے پڑھا)۔ رواہ البخاری۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2191]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه البخاري (5046)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

--. قرآن کو ترنم سے پڑھنے کا بیان
حدیث نمبر: 2192
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا أَذِنَ اللَّهُ لِشَيْءٍ مَا أَذِنَ لِنَبِيٍّ يَتَغَنَّى بِالْقُرْآنِ»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ نے اتنی توجہ سے کسی چیز کو نہیں سنا جتنا اس نے نبی کو ترنم کے ساتھ قرآن پڑھتے ہوئے توجہ سے سنا۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2192]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (5023. 5024) و مسلم (792/232)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

--. خوبصورت تلاوت اللہ تعالیٰ کو پسند ہے
حدیث نمبر: 2193
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا أَذِنَ اللَّهُ لِشَيْءٍ مَا أَذِنَ لِنَبِيٍّ حَسِنِ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ يَجْهَرُ بِهِ»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ نے اتنی توجہ سے کسی چیز کو نہیں سنا جتنا اس نے اپنے نبی کو خوش الحانی کے ساتھ با آواز بلند قرآن پڑھتے ہوئے سنا۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2193]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (7544) و مسلم (233/ 792)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

--. خوبصورت تلاوت نہ کرنے پر تنبیہ
حدیث نمبر: 2194
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو شخص خوش الحانی سے قرآن نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں۔ رواہ البخاری۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2194]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه البخاري (7527)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

--. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسروں سے قرآن سننے کا بیان
حدیث نمبر: 2195
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ: «اقْرَأْ عَلَيَّ» . قُلْتُ: أَقْرَأُ عَلَيْكَ وَعَلَيْكَ أُنْزِلَ؟ قَالَ: «إِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْ غَيْرِي» . فَقَرَأْتُ سُورَةَ النِّسَاءِ حَتَّى أَتَيْتُ إِلَى هَذِهِ الْآيَةِ (فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدا) قَالَ: «حَسْبُكَ الْآنَ» . فَالْتَفَتُّ إِلَيْهِ فَإِذَا عَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر تھے کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا: مجھے قرآن سناؤ۔ میں نے عرض کیا، میں آپ کو قرآن سناؤں، جبکہ وہ آپ پر نازل کیا گیا ہے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اپنے علاوہ کسی اور سے اسے سننا چاہتا ہوں۔ میں نے سورۃ النساء تلاوت کی حتیٰ کہ جب میں اس آیت (فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۢ بِشَهِيْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي هٰٓؤُلَاء شَهِيْدًا) پر پہنچا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب بس کرو۔ میں نے آپ کی طرف دیکھا تو آپ کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2195]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (4582) و مسلم (247. 800/248)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

--. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو قرآن سنانا
حدیث نمبر: 2196
وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ: «إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ» قَالَ: آللَّهُ سَمَّانِي لَكَ؟ قَالَ: «نَعَمْ» . قَالَ: وَقَدْ ذُكِرْتُ عِنْدَ رَبِّ الْعَالَمِينَ؟ قَالَ: «نَعَمْ» . فَذَرَفَتْ عَيْنَاهُ. وَفِي رِوَايَةٍ: إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ (لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا) قَالَ: وَسَمَّانِي؟ قَالَ: «نَعَمْ» . فَبَكَى
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اللہ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں تمہیں قرآن سناؤں۔ انہوں نے عرض کیا، اللہ نے میرا نام لیا ہے؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں۔ انہوں نے عرض کیا، میرا رب العالمین کے ہاں ذکر کیا گیا ہے؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں۔ (یہ سن کر) ان کی آنکھوں میں (خوشی کے) آنسو بہنے لگے۔ اور ایک روایت میں ہے: اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں سورۃ البینہ سناؤں۔ انہوں نے عرض کیا، میرا نام لے کر (آپ کو بتایا ہے)؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں۔ پس وہ رونے لگے۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2196]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (4960. 4961) و مسلم (799/245)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

--. حرمت قرآن کا بیان
حدیث نمبر: 2197
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِن يُسَافَرَ بِالْقُرْآنِ إِلَى أَرْضِ الْعَدُوِّ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ: «لَا تُسَافِرُوا بِالْقُرْآنِ فَإِنِّي لَا آمن أَن يَنَالهُ الْعَدو»
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قرآن لے کر دشمن کی سر زمین (دار الحرب) کی طرف سفر کرنے سے منع فرمایا۔ بخاری، مسلم۔ اور مسلم کی ایک روایت میں ہے: قرآن لے کر سفر نہ کرو، کیونکہ اگر دشمن (یعنی کافر) اسے پا لے تو مجھے (اس کی بے حرمتی کا) اندیشہ ہے۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2197]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (2990) و مسلم (1869/92)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

--. غریب لوگ امیر لوگوں سے آدھے دن پہلے جنت میں چلے جائیں گے
حدیث نمبر: 2198
عَن أبي سعيد الْخُدْرِيّ قَالَ: جَلَست فِي عِصَابَةٍ مِنْ ضُعَفَاءِ الْمُهَاجِرِينَ وَإِنَّ بَعْضَهُمْ لِيَسْتَتِرُ بِبَعْضٍ مِنَ الْعُرْيِ وَقَارِئٌ يَقْرَأُ عَلَيْنَا إِذْ جَاءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَامَ عَلَيْنَا فَلَمَّا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَكَتَ الْقَارِئُ فَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ: «مَا كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ؟» قُلْنَا: كُنَّا نَسْتَمِعُ إِلَى كتاب الله قَالَ فَقَالَ: «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ مِنْ أُمَّتِي مَنْ أُمِرْتُ أَنْ أَصْبِرَ نَفْسِي مَعَهُمْ» . قَالَ فَجَلَسَ وَسَطَنَا لِيَعْدِلَ بِنَفْسِهِ فِينَا ثُمَّ قَالَ بِيَدِهِ هَكَذَا فَتَحَلَّقُوا وَبَرَزَتْ وُجُوهُهُمْ لَهُ فَقَالَ: «أَبْشِرُوا يَا مَعْشَرَ صَعَالِيكِ الْمُهَاجِرِينَ بِالنُّورِ التَّامِّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَاءِ النَّاسِ بِنصْف يَوْم وَذَاكَ خَمْسمِائَة سنة» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں مہاجرین کی ایک کمروز جماعت کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، اور ان میں سے بعض (عام لباس کی وجہ سے) برہنہ ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے پیچھے چھپے ہوئے تھے اور قاری ہمیں قرآن سنا رہا تھا کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے اور آ کر کھڑے ہو گئے، جب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہو گئے تو قاری خاموش ہو گیا۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سلام کیا اور پھر فرمایا: تم کیا کر رہے تھے؟ ہم نے عرض کیا ہم بغور قرآن کریم سن رہے تھے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے میری امت میں ایسے افراد بنا دیے جن کے پاس ٹھہرنے کا مجھے حکم دیا گیا ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے وسط میں بیٹھ گئے تاکہ آپ ہم سب کو برابر شرف بخش سکیں، پھر آپ نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ فرمایا تو انہوں نے حلقہ بنا لیا اور وہ سب آپ کے سامنے آ گئے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مہاجرین کی جماعت فقراء! تمہیں قیامت کے روز مکمل نور کی خوشخبری ہو، تم مال دار لوگوں سے نصف سال پہلے، اور وہ پانچ سو سال ہے، جنت میں جاؤ گے۔ اسنادہ ضعیف۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2198]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (3666)
٭ العلاء بن بشير: مجھول، و حديث مسلم (2979) و ابن حبان (الموارد: 2566) يغني عنه .»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف


Previous    4    5    6    7    8    9    10    11    Next