الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


مشكوة المصابيح کل احادیث (6294)
حدیث نمبر سے تلاش:

مشكوة المصابيح
كتاب الطب والرقى
كتاب الطب والرقى
--. بدشگونی لینا شرک ہے
حدیث نمبر: 4584
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الطِّيَرَةُ شِرْكٌ» قَالَهُ ثَلَاثًا وَمَا مِنَّا إِلَّا وَلَكِنَّ اللَّهَ يُذْهِبُهُ بِالتَّوَكُّلِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ يَقُولُ: كَانَ سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ يَقُولُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: «وَمَا مِنَّا إِلَّا وَلَكِنَّ اللَّهَ يُذْهِبُهُ بِالتَّوَكُّلِ» . هَذَا عِنْدِي قَوْلُ ابْنِ مَسْعُودٍ
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بدشگونی لینا شرک ہے، آپ نے یہ جملہ تین مرتبہ فرمایا: اور ہم میں سے اگر کسی کے دل میں یہ خیال آتا ہے تو اللہ توکل کے ذریعے اسے ختم کر دیتا ہے۔ ابوداؤد، ترمذی۔ امام ترمذی نے فرمایا: میں نے محمد بن اسماعیل (امام بخاری ؒ) کو بیان کرتے ہوئے سنا: سلیمان بن حرب اس حدیث کے متعلق کہا کرتے تھے: اور ہم میں سے کسی کے دل میں اس کے متعلق خیال آتا ہے تو اللہ توکل کے باعث اسے ختم کر دیتا ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ یہ جملہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ صحیح، رواہ ابوداؤد و الترمذی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الطب والرقى/حدیث: 4584]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «صحيح، رواه أبو داود (3910) و الترمذي (1614)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

--. کوڑھی کو ساتھ کھلانا
حدیث نمبر: 4585
وَعَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِ مَجْذُومٍ فَوَضَعَهَا مَعَهُ فِي الْقَصْعَةِ وَقَالَ: «كُلْ ثِقَةً بِاللَّهِ وَتَوَكُّلًا عَلَيْهِ» . رَوَاهُ ابْن مَاجَه
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجذوم شخص کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ساتھ ہی کھانے کے برتن میں رکھا اور فرمایا: اللہ پر اعتماد و بھروسہ اور توکل کرتے ہوئے کھاؤ۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابن ماجہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الطب والرقى/حدیث: 4585]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه ابن ماجه (3542) [و أبو داود (3925) و الترمذي (1817) ]
٭ فيه مفضل بن فضالة: ضعيف .»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف

--. اِن میں نحوست نہیں
حدیث نمبر: 4586
وَعَن سعدِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا هَامَةَ وَلَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَإِنْ تَكُنِ الطِّيَرَةُ فِي شَيْءٍ فَفِي الدَّارِ وَالْفرس وَالْمَرْأَة» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
سعد بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہ الّو منحوس ہے اور نہ کوئی بیماری متعدی ہے اور نہ ہی کوئی بدشگونی ہے۔ اور اگر بدشگونی (یعنی نحوست) کسی چیز میں ہوتی تو گھر، گھوڑے اور عورت میں ہوتی۔ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الطب والرقى/حدیث: 4586]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه أبو داود (3921)»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

--. اچھے فال کی حقیقت
حدیث نمبر: 4587
وَعَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُعْجِبُهُ إِذَا خَرَجَ لِحَاجَةٍ أَنْ يَسْمَعَ: يَا رَاشِدُ يَا نَجِيحُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب کسی کام کے لیے نکلتے تو آپ یا راشد (راہنمائی پانے والے)، یا نجیح (کامیابی پانے والے) کے الفاظ سننا پسند فرمایا کرتے تھے۔ اسنادہ صحیح، رواہ الترمذی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الطب والرقى/حدیث: 4587]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (1616 وقال: حسن صحيح غريب)
٭ حميد الطويل مدلس و عنعن .
تعديلات [4587] :
إسناده صحيح، رواه الترمذي (1616 وقال: حسن صحيح غريب)»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

--. اچھا نام سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسرت
حدیث نمبر: 4588
وَعَنْ بُرَيْدَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَتَطَيَّرُ مِنْ شَيْءٍ فَإِذَا بَعَثَ عَامِلًا سَأَلَ عَنِ اسْمِهِ فَإِذَا أَعْجَبَهُ اسْمه فَرح بِهِ ورئي بشر ذَلِك على وَجْهِهِ وَإِنْ كَرِهَ اسْمَهُ رُئِيَ كَرَاهِيَةُ ذَلِكَ على وَجْهِهِ وَإِذَا دَخَلَ قَرْيَةً سَأَلَ عَنِ اسْمِهَا فَإِنْ أَعْجَبَهُ اسْمُهَا فَرِحَ بِهِ وَرُئِيَ بِشْرُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ وَإِنْ كَرِهَ اسْمَهَا رُئِيَ كَرَاهِيَة ذَلِك فِي وَجهه. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی چیز سے بدشگونی نہیں لیا کرتے تھے، جب آپ کسی عامل (گورنر و حکمران) کو بھیجتے تو اس کا نام دریافت فرماتے، اگر آپ کو اس کا نام پسند آتا تو آپ اس سے خوش ہوتے اور اس خوشی کے آثار آپ کے چہرے پر نظر آتے، اور اگر آپ اس کا نام ناپسند کرتے تو اس کی ناپسندیدگی آپ کے چہرے پر نظر آتی۔ اور جب آپ کسی بستی میں داخل ہوتے تو اس کا نام دریافت فرماتے، اگر آپ کو اس کا نام اچھا لگتا تو آپ خوش ہوتے اور خوشی کے آثار آپ کے چہرے پر دکھائی دیتے۔ اور اگر اس کے نام کو ناپسند فرماتے تو ناگواری کے اثرات آپ کے چہرے پر نمایاں ہوتے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الطب والرقى/حدیث: 4588]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (3920)
٭ قتادة مدلس و عنعن .»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف

--. جگہ چھوڑنے کا حکم
حدیث نمبر: 4589
وَعَن أنس قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا فِي دَارٍ كَثُرَ فِيهَا عَدَدُنَا وَأَمْوَالُنَا فَتَحَوَّلْنَا إِلَى دَارٍ قَلَّ فِيهَا عَدَدُنَا وَأَمْوَالُنَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذروها ذميمة» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ہم ایک گھر میں تھے جس سے ہمارے افراد اور اموال میں اضافہ ہوا، پھر ہم نے وہ گھر بدل لیا تو ہمارے افراد و اموال میں کمی آ گئی ہے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس گھر کو چھوڑ دو کیونکہ یہ گھر اچھا نہیں۔ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الطب والرقى/حدیث: 4589]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (3924)
٭ عکرمة بن عمار مدلس و عنعن .
تعديلات [4589] :
إسناده صحيح، رواه أبو داود (3924)
٭ عکرمة بن عمار صرح بالسماع عند البزار (البحر الزخار 79/13ح 6427)»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

--. وبائی علاقہ چھوڑنے کا حکم
حدیث نمبر: 4590
وَعَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَحِيرٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي مَنْ سَمِعَ فَرْوَةَ بْنَ مُسَيْكٍ يَقُولُ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ عِنْدَنَا أَرْضٌ يُقَالُ لَهَا أَبْيَنُ وَهِيَ أَرْضُ رِيفِنَا وَمِيرَتِنَا وَإِنَّ وَبَاءَهَا شَدِيدٌ. فَقَالَ: «دَعْهَا عَنْكَ فَإِنَّ من القَرَف التّلف» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
یحیی بن عبداللہ بن بحیر بیان کرتے ہیں، مجھے اس شخص نے بتایا جس نے فروہ بن مسیک کو بیان کرتے ہوئے سنا، وہ کہتے ہیں، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے پاس ابین نامی زمین ہے، ہماری زراعت و معیشت اسی زمین سے وابستہ ہے، لیکن وہاں کی وبا شدید ہے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے چھوڑ دو، کیونکہ بیماری کے قریب رہنا ہلاکت کو دعوت دینا ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الطب والرقى/حدیث: 4590]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (3923)
٭ فيه يحيي بن عبد الله بن بحير: مستور و شيخه مجھول لم يسم .»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف

--. ناپسند چیز دیکھ کر یہ دعا کرے
حدیث نمبر: 4591
عَن عُرْوَة بن عَامر قَالَ: ذُكِرَتِ الطِّيَرَةُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَحْسَنُهَا الْفَأْلُ وَلَا تَرُدُّ مُسْلِمًا فَإِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ مَا يَكْرَهُ فَلْيَقُلْ: اللَّهُمَّ لَا يَأْتِي بِالْحَسَنَاتِ إِلَّا أَنْتَ وَلَا يَدْفَعُ السَّيِّئَاتِ إِلَّا أَنْتَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ
عروہ بن عامر بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بدشگونی کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان میں سے بہتر چیز نیک فال لینا ہے، اور وہ (بدشگونی) کسی مسلمان کو کام سے مت منع کرے، جب تم میں سے کوئی شخص ناپسندیدہ چیز دیکھے تو کہے: اے اللہ! تمام بھلائیاں تو ہی لاتا ہے اور تمام برائیاں تو ہی دور کرتا ہے، ہر قسم کے گناہ سے بچنا اور نیکی کرنا محض تیری توفیق سے ممکن ہے۔ ابوداؤد نے اسے مرسل روایت کیا ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الطب والرقى/حدیث: 4591]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (3919)
٭ سفيان الثوري و حبيب بن أبي ثابت مدلسان و عنعنا .»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف

--. کاہنوں کے پاس جانے کی ممانعت
حدیث نمبر: 4592
عَن مُعَاوِيَة بن الحكم قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أُمُورًا كُنَّا نَصْنَعُهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ كُنَّا نَأْتِي الْكُهَّانَ قَالَ: «فَلَا تَأْتُوا الْكُهَّانَ» قَالَ: قُلْتُ: كُنَّا نَتَطَيَّرُ قَالَ: «ذَلِكَ شَيْءٌ يَجِدُهُ أَحَدُكُمْ فِي نَفْسِهِ فَلَا يصدَّنَّكم» . قَالَ: قُلْتُ: وَمِنَّا رِجَالٌ يَخُطُّونَ قَالَ: «كَانَ نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ يَخُطُّ فَمَنْ وَافَقَ خَطَّهُ فَذَاك» . رَوَاهُ مُسلم
معاویہ بن حکم بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! کچھ ایسے امور و معاملات ہیں جو ہم دور جاہلیت میں کیا کرتے تھے، ہم کاہنوں کے پاس جایا کرتے تھے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم کاہنوں کے پاس نہ جایا کرو۔ وہ بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا: ہم پرندوں کے ذریعے فال لیا کرتے تھے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ ایسی چیز ہے جسے تم میں سے کوئی اپنے دل میں پاتا ہے وہ (فال لینا) تمہیں (کام کرنے سے) نہ روکے۔ وہ بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا: ہم میں سے کچھ ایسے ہیں جو لکیریں کھینچا کرتے تھے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک نبی بھی لکیریں کھینچا کرتے تھے، جس کا خط ان کے خط کے موافق ہو گیا تو وہ ٹھیک ہے۔ رواہ مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الطب والرقى/حدیث: 4592]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (121/ 537)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

--. ایک سچ سو جھوٹ
حدیث نمبر: 4593
وَعَن عَائِشَة قَالَتْ: سَأَلَ أُنَاسٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْكُهَّانِ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّهُمْ لَيْسُوا بِشَيْءٍ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَإِنَّهُمْ يُحَدِّثُونَ أَحْيَانًا بِالشَّيْءِ يَكُونُ حَقًّا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تِلْكَ الْكَلِمَةُ مِنَ الْحَقِّ يَخْطَفُهَا الْجِنِّيُّ فَيَقُرُّهَا فِي أُذُنِ وَلَيِّهِ قَرَّ الدَّجَاجَةِ فَيَخْلِطُونَ فِيهَا أَكْثَرَ مِنْ مِائَةِ كذبة»
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، لوگوں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کاہنوں کے بارے میں دریافت کیا تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں فرمایا: ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ انہوں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! بعض اوقات وہ جو کہتے ہیں، ویسے ہی ہو جاتا ہے، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب کسی سچی بات کو جن (اوپر سے) اچک لیتا ہے تو پھر وہ مرغی کی آواز کی طرح اسے اپنے ساتھی کے کان تک پہنچا دیتا ہے، کاہن لوگ اس میں سو سے زیادہ جھوٹ ملا دیتے ہیں۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الطب والرقى/حدیث: 4593]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (6213) و مسلم (123/ 2228)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه


Previous    4    5    6    7    8    9    10    Next