الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح البخاري کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:

صحيح البخاري
كِتَاب الْعِيدَيْنِ
کتاب: عیدین کے مسائل کے بیان میں
1. بَابٌ في الْعِيدَيْنِ وَالتَّجَمُّلِ فِيهِ:
1. باب: دونوں عیدوں اور ان میں زیب و زینت کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 948
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ: أَخَذَ عُمَرُ جُبَّةً مِنْ إِسْتَبْرَقٍ تُبَاعُ فِي السُّوقِ فَأَخَذَهَا، فَأَتَى بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ابْتَعْ هَذِهِ تَجَمَّلْ بِهَا لِلْعِيدِ وَالْوُفُودِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا هَذِهِ لِبَاسُ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ فَلَبِثَ عُمَرُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَلْبَثَ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجُبَّةِ دِيبَاجٍ، فَأَقْبَلَ بِهَا عُمَرُ، فَأَتَى بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ قُلْتَ إِنَّمَا هَذِهِ لِبَاسُ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ وَأَرْسَلْتَ إِلَيَّ بِهَذِهِ الْجُبَّةِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَبِيعُهَا أَوْ تُصِيبُ بِهَا حَاجَتَكَ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ ایک موٹے ریشمی کپڑے کا چغہ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جو بازار میں بک رہا تھا کہنے لگے: یا رسول اللہ! آپ اسے خرید لیجئے اور عید اور وفود کی پذیرائی کے لیے اسے پہن کر زینت فرمایا کیجئے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو وہ پہنے گا جس کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہیں۔ اس کے بعد جب تک اللہ نے چاہا عمر رہی پھر ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کے پاس ایک ریشمی چغہ تحفہ میں بھیجا۔ عمر رضی اللہ عنہ اسے لیے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یا رسول اللہ! آپ نے تو یہ فرمایا کہ اس کو وہ پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں پھر آپ نے یہ میرے پاس کیوں بھیجا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اسے تیرے پہننے کو نہیں بھیجا بلکہ اس لیے کہ تم اسے بیچ کر اس کی قیمت اپنے کام میں لاؤ۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِيدَيْنِ/حدیث: 948]
2. بَابُ الْحِرَابِ وَالدَّرَقِ يَوْمَ الْعِيدِ:
2. باب: عید کے دن برچھیوں اور ڈھالوں سے کھیلنا۔
حدیث نمبر: 949
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَمْرٌو، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَسَدِيّ حَدَّثَهُ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ تُغَنِّيَانِ بِغِنَاءِ بُعَاثَ، فَاضْطَجَعَ عَلَى الْفِرَاشِ وَحَوَّلَ وَجْهَهُ وَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ فَانْتَهَرَنِي وَقَالَ: مِزْمَارَةُ الشَّيْطَانِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلَام، فَقَالَ: دَعْهُمَا، فَلَمَّا غَفَلَ غَمَزْتُهُمَا فَخَرَجَتَا.
ہم سے احمد بن عیسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عمرو بن حارث نے خبر دی کہ محمد بن عبدالرحمٰن اسدی نے ان سے بیان کیا، ان سے عروہ نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے، انہوں نے بتلایا کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اس وقت میرے پاس (انصار کی) دو لڑکیاں جنگ بعاث کے قصوں کی نظمیں پڑھ رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بستر پر لیٹ گئے اور اپنا چہرہ دوسری طرف پھیر لیا۔ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور مجھے ڈانٹا اور فرمایا کہ یہ شیطانی باجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں؟ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ جانے دو خاموش رہو پھر جب ابوبکر رضی اللہ عنہ دوسرے کام میں لگ گئے تو میں نے انہیں اشارہ کیا اور وہ چلی گئیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِيدَيْنِ/حدیث: 949]
حدیث نمبر: 950
وَكَانَ يَوْمَ عِيدٍ يَلْعَبُ السُّودَانُ بِالدَّرَقِ وَالْحِرَابِ فَإِمَّا سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِمَّا قَالَ: تَشْتَهِينَ تَنْظُرِينَ فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَأَقَامَنِي وَرَاءَهُ خَدِّي عَلَى خَدِّهِ وَهُوَ يَقُولُ: دُونَكُمْ يَا بَنِي أَرْفِدَةَ حَتَّى إِذَا مَلِلْتُ، قَالَ: حَسْبُكِ، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَاذْهَبِي".
‏‏‏‏ اور یہ عید کا دن تھا۔ حبشہ کے کچھ لوگ ڈھالوں اور برچھوں سے کھیل رہے تھے۔ اب خود میں نے کہا یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم یہ کھیل دیکھو گی؟ میں نے کہا جی ہاں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا۔ میرا رخسار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار پر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کھیلو کھیلو اے بنی ارفدہ یہ حبشہ کے لوگوں کا لقب تھا پھر جب میں تھک گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بس! میں نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِيدَيْنِ/حدیث: 950]
3. بَابُ سُنَّةِ الْعِيدَيْنِ لأَهْلِ الإِسْلاَمِ:
3. باب: اس بارے میں کہ مسلمانوں کے لیے عید کے دن پہلی سنت کیا ہے؟
حدیث نمبر: 951
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي زُبَيْدٌ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ، عَنْ الْبَرَاءِ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ، فَقَالَ:" إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ مِنْ يَوْمِنَا هَذَا أَنْ نُصَلِّيَ، ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ، فَمَنْ فَعَلَ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا".
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہیں زبید بن حارث نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے شعبی سے سنا، ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے دن خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ پہلا کام جو ہم آج کے دن (عید الاضحیٰ) میں کرتے ہیں، یہ ہے کہ پہلے ہم نماز پڑھیں پھر واپس آ کر قربانی کریں۔ جس نے اس طرح کیا وہ ہمارے طریق پر چلا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِيدَيْنِ/حدیث: 951]
حدیث نمبر: 952
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ مِنْ جَوَارِي الْأَنْصَارِ تُغَنِّيَانِ بِمَا تَقَاوَلَتْ الْأَنْصَارُ يَوْمَ بُعَاثَ، قَالَتْ: وَلَيْسَتَا بِمُغَنِّيَتَيْنِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَمَزَامِيرُ الشَّيْطَانِ فِي بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَلِكَ فِي يَوْمِ عِيدٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَا بَكْرٍ إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا وَهَذَا عِيدُنَا".
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے باپ (عروہ بن زبیر) نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے، آپ نے بتلایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں وہ اشعار گا رہی تھیں جو انصار نے بعاث کی جنگ کے موقع پر کہے تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ گانے والیاں نہیں تھیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں یہ شیطانی باجے اور یہ عید کا دن تھا آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا اے ابوبکر! ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج یہ ہماری عید ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِيدَيْنِ/حدیث: 952]
4. بَابُ الأَكْلِ يَوْمَ الْفِطْرِ قَبْلَ الْخُرُوجِ:
4. باب: عیدالفطر میں نماز کے لیے جانے سے پہلے کچھ کھا لینا۔
حدیث نمبر: 953
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَغْدُو يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يَأْكُلَ تَمَرَاتٍ"، وَقَالَ مُرَجَّى بْنُ رَجَاءٍ: حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَنَسٌ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَأْكُلُهُنَّ وِتْرًا.
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا کہ ہم کو سعید بن سلیمان نے خبر دی کہ ہمیں ہشیم بن بشیر نے خبر دی، کہا کہ ہمیں عبداللہ بن ابی بکر بن انس نے خبر دی اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے، آپ نے بتلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر کے دن نہ نکلتے جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چند کھجوریں نہ کھا لیتے اور مرجی بن رجاء نے کہا کہ مجھ سے عبیداللہ بن ابی بکر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، پھر یہی حدیث بیان کی کہ آپ طاق عدد کھجوریں کھاتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِيدَيْنِ/حدیث: 953]
5. بَابُ الأَكْلِ يَوْمَ النَّحْرِ:
5. باب: بقرہ عید کے دن کھانا۔
حدیث نمبر: 954
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَلْيُعِدْ، فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: هَذَا يَوْمٌ يُشْتَهَى فِيهِ اللَّحْمُ وَذَكَرَ مِنْ جِيرَانِهِ، فَكَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَّقَهُ، قَالَ: وَعِنْدِي جَذَعَةٌ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ شَاتَيْ لَحْمٍ، فَرَخَّصَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَا أَدْرِي أَبَلَغَتِ الرُّخْصَةُ مَنْ سِوَاهُ أَمْ لَا".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے ایوب سختیانی سے، انہوں نے محمد بن سیرین سے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص نماز سے پہلے قربانی کر دے اسے دوبارہ کرنی چاہیے۔ اس پر ایک شخص (ابوبردہ) نے کھڑے ہو کر کہا کہ یہ ایسا دن ہے جس میں گوشت کی خواہش زیادہ ہوتی ہے اور اس نے اپنے پڑوسیوں کی تنگی کا حال بیان کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سچا سمجھا اس شخص نے کہا کہ میرے پاس ایک سال کی پٹھیا ہے جو گوشت کی دو بکریوں سے بھی مجھے زیادہ پیاری ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اسے اجازت دے دی کہ وہی قربانی کرے۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ یہ اجازت دوسروں کے لیے بھی ہے یا نہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِيدَيْنِ/حدیث: 954]
حدیث نمبر: 955
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: خَطَبَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْأَضْحَى بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَقَالَ:" مَنْ صَلَّى صَلَاتَنَا وَنَسَكَ نُسُكَنَا فَقَدْ أَصَابَ النُّسُكَ، وَمَنْ نَسَكَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَإِنَّهُ قَبْلَ الصَّلَاةِ وَلَا نُسُكَ لَهُ، فَقَالَ أَبُو بُرْدَةَ بْنُ نِيَارٍ خَالُ الْبَرَاءِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَإِنِّي نَسَكْتُ شَاتِي قَبْلَ الصَّلَاةِ وَعَرَفْتُ أَنَّ الْيَوْمَ يَوْمُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ وَأَحْبَبْتُ أَنْ تَكُونَ شَاتِي أَوَّلَ مَا يُذْبَحُ فِي بَيْتِي فَذَبَحْتُ شَاتِي وَتَغَدَّيْتُ قَبْلَ أَنْ آتِيَ الصَّلَاةَ، قَالَ: شَاتُكَ شَاةُ لَحْمٍ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَإِنَّ عِنْدَنَا عَنَاقًا لَنَا جَذَعَةً هِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ شَاتَيْنِ أَفَتَجْزِي عَنِّي، قَالَ: نَعَمْ، وَلَنْ تَجْزِيَ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ".
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے شعبی نے، ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہما نے، آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی کی نماز کے بعد خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جس شخص نے ہماری نماز کی طرح نماز پڑھی اور ہماری قربانی کی طرح قربانی کی اس کی قربانی صحیح ہوئی لیکن جو شخص نماز سے پہلے قربانی کرے وہ نماز سے پہلے ہی گوشت کھاتا ہے مگر وہ قربانی نہیں۔ براء کے ماموں ابو بردہ بن نیار یہ سن کر بولے کہ یا رسول اللہ! میں نے اپنی بکری کی قربانی نماز سے پہلے کر دی میں نے سوچا کہ یہ کھانے پینے کا دن ہے میری بکری اگر گھر کا پہلا ذبیحہ بنے تو بہت اچھا ہو۔ اس خیال سے میں نے بکری ذبح کر دی اور نماز سے پہلے ہی اس کا گوشت بھی کھا لیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تمہاری بکری گوشت کی بکری ہوئی۔ ابوبردہ بن نیار نے عرض کیا کہ میرے پاس ایک سال کی پٹھیا ہے اور وہ مجھے گوشت کی دو بکریوں سے بھی عزیز ہے، کیا اس سے میری قربانی ہو جائے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں لیکن تمہارے بعد کسی کی قربانی اس عمر کے بچے سے کافی نہ ہو گی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِيدَيْنِ/حدیث: 955]
6. بَابُ الْخُرُوجِ إِلَى الْمُصَلَّى بِغَيْرِ مِنْبَرٍ:
6. باب: عیدگاہ میں خالی جانا منبر نہ لے جانا۔
حدیث نمبر: 956
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى إِلَى الْمُصَلَّى، فَأَوَّلُ شَيْءٍ يَبْدَأُ بِهِ الصَّلَاةُ، ثُمَّ يَنْصَرِفُ فَيَقُومُ مُقَابِلَ النَّاسِ وَالنَّاسُ جُلُوسٌ عَلَى صُفُوفِهِمْ فَيَعِظُهُمْ وَيُوصِيهِمْ وَيَأْمُرُهُمْ، فَإِنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَقْطَعَ بَعْثًا قَطَعَهُ أَوْ يَأْمُرَ بِشَيْءٍ أَمَرَ بِهِ، ثُمَّ يَنْصَرِفُ"، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَلَمْ يَزَلِ النَّاسُ عَلَى ذَلِكَ حَتَّى خَرَجْتُ مَعَ مَرْوَانَ وَهُوَ أَمِيرُ الْمَدِينَةِ فِي أَضْحًى أَوْ فِطْرٍ، فَلَمَّا أَتَيْنَا الْمُصَلَّى إِذَا مِنْبَرٌ بَنَاهُ كَثِيرُ بْنُ الصَّلْتِ، فَإِذَا مَرْوَانُ يُرِيدُ أَنْ يَرْتَقِيَهُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ فَجَبَذْتُ بِثَوْبِهِ فَجَبَذَنِي، فَارْتَفَعَ فَخَطَبَ قَبْلَ الصَّلَاةِ، فَقُلْتُ لَهُ: غَيَّرْتُمْ وَاللَّهِ، فَقَالَ أَبَا سَعِيدٍ: قَدْ ذَهَبَ مَا تَعْلَمُ، فَقُلْتُ: مَا أَعْلَمُ وَاللَّهِ خَيْرٌ مِمَّا لَا أَعْلَمُ، فَقَالَ: إِنَّ النَّاسَ لَمْ يَكُونُوا يَجْلِسُونَ لَنَا بَعْدَ الصَّلَاةِ فَجَعَلْتُهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ.
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے زید بن اسلم نے خبر دی، انہیں عیاض بن عبداللہ بن ابی سرح نے، انہیں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے، آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر اور عید الاضحی کے دن (مدینہ کے باہر) عیدگاہ تشریف لے جاتے تو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھاتے، نماز سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سامنے کھڑے ہوتے۔ تمام لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں وعظ و نصیحت فرماتے، اچھی باتوں کا حکم دیتے۔ اگر جہاد کے لیے کہیں لشکر بھیجنے کا ارادہ ہوتا تو اس کو الگ کرتے۔ کسی اور بات کا حکم دینا ہوتا تو وہ حکم دیتے۔ اس کے بعد شہر کو واپس تشریف لاتے۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ لوگ برابر اسی سنت پر قائم رہے لیکن معاویہ کے زمانہ میں مروان جو مدینہ کا حاکم تھا پھر میں اس کے ساتھ عیدالفطر یا عید الاضحی کی نماز کے لیے نکلا ہم جب عیدگاہ پہنچے تو وہاں میں نے کثیر بن صلت کا بنا ہوا ایک منبر دیکھا۔ جاتے ہی مروان نے چاہا کہ اس پر نماز سے پہلے (خطبہ دینے کے لیے) چڑھے اس لیے میں نے ان کا دامن پکڑ کر کھینچا اور لیکن وہ جھٹک کر اوپر چڑھ گیا اور نماز سے پہلے خطبہ دیا۔ میں نے اس سے کہا کہ واللہ تم نے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو) بدل دیا۔ مروان نے کہا کہ اے ابوسعید! اب وہ زمانہ گزر گیا جس کو تم جانتے ہو۔ ابوسعید نے کہا کہ بخدا میں جس زمانہ کو جانتا ہوں اس زمانہ سے بہتر ہے جو میں نہیں جانتا۔ مروان نے کہا کہ ہمارے دور میں لوگ نماز کے بعد نہیں بیٹھتے، اس لیے میں نے نماز سے پہلے خطبہ کو کر دیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِيدَيْنِ/حدیث: 956]
7. بَابُ الْمَشْيِ وَالرُّكُوبِ إِلَى الْعِيدِ بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلاَ إِقَامَةٍ:
7. باب: نماز عید کے لیے پیدل یا سوار ہو کر جانا اور نماز کا، خطبہ سے پہلے، اذان اور اقامت کے بغیر ہونا۔
حدیث نمبر: 957
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي فِي الْأَضْحَى وَالْفِطْرِ ثُمَّ يَخْطُبُ بَعْدَ الصَّلَاةِ".
ہم سے ابراہیم بن المنذر حزامی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا، انہوں نے عبیداللہ بن عمر سے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحی اور عیدالفطر کی نماز پہلے پڑھتے پھر نماز کے بعد خطبہ دیتے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِيدَيْنِ/حدیث: 957]

1    2    3    4    5    Next