الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح البخاري کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:

صحيح البخاري
كِتَاب الْعِلْمِ
کتاب: علم کے بیان میں
1. بَابُ فَضْلِ الْعِلْمِ:
1. باب: علم کی فضیلت کے بیان میں۔
حدیث نمبر: Q59
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ}. وَقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا}.
‏‏‏‏ جو تم میں ایماندار ہیں اور جن کو علم دیا گیا ہے اللہ ان کے درجات بلند کرے گا اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ طہٰ میں) فرمایا (کہ یوں دعا کیا کرو) پروردگار مجھ کو علم میں ترقی عطا فرما۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: Q59]
2. بَابُ مَنْ سُئِلَ عِلْمًا وَهُوَ مُشْتَغِلٌ فِي حَدِيثِهِ فَأَتَمَّ الْحَدِيثَ ثُمَّ أَجَابَ السَّائِلَ:
2. باب: اس بیان میں کہ جس شخص سے علم کی کوئی بات پوچھی جائے اور وہ اپنی کسی دوسری بات میں مشغول ہو پس (ادب کا تقاضا ہے کہ) وہ پہلے اپنی بات پوری کر لے پھر پوچھنے والے کو جواب دے۔
حدیث نمبر: 59
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ. ح وحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُلَيْحٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنِي هِلَالُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:" بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَجْلِسٍ يُحَدِّثُ الْقَوْمَ جَاءَهُ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: مَتَى السَّاعَةُ؟ فَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: سَمِعَ مَا قَالَ، فَكَرِهَ مَا قَالَ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: بَلْ لَمْ يَسْمَعْ، حَتَّى إِذَا قَضَى حَدِيثَهُ، قَالَ: أَيْنَ أُرَاهُ السَّائِلُ عَنِ السَّاعَةِ؟ قَالَ: هَا أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَإِذَا ضُيِّعَتِ الْأَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ، قَالَ: كَيْفَ إِضَاعَتُهَا؟ قَالَ: إِذَا وُسِّدَ الْأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ".
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، کہا ہم سے فلیح نے بیان کیا (دوسری سند) اور مجھ سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا ہم سے فلیح نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے باپ (فليح بن سليمان الأسلمي) نے بیان کیا، کہا ہلال بن علی نے، انہوں نے عطاء بن یسار سے نقل کیا، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں بیٹھے ہوئے ان سے باتیں کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک دیہاتی آپ کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گفتگو میں مصروف رہے۔ بعض لوگ (جو مجلس میں تھے) کہنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیہاتی کی بات سنی لیکن پسند نہیں کی اور بعض کہنے لگے کہ نہیں بلکہ آپ نے اس کی بات سنی ہی نہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی باتیں پوری کر چکے تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا وہ قیامت کے بارے میں پوچھنے والا کہاں گیا اس (دیہاتی) نے کہا (یا رسول اللہ!) میں موجود ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امانت (ایمانداری دنیا سے) اٹھ جائے تو قیامت قائم ہونے کا انتظار کر۔ اس نے کہا ایمانداری اٹھنے کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب (حکومت کے کاروبار) نالائق لوگوں کو سونپ دئیے جائیں تو قیامت کا انتظار کر۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 59]
3. بَابُ مَنْ رَفَعَ صَوْتَهُ بِالْعِلْمِ:
3. باب: اس کے بارے میں جس نے علمی مسائل کے لیے اپنی آواز کو بلند کیا۔
حدیث نمبر: 60
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ عَارِمُ بْنُ الْفَضْلِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: تَخَلَّفَ عَنَّا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفْرَةٍ سَافَرْنَاهَا، فَأَدْرَكَنَا وَقَدْ أَرْهَقَتْنَا الصَّلَاةُ وَنَحْنُ نَتَوَضَّأُ، فَجَعَلْنَا نَمْسَحُ عَلَى أَرْجُلِنَا، فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ:" وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا".
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے ابوبشر سے بیان کیا، انہوں نے یوسف بن ماہک سے، انہوں نے عبداللہ بن عمرو سے، انہوں نے کہا ایک سفر میں جو ہم نے کیا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اس وقت ملے جب (عصر کی) نماز کا وقت آن پہنچا تھا ہم (جلدی جلدی) وضو کر رہے تھے۔ پس پاؤں کو خوب دھونے کے بدل ہم یوں ہی سا دھو رہے تھے۔ (یہ حال دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے پکارا دیکھو ایڑیوں کی خرابی دوزخ سے ہونے والی ہے دو یا تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یوں ہی بلند آواز سے) فرمایا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 60]
4. بَابُ قَوْلِ الْمُحَدِّثِ حَدَّثَنَا أَوْ أَخْبَرَنَا وَأَنْبَأَنَا:
4. باب: محدث کا لفظ «حدثنا أو، أخبرنا وأنبأنا» استعمال کرنا صحیح ہے۔
حدیث نمبر: Q61
وَقَالَ لَنَا الْحُمَيْدِيُّ كَانَ عِنْدَ ابْنِ عُيَيْنَةَ حَدَّثَنَا وَأَخْبَرَنَا وَأَنْبَأَنَا وَسَمِعْتُ وَاحِدًا. وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ. وَقَالَ شَقِيقٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلِمَةً. وَقَالَ حُذَيْفَةُ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَيْنِ. وَقَالَ أَبُو الْعَالِيَةِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَرْوِي عَنْ رَبِّهِ. وَقَالَ أَنَسٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْوِيهِ عَنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ. وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْوِيهِ عَنْ رَبِّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ.
جیسا کہ امام حمیدی نے کہا کہ ابن عیینہ کے نزدیک الفاظ «حدثنا» اور «اخبرنا» اور «انبانا» اور «سمعت» ایک ہی تھے اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی یوں ہی کہا «حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم» درحالیکہ آپ سچوں کے سچے تھے۔ اور شقیق نے عبداللہ بن مسعود سے نقل کیا، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی اور حذیفہ نے کہا کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو حدیثیں بیان کیں اور ابوالعالیہ نے روایت کیا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردگار سے اور انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردگار سے۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔ کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو تمہارے رب اللہ تبارک وتعالیٰ سے روایت کرتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: Q61]
حدیث نمبر: 61
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لَا يَسْقُطُ وَرَقُهَا وَإِنَّهَا مَثَلُ الْمُسْلِمِ، فَحَدِّثُونِي مَا هِيَ؟ فَوَقَعَ النَّاسُ فِي شَجَرِ الْبَوَادِي، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: وَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ، ثُمَّ قَالُوا: حَدِّثْنَا مَا هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: هِيَ النَّخْلَةُ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن دینار سے، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درختوں میں ایک درخت ایسا ہے کہ اس کے پتے نہیں جھڑتے اور مسلمان کی مثال اسی درخت کی سی ہے۔ بتاؤ وہ کون سا درخت ہے؟ یہ سن کر لوگوں کا خیال جنگل کے درختوں کی طرف دوڑا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ مگر میں اپنی (کم سنی کی) شرم سے نہ بولا۔ آخر صحابہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے پوچھا کہ وہ کون سا درخت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ کھجور کا درخت ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 61]
5. بَابُ طَرْحِ الإِمَامِ الْمَسْأَلَةَ عَلَى أَصْحَابِهِ لِيَخْتَبِرَ مَا عِنْدَهُمْ مِنَ الْعِلْمِ:
5. باب: استاد اپنے شاگردوں کا علم آزمانے کے لیے ان سے کوئی سوال کرے (یعنی امتحان لینے کا بیان)۔
حدیث نمبر: 62
حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لَا يَسْقُطُ وَرَقُهَا وَإِنَّهَا مَثَلُ الْمُسْلِمِ، حَدِّثُونِي مَا هِيَ؟ قَالَ: فَوَقَعَ النَّاسُ فِي شَجَرِ الْبَوَادِي، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ فَاسْتَحْيَيْتُ، ثُمَّ قَالُوا: حَدِّثْنَا مَا هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: هِيَ النَّخْلَةُ".
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ (ایک مرتبہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے کہ اس کے پتے نہیں جھڑتے اور مسلمان کی بھی یہی مثال ہے بتلاؤ وہ کون سا درخت ہے؟ یہ سن کر لوگوں کے خیالات جنگل کے درختوں میں چلے گئے۔ عبداللہ نے کہا کہ میرے دل میں آیا کہ بتلا دوں کہ وہ کھجور کا درخت ہے لیکن (وہاں بہت سے بزرگ موجود تھے اس لیے) مجھ کو شرم آئی۔ آخر صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ہی بیان فرما دیجیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 62]
6. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْعِلْمِ:
6. باب: شاگرد کا استاد کے سامنے پڑھنا اور اس کو سنانا۔
حدیث نمبر: Q63-2
وَقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا} الْقِرَاءَةُ وَالْعَرْضُ عَلَى الْمُحَدِّثِ. وَرَأَى الْحَسَنُ وَالثَّوْرِيُّ وَمَالِكٌ الْقِرَاءَةَ جَائِزَةً، وَاحْتَجَّ بَعْضُهُمْ فِي الْقِرَاءَةِ عَلَى الْعَالِمِ بِحَدِيثِ ضِمَامِ بْنِ ثَعْلَبَةَ قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ نُصَلِّيَ الصَّلَوَاتِ قَالَ: «نَعَمْ» . قَالَ فَهَذِهِ قِرَاءَةٌ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَ ضِمَامٌ قَوْمَهُ بِذَلِكَ فَأَجَازُوهُ. وَاحْتَجَّ مَالِكٌ بِالصَّكِّ يُقْرَأُ عَلَى الْقَوْمِ فَيَقُولُونَ أَشْهَدَنَا فُلاَنٌ. وَيُقْرَأُ ذَلِكَ قِرَاءَةً عَلَيْهِمْ، وَيُقْرَأُ عَلَى الْمُقْرِئِ فَيَقُولُ الْقَارِئُ أَقْرَأَنِي فُلاَنٌ.
‏‏‏‏ اور امام حسن بصری اور سفیان ثوری اور مالک نے شاگرد کے پڑھنے کو جائز کہا ہے اور بعض نے استاد کے سامنے پڑھنے کی دلیل ضمام بن ثعلبہ کی حدیث سے لی ہے۔ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم فرمایا ہے کہ ہم لوگ نماز پڑھا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ تو یہ (گویا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھنا ہی ٹھہرا۔ ضمام نے پھر جا کر اپنی قوم سے یہ بیان کیا تو انہوں نے اس کو جائز رکھا۔ اور امام مالک نے دستاویز سے دلیل لی جو قوم کے سامنے پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم کو فلاں شخص نے دستاویز پر گواہ کیا اور پڑھنے والا پڑھ کر استاد کو سناتا ہے پھر کہتا ہے مجھ کو فلاں نے پڑھایا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: Q63-2]
حدیث نمبر: Q63
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْوَاسِطِيُّ عَنْ عَوْفٍ عَنِ الْحَسَنِ قَالَ لاَ بَأْسَ بِالْقِرَاءَةِ عَلَى الْعَالِمِ. وَأَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفِرَبْرِيُّ وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْبُخَارِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ سُفْيَانَ قَالَ إِذَا قُرِئَ عَلَى الْمُحَدِّثِ فَلاَ بَأْسَ أَنْ يَقُولَ حَدَّثَنِي. قَالَ وَسَمِعْتُ أَبَا عَاصِمٍ يَقُولُ عَنْ مَالِكٍ وَسُفْيَانَ الْقِرَاءَةُ عَلَى الْعَالِمِ وَقِرَاءَتُهُ سَوَاءٌ.
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن حسن واسطی نے بیان کیا، کہا انہوں نے عوف سے، انہوں نے حسن بصری سے، انہوں نے کہا عالم کے سامنے پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اور ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے سفیان ثوری سے سنا، وہ کہتے تھے جب کوئی شخص محدث کو حدیث پڑھ کر سنائے تو کچھ قباحت نہیں اگر یوں کہے کہ اس نے مجھ سے بیان کیا۔ اور میں نے ابوعاصم سے سنا، وہ امام مالک اور سفیان ثوری کا قول بیان کرتے تھے کہ عالم کو پڑھ کر سنانا اور عالم کا شاگردوں کے سامنے پڑھنا دونوں برابر ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: Q63]
حدیث نمبر: 63
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدٍ هُوَ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِك، يَقُولُ:" بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ، دَخَلَ رَجُلٌ عَلَى جَمَلٍ فَأَنَاخَهُ فِي الْمَسْجِدِ، ثُمَّ عَقَلَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُمْ: أَيُّكُمْ مُحَمَّدٌ؟ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكِئٌ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ، فَقُلْنَا: هَذَا الرَّجُلُ الْأَبْيَضُ الْمُتَّكِئُ، فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: يَا ابْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ أَجَبْتُكَ، فَقَالَ الرَّجُلُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي سَائِلُكَ، فَمُشَدِّدٌ عَلَيْكَ فِي الْمَسْأَلَةِ فَلَا تَجِدْ عَلَيَّ فِي نَفْسِكَ، فَقَالَ: سَلْ عَمَّا بَدَا لَكَ، فَقَالَ: أَسْأَلُكَ بِرَبِّكَ وَرَبِّ مَنْ قَبْلَكَ، آللَّهُ أَرْسَلَكَ إِلَى النَّاسِ كُلِّهِمْ؟ فَقَالَ: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ نُصَلِّيَ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ؟ قَالَ: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ نَصُومَ هَذَا الشَّهْرَ مِنَ السَّنَةِ، قَالَ: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ تَأْخُذَ هَذِهِ الصَّدَقَةَ مِنْ أَغْنِيَائِنَا فَتَقْسِمَهَا عَلَى فُقَرَائِنَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ نَعَمْ، فَقَالَ الرَّجُلُ: آمَنْتُ بِمَا جِئْتَ بِهِ، وَأَنَا رَسُولُ مَنْ وَرَائِي مِنْ قَوْمِي، وَأَنَا ضِمَامُ بْنُ ثَعْلَبَةَ أَخُو بَنِي سَعْدِ بْنِ بَكْرٍ"، وَرَوَاهُ مُوسَى، وَعَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، انہوں نے سعید مقبری سے، انہوں نے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر سے، انہوں نے انس بن مالک سے سنا کہ ایک بار ہم مسجد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک شخص اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور اونٹ کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا۔ پھر پوچھنے لگا (بھائیو) تم لوگوں میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کون سے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت لوگوں میں تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے کہا () محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) یہ سفید رنگ والے بزرگ ہیں جو تکیہ لگائے ہوئے تشریف فرما ہیں۔ تب وہ آپ سے مخاطب ہوا کہ اے عبدالمطلب کے فرزند! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کہو میں آپ کی بات سن رہا ہوں۔ وہ بولا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ دینی باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں اور ذرا سختی سے بھی پوچھوں گا تو آپ اپنے دل میں برا نہ مانئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں جو تمہارا دل چاہے پوچھو۔ تب اس نے کہا کہ میں آپ کو آپ کے رب اور اگلے لوگوں کے رب تبارک وتعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ کو اللہ نے دنیا کے سب لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! پھر اس نے کہا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات دن میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! پھر کہنے لگا میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ سال بھر میں اس مہینہ رمضان کے روزے رکھو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! پھر کہنے لگا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ ہم میں سے جو مالدار لوگ ہیں ان سے زکوٰۃ وصول کر کے ہمارے محتاجوں میں بانٹ دیا کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! تب وہ شخص کہنے لگا جو حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پاس سے لائے ہیں، میں ان پر ایمان لایا اور میں اپنی قوم کے لوگوں کا جو یہاں نہیں آئے ہیں بھیجا ہوا (تحقیق حال کے لیے) آیا ہوں۔ میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے، میں بنی سعد بن بکر کے خاندان سے ہوں۔ اس حدیث کو (لیث کی طرح) موسیٰ اور علی بن عبدالحمید نے سلیمان سے روایت کیا، انہوں نے ثابت سے، انہوں نے انس سے، انہوں نے یہی مضمون نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 63]
حدیث نمبر: Q64-2
حدثنا موسي بن اسمعيل قال حدثنا سليمان بن المغير ة قال حدثنا قال حدثنا ثابت عن انس قال نهينا في القرآن ان نسال النبي صلي الله عليه وسلم وکان يعجبنا ان يجئ الرجل من اهل البادية فساله ونحن نسمع فجائ رجل من اهل البادية فساله فقال اتانا رسولک فاخبر نا انک تزعم ان الله عزوجل ارسلک قال صدق فقال فمن خلق السمائ قال الله عزوجل قال فمن خلق الارض والجبال قال الله عزوجل قال فمن جعل فيها المنافع قال الله عزوجل قال فقاالذي خلق السمائ وخلق الارض و نصب الجبال وجعل فيها المنافع الله ارسلک قال نعم قال زعم رسو لک ان علينا خمس صلوات وزکوة في اموالنا قال صدق قال بالذي ارسلک الله امرک بهذا قال نعم قال وزعم رسولک ان علينا حج البيت من استطاع اليه سبيلا قال صدق قال بالذي ارسلک الله امرک بهذا قال نعم قال فوالذي بعثک بالحق لا ازيد عليهن شيئا ولاانقص فقال النبي صلي الله عليه وسلم ان صدق ليد خلن الجنة
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن مغیرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ثابت نے انس سے نقل کیا، انہوں نے فرمایا کہ ہم کو قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنے سے منع کر دیا گیا تھا اور ہم کو اسی لیے یہ بات پسند تھی کہ کوئی ہوشیار دیہاتی آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دینی امور پوچھے اور ہم سنیں۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک دیہاتی آیا اور اس نے کہا کہ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !) ہمارے ہاں آپ کا مبلغ گیا تھا۔ جس نے ہم کو خبر دی کہ اللہ نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے، ایسا آپ کا خیال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے بالکل سچ کہا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کہ آسمان کس نے پیدا کئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے پوچھا کہ زمین کس نے پیدا کی ہے اور پہاڑ کس نے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے پوچھا کہ ان میں نفع دینے والی چیزیں کس نے پیدا کی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے کہا کہ پس اس ذات کی قسم دے کر آپ سے پوچھتا ہوں جس نے زمین و آسمان اور پہاڑوں کو پیدا کیا اور اس میں منافع پیدا کئے کہ کیا اللہ عزوجل نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ہاں بالکل سچ ہے۔ (اللہ نے مجھ کو رسول بنایا ہے) پھر اس نے کہا کہ آپ کے مبلغ نے بتلایا ہے کہ ہم پر پانچ وقت کی نمازیں اور مال سے زکوٰۃ ادا کرنا اسلامی فرائض ہیں، کیا یہ درست ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اس نے بالکل سچ کہا ہے۔ پھر اس نے کہا آپ کو اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنایا ہے کیا اللہ پاک ہی نے آپ کو ان چیزوں کا حکم فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں بالکل درست ہے۔ پھر وہ بولا آپ کے قاصد کا خیال ہے کہ ہم میں سے جو طاقت رکھتا ہو اس پر بیت اللہ کا حج فرض ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں وہ سچا ہے۔ پھر وہ بولا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا کہ کیا اللہ ہی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم فرمایا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں۔ پھر وہ کہنے لگا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا میں ان باتوں پر کچھ زیادہ کروں گا نہ کم کروں گا۔ (بلکہ ان ہی کے مطابق اپنی زندگی گزاروں گا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اس نے اپنی بات کو سچ کر دکھایا تو وہ ضرور ضرور جنت میں داخل ہو جائے گا۔ (نوٹ: صنعانی نے کہا یہ حدیث اس مقام پر اسی ایک نسخہ بخاری میں ہے جو فربری پر پڑھا گیا اور کسی نسخہ میں نہیں ہے)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: Q64-2]

1    2    3    4    5    Next