الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح البخاري کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:

صحيح البخاري
كِتَاب الْمُزَارَعَةِ
کتاب: کھیتی باڑی اور بٹائی کا بیان
1. بَابُ فَضْلِ الزَّرْعِ وَالْغَرْسِ إِذَا أُكِلَ مِنْهُ:
1. باب: کھیت بونے اور درخت لگانے کی فضیلت جس سے لوگ کھائیں۔
حدیث نمبر: Q2320
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَحْرُثُونَ {63} أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ {64} لَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَاهُ حُطَامًا سورة الواقعة آية 62-64.
‏‏‏‏ اور (سورۃ الواقعہ میں) اللہ تعالیٰ کا فرمان «أفرأيتم ما تحرثون * أأنتم تزرعونه أم نحن الزارعون * لو نشاء لجعلناه حطاما‏» یہ تو بتاؤ جو تم بوتے ہو کیا اسے تم اگاتے ہو، یا اس کے اگانے والے ہم ہیں، اگر ہم چاہیں تو اسے چورا چورا بنا دیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمُزَارَعَةِ/حدیث: Q2320]
حدیث نمبر: 2320
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ. ح وحَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ إِلَّا كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ". وَقَالَ لَنَا مُسْلِمٌ: حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، (دوسری سند) اور مجھ سے عبدالرحمٰن بن مبارک نے بیان کیا ان سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کوئی بھی مسلمان جو ایک درخت کا پودا لگائے یا کھیتی میں بیج بوئے، پھر اس میں سے پرند یا انسان یا جانور جو بھی کھاتے ہیں وہ اس کی طرف سے صدقہ ہے مسلم نے بیان کیا کہ ہم سے ابان نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمُزَارَعَةِ/حدیث: 2320]
2. بَابُ مَا يُحْذَرُ مِنْ عَوَاقِبِ الاِشْتِغَالِ بِآلَةِ الزَّرْعِ أَوْ مُجَاوَزَةِ الْحَدِّ الَّذِي أُمِرَ بِهِ:
2. باب: کھیتی کے سامان میں بہت زیادہ مصروف رہنا یا حد سے زیادہ اس میں لگ جانا، اس کا انجام برا ہے۔
حدیث نمبر: 2321
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَالِمٍ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ الْأَلْهَانِيُّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ، قَالَ: وَرَأَى سِكَّةً وَشَيْئًا مِنْ آلَةِ الْحَرْثِ، فَقَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا يَدْخُلُ هَذَا بَيْتَ قَوْمٍ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللَّهُ الذُّلَّ". قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَاسْمُأَبِي أُمَامَةَ صُدَيُّ بْنُ عَجْلَانَ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن سالم حمصی نے بیان کیا، ان سے محمد بن زیاد الہانی نے بیان کیا، ان سے ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا آپ کی نظر پھالی اور کھیتی کے بعض دوسرے آلات پر پڑی۔ آپ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس قوم کے گھر میں یہ چیز داخل ہوتی ہے تو اپنے ساتھ ذلت بھی لاتی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمُزَارَعَةِ/حدیث: 2321]
3. بَابُ اقْتِنَاءِ الْكَلْبِ لِلْحَرْثِ:
3. باب: کھیتی کے لیے کتا پالنا۔
حدیث نمبر: 2322
حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَمْسَكَ كَلْبًا فَإِنَّهُ يَنْقُصُ كُلَّ يَوْمٍ مِنْ عَمَلِهِ قِيرَاطٌ، إِلَّا كَلْبَ حَرْثٍ أَوْ مَاشِيَةٍ". قَالَ ابْنُ سِيرِينَ، وَأَبُو صَالِحٍ: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلَّا كَلْبَ غَنَمٍ أَوْ حَرْثٍ أَوْ صَيْدٍ. وَقَالَ أَبُو حَازِمٍ: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَلْبَ صَيْدٍ أَوْ مَاشِيَةٍ.
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس شخص نے کوئی کتا رکھا، اس نے روزانہ اپنے عمل سے ایک قیراط کی کمی کر لی۔ البتہ کھیتی یا مویشی (کی حفاظت کے لیے) کتے اس سے الگ ہیں۔ ابن سیرین اور ابوصالح نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بیان کیا بحوالہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہ بکری کے ریوڑ، کھیتی اور شکار کے کتے الگ ہیں۔ ابوحازم نے کہا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ شکاری اور مویشی کے کتے (الگ ہیں)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمُزَارَعَةِ/حدیث: 2322]
حدیث نمبر: 2323
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ، أَنَّ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ سُفْيَانَ بْنَ أَبِي زُهَيْرٍ رَجُلًا مِنْ أَزْدِ شَنُوءَةَ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا لَا يُغْنِي عَنْهُ زَرْعًا وَلَا ضَرْعًا، نَقَصَ كُلَّ يَوْمٍ مِنْ عَمَلِهِ قِيرَاطٌ". قُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: إِي وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں یزید بن خصیفہ نے، ان سے سائب بن یزید نے بیان کیا کہ سفیان بن زہیر نے ازدشنوہ قبیلے کے ایک بزرگ سے سنا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ جس نے کتا پالا، جو نہ کھیتی کے لیے ہے اور نہ مویشی کے لیے، تو اس کی نیکیوں سے روزانہ ایک قیراط کم ہو جاتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں ہاں! اس مسجد کے رب کی قسم! (میں نے ضرور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمُزَارَعَةِ/حدیث: 2323]
4. بَابُ اسْتِعْمَالِ الْبَقَرِ لِلْحِرَاثَةِ:
4. باب: کھیتی کے لیے بیل سے کام لینا۔
حدیث نمبر: 2324
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" بَيْنَمَا رَجُلٌ رَاكِبٌ عَلَى بَقَرَةٍ الْتَفَتَتْ إِلَيْهِ، فَقَالَتْ: لَمْ أُخْلَقْ لِهَذَا خُلِقْتُ لِلْحِرَاثَةِ، قَالَ: آمَنْتُ بِهِ أَنَا، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَأَخَذَ الذِّئْبُ شَاةً، فَتَبِعَهَا الرَّاعِي، فَقَالَ لَهُ الذِّئْبُ: مَنْ لَهَا يَوْمَ السَّبُعِ، يَوْمَ لَا رَاعِيَ لَهَا غَيْرِي، قَالَ: آمَنْتُ بِهِ أَنَا، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ". قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: وَمَا هُمَا يَوْمَئِذٍ فِي الْقَوْمِ.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سعد بن ابراہیم نے انہوں نے ابوسلمہ سے سنا اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (بنی اسرائیل میں سے) ایک شخص بیل پر سوار ہو کر جا رہا تھا کہ اس بیل نے اس کی طرف دیکھا اور اس سوار سے کہا کہ میں اس کے لیے نہیں پیدا ہوا ہوں۔ میری پیدائش تو کھیت جوتنے کے لیے ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس پر ایمان لایا اور ابوبکر اور عمر بھی ایمان لائے۔ اور ایک دفعہ ایک بھیڑئیے نے ایک بکری پکڑ لی تھی تو گڈریے نے اس کا پیچھا کیا۔ بھیڑیا بولا! آج تو تو اسے بچاتا ہے۔ جس دن (مدینہ اجاڑ ہو گا) درندے ہی درندے رہ جائیں گے۔ اس دن میرے سوا کون بکریوں کا چرانے والا ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس پر ایمان لایا اور ابوبکر اور عمر بھی۔ ابوسلمہ نے کہا کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما اس مجلس میں موجود نہیں تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمُزَارَعَةِ/حدیث: 2324]
5. بَابُ إِذَا قَالَ اكْفِنِي مَئُونَةَ النَّخْلِ أَوْ غَيْرِهِ، وَتُشْرِكُنِي فِي الثَّمَرِ:
5. باب: باغ والا کسی سے کہے کہ تو سب درختوں وغیرہ کی دیکھ بھال کر، تو اور میں پھل میں شریک رہیں گے۔
حدیث نمبر: 2325
حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" قَالَتْ الْأَنْصَارُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اقْسِمْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ إِخْوَانِنَا النَّخِيلَ، قَالَ: لَا، فَقَالُوا: تَكْفُونَا الْمَئُونَةَ وَنَشْرَكْكُمْ فِي الثَّمَرَةِ، قَالُوا: سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا".
ہم سے حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انصار نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہمارے باغات آپ ہم میں اور ہمارے (مہاجر) بھائیوں میں تقسیم فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کیا تو انصار نے (مہاجرین سے) کہا کہ آپ لوگ درختوں میں محنت کرو۔ ہم تم میوے میں شریک رہیں گے۔ انہوں نے کہا اچھا ہم نے سنا اور قبول کیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمُزَارَعَةِ/حدیث: 2325]
6. بَابُ قَطْعِ الشَّجَرِ وَالنَّخْلِ:
6. باب: میوہ دار درخت اور کھجور کے درخت کاٹنا۔
حدیث نمبر: Q2326
وَقَالَ أَنَسٌ: أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّخْلِ فَقُطِعَ.
اور انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کے درختوں کے متعلق حکم دیا اور وہ کاٹ دیئے گئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمُزَارَعَةِ/حدیث: Q2326]
حدیث نمبر: 2326
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" أَنَّهُ حَرَّقَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ، وَقَطَعَ وَهِيَ الْبُوَيْرَةُ"، وَلَهَا يَقُولُ حَسَّانُ: وَهَانَ عَلَى سَرَاةِ بَنِي لُؤَيٍّ حَرِيقٌ بِالْبُوَيْرَةِ مُسْتَطِيرُ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہ ہم سے جویریہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے، اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کے کھجوروں کے باغ جلا دیئے اور کاٹ دیئے۔ ان ہی کے باغات کا نام بویرہ تھا۔ اور حسان رضی اللہ عنہ کا یہ شعر اسی کے متعلق ہے۔ بنی لوی (قریش) کے سرداروں پر (غلبہ کو) بویرہ کی آگ نے آسان بنا دیا جو ہر طرف پھیلتی ہی جا رہی تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمُزَارَعَةِ/حدیث: 2326]
7. بَابٌ:
7. باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 2327
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ قَيْسٍ الْأَنْصَارِيِّ، سَمِعَ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ، قَالَ:" كُنَّا أَكْثَرَ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مُزْدَرَعًا، كُنَّا نُكْرِي الْأَرْضَ بِالنَّاحِيَةِ مِنْهَا مُسَمًّى لِسَيِّدِ الْأَرْضِ، قَالَ: فَمِمَّا يُصَابُ ذَلِكَ وَتَسْلَمُ الْأَرْضُ، وَمِمَّا يُصَابُ الْأَرْضُ وَيَسْلَمُ ذَلِكَ، فَنُهِينَا وَأَمَّا الذَّهَبُ وَالْوَرِقُ فَلَمْ يَكُنْ يَوْمَئِذٍ".
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو یحییٰ بن سعید نے خبر دی، انہیں حنظلہ بن قیس انصاری نے، انہوں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ مدینہ میں ہمارے پاس کھیت دوسروں سے زیادہ تھے۔ ہم کھیتوں کو اس شرط کے ساتھ دوسروں کو جوتنے اور بونے کے لیے دیا کرتے تھے کہ کھیت کے ایک مقررہ حصے (کی پیداوار) مالک زمین لے گا۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ خاص اسی حصے کی پیداوار ماری جاتی اور سارا کھیت سلامت رہتا۔ اور بعض دفعہ سارے کھیت کی پیداوار ماری جاتی اور یہ خاص حصہ بچ جاتا۔ اس لیے ہمیں اس طرح کے معاملہ کرنے سے روک دیا گیا اور سونا اور چاندی کے بدلہ ٹھیکہ دینے کا تو اس وقت رواج ہی نہ تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمُزَارَعَةِ/حدیث: 2327]

1    2    3    4    Next