1. رات کے وقت نماز تہجد کا بیان۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو تہجد پڑھنے کے لیے اٹھتے تو کہتے: ”اے اللہ! ہر طرح کی تعریف تیرے لیے ہے، تو مدبر ہے آسمان و زمین کا اور ان چیزوں کا جو ان کے درمیان ہیں اور تیری ہی تعریف ہے، تو نور ہے آسمان و زمین کا اور ان چیزوں کا جو ان کے درمیان ہیں اور تیری ہی تعریف ہے، تو بادشاہ ہے آسمان و زمین کا اور ان چیزوں کا جو ان کے درمیان ہیں اور تیری ہی تعریف ہے، تو سچا ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تیرا ملنا برحق ہے اور تیری بات سچی ہے اور جنت و دوزخ برحق ہے اور کل پیغمبر برحق ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں اور قیامت برحق ہے۔ اے اللہ! میں تیرا فرمانبردار ہوں اور تجھ پر ایمان لایا ہوں اور تجھ پر بھروسہ کیا ہے اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور تیری ہی مدد سے مخالفین کے ساتھ جھگڑتا ہوں اور تجھ ہی کو حاکم بناتا ہوں تو میرے اگلے پچھلے، ظاہر پوشیدہ گناہوں کو معاف فرما دے، تو ہی آگے اور پیچھے کرنے والا ہے، کوئی معبود نہیں مگر تو ہی۔“ یا فرمایا: ”تیرے علاوہ کوئی معبود حقیقی نہیں۔“ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 590]
2. نماز شب یعنی تہجد کی فضیلت۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں جو شخص کوئی خواب دیکھتا تھا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتا تھا تو مجھے بھی آرزو ہوئی کہ میں بھی کوئی خواب دیکھوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کروں اور میں نوجوان تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مسجد میں سویا کرتا تھا چنانچہ میں نے (ایک دن) خواب میں دیکھا گویا کہ دو فرشتوں نے مجھے پکڑا ہے اور مجھے دوزخ کی طرف لے گئے تو یکایک (میں دیکھتا ہوں کہ) وہ ایسی پیچ دار بنی ہوئی ہے جیسے کنواں اور اس کے دو کھمبے ہیں۔ اس میں کچھ لوگ ہیں جن کو میں نے پہچان لیا۔ پس میں کہنے لگا کہ دوزخ سے میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر ہمیں ایک اور فرشتہ ملا اور اس نے مجھ سے کہا کہ تم ڈرو نہیں۔ اس خواب کو میں نے ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا (جو کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی ہمیشرہ تھیں) سے بیان کیا اور حفصہ رضی اللہ عنہا نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عبداللہ کیا ہی اچھا آدمی ہے، کاش! تہجد پڑھتا ہوتا۔“ تو اس کے بعد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رات کو بہت کم سوتے تھے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 591]
3. مریض کے لیے قیام اللیل (تہجد) کے چھوڑنے کا بیان۔
سیدنا جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے تو ایک رات یا دو رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم (تہجد کے لیے) نہیں اٹھے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 592]
4. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تہجد اور نوافل کی ترغیب دینا بغیر اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو واجب کریں۔
امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک شب ان کے اور سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا بنت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”تم دونوں نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہماری جانیں تو اللہ کے اختیار میں ہیں پس جب وہ ہمیں اٹھانا چاہے گا ہمیں اٹھا دے گا۔ جب میں نے یہ کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہو گئے اور مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جاتے ہوئے اپنی ران پر ہاتھ مارتے جاتے تھے اور یہ فرما رہے تھے: ”اور انسان ہر چیز سے زیادہ جھگڑالو ہے۔“ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 593]
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی کام، حالانکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب ہوتا تھا اس خوف سے ترک کر دیتے تھے کہ لوگ اس پر عمل کریں گے اور وہ کہیں ان پر فرض نہ کر دیا جائے گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز چاشت کبھی نہیں پڑھی اور میں اسے پڑھتی ہوں۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 594]
5. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کو اس قدر نماز پڑھنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں سوج جاتے۔
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر قیام فرماتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں پاؤں یا (یہ کہا کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں پنڈلیوں پر ورم آ جاتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جاتا تھا (کہ اس قدر عبادت شاقہ نہ کیجئیے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب میں فرماتے تھے: ”کیا میں اللہ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں؟“ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 595]
6. جو شخص اخیر رات کو سوتا رہا۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کو تمام نمازوں سے زیادہ پسند داؤد علیہ السلام کی نماز جیسی نماز ہے اور تمام روزوں میں زیادہ پسند اللہ تعالیٰ کو داؤد علیہ السلام کے روزے جیسا روزہ ہے اور وہ نصب شب سوتے تھے اور تہائی رات میں نماز پڑھتے تھے اور پھر رات کے چھٹے حصے میں سو رہتے تھے اور ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن نہ رکھتے تھے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 596]
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جو عمل ہمیشہ کیا جا سکے (وہ عمل) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (رات کو) کس وقت اٹھتے تھے؟ انہوں نے کہا اس وقت اٹھتے تھے جب مرغ کی آواز سن لیتے تھے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 597]
ایک روایت میں ہے (اشعث کہتے ہیں) کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مرغ کی آواز سن لیتے تھے اس وقت نماز تہجد پڑھنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 598]
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ایک دوسری روایت میں کہتی ہیں کہ میں نے اخیر شب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس سوتے ہوئے ہی پایا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 599]