الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


مسند اسحاق بن راهويه کل احادیث (981)
حدیث نمبر سے تلاش:

مسند اسحاق بن راهويه
كتاب التفسير
قرآن مجید کی تفسیر کا بیان
1. وحی کے نزول کا بیان
حدیث نمبر: 577
أَخْبَرَنَا جَرِیرٌ، عَنْ لَیْثِ بْنِ أَبِی سُلَیْمٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ،عَنْ أَسْمَاء َ بِنْتِ یَزِیدَ قَالَتْ: نَزَلَتْ سُورَةُ الْمَائِدَۃِ وَأَنَا آخُذُ بِزِمَامِ الْعَضْبَاء ِ، وَکَادَ أَنْ یَنْدَقَّ، عَضُدُهَا مِنْ ثِقَلِهَا.
سیدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا: جب سورہ المائدہ نازل ہوئی تو میں عضباء (اونٹنی) کی لگام تھامے ہوئے تھی، قریب تھا کہ اس کے بوجھ کی وجہ سے (میرا) بازو کٹ جاتا۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب التفسير/حدیث: 577]
تخریج الحدیث: «مسند احمد: 458/6: قال الاوط: حسن لغيره وسنده حسن فى الشواهد .»

2. قرآن مجید کی مختلف قراءتیں
حدیث نمبر: 578
أَخْبَرَنَا الْمُؤَمَّلُ، نا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، نا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَرَأْتُ فِي مُصْحَفِ عَائِشَةَ: ((فَمِنْهَا رَكُوبَتُهُمْ وَمِنْهَا يَأْكُلُونَ)).
عروہ رحمہ اللہ نے بیان کیا، میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مصحف میں سورہ یٰسین کی آیت «فَمِنْهَا رَكُوبُهُمْ وَمِنْهَا يَأْكُلُونَ» [36-يس:72] کو اس طرح پڑھا: «فَمِنْهَا رَكُوعبُتهُمْ وَمِنْهَا يَأْكُلُونَ» ۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب التفسير/حدیث: 578]
3. سیدنا یوسف علیہ السلام کا قصہ
حدیث نمبر: 579
اَخْبَرَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ، نَا جَرِیْرُ بْنُ حَازِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ اَبِیْ مُلَیْکَةَ،َ یُحَدِّثُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ رَجُلًا قَالَ لَهٗ: مَا بَلَغَ هَمّ یُوْسُفَ؟ قَالَ: فَوَصَفَ شَیْئًا لَمْ نَحْفَظْهٗ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: نَظَرَ یُوْسُفُ فِی سُقُفِ الْبَیْتِ، فَرَاٰی یَعْقُوْبَ عَاضًا عَلٰی یَدِہِ، فَقَالَ لَہٗ: اَتُرِیْدُ اَنْ تَعْمَلَ عَمَلَ السُّفَهَاءِ، وَاَنْتَ مَکْتُوْبٌ فِی الْاَنْبِیَاءِ، فَخَرَجَتْ کُلُّ شَهْوَةٍ کَانَتْ فِیْ جَسَدِهٖ، وَخَرَجَ یَسْعٰی نَحْوَ الْبَابِ، فَسَعَتْ وَرَاءَهٗ، وَشَقَّتْ قَمِیْصَهٗ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ایک آدمی نے ان سے کہا: یوسف علیہ السلام کا قصد کیا تھا؟ پس انہوں نے کچھ بیان کیا لیکن ہم نے اسے یاد نہ کیا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: یوسف علیہ السلام نے گھر کی چھت میں دیکھا، تو انہوں نے یعقوب علیہ السلام کو ان کا ہاتھ تھامے ہوئے دیکھا تو فرمایا: کیا تم نادانوں کا سا عمل کرنا چاہتے ہو جبکہ تمہارا نام تو انبیاء علیہم السلام میں لکھا ہوا ہے، پس (یہ کہنا تھا تو) ہر قسم کی شہوت جو ان کے جسم میں تھی، وہ نکل گئی اور وہ دوڑتے ہوئے باہر دروازے کی طرف آئے اور وہ بھی ان کے پیچھے دوڑی اور ان کی قمیض پھاڑ دی۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب التفسير/حدیث: 579]
تخریج الحدیث: «تفسير طبري: 187، 186، 185/12 . اسناده صحيح .»

حدیث نمبر: 580
اَخْبَرَنَا وَکِیْعٌ، نَا رَافِعُ بْنُ الْجُمَحِیِّ، عَنِ ابْنِ اَبِیْ مُلَیْکَةَ قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنْ مَا بَلَغَ مِنْ هَمِّ یُوْسُفَ؟ قَالَ: حَلَّ الْهَمْیَانَ فَنُوْدِیَ فَلَمْ یُسْمَعْ، فَقِیْلَ لَهٗ: یَا ابْنَ یَعْقُوْبَ: أَتُرِیْدُ اَنْ تَزْنِیَ، فَتَکُوْنَ کَالطَّیْرِ، یَنْتِفُ رِیْشَههٗ فَلَا رِیْشَ لَهٗ.
ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یوسف علیہ السلام کے قصہ کے متعلق پوچھا گیا کہ وہ کیا تھا؟ (کس حد تک پہنچ گیا تھا) انہوں نے فرمایا: انہوں نے ازار بند کھول لیا تھا، تو انہیں آواز دی گئی جو سنی نہیں گئی تھی، تو ان سے کہا گیا: ابن یعقوب! کیا تم زنا کرنے کا ارادہ رکھتے ہو؟ تم اس پرندے کی طرح ہو جاؤ گے جو اپنے بال نوچ لیتا ہے اور پھر اس کا کوئی بال نہیں ہوتا۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب التفسير/حدیث: 580]
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح، تفسير طبري: 183/12 . تفسير الدر المنشور: 520/4 .»

4. کیا بچے جنت میں جائیں گے؟
حدیث نمبر: 581
اَخْبَرَنَا اَبُوْ الْوَلِیْدِ، نَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ اَبِیْ مُلَیْکَةَ قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنِ الْوَلَدَانِ اَفِی الْجَنَّةِ هُمْ؟ قَالَ: حَسْبُكَ مَا اخْتَصَمَ فِیْهِ مُوْسَی وَالْخَضِرَ.
ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بچوں کے متعلق پوچھا گیا کیا وہ جنت میں ہوں گے؟ انہوں نے فرمایا: اس بارے میں موسیٰ و خضر علیہ السلام نے بحث و مباحثہ کیا، وہ تمہارے لیے کافی ہے۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب التفسير/حدیث: 581]
تخریج الحدیث: «مستدرك حاكم: 401/2 . اسناده صحيح .»

5. سورۂ یوسف آیت 26 کے بعض حصے کا بیان
حدیث نمبر: 582
اَخْبَرَنَا وَکِیْعٌ، نَا سُفْیَانُ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ ابْنِ اَبِیْ مُلَیْکَةَ،عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: ﴿وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ اَهْلِهَا﴾، قَالَ: کَانَ مِنْ خَاصَّةِ الْمَلِكِ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: اس کے اہل میں سے ایک گواہ نے گواہی دی۔ کی تفسیر میں فرمایا: وہ بادشاہ کا کوئی خاص شخص تھا۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب التفسير/حدیث: 582]
حدیث نمبر: 583
اَخْبَرَنَا وَکِیْعٌ، نَا اِسْرَائِیْلُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عِکْرِمَةِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: کَانَ ذَا لِحْیَةٍ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا: وہ داڑھی والا تھا۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب التفسير/حدیث: 583]
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف . دارالمنشور: 526/4 .»

حدیث نمبر: 584
اَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، نَا اِسْرَائِیْلُ، بِهَذَا الْاِسْنَادِ مِثْلَهٗ.
عبدالرزاق نے بیان کیا، اسرائیل (ابن یونس بن ابی اسحٰق) نے اس اسناد سے اسی مثل ہمیں خبر دی۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب التفسير/حدیث: 584]
تخریج الحدیث: «انظر ما قبله .»

6. سورۂ صٓ کے سجدے کا بیان
حدیث نمبر: 585
اَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، نَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مُجَاهِدٍ،عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ سَجْدَةِ (صٓ) قَالَ: تَوْبَةُ عَبْدٍ، اَوْ تَوْبَةُ نَبِیٍّ، فَاَمَرَ اللّٰهُ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اَنْ یَّقْتَدِیَ بِهٖ.
مجاہد رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سورہ ص کے سجدے کے بارے میں روایت کیا، انہوں نے کہا: بندے کی توبہ یا نبی کی توبہ ہے۔ پس اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا کہ وہ اس کی اقتدا کریں۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب التفسير/حدیث: 585]
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الانبياء، باب واذكر عبدنا داود الخ، رقم: 3421 . سنن ترمذي، ابواب السفر، باب السجده ص، رقم: 577 . سنن كبري بيهقي: 319/2 .»

7. سورۂ انفال آیت 66-70 کا تفسیری بیان
حدیث نمبر: 586
اَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِیْرِ بْنِ حَازِمٍ، حَدَّثَنِیْ اَبِیْ قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ اِسْحَاقَ یُحَدِّثُ قَالَ: حَدَّثَنِیْ عَبْدُاللّٰهِ بْنُ اَبِیْ نُجَیْحٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: اِفْتَرَضَ (اللّٰهُ) عَلَیْهِمْ اَنْ یُّقَاتِلَ الْوَاحِدُ الْعَشْرَةَ، فَثَقُلَ ذٰلِكَ عَلَیْهِمْ، وَشَقَّ ذٰلِكَ عَلَیْهِمْ، فَوَضَعَ اللّٰهُ عَنْهُمْ ذٰلِكَ اِلٰی اَنْ یُّقَاتِلَ الْوَاحِدُ الرَّجُلَیْنِ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ: ﴿اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ﴾ تَـلَا اِلٰی قَوْلِهٖ اِلٰی آخِرِ الْآیَاتِ ثُمَّ قَالَ: ﴿لَوْ لَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾ یَعْنِیْ غَنَائِمَ بَدْرٍ، یَقُوْلُ: لَوْلَا اِنِّیْ لَا اُعَذِّبُ مَنْ عَصَانِیْ حَتّٰی اَتَقَدَّمَ اِلَیْهِ، ثُمَّ قَالَ: ﴿یٰٓاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّمَنْ فِیْٓ اَیْدِیْکُمْ مِّنَ الْاَسْرٰٓی اِنْ یَّعْلَمِ اللّٰهُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ خَیْرًا﴾ الآیۃ۔ قَالَ الْعَبَّاسُ: فِی نَزَلَتْ، حِیْنَ اَخْبَرْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِاِسْلَامِیْ، وَسَأَلْتُهٗ اَنْ لَّا یُحَاسِبُنِیْ بِالْعِشْرِیْنَ اَوْقِیَةِ الَّتِیْ اَخَذَتْ مِنِّیْ، فَاَعْطَانِیْ عِشْرِیْنَ عَبْدًا، کُلُّهُمْ قَدْ تَاَجَّرَ بِمَالٍ فِیْ یَدِہِ، مَعَ مَا اََدَّخَرَہٗ مِنْ مَّغْفِرَةِ اللّٰهِ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، اللہ نے ان پر فرض کیا کہ ایک دس سے قتال کرے، پس یہ ان پر گراں گزرا اور مشکل ہو گیا، تو اللہ نے اس (مشقت، بوجھ) کو ان سے دور کر دیا اور یہ حکم دیا کہ ایک دو سے قتال و مقابلہ کرے، تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی: «إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ» اگر تم میں صبر کرنے والے بیس ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے۔ اور پھر آیات کے آخر تک تلاوت فرمائی۔ پھر فرمایا: «لَّوْلَا كِتَابٌ مِّنَ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ» اگر اللہ کا حکم پہلے سے طے شدہ نہ ہوتا تو جو کچھ تم نے لیا ہے، اس پر تمہیں سخت ترین سزا ملتی۔ یعنی غزوہ بدر کے اموال غنیمت، وہ فرماتا ہے: میرا دستور ہے کہ میں اپنی نافرمانی کرنے والے کو سزا نہیں دیتا حتیٰ کہ میں اسے پیشگی انتباہ کرتا ہوں، پھر فرمایا: «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّمَن فِي أَيْدِيكُم مِّنَ الْأَسْرَىٰ إِن يَعْلَمِ اللَّهُ فِي قُلُوبِكُمْ خَيْرًا» اے نبی! آپ کے قبضے میں جو بھی قیدی ہیں، ان سے کہہ دیجیئے کہ اگر اللہ کو معلوم ہو گا کہ تمہارے دلوں میں کوئی نیکی ہے۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: یہ آیت میرے متعلق نازل ہوئی جس وقت میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اسلام کے متعلق خبر دی، اور ان سے درخواست کی کہ آپ نے مجھ سے جو بیس اوقیہ لیے ہیں، ان کے بدلے میں میرا محاسبہ نہ کریں، پس آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے مجھے بیس غلام دے دیئے، ان سب نے اس مال سے تجارت کی جو کہ آپ کے قبضے میں تھا، اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ کی طرف سے مغفرت کو ذخیرہ کیا۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب التفسير/حدیث: 586]
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب التفسير، باب ايها النبى حرض المؤمنين الخ، رقم: 4652 . سنن ابوداود، رقم: 2646 . سنن كبري بيهقي: 76/9 . صحيح ابن حبان، رقم: 4773 .»


1    2    Next