الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


الادب المفرد کل احادیث (1322)
حدیث نمبر سے تلاش:

الادب المفرد
كِتَابُ
كتاب
45. بَابُ الْوَلَدُ مَبْخَلَةٌ مَجْبَنَةٌ
45. اولاد بخل اور بزدلی کا سبب ہے
حدیث نمبر: 84
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ قَالَ‏:‏ كَتَبَ إِلَيَّ هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ‏:‏ قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمًا‏:‏ وَاللَّهِ مَا عَلَى وَجْهِ الأَرْضِ رَجُلٌ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ عُمَرَ، فَلَمَّا خَرَجَ رَجَعَ فَقَالَ‏:‏ كَيْفَ حَلَفْتُ أَيْ بُنَيَّةُ‏؟‏ فَقُلْتُ لَهُ، فَقَالَ‏:‏ أَعَزُّ عَلَيَّ، وَالْوَلَدُ أَلْوَطُ‏.‏
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ایک روز سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! مجھے روئے زمین پر عمر سے بڑھ کر کوئی مجبوب نہیں۔ یہ کہہ کر باہر نکلے، واپس آئے تو فرمایا: بیٹی! میں نے کیسے قسم اٹھائی تھی؟ میں نے ان سے کہا: (آپ نے ایسے قسم اٹھائی تھی) پھر فرمایا: (عمر) مجھے سب سے زیادہ عزیز ہیں، تاہم (محبوب بننے کے) اولاد زیادہ لائق ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 84]
تخریج الحدیث: «حسن: رواه ابن أبى داؤد فى مسند عاشر: 47 و اللالكائي فى السنة: 2502 و ابن عساكر فى تاريخه: 247/44»

قال الشيخ الألباني: حسن

حدیث نمبر: 85
حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي يَعْقُوبَ، عَنِ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ قَالَ‏:‏ كُنْتُ شَاهِدًا ابْنَ عُمَرَ إِذْ سَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ دَمِ الْبَعُوضَةِ‏؟‏ فَقَالَ‏:‏ مِمَّنْ أَنْتَ‏؟‏ فَقَالَ‏:‏ مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ، فَقَالَ‏:‏ انْظُرُوا إِلَى هَذَا، يَسْأَلُنِي عَنْ دَمِ الْبَعُوضَةِ، وَقَدْ قَتَلُوا ابْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ‏:‏ ”هُمَا رَيْحَانَيَّ مِنَ الدُّنْيَا‏.‏“
عبدالرحمٰن بن ابونعم سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس موجود تھا۔ ایک آدمی نے سوال کیا کہ مچھر کو مارنا کیسا ہے (جائز ہے ناجائز؟) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تو کہاں سے آیا ہے؟ اس نے کہا: عراق سے۔ تب سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اسے دیکھو! مچھر کے مارنے کے جائز یا ناجائز ہونے کے بارے میں پوچھتا ہے، حالانکہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر کو شہید کیا (تو انہیں ذرا خیال نہ آیا)، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: وہ دونوں (سیدنا حسن و سیدنا حسین رضی اللہ عنہما) دنیا میں میرے پھول ہیں۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 85]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، فضائل أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم: 3753 و الترمذي: 3770 - الصحيحة: 2494»

قال الشيخ الألباني: صحيح

46. بَابُ حَمْلِ الصَّبِيِّ عَلَى الْعَاتِقِ
46. بچے کو کندھے پر اٹھانے کا بیان
حدیث نمبر: 86
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ يَقُولُ‏:‏ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْحَسَنُ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِ عَلَى عَاتِقِهِ، وَهُوَ يَقُولُ‏:‏ ”اللَّهُمَّ، إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ‏.“‏
سیدنا براء (بن عازب) رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو کندھے پر اٹھا رکھا تھا، اور فرما رہے تھے: اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں، تو بھی اس سے محبت فرما۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 86]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، فضائل أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم: 3749 و مسلم: 2422 و الترمذي: 3783 - الصحيحة: 2789»

قال الشيخ الألباني: صحيح

47. بَابُ الْوَلَدُ قُرَّةُ الْعَيْنِ
47. (نیک) اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک ہے
حدیث نمبر: 87
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ‏:‏ جَلَسْنَا إِلَى الْمِقْدَادِ بْنِ الأَسْوَدِ يَوْمًا، فَمَرَّ بِهِ رَجُلٌ فَقَالَ‏:‏ طُوبَى لِهَاتَيْنِ الْعَيْنَيْنِ اللَّتَيْنِ رَأَتَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاللَّهِ لَوَدِدْنَا أَنَّا رَأَيْنَا مَا رَأَيْتَ، وَشَهِدْنَا مَا شَهِدْتَ‏.‏ فَاسْتُغْضِبَ، فَجَعَلْتُ أَعْجَبُ، مَا قَالَ إِلاَّ خَيْرًا، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْهِ فَقَالَ‏:‏ مَا يَحْمِلُ الرَّجُلُ عَلَى أَنْ يَتَمَنَّى مُحْضَرًا غَيَّبَهُ اللَّهُ عَنْهُ‏؟‏ لاَ يَدْرِي لَوْ شَهِدَهُ كَيْفَ يَكُونُ فِيهِ‏؟‏ وَاللَّهِ، لَقَدْ حَضَرَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْوَامٌ كَبَّهُمُ اللَّهُ عَلَى مَنَاخِرِهِمْ فِي جَهَنَّمَ، لَمْ يُجِيبُوهُ وَلَمْ يُصَدِّقُوهُ، أَوَلاَ تَحْمَدُونَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذْ أَخْرَجَكُمْ لاَ تَعْرِفُونَ إِلاَّ رَبَّكُمْ، فَتُصَدِّقُونَ بِمَا جَاءَ بِهِ نَبِيُّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَدْ كُفِيتُمُ الْبَلاَءَ بِغَيْرِكُمْ، وَاللَّهِ لَقَدْ بُعِثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَشَدِّ حَالٍ بُعِثَ عَلَيْهَا نَبِيٌّ قَطُّ، فِي فَتْرَةٍ وَجَاهِلِيَّةٍ، مَا يَرَوْنَ أَنَّ دِينًا أَفْضَلُ مِنْ عِبَادَةِ الأَوْثَانِ، فَجَاءَ بِفُرْقَانٍ فَرَّقَ بِهِ بَيْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ، وَفَرَّقَ بِهِ بَيْنَ الْوَالِدِ وَوَلَدِهِ، حَتَّى إِنْ كَانَ الرَّجُلُ لَيَرَى وَالِدَهُ أَوْ وَلَدَهُ أَوْ أَخَاهُ كَافِرًا، وَقَدْ فَتْحَ اللَّهُ قُفْلَ قَلْبِهِ بِالإِيمَانِ، وَيَعْلَمُ أَنَّهُ إِنْ هَلَكَ دَخَلَ النَّارَ، فَلاَ تَقَرُّ عَيْنُهُ، وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّ حَبِيبَهُ فِي النَّارِ، وَأنَّهَا لِلَّتِي قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ‏:‏ ‏‏وَالَّذِينَ يَقُوْلُوْنَ ﴿رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ‏﴾ [الفرقان: 74] ‏‏.‏
حضرت جبیر بن نفیر سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایک روز ہم سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ ایک آدمی وہاں سے گزرا تو اس نے کہا: کتنی باسعادت ہیں یہ دونوں آنکھیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے، اللہ کی قسم! ہماری خواہش ہے کہ ہم بھی وہ دیکھتے جو آپ نے دیکھا ہے، اور ہم بھی ان مواقع پر موجود ہوتے جن پر آپ موجود رہے ہیں۔ اس بات سے سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ غصے میں آ گئے تو مجھے ان تعجب ہوا کہ (غصے والی کیا بات ہے؟) اس نے اچھی بات ہی کی ہے۔ پھر وہ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا وجہ ہے کہ کوئی شخص کسی موقع پر موجود ہونے کی تمنا کرتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس سے غائب رکھا ہے۔ نہ معلوم وہ اس موقع پر موجود ہوتا تو اس کا کیا حال ہوتا؟ اللہ کی قسم! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کتنے لوگ حاضر ہوئے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے چہروں کے بل جہنم میں اوندھا کر دیا۔ (کیونکہ) انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو قبول کیا نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی۔ کیا تم اس بات پر اللہ کی تعریف بیان نہیں کرتے کہ جب اس نے تمہیں پیدا فرمایا تو تم اپنے رب کے سوا کسی (غیر اللہ) کو نہیں جانتے، یعنی ہر طرف ایمان ہے۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کی تصدیق کرتے ہو۔ (تصدیق و تکذیب کی) آزمائش دوسرے لوگوں کے ذریعے تم سے ٹل گئی۔ اللہ کی قسم! جیسے سخت حالات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے کوئی نبی ایسے حالات میں مبعوث نہیں ہوا۔ یہ فترت اور جاہلیت کا زمانہ تھا (کہ سال ہا سال تک نبی مبعوث نہ ہوا تھا)، بتوں کی عبادت سے بڑھ کر لوگ کسی دین کو افضل نہیں سمجھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرقان لے کر آئے جس کے ذریعے حق اور باطل میں امتیاز کیا۔ باپ بیٹے کے درمیان جدائی کر دی یہاں تک ایسا موقع آ گیا کہ ایک (مومن) آدمی اپنے والد، بیٹے اور بھائی کو کافر دیکھتا تھا اور خود اس کے دل کے تالے اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ذریعے کھول دیئے۔ وہ جانتا تھا کہ یقیناً اگر وہ (اس کا باپ یا بھائی) ہلاک ہو گیا تو دوزخ میں جائے گا، لہٰذا (انہیں دیکھ کر) اس کی آنکھیں ٹھنڈی نہیں ہوتی تھیں، جبکہ وہ جانتا ہوتا کہ اس کا حبیب دوزخ میں جانے والا ہے۔ اور یہ (اولاد کی محبت) ایسی چیز ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور وہ لوگ جو کہتے ہیں: اے ہمارے پروردگار! ہم کو ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب فرما۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 87]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد: 23810 و ابن أبى عاصم فى الآحاد: 292 و الطبراني فى الكبير: 253/20 و ابن حبان: 6552 - الصحيحة: 2823»

قال الشيخ الألباني: صحيح

48. بَابُ مَنْ دَعَا لِصَاحِبِهِ أَنْ أَكْثِرْ مَالَهُ وَوَلَدَهُ
48. اپنے ساتھی کے لیے مال و اولاد کی کثرت کی دعا کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 88
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ‏:‏ دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، وَمَا هُوَ إِلاَّ أَنَا وَأُمِّي وَأُمُّ حَرَامٍ خَالَتِي، إِذْ دَخَلَ عَلَيْنَا فَقَالَ لَنَا‏:‏ ”أَلاَ أُصَلِّي بِكُمْ‏؟“‏ وَذَاكَ فِي غَيْرِ وَقْتِ صَلاَةٍ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ‏:‏ فَأَيْنَ جَعَلَ أَنَسًا مِنْهُ‏؟‏ فَقَالَ‏:‏ جَعَلَهُ عَنْ يَمِينِهِ‏؟‏ ثُمَّ صَلَّى بِنَا، ثُمَّ دَعَا لَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ بِكُلِّ خَيْرٍ مِنْ خَيْرِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، فَقَالَتْ أُمِّي‏:‏ يَا رَسُولَ اللهِ، خُوَيْدِمُكَ، ادْعُ اللَّهَ لَهُ، فَدَعَا لِي بِكُلِّ خَيْرٍ، كَانَ فِي آخِرِ دُعَائِهِ أَنْ قَالَ‏:‏ ”اللَّهُمَّ أَكْثِرْ مَالَهُ وَوَلَدَهُ، وَبَارِكْ لَهُ‏.“‏
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں ایک روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا (اور یہ اس دن کی بات ہے جب) صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ، میں، میری والدہ اور میری خالہ ام حرام تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے تو ہم سے فرمایا: کیا میں تمہیں نماز نہ پڑھاؤں؟ اور یہ (فرض) نماز کا وقت نہیں تھا۔ حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انس کو کہاں کھڑا کیا؟ انہوں نے کہا: اسے اپنی دائیں جانب کھڑا کیا، پھر ہمیں نماز پڑھائی۔ پھر ہم گھر والوں کے لیے دعا فرمائی (اور) دنیا و آخرت کی ہر بھلائی کی دعا کی۔ میری والدہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کا ننھا خادم، اس کے لیے اللہ سے (خصوصی) دعا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے (دنیا و آخرت کی) ہر بھلائی کی دعا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا کے آخر میں فرمایا: اے اللہ! اسے کثرت سے مال اور اولاد عطا فرما اور اسے برکت سے نواز۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 88]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب المساجد، باب جواز الجماعة فى النافلة: 660 و النسائي: 802 - الصحيحة: 140، 141، 2214»

قال الشيخ الألباني: صحيح

49. بَابُ الْوَالِدَاتُ رَحِيمَاتٌ
49. مائیں رحم دل ہوتی ہیں
حدیث نمبر: 89
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا ابْنُ فَضَالَةَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْمُزَنِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ‏:‏ جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَأَعْطَتْهَا عَائِشَةُ ثَلاَثَ تَمَرَاتٍ، فَأَعْطَتْ كُلَّ صَبِيٍّ لَهَا تَمْرَةً، وَأَمْسَكَتْ لِنَفْسِهَا تَمْرَةً، فَأَكَلَ الصِّبْيَانُ التَّمْرَتَيْنِ وَنَظَرَا إِلَى أُمِّهِمَا، فَعَمَدَتْ إِلَى التَّمْرَةِ فَشَقَّتْهَا، فَأَعْطَتْ كُلَّ صَبِيٍّ نِصْفَ تَمْرَةٍ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَتْهُ عَائِشَةُ فَقَالَ‏:‏ ”وَمَا يُعْجِبُكِ مِنْ ذَلِكَ‏؟‏ لَقَدْ رَحِمَهَا اللَّهُ بِرَحْمَتِهَا صَبِيَّيْهَا‏.“‏
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کوئی عورت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس (سوال کرنے کے لیے) آئی تو انہوں نے اسے تین کھجوریں دیں۔ اس نے ایک ایک کھجور ہر بچے کو دے دی اور ایک اپنے لیے رکھ لی۔ بچے اپنی اپنی کھجور کھا کر پھر ماں کی طرف دیکھنے لگے۔ اس عورت نے اپنی کھجور نکالی اور اس کے دوٹکڑے کیے اور ہر ایک بچے کو آدھی دے دی (اور خود کچھ نہ کھایا)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تجھے اس سے کیا تعجب ہے؟ یقیناً اللہ نے اس پر رحم فرما دیا، کیونکہ اس نے اپنے بچوں پر رحم کیا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 89]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه الحاكم فى المستدرك: 177/4 و أبونعيم فى الحلية: 230/2 و البزار فى مسنده: 6762 - الصحيحة: 3143»

قال الشيخ الألباني: صحيح

50. بَابُ قُبْلَةِ الصِّبْيَانِ
50. بچوں کو بوسہ دینے کا بیان
حدیث نمبر: 90
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ‏:‏ جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ‏:‏ أَتُقَبِّلُونَ صِبْيَانَكُمْ‏؟‏ فَمَا نُقَبِّلُهُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”أَوَ أَمْلِكُ لَكَ أَنْ نَزَعَ اللَّهُ مِنْ قَلْبِكَ الرَّحْمَةَ‏؟‏۔“‏
سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ ایک بدوی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: کیا تم اپنے بچوں کو بوسہ دیتے ہو؟ ہم تو انہیں بوسہ نہیں دیتے۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اس کا کیا علاج کروں کہ اللہ نے تیرے دل سے رحمت کا مادہ نکال دیا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 90]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الأدب، باب رحمة الولد و تقبيله و معانقته: 5998 و مسلم، كتاب الفضائل: 64»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 91
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ‏:‏ قَبَّلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ وَعِنْدَهُ الأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ التَّمِيمِيُّ جَالِسٌ، فَقَالَ الأَقْرَعُ‏:‏ إِنَّ لِي عَشَرَةً مِنَ الْوَلَدِ مَا قَبَّلْتُ مِنْهُمْ أَحَدًا، فَنَظَرَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ‏:‏ ”مَنْ لا يَرْحَمُ لا يُرْحَمُ‏.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (سے روایت ہے وہ) فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو بوسہ دیا تو وہاں اقرع بن حابس تمیمی بھی تھے، انہوں نے کہا: میرے دس بیٹے ہیں، میں نے کبھی کسی کو بوسہ نہیں دیا۔ تب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا، پھر فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 91]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الأدب، باب رحمة الولد و تقبيله و معانقته: 5997 و مسلم: 2318 و أبى داؤد: 5218 و الترمذي: 1911 - غاية المرام: 70، 71»

قال الشيخ الألباني: صحيح

51. بَابُ أَدَبِ الْوَالِدِ وَبِرِّهِ لِوَلَدِهِ
51. باپ کے ادب سکھانے اور اولاد کے ساتھ حسن سلوک کا بیان
حدیث نمبر: 92
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ نُمَيْرِ بْنِ أَوْسٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاهُ يَقُولُ‏:‏ كَانُوا يَقُولُونَ‏:‏ الصَّلاَحُ مِنَ اللهِ، وَالأَدَبُ مِنَ الآبَاءِ‏.‏
نمیر بن اوس سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ لوگ (ہمارے اکابر) کہا کرتے تھے: نیکی اور اصلاح کی توفیق اللہ کی طرف سے ہوتی ہے، اور ادب سکھانا والدین کی ذمہ داری ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 92]
تخریج الحدیث: «ضعيف: رواه ابن أبى الدنيا فى العيال: 357 و ابن عساكر فى تاريخه: 231/62 و المزي فى تهذيب الكمال: 102/31»

قال الشيخ الألباني: ضعيف

حدیث نمبر: 93
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى الْقُرَشِيُّ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدَ، عَنْ عَامِرٍ، أَنَّ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَاهُ انْطَلَقَ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْمِلُهُ فَقَالَ‏:‏ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي أُشْهِدُكَ أَنِّي قَدْ نَحَلْتُ النُّعْمَانَ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ‏:‏ ”أَكُلَّ وَلَدَكَ نَحَلْتَ‏؟“‏ قَالَ‏:‏ لاَ، قَالَ‏:‏ ”فَأَشْهِدْ غَيْرِي“، ثُمَّ قَالَ‏:‏ ”أَلَيْسَ يَسُرُّكَ أَنْ يَكُونُوا فِي الْبِرِّ سَوَاءً‏؟“‏ قَالَ‏:‏ بَلَى، قَالَ‏:‏ ”فَلاَ إِذًا۔‏“
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے والد مجھے اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے نعمان کو فلاں فلاں چیز دی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو نے اپنے سارے بچوں کو دیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر میرے علاوہ کسی اور کو گواہ بنا لو۔ نیز فرمایا: کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ تیرے سارے بچے تیرے ساتھ برابر حسن سلوک کریں؟ انہوں نے کہا: جی بالکل۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر ایسے نہ کرو (کہ کچھ کو دو اور باقیوں کو محروم رکھو۔) [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 93]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الهبة و فضلها و التحريض عليها، باب الهبة للولد: 2586 و مسلم: 1623 و أبوداؤد: 3542 و الترمذي: 1367 و ابن ماجه: 2376 و النسائي: 3674»

قال الشيخ الألباني: صحيح


1    2    Next