الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


الادب المفرد کل احادیث (1322)
حدیث نمبر سے تلاش:

الادب المفرد
كِتَابُ
كتاب
272. بَابُ مَا يَقُولُ إِذَا أَصْبَحَ
272. صبح کے وقت کیا دعا پڑھے
حدیث نمبر: 604
حَدَّثَنَا مُوسَی، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَصْبَحَ، قَالَ: ”أَصْبَحْنَا وَأَصْبَحَ الْحَمْدُ كُلُّهُ لِلَّهِ، لَا شَرِيكَ لَهُ، لَا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَإِلَيْهِ النُّشُورُ“، وَإِذَا أَمْسَى، قَالَ: ”أَمْسَيْنَا وَأَمْسَى الْمُلْكُ لِلَّهِ، وَالْحَمْدُ كُلُّهُ لِلَّهِ، لَا شَرِيكَ لَهُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کرتے تو یہ دعا کرتے: ہم نے صبح کی اللہ کے لیے اور ساری بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور ہر قسم کی تعریف بھی اللہ کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور اسی کی طرف اٹھنا ہے۔ اور جب شام کرتے تو یوں دعا کرتے: ہم نے شام کی اللہ کے لیے اور تمام بادشاہی بھی شام کو اسی کے لیے ہے۔ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اس کا کوئی ساجھی نہیں۔ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 604]
تخریج الحدیث: «ضعيف بهذا اللفظ: أخرجه ابن السني فى عمل اليوم: 82 و البزار فى مسنده: 240/15»

قال الشيخ الألباني: ضعيف بهذا اللفظ

273. بَابُ مَنْ دَعَا فِي غَيْرِهِ مِنَ الدُّعَاءِ
273. دوسروں کے لیے دعا کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 605
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”إِنَّ الْكَرِيمَ ابْنَ الْكَرِيمِ ابْنِ الْكَرِيمِ ابْنِ الْكَرِيمِ، يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلِ الرَّحْمَنِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى“، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”لَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ مَا لَبِثَ يُوسُفُ، ثُمَّ جَاءَنِي الدَّاعِي لأَجَبْتُ، إِذْ جَاءَهُ الرَّسُولُ، فَقَالَ: ﴿ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ﴾ [يوسف: 50]، وَرَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى لُوطٍ، إِنْ كَانَ لَيَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ، إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ: ﴿لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ﴾ [هود: 80]، فَمَا بَعَثَ اللَّهُ بَعْدَهُ مِنْ نَبِيٍّ إِلا فِي ثَرْوَةٍ مِنْ قَوْمِهِ“، قَالَ مُحَمَّدٌ: الثَّرْوَةُ: الْكَثْرَةُ وَالْمَنَعَةُ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کریم بن کریم بن کریم بن کر یم تو یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم خلیل اللہ ہیں۔ راوی کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں قید میں اتنی مدت رہتا جتنی دیر یوسف علیہ السلام رہے، پھر میرے پاس بلانے والا آتا تو میں اس کی بات مان لیتا، جب قاصد ان کے پاس آیا اور کہا: «ارجع الى ربك ......» اپنے بادشاہ کے پاس جاؤ اور اس سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا بنا جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ رحمت کرے لوط علیہ السلام پر جب وہ مضبوط جماعت کی پناہ لینے پر مجبور ہوئے جس وقت انہوں نے اپنی قوم سے کہا: اگر مجھے مقابلے کی قوت ہوتی یا میں کسی مضبوط جماعت کی طرف پناہ لیتا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بعد کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جس کا کنبہ قبیلہ طاقتور نہ ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «ثروة» کا مطلب جو تعداد اور طاقت و دفاع میں سب سے بڑھ کر ہو۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 605]
تخریج الحدیث: «حسن صحيح: أخرجه الترمذي، تفسير القرآن، باب و من سورة يوسف: 3116 و النسائي فى الكبريٰ: 11190 و فقرة السجن و لوط رواها البخاري: 3372 و مسلم: 151 - انظر الصحيحة: 1617»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

274. بَابُ النَّاخِلَةِ مِنَ الدُّعَاءِ
274. خلوصِ دل سے دعا کرنا
حدیث نمبر: 606
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: كَانَ الرَّبِيعُ يَأْتِي عَلْقَمَةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَإِذَا لَمْ أَكُنْ ثَمَّةَ أَرْسَلُوا إِلَيَّ، فَجَاءَ مَرَّةً وَلَسْتُ ثَمَّةَ، فَلَقِيَنِي عَلْقَمَةُ، وَقَالَ لِي: أَلَمْ تَرَ مَا جَاءَ بِهِ الرَّبِيعُ؟ قَالَ: أَلَمْ تَرَ أَكْثَرَ مَا يَدْعُو النَّاسَ، وَمَا أَقَلَّ إِجَابَتَهُمْ؟ وَذَلِكَ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لا يَقْبَلُ إِلا النَّاخِلَةَ مِنَ الدُّعَاءِ، قُلْتُ: أَوَ لَيْسَ قَدْ قَالَ ذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ؟ قَالَ: وَمَا قَالَ؟ قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لا يَسْمَعُ اللَّهُ مِنْ مُسْمِعٍ، وَلا مُرَاءٍ، وَلا لاعِبٍ، إِلا دَاعٍ دَعَا يَثْبُتُ مِنْ قَلْبِهِ، قَالَ: فَذَكَرَ عَلْقَمَةَ؟ قَالَ: نَعَمْ.
عبدالرحمٰن بن یزید رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ربیع رحمہ اللہ جمعہ کے دن سیدنا علقمہ کے ہاں تشریف لے جاتے۔ اگر میں وہاں نہ ہوتا تو وہ میری طرف پیغام بھیجتے۔ وہ ایک مرتبہ آئے اور میں وہاں نہیں تھا، پھر علقمہ مجھے ملے اور مجھ سے کہا: تمہیں معلوم ہے ربیع کیا لائے؟ اور کہا: کیا تو نے نہیں دیکھا کہ لوگ کتنی زیادہ دعائیں کرتے ہیں اور کتنی کم قبول ہوتی ہیں! اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ عزوجل خلوص دل والی دعا کے علاوہ کوئی دعا قبول نہیں کرتا۔ میں نے کہا: کیا یہ بات سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے نہیں فرمائی؟ انہوں نے کہا: عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کیا فرمایا ہے؟ اس نے کہا: عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کسی شہرت پسند، ریاکار اور کھیلنے والے کی دعا قبول نہیں کرتا۔ دعا اس کی قبول ہوتی ہے جو پختہ ارادے اور دلی یقین سے دعا کرے۔ اس نے کہا: کیا علقمہ کو ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بات یاد آ گئی؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 606]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد فى الزهد: 876 و هناد فى الزهد: 874»

قال الشيخ الألباني: صحيح

275. بَابُ لِيَعْزِمِ الدُّعَاءَ، فَإِنَّ اللهَ لَا مُكْرِهَ لَهُ
275. پختہ ارادہ کے ساتھ دعا کرنی چاہیے کیونکہ الله تعالیٰ کو کوئی مجبور کرنے والا نہیں
حدیث نمبر: 607
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنِ الْعَلاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ”إِذَا دَعَا أَحَدُكُمْ فَلا يَقُولُ: إِنْ شِئْتَ، وَلْيَعْزِمِ الْمَسْأَلَةَ، وَلْيُعَظِّمِ الرَّغْبَةَ، فَإِنَّ اللَّهَ لا يَعْظُمُ عَلَيْهِ شَيْءٌ أَعْطَاهُ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی دعا کرے تو یوں نہ کہے: اگر تو چاہے تو عطا کر دے بلکہ مضبوطی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے درخواست کرے اور بڑی رغبت کے ساتھ دعا کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے لیے کسی چیز کا عطا کرنا کوئی بڑی بات نہیں۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 607]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الدعوات: 6339 و مسلم: 2679 و أبوداؤد: 1483 و الترمذي: 3497 و ابن ماجه: 3854»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 608
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”إِذَا دَعَا أَحَدُكُمْ فَلْيَعْزِمْ فِي الدُّعَاءِ، وَلا يَقُلِ: اللَّهُمَّ إِنْ شِئْتَ فَأَعْطِنِي، فَإِنَّ اللَّهَ لا مُسْتَكْرِهَ لَهُ.“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی دعا کرے تو مضبوط ارادے کے ساتھ دعا کرے، اور یوں نہ کہے: اے اللہ اگر تو چاہتا ہے تو مجھے عطا کر دے۔ بے شک اللہ تعالیٰ کو کوئی مجبور کرنے والا نہیں۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 608]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري: 6338 و مسلم: 2678»

قال الشيخ الألباني: صحيح

276. بَابُ رَفْعِ الْأَيْدِي فِي الدُّعَاءِ
276. دعا میں ہاتھ اٹھانے کا بیان
حدیث نمبر: 609
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُلَيْحٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ وَهُوَ وَهْبٌ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ، وَابْنَ الزُّبَيْرِ يَدْعُوَانِ، يُدِيرَانِ بِالرَّاحَتَيْنِ عَلَى الْوَجْهِ.
ابونعیم رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر اور سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہم کو دعا کرتے ہوئے دیکھا، وہ دونوں ہتھیلیوں کو چہرے پر پھیرتے تھے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 609]
تخریج الحدیث: «ضعيف:» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: ضعيف

حدیث نمبر: 610
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، زَعَمَ أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنْهَا، أَنَّهَا رَأَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو رَافِعًا يَدَيْهِ، يَقُولُ: ”إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ فَلا تُعَاقِبْنِي، أَيُّمَا رَجُلٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ آذَيْتُهُ أَوْ شَتَمْتُهُ فَلا تُعَاقِبْنِي فِيهِ.“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہوئے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: (اے اللہ!) میں بشر ہوں، میرا مواخذہ نہ فرمانا، میں نے جس مسلمان کو بھی اذیت دی ہے، یا اسے برا بھلا کہا ہے، اس میں میری پکڑ نہ کرنا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 610]
تخریج الحدیث: «صحيح لغيره: أخرجه أحمد: 2565 و عبدالرزاق: 3248 و ابن راهويه فى مسنده: 1204 و رواه مسلم بمعناه: 2600 - انظر الصحيحة: 82، 83»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 611
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَدِمَ الطُّفَيْلُ بْنُ عَمْرٍو الدَّوْسِيُّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ دَوْسًا قَدْ عَصَتْ وَأَبَتْ، فَادْعُ اللَّهَ عَلَيْهَا، فَاسْتَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِبْلَةَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، فَظَنَّ النَّاسُ أَنَّهُ يَدْعُو عَلَيْهِمْ، فَقَالَ: ”اللَّهُمَّ اهْدِ دَوْسًا، وَائْتِ بِهِمْ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ طفیل بن عمرو دوسی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! دوس قبیلے والوں نے نافرمانی اور انکار کیا ہے۔ لہٰذا ان کے خلاف دعا فرمائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ رخ ہوئے اور ہاتھ اٹھا دیے۔ لوگوں نے سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے بددعا کرنے لگے ہیں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! قبیلہ دوس کو ہدایت عطا فرما اور انہیں ہمارے پاس لے آ۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 611]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الجهاد: 2937، 6397 و أحمد: 7315 و الحميدي: 1050 و مسلم: 2524، بمعناه»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 612
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَحَطَ الْمَطَرُ عَامًا، فَقَامَ بَعْضُ الْمُسْلِمِينَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَحَطَ الْمَطَرُ، وَأَجْدَبَتِ الأَرْضُ، وَهَلَكَ الْمَالُ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ، وَمَا يُرَى فِي السَّمَاءِ مِنْ سَحَابَةٍ، فَمَدَّ يَدَيْهِ حَتَّى رَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ يَسْتَسْقِي اللَّهَ، فَمَا صَلَّيْنَا الْجُمُعَةَ حَتَّى أَهَمَّ الشَّابُّ الْقَرِيبُ الدَّارِ الرُّجُوعَ إِلَى أَهْلِهِ، فَدَامَتْ جُمُعَةٌ، فَلَمَّا كَانَتِ الْجُمُعَةُ الَّتِي تَلِيهَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تَهَدَّمَتِ الْبُيُوتُ، وَاحْتَبَسَ الرُّكْبَانُ، فَتَبَسَّمَ لِسُرْعَةِ مَلالِ ابْنِ آدَمَ وَقَالَ بِيَدِهِ: ”اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا، وَلا عَلَيْنَا“، فَتَكَشَّطَتْ عَنِ الْمَدِينَةِ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک سال بارش رک گئی اور قحط پڑ گیا تو جمعہ والے دن مسلمانوں میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! بارش رک گئی ہے، زمین خشک ہو گئی ہے، اور مال مویشی ہلاک ہو رہے ہیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دوران خطبہ ہی) اپنے ہاتھ اٹھائے، جبکہ اس وقت آسمان پر کوئی بادل دکھائی نہیں دیتا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو اس قدر اونچا اٹھایا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی دیکھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے بارش طلب کی۔ ابھی ہم نے نماز جمعہ ادا نہیں کی تھی کہ بارش کی وجہ سے قریب گھر والے نوجوان کو گھر جانے کی فکر دامن گیر ہو گئی۔ پھر یہ بارش اگلے جمعہ تک مسلسل ہوتی رہی۔ اگلا جمعہ آیا تو اس شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! گھر منہدم ہو گئے، سوار رکے ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابن آدم کے جلدی اکتا جانے پر مسکرائے، اور ہاتھ اٹھا کر فرمایا: اے اللہ! ہمارے آس پاس بارش برسا، ہم پر نہیں۔ تو مدینہ سے بادل چھٹ گئے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 612]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه النسائي: كتاب الاستسقاء: 1525 و معناه فى البخاري: 1013 و مسلم: 897 و أبى داؤد: 1174 و النسائي: 1515 - انظر الإرواء: 144/2، 145»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 613
حَدَّثَنَا الصَّلْتُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنْهَا، أَنَّهَا رَأَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو رَافِعًا يَدَيْهِ، يَقُولُ: ”اللَّهُمَّ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ فَلا تُعَاقِبْنِي، أَيُّمَا رَجُلٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ آذَيْتُهُ أَوْ شَتَمْتُهُ فَلا تُعَاقِبْنِي فِيهِ.“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہوئے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: اے اللہ! میں بشر ہوں، لہٰذا میرا مواخذہ نہ فرمانا۔ میں نے جس مومن کو تکلیف پہنچائی، یا برا بھلا کہا، اس کے بارے میں مجھے نہ پکڑنا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 613]
تخریج الحدیث: «صحيح: انظر حديث، رقم: 610»

قال الشيخ الألباني: صحيح


1    2    3    4    5    Next