الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن دارمي کل احادیث (3535)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن دارمي
من كتاب الاضاحي
قربانی کے بیان میں
1. باب السُّنَّةِ في الأُضْحِيَّةِ:
1. قربانی کرنے کا سنت طریقہ
حدیث نمبر: 1984
أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: "ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ أَقْرَنَيْنِ، وَيُسَمِّي وَيُكَبِّرُ، لَقَدْ رَأَيْتُهُ يَذْبَحُهُمَا بِيَدِهِ وَاضِعًا عَلَى صِفَاحِهِمَا قَدَمَهُ"، قُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ؟ قَالَ: نَعَمْ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سرمگیں، سینگوں والے مینڈھے ذبح کئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذبح کرتے وقت بسم الله و الله اکبر کہتے تھے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان مینڈھوں کو اپنے ہاتھ سے ان کے پٹھ پر اپنا پیر رکھ کر ذبح کرتے ہوئے دیکھا۔ راوی نے کہا: میں نے دریافت کیا کہ تم نے ان سے سنا تھا؟ کہا: ہاں۔ [سنن دارمي/من كتاب الاضاحي/حدیث: 1984]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1988] »
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1551، 5565] ، [مسلم 1966] ، [أبوداؤد 2793] ، [ترمذي 1494] ، [نسائي 4399] ، [ابن ماجه 3120] ، [أبويعلی 2806] ، [ابن حبان 5900]

حدیث نمبر: 1985
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي عَيَّاشٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ فِي يَوْمِ الْعِيدِ، فَقَالَ حِينَ وَجَّهَهُمَا:"إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِكِينَ. إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا شَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ. اللَّهُمَّ إِنَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ، عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ"، ثُمَّ سَمَّى اللَّهَ وَكَبَّرَ وَذَبَحَ.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے دن دو مینڈھوں کی قربانی کی، اور جس وقت ان کا منہ قبلہ کی طرف کیا تو یہ آیت پڑھی: «إِنِّيْ وَجَّهْتُ ...... الْمُسْلِمِيْنَ» میں نے اپنا منہ اس ذات کی طرف کر لیا جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا، اور میں سیدھا مسلمان ہوں، میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں، بیشک میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور موت سب اللہ ہی کے لئے ہے، جو سارے جہانوں کا مالک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور مجھے اس کا حکم ہوا اور میں سب سے پہلے اس کے تابعداروں میں سے ہوں۔ پھر یہ دعا پڑھی: «اَللّٰهُمَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهٖ» یعنی: اے الله یہ قربانی تیری ہی طرف سے ہے (تو نے ہی مجھے عطا کی) اور صرف تیرے لئے ہے محمد اور اس کی امت کی طرف سے۔ پھر «بسم الله الله اكبر» کہا اور ذبح کر دیا۔ [سنن دارمي/من كتاب الاضاحي/حدیث: 1985]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح بشواهده، [مكتبه الشامله نمبر: 1989] »
اس روایت کی سند تو ضعیف ہے لیکن اس کے شواہد صحیحہ موجود ہیں۔ دیکھئے: [مسلم 1977] ، [أبوداؤد 2795] ، [ترمذي 1521،] [ابن ماجه 3121] ، [أبويعلی 1792] ، [مجمع الزوائد 6047]

2. باب مَا يُسْتَدَلُّ مِنْ حَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الأُضْحِيَّةَ لَيْسَ بِوَاجِبٍ:
2. قربانی کرنا واجب نہیں ہے
حدیث نمبر: 1986
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي خَالِدٌ يَعْنِي: ابْنَ يَزِيدَ، حَدَّثَنِي سَعِيدٌ يَعْنِي: ابْنَ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ الْمُسَيَّبِ، أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ، قَالَ: "مَنْ أَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلَا يُقَلِّمْ أَظْفَارَهُ، وَلَا يَحْلِقْ شَيْئًا مِنْ شَعْرِهِ فِي الْعَشْرِ الْأُوَلِ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ".
سیدہ ام سلمۃ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو وہ ذوالحجہ کے پہلے عشرے میں نہ اپنے ناخون کاٹے نہ بال منڈوائے۔ [سنن دارمي/من كتاب الاضاحي/حدیث: 1986]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1990] »
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1977] ، [أبوداؤد 2791] ، [ترمذي 1523] ، [نسائي 4373] ، [ابن ماجه 3149، 3150] ، [أبويعلی 6910] ، [ابن حبان 5897] ، [الحميدي 295]

حدیث نمبر: 1987
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا دَخَلَتْ الْعَشْرُ، وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلَا يَمَسَّ مِنْ شَعْرِهِ وَلَا أَظْفَارِهِ شَيْئًا".
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب ذوالحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہوا، اور تم میں سے کسی کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو تو وہ اپنے بال نہ کاٹے اور نہ ناخون کاٹے۔ [سنن دارمي/من كتاب الاضاحي/حدیث: 1987]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1991] »
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ تخریج اوپر گزر چکی ہے۔

3. باب مَا لاَ يَجُوزُ في الأَضَاحِيِّ:
3. قربانی کے لئے جو جانور جائز نہیں اس کا بیان
حدیث نمبر: 1988
أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ فَيْرُوزَ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يُتَّقَى مِنْ الضَّحَايَا؟ قَالَ: "الْعَوْرَاءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا، وَالْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ ظَلْعُهَا، وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا، وَالْعَجْفَاءُ الَّتِي لَا تُنْقِي".
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ قربانی کے لئے کیسے جانور سے پرہیز کیا جائے؟ فرمایا: ایک تو کانا جانور جس کانا پن ظاہر ہو، (دوسرے) لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو، (تیسرے) ایسا بیمار جانور جس کی بیماری ظاہر و بائن ہو اور (چوتھے) ایک دبلی پتلی قربانی جس کی ہڈیوں میں گودا ہی نہ ہو۔ [سنن دارمي/من كتاب الاضاحي/حدیث: 1988]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1992] »
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الموطأ فى كتاب الضحايا 1] ، [أبوداؤد 2802] ، [ترمذي 1497] ، [نسائي 4381] ، [ابن ماجه 3144] ، [ابن حبان 5919] ، [الموارد 1046]

حدیث نمبر: 1989
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ فَيْرُوزَ، قَالَ: سَأَلْتُ الْبَرَاءَ عَمَّا نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْأَضَاحِيِّ , فَقَالَ: "أَرْبَعٌ لَا يُجْزِئْنَ: الْعَوْرَاءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا، وَالْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ ظَلْعُهَا، وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا، وَالْكَسِيرُ الَّتِي لَا تُنْقِي". قَالَ: قُلْتُ لِلْبَرَاءِ: فَإِنِّي أَكْرَهُ أَنْ يَكُونَ فِي السِّنِّ نَقْصٌ، وَفِي الْأُذُنِ نَقْصٌ، وَفِي الْقَرْنِ نَقْصٌ، قَالَ: فَمَا كَرِهْتَ فَدَعْهُ، وَلَا تُحَرِّمْهُ عَلَى أَحَدٍ.
عبید بن فیروز نے کہا: میں نے سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے پوچھا: قربانی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کن چیزوں سے روکا؟ جواب دیا کہ چار قسم کی قربانی کافی نہ ہو گی، ایک تو ایسی کانی جس کا کانا پن ظاہر ہو، دوسرے ایسی لنگڑی جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو، تیسرے ایسی بیمار جس کا مرض ظاہر ہو، چوتھے ایسی بوڑھی کہ ہڈیوں میں گودا نہ رہا ہو۔ عبید نے کہا: میں نے سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ مجھے یہ پسند نہیں کہ دانت میں خامی، کان میں نقص یا سینگ میں خرابی ہو؟ فرمایا: جو پسند نہ ہو اسے چھوڑ دو اور کسی اور پر اسے حرام نہ کرو۔ [سنن دارمي/من كتاب الاضاحي/حدیث: 1989]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1993] »
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ تخریج اوپر گزر چکی ہے۔

حدیث نمبر: 1990
أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ حُجَيَّةَ بْنَ عَدِيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا وَسَأَلَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، الْبَقَرَةُ? قَالَ: عَنْ سَبْعَةٍ، قُلْتُ: الْقَرْنُ؟ قَالَ: لَا يَضُرُّكَ. قَالَ: قُلْتُ: الْعَرَجُ؟ قَالَ: إِذَا بَلَغَتْ الْمَنْسَكَ. ثُمَّ قَالَ:"أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالْأُذُنَ".
حجیہ بن عدی نے کہا: میں نے سنا ایک شخص نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا: اے امیر المومنین! گائے کتنے افراد کی طرف سے؟ فرمایا: سات افراد کی طرف سے، میں نے عرض کیا: سینگ کے بارے میں کیا حکم ہے؟ فرمایا: کوئی برائی نہیں، عرض کیا: اور لنگڑا پن؟ فرمایا: قربان گاہ تک پہنچ جائے تو کوئی حرج نہیں، (یعنی جو چل سکتا ہو اس میں کوئی حرج نہیں)، پھر فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کوحکم دیا تھا کہ آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں۔ [سنن دارمي/من كتاب الاضاحي/حدیث: 1990]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1994] »
اس روایت کی سند حسن ہے لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1498] ، [نسائي 4388، الطرف الأخير فقط] ، [أبويعلی 333] ، [ابن حبان 5920]

حدیث نمبر: 1991
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ النُّعْمَانِ الصَّائِدِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:"أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالْأُذُنَ، وَأَنْ لَا نُضَحِّيَ بِمُقَابَلَةٍ وَلَا مُدَابَرَةٍ وَلَا خَرْقَاءَ، وَلَا شَرْقَاءَ، فَالْمُقَابَلَةُ: مَا قُطِعَ طَرَفُ أُذُنِهَا، وَالْمُدَابَرَةُ: مَا قُطِعَ مِنْ جَانِبِ الْأُذُنِ، وَالْخَرْقَاءُ: الْمَثْقُوبَةُ، وَالشَّرْقَاءُ: الْمَشْقُوقَةُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم (قربانی) کے کان اور آنکھ کو خوب دیکھ لیں (یعنی ان میں کوئی نقص نہ ہو) اور مقابلہ، مدابرة، خرقاء اور شرقاء کی قربانی نہ کریں۔ مقابلہ وہ جانور جس کا کان کاٹ دیا گیا ہو، مدابرہ وہ ہے کہ کان کی جانب سے کچھ کٹا ہوا ہو، اور خرقاء وہ ہے جس کا کان چھدا ہوا ہو، اور شرقاء جس کا کان چرا ہوا ہو۔ (یہ سب کان کے نقص ہیں، ان کے ہوتے ہوئے قربانی درست نہیں)۔ [سنن دارمي/من كتاب الاضاحي/حدیث: 1991]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات فقد قيل: إن أبا إسحاق لم يسمع شريح بن النعمان، [مكتبه الشامله نمبر: 1995] »
اس روایت کے تمام راوی ثقات ہیں۔ حوالہ دیکھئے: [أبوداؤد 2804] ، [ترمذي 1498] ، [نسائي 4384] ، [ابن ماجه 3142]

4. باب مَا يُجْزِئُ مِنَ الضَّحَايَا:
4. قربانی کے لئے کتنی عمر کا جانور کافی ہے
حدیث نمبر: 1992
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ بَعْجَةَ الْجُهَنِيِّ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحَايَا بَيْنَ أَصْحَابِهِ فَأَصَابَنِي جَذَعٌ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهَا صَارَتْ لِي جَذَعَةً، فَقَالَ:"ضَحِّ بِهِ".
سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ میں قربانی کے جانور تقسیم کئے تو میرے حصے میں ایک سال سے کم کا بکری کا بچہ آیا، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے حصہ میں تو ایک سال سے کم کا بکری کا بچہ آیا؟ فرمایا: اسی کی قربانی کر دو۔ [سنن دارمي/من كتاب الاضاحي/حدیث: 1992]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1996] »
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5547] ، [مسلم 1965] ، [ترمذي 1500] ، [نسائي 4392] ، [أبويعلی 1758] ، [ابن حبان 5898]

حدیث نمبر: 1993
أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: أَعْطَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَنَمًا أَقْسِمُهَا عَلَى أَصْحَابِهِ، فَقَسَمْتُهَا وَبَقِيَ مِنْهَا عَتُودٌ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:"ضَحِّ بِهِ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: الْعَتُودُ: الْجَذَعُ مِنْ الْمَعْزِ.
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے صحابہ کرام کے درمیان تقسیم کرنے کے لئے (قربانی کی) بکریاں عطا کیں، چنانچہ میں نے انہیں تقسیم کر دیا، ان میں سے ایک سال سے کم کا ایک بچہ بچا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسی کی قربانی کر دو۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: «عتود» بکری کے بچے کو کہتے ہیں۔ [سنن دارمي/من كتاب الاضاحي/حدیث: 1993]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1997] »
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ تخریج اوپر گزر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [بخاري 5555، 4300] ، [ابن ماجه 3138]


1    2    3    4    5    Next