الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:

صحيح مسلم
كِتَاب اللِّعَانِ
لعان کا بیان
1. باب:
1. باب:
حدیث نمبر: 3743
وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ : أَنَّ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ ، أَخْبَرَهُ: أَنَّ عُوَيْمِرًا الْعَجْلَانِيَّ جَاءَ إِلَى عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ الْأَنْصَارِيِّ، فَقَالَ لَهُ: أَرَأَيْتَ يَا عَاصِمُ، لَوْ أَنَّ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ، فَتَقْتُلُونَهُ أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟ فَسَلْ لِي عَنْ ذَلِكَ يَا عَاصِمُ، رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عَاصِمٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا، حَتَّى كَبُرَ عَلَى عَاصِمٍ، ومَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَجَعَ عَاصِمٌ إِلَى أَهْلِهِ جَاءَهُ عُوَيْمِرٌ، فَقَالَ: يَا عَاصِمُ، مَاذَا قَالَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، قَالَ عَاصِمٌ: لِعُوَيْمِرٍ: لَمْ تَأْتِنِي بِخَيْرٍ قَدْ كَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْأَلَةَ الَّتِي سَأَلْتُهُ عَنْهَا، قَالَ عُوَيْمِرٌ: وَاللَّهِ لَا أَنْتَهِي حَتَّى أَسْأَلَهُ عَنْهَا، فَأَقْبَلَ عُوَيْمِرٌ حَتَّى أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَطَ النَّاسِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ، فَتَقْتُلُونَهُ أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَدْ نَزَلَ فِيكَ وَفِي صَاحِبَتِكَ، فَاذْهَبْ فَأْتِ بِهَا "، قَالَ سَهْلٌ: فَتَلَاعَنَا وَأَنَا مَعَ النَّاسِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا فَرَغَا، قَالَ عُوَيْمِرٌ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ أَمْسَكْتُهَا، فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَكَانَتْ سُنَّةَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ ".
3743. ہمیں یحییٰ بن یحییٰ نے حدیث بیان کی، کہا: میں نے امام مالک کے سامنے قراءت کی کہ ابن شہاب سے روایت ہے، حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں خبر دی کہ عویمر عجلانی رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عاصم بن عدی انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا: عاصم! آپ کی کیا رائے ہے اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائے کیا وہ اسے قتل کر دے، اس پر تو تم اسے (قصاصاً) قتل کر دو گے یا پھر وہ کیا کرے؟ عاصم! میرے لیے اس مسئلے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھئے۔ چنانچہ عاصم رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے (غیر پیش آمدہ) مسائل کو ناپسند فرمایا اور ان کی مذمت کی، یہاں تک کہ عاصم رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ سے جو بات سنی وہ انہیں بہت گراں گزری۔ جب عاصم رضی اللہ تعالی عنہ واپس اپنے گھر آئے تو عویمر رضی اللہ تعالی عنہ ان کے پاس آئے اور کہنے لگے: عاصم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے کیا فرمایا؟ عاصم رضی اللہ تعالی عنہ نے عویمر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا: تو میرے پاس بھلائی (کی بات) نہیں لایا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلے کو جس کے متعلق میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، ناپسند فرمایا۔ عویمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں نہیں رکوں گا یہاں تک کہ میں (خود) اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کر لوں۔ چنانچہ عویمر رضی اللہ تعالی عنہ لوگوں کی موجودگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کی اس آدمی کے بارے میں کیا رائے ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی (غیر) مرد کو پائے، کیا وہ اسے قتل کرے اور آپ (قصاصاً) اسے قتل کر دیں گے یا پھر وہ کیا کرے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں (قرآن) نازل ہو چکا ہے، تم جاؤ اور اسے لے کر آؤ۔ حضرت سہل رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: ان دونوں نے آپس میں لعان کیا، میں لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا، جب وہ دونوں (لعان سے) فارغ ہوئے، عویمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! اگر میں نے (اب) اس کو اپنے پاس رکھا تو (گویا) میں نے اس پر جھوٹ بولا تھا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم دینے سے پہلے ہی انہوں نے اسے تین طلاقیں دے دیں۔ ابن شہاب نے کہا: اس کے بعد یہی لعان کرنے والوں کا (شرعی) طریقہ ہو گیا-
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ عویمر عجلانی رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت عاصم بن عدی انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے اور ان سے پوچھا، اے عاصم! آپ مجھے بتائیں، اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی دوسرے مرد کو پائے تو کیا اسے قتل کر دے اور تم اسے (قاتل کو) قتل کر دو؟ یا وہ کیا کرے؟ تو آپ میری خاطر رسول اللہ سے پوچھ کر بتائیں، اے عاصم! تو عاصم رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، آپ نے ایسے مسائل (جو ابھی پیش نہیں آئے) کے بارے میں پوچھنا ناپسند کیا، اور اس کی مذمت کی، حتی کہ عاصم نے جو کراہت و ناپسندیدگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی، وہ اس پر شاق گزری، تو جب عاصم گھر واپس گئے تو ان کے پاس حضرت عویمر آئے، اور پوچھا، اے عاصم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کیا جواب دیا؟ حضرت عاصم نے حضرت عویمر سے کہا، تو میرے لیے خیر کا سبب نہیں بنا، وہ مسئلہ جس کے بارے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا۔ حضرت عویمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اللہ کی قسم! جب تک اس مسئلہ کے بارے میں، میں آپ سے دریافت نہ کر لوں، میں باز نہیں آؤں گا۔ تو حضرت عویمر چلے، حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگوں کے درمیان میں پہنچ گئے، اور پوچھا، اے اللہ کے رسول! آپ بتائیں، ایک آدمی دوسرے آدمی کو اپنی بیوی کے پاس پاتا ہے تو کیا اسے قتل کر دے تو آپ اس کو قتل کر دیں گے؟ یا وہ کیا کرے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں حکم نازل ہو چکا ہے، تم جا کر اسے لے آو۔ حضرت سہل رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، تو ان دونوں نے لعان کیا، اور میں بھی لوگوں کے ساتھ، آپ کی مجلس میں حاضر تھا، تو جب میاں بیوی لعان سے فارغ ہو گئے، تو حضرت عویمر نے کہا، اے اللہ کے رسول! اگر اب میں اس کو اپنے پاس رکھوں، تو میں نے اس کے بارے میں جھوٹ بولا ہے، اس لیے پیش ازیں کے آپ اسے حکم دیتے اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، امام ابن شہاب کہتے ہیں، لعان کرنے والوں میں یہی طریقہ جاری ہو گیا (کہ لعان سے دونوں میں تفریق ہو جاتی ہے)۔
حدیث نمبر: 3744
وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيُّ ، أَنَّ عُوَيْمِرًا الْأَنْصَارِيَّ مِنْ بَنِي الْعَجْلَانِ، أَتَى عَاصِمَ بْنَ عَدِيٍّ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ حَدِيثِ مَالِكٍ، وَأَدْرَجَ فِي الْحَدِيثِ قَوْلَهُ وَكَانَ فِرَاقُهُ إِيَّاهَا بَعْدُ سُنَّةً فِي الْمُتَلَاعِنَيْنِ وَزَادَ فِيهِ، قَالَ سَهْلٌ: فَكَانَتْ حَامِلًا فَكَانَ ابْنُهَا يُدْعَى إِلَى أُمِّهِ، ثُمَّ جَرَتِ السُّنَّةُ أَنَّهُ يَرِثُهَا وَتَرِثُ مِنْهُ مَا فَرَضَ اللَّهُ لَهَا.
3744. یونس نے مجھے ابن شہاب سے خبر دی، (کہا:) مجھے حضرت سہل بن سعد انصاری رضی اللہ تعالی عنہ نے خبر دی کہ بنو عجلان میں سے عویمر انصاری رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عاصم بن عدی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے، آگے انہوں نے امام مالک کی حدیث کے مانند حدیث بیان کی، انہوں نے ان (ابن شہاب) کا یہ قول حدیث کے اندر شامل کر لیا: اس کے بعد خاوند کی بیوی سے جدائی لعان کرنے والوں کا (شرعی) طریقہ بن گئی۔ اور انہوں نے یہ بھی اضافہ کیا: حضرت سہل رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: وہ عورت حاملہ تھی، اس کے بیٹے کو اس کی ماں کی نسبت سے پکارا جاتا تھا، پھر یہ طریقہ جاری ہو گیا کہ اللہ کے فرض کردہ حصے کے بقدر وہ (بیٹا) اس کا وارث بنے گا اور وہ (ماں) اس کی وارث بنے گی-
حضرت سہل بن سعد انصاری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ عویمر انصاری رضی اللہ تعالی عنہ جو بنو عجلان سے تعلق رکھتے تھے عاصم بن عدی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے۔ آگے مذکورہ بالا حدیث ہے، لیکن یہاں حدیث میں زہری کا قول، کہ اس کا اپنی بیوی سے الگ ہو جانا، بعد میں، لعان کرنے والوں میں رائج ہو گیا، داخل کر دیا گیا ہے، اور اس حدیث میں یہ اضافہ ہے وہ عورت حاملہ تھی، اور اس کا بیٹا، اپنی ماں ہی کی طرف منسوب کیا جاتا تھا، پھر اس پر عمل جاری ہو گیا۔ کہ بیٹا اپنی ماں کا وارث ہو گا اور ماں کو اس سے وہ حصہ ملے گا، جو اللہ نے ماں کے لیے مقرر کیا ہے۔
حدیث نمبر: 3745
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ ، عَنِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ، وَعَنِ السُّنَّةِ فيهما، عَنْ حَدِيثِ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ أَخِي بَنِي سَاعِدَةَ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، وَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِقِصَّتِهِ، وَزَادَ فِيهِ، فَتَلَاعَنَا فِي الْمَسْجِدِ وَأَنَا شَاهِدٌ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ: فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَفَارَقَهَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ذَاكُمُ التَّفْرِيقُ بَيْنَ كُلِّ مُتَلَاعِنَيْنِ.
3745. ابن جریج نے کہا: مجھے ابن شہاب نے، بنو ساعدہ کے فرد حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث کے حوالے سے لعان کرنے والوں اور ان کے بارے میں جو طریقہ رائج ہے اس کے متعلق بتایا کہ انصار میں سے ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! آپ کی کیا رائے ہے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائے؟۔۔۔ آگے مکمل قصے سمیت حدیث بیان کی اور یہ اضافہ کیا: ان دونوں نے، میری موجودگی میں، مسجد میں لعان کیا اور انہوں نے حدیث میں (یہ بھی) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم دینے سے پہلے ہی اس نے اسے تین طلاقیں دے دیں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی ہی میں اس سے جدا ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر دو لعان کرنے والوں کے درمیان یہ تفریق ہی (شریعت کا حتمی طریقہ) ہے۔
ابن جریج بیان کرتے ہیں کہ مجھے ابن شہاب نے، لعان کرنے والوں اور اس کے طریقہ کے بارے میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ، جو بنو ساعدہ کے فرد ہیں، کی حدیث کی روشنی میں بتایا کہ ایک انصاری آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: اے اللہ کے رسول! بتائیے، ایک آدمی نے دوسرے مرد کو اپنی بیوی کے ساتھ پایا ہے؟ اور آگے مذکورہ بالا واقعہ بیان کیا، اور اس حدیث میں یہ اضافہ ہے، تو دونوں نے میری موجودگی میں مسجد میں لعان کیا، اور حدیث میں یہ بھی بیان کیا، خاوند نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے پہلے ہی اپنے طور پر، اسے تین طلاقیں دے دیں، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ہی اس سے جدائی اختیار کر لی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لعان کرنے والوں کے درمیان اس طرح جدائی ہو گی۔
حدیث نمبر: 3746
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي. ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَاللَّفْظُ لَهُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ: سُئِلْتُ عَنِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ فِي إِمْرَةِ مُصْعَبٍ، أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ: فَمَا دَرَيْتُ مَا أَقُولُ، فَمَضَيْتُ إِلَى مَنْزِلِ ابْنِ عُمَرَ بِمَكَّةَ، فَقُلْتُ لِلْغُلَامِ: اسْتَأْذِنْ لِي، قَالَ: إِنَّهُ قَائِلٌ فَسَمِعَ صَوْتِي، قَالَ ابْنُ جُبَيْرٍ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ادْخُلْ فَوَاللَّهِ مَا جَاءَ بِكَ هَذِهِ السَّاعَةَ إِلَّا حَاجَةٌ، فَدَخَلْتُ، فَإِذَا هُوَ مُفْتَرِشٌ بَرْذَعَةً مُتَوَسِّدٌ وِسَادَةً حَشْوُهَا لِيفٌ، قُلْتُ: أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُتَلَاعِنَانِ أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، نَعَمْ، إِنَّ أَوَّلَ مَنْ سَأَلَ عَنْ ذَلِكَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ أَنْ لَوْ وَجَدَ أَحَدُنَا امْرَأَتَهُ عَلَى فَاحِشَةٍ، كَيْفَ يَصْنَعُ إِنْ تَكَلَّمَ تَكَلَّمَ بِأَمْرٍ عَظِيمٍ، وَإِنْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى مِثْلِ ذَلِكَ؟ قَالَ: فَسَكَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يُجِبْهُ، فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أَتَاهُ، فَقَالَ: إِنَّ الَّذِي سَأَلْتُكَ عَنْهُ قَدِ ابْتُلِيتُ بِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ فِي سُورَةِ النُّورِ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ سورة النور آية 6، " فَتَلَاهُنَّ عَلَيْهِ وَوَعَظَهُ وَذَكَّرَهُ وَأَخْبَرَهُ: " أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ "، قَالَ: لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا كَذَبْتُ عَلَيْهَا، ثُمَّ دَعَاهَا فَوَعَظَهَا وَذَكَّرَهَا، وَأَخْبَرَهَا: " أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ "، قَالَتْ: لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنَّهُ لَكَاذِبٌ، فَبَدَأَ بِالرَّجُلِ، فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ، فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ، إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ وَالْخَامِسَةُ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ، ثُمَّ فَرَّقَ بَيْنَهُمَا ".
3746. عبداللہ بن نمیر نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں عبدالملک بن ابی سلیمان نے سعید بن جبیر سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: حضرت معصب رضی اللہ تعالی عنہ کے دورِ امارت میں مجھ سے لعان کرنے والوں کے بارے میں پوچھا گیا، کیا ان دونوں کو جدا کر دیا جائے گا؟ کہا: (اس وقت) مجھے معلوم نہ تھا کہ (جواب میں) کیا کہوں، چنانچہ میں مکہ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر گیا، میں نے غلام سے کہا: میرے لیے اجازت طلب کرو۔ اس نے کہا: وہ دوپہر کی نیند لے رہے ہیں۔ (اسی دوران میں) انہوں نے میری آواز سن لی تو انہوں نے پوچھا: ابن جبیر ہو؟ میں نے جواب دیا: جی ہاں۔ انہوں نے کہا: اندر آ جاؤ، اللہ کی قسم! تمہیں اس گھڑی کوئی ضرورت ہی (یہاں) لائی ہے۔ میں اندر داخل ہوا تو وہ ایک گدے پر لیٹے ہوئے تھے اور کھجور کی چھال بھرے ہوئے ایک تکیے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ میں نے عرض کی: ابوعبدالرحمان! کیا لعان کرنے والوں کو آپس میں جدا کر دیا جائے گا؟ انہوں نے کہا: سبحان اللہ! ہاں، اس کے بارے میں سب سے پہلے فلاں بن فلاں (عویمر بن حارث عجلانی) نے سوال کیا، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کی کیا رائے ہے اگر ہم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو بدکاری کرتے ہوئے پائے تو وہ کیا کرے؟ اگر وہ بات کرے تو ایک بہت بڑے معاملے (قذف) کی بات کرے گا اور اگر وہ خاموش رہے تو اسی جیسے (ناقابلِ برداشت) معاملے میں خاموشی اختیار کرے گا۔ کہا: اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت اختیار فرمایا اور سے کوئی جواب نہ دیا، پھر جب وہ اس (دن) کے بعد آپ کے پاس آیا تو کہنے لگا: میں نے جس کے بارے میں آپ سے سوال کیا تھا، اس میں مبتلا ہو چکا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ نور میں یہ آیات نازل کر دی تھیں: ﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ﴾ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سامنے ان کی تلاوت فرمائی، اسے وعظ اور نصیحت کی اور اسے بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے بہت ہلکا ہے۔ اس نے کہا: نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں نے اس پر جھوٹ نہیں بولا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (عورت) کو بلوایا۔ اسے وعظ اور نصیحت کی اور اسے بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے بہت ہلکا ہے۔ اس نے کہا: نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! وہ (خاوند) جھوٹا ہے۔ اس پر آپ نے مرد سے (لعان کی) ابتدا کی، اس نے اللہ (کے نام) کی چار گواہیاں دیں کہ وہ سچوں میں سے ہے اور پانچویں بار یہ (کہا) کہ اگر وہ جھوٹوں میں سے ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ پھر دوسری باری آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو دی۔ تو اس نے اللہ (کے نام) کی چار گواہیاں دیں کہ وہ (خاوند) جھوٹوں میں سے ہے اور پانچویں بار یہ (کہا) کہ اگر وہ (خاوند) سچوں میں سے ہے، تو اس (عورت) پر اللہ کا غضب ہو۔ پھر آپ نے ان دونوں کو الگ کر دیا-
حضرت سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے مصعب ابن زبیر کے دور حکومت میں لعان کرنے والوں کے بارے میں دریافت کیا گیا کہ کیا ان کے درمیان تفریق کر دی جائے گی؟ تو پتہ نہ چلا، کہ میں اس کا کیا جواب دوں، اس لیے میں مکہ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے گھر کی طرف چلا، اور (جا کر) غلام سے کہا، میرے لیے اجازت طلب کرو، اس نے کہا، وہ قیلولہ کر رہے ہیں، تو انہوں نے میری آواز سن لی، پوچھا، ابن جبیر ہو؟ میں نے کہا، جی ہاں، کہا، آجاؤ۔ اللہ کی قسم! تم اس وقت کسی ضرورت کے تحت ہی آئے ہو۔ تو میں اندر داخل ہو گیا۔ تو وہ ایک آتھر (چٹائی) پر لیٹے ہوئے تھے، اور ایک تکیہ کا سہارا لیا ہوا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ میں نے پوچھا، اے ابو عبدالرحمان! کیا لعان کرنے والوں میں تفریق پیدا کر دی جائے گی؟ انہوں نے (حیرت و استعجاب سے) کہا، سبحان اللہ! ہاں، سب سے پہلے اس مسئلہ کے بارے میں فلاں بن فلاں نے پوچھا تھا۔ اس نے کہا، اے اللہ کے رسول! بتائیے، ہم میں سے کوئی اگر بیوی کو بے حیائی کا کام کرتے ہوئے پائے، تو کیا کرے؟ اگر وہ کسی سے کلام کرے گا، تو انتہائی ناگوار بات کرے گا اور اگر خاموشی اختیار کرے گا تو بھی ایسی ہی صورت حال ہو گی۔ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چپ رہے، اور اسے کوئی جواب نہ دیا تو وہ اس کے بعد پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی، جس مسئلہ کے بارے میں، میں نے آپ سے دریافت کیا تھا، میں اس میں مبتلا ہو چکا ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ نے سورہ نور کی یہ آیات اتاریں: اور وہ لوگ جو اپنی بیویوں پر تہمت لگاتے ہیں (آیت: 6 سے لے کر آیت: 9 تک)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تلاوت فرمائی اور اسے وعظ و نصیحت کی اور اسے بتایا کہ دنیا کا عذاب (حد قذف، اَسی کوڑے) آخرت کے عذاب کے مقابلہ میں بہت ہلکا ہے۔ اس نے کہا، نہیں، اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق دے کر مبعوث فرمایا، میں نے اس پر جھوٹ نہیں باندھا، پھر آپ نے اس کی بیوی کو بلایا اور اسے نصیحت و تذکیر کی، اور اسے بتایا کہ دنیا کا عذاب (سنگسار کرنا) آخرت کے مقابلہ میں ہلکا ہے عورت نے کہا، نہیں، اس ذات کی قسم، جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے۔ وہ (خاوند) جھوٹا ہے تو آپ نے مرد سے ابتدا فرمائی۔ اس نے چار مرتبہ گواہی دی، اللہ کی قسم، میں سچا ہوں، اور پانچویں بار گواہی دی اگر میں جھوٹوں میں سے ہوں، تو مجھ پر اللہ کی پھٹکار۔ پھر دوسری بار، عورت کو بلایا، تو اس نے اللہ کی قسم اٹھا کر چار گواہیاں دیں، میرا خاوند جھوٹا ہے، اور پانچویں شہادت یہ دی اگر وہ سچا ہو تو اس پر (مجھ پر) اللہ کا عذاب نازل ہو، پھر آپ نے ان کے درمیان تفریق پیدا کر دی۔ حضرت مصعب بن زبیر اپنے بھائی حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے دور میں عراق کے گورنر تھے۔
حدیث نمبر: 3747
وحَدَّثَنِيهِ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ ، قَالَ: سُئِلْتُ عَنِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ زَمَنَ مُصْعَبِ بْنِ الزُّبَيْرِ، فَلَمْ أَدْرِ مَا أَقُولُ، فَأَتَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، فَقُلْتُ: أَرَأَيْتَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟ ثُمَّ ذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ ابْنِ نُمَيْرٍ.
3747. عیسیٰ بن یونس نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں عبدالملک بن ابی سلیمان نے حدیث سنائی، کہا: میں نے سعید بن جبیر سے سنا، کہا: معصب بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں مجھ سے لعان کرنے والوں کے بارے میں پوچھا گیا تو مجھے معلوم نہیں تھا کہ میں کیا کہوں، چنانچہ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آیا، میں نے کہا: لعان کرنے والوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے، کیا ان کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا جائے گا۔۔۔ پھر ابن نمیر کی حدیث کی طرح بیان کیا-
سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں، مجھ سے مصعب بن زبیر کے عہد میں، لعان کرنے والوں کے بارے میں دریافت کیا گیا، تو مجھے پتہ نہ چل سکا کہ میں کیا جواب دوں، تو میں عبداللہ بن عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا، بتائیے کیا لعان کرنے والوں میں تفریق کی جائے گی آگے مذکورہ بالا روایت بیان کی۔
حدیث نمبر: 3748
وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى، قَالَ يَحْيَي: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِلْمُتَلَاعِنَيْنِ حِسَابُكُمَا عَلَى اللَّهِ، أَحَدُكُمَا كَاذِبٌ لَا سَبِيلَ لَكَ عَلَيْهَا "، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَالِي؟ قَالَ: " لَا مَالَ لَكَ، إِنْ كُنْتَ صَدَقْتَ عَلَيْهَا، فَهُوَ بِمَا اسْتَحْلَلْتَ مِنْ فَرْجِهَا، وَإِنْ كُنْتَ كَذَبْتَ عَلَيْهَا، فَذَاكَ أَبْعَدُ لَكَ مِنْهَا ". قَالَ زُهَيْرٌ فِي رِوَايَتِهِ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
3748. یحییٰ بن یحییٰ، ابوبکر بن ابی شیبہ اور زہیر بن حرب نے ہمیں حدیث بیان کی۔ الفاظ یحییٰ کے ہیں، یحییٰ نے کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے عمرو (بن دینار) سے خبر دی جبکہ دوسروں نے کہا: ہمیں حدیث بیان کی۔۔ انہوں نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعان کرنے والوں سے فرمایا: تم دونوں کا (اصل) حساب اللہ پر ہے، تم میں سے ایک جھوٹا ہے۔ (اب) تمہارا اس (عورت) پر کوئی اختیار نہیں۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرا مال؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے لیے کوئی مال نہیں، اگر تم نے سچ بولا ہے تو یہ اس کے عوض ہے جو تم نے (اب تک) اس کی شرمگاہ کو اپنے لیے حلال کیے رکھا، اور اگر تم نے اس پر جھوٹ بولا ہے تو یہ (مال) تمہارے لیے اس کی نسبت بھی بعید تر ہے۔ زہیر نے اپنی روایت میں کہا: ہمیں سفیان نے عمرو سے حدیث بیان کی، انہوں نے سعید بن جبیر سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
امام صاحب اپنے تین اساتذہ سے بیان کرتے ہیں اور الفاظ یحییٰ کے ہیں، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعان کرنے والوں کو فرمایا: تمہارا محاسبہ اللہ کرے گا اور تم میں سے ایک بہرحال جھوٹا ہے، اب تمہارا اس عورت پر کوئی حق نہیں ہے۔ اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرا مال؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرا کوئی مال نہیں ہے، اگر تم نے اس کے بارے میں سچ بولا ہے تو وہ اسے ملے گا کیونکہ تم نے اس کی شرم گاہ کو اپنے لیے روا کر لیا ہے (اس سے فائدہ اٹھا چکے ہو) اور اگر تم نے اس پر افترا باندھا ہے، تو اس کے سبب تم اس سے بہت دور ہو چکے ہو۔ زہیر کی روایت میں عمرو کے سعید سے اور سعید کے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سماع کی تصریح ہے، عنعنہ نہیں ہے۔
حدیث نمبر: 3749
وحَدَّثَنِي أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: فَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَخَوَيْ بَنِي الْعَجْلَانِ، وَقَالَ: " اللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ؟ ".
3749. حماد نے ہمیں ایوب سے حدیث بیان کی، انہوں نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عجلان سے تعلق رکھنے والے دو افراد (میاں بیوی) کو ایک دوسرے سے جدا کیا اور فرمایا: اللہ (خوب) جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے، کیا تم میں سے کوئی توبہ کرنے والا ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عجلان کے میاں اور بیوی میں تفریق کر دی اور فرمایا: اللہ جانتا ہے، تم میں سے ایک جھوٹا ہے، تو کیا تم میں سے کوئی توبہ کرنے کے لیے تیار ہے؟
حدیث نمبر: 3750
وحَدَّثَنَاه ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَيُّوبَ ، سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ : عَنِ اللِّعَانِ، فَذَكَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ.
3750. سفیان نے ہمیں ایوب سے حدیث بیان کی، انہوں نے سعید بن جبیر سے سنا، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے لعان کے بارے میں پوچھا۔ اس کے بعد انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند بیان کیا-
یہی روایت امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں کہ سعید بن جبیر کہتے ہیں، میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے لعان کے بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے مذکورہ بالا حدیث بیان کی۔
حدیث نمبر: 3751
وحَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، وَاللَّفْظُ لِلْمِسْمَعِيِّ، وَابْنُ بَشَّارٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا مُعَاذٌ وَهُوَ ابْنُ هِشَامٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ عَزْرَةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ: لَمْ يُفَرِّقْ الْمُصْعَبُ بَيْنَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ، قَالَ سَعِيدٌ: فَذُكِرَ ذَلِكَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، فَقَالَ: " فَرَّقَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَخَوَيْ بَنِي الْعَجْلَانِ ".
3751. عزرہ نے سعید بن جبیر سے روایت کی، انہوں نے کہا: حضرت معصب ؓ نے لعان کرنے والوں کو ایک دوسرے سے جدا نہ کیا۔ سعید نے کہا: میں نے یہ بات حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو بتائی تو انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عجلان سے تعلق رکھنے والے دو افراد (میاں بیوی) کو ایک دوسرے سے جدا کیا تھا-
امام صاحب اپنے تین اساتذہ سے بیان کرتے ہیں، الفاظ مسمعی اور ابن مثنی کے ہیں، سعید بن جبیر کہتے ہیں، مصعب نے لعان کرنے والوں میں تفریق نہ کی۔ سعید کہتے ہیں، اس بات کا تذکرہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے کیا گیا، تو انہوں نے جواب دیا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عجلان کے بھائیوں، یعنی میاں بیوی کے درمیان تفریق کر دی تھی۔
حدیث نمبر: 3752
وحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مَالِكٌ. ح، وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَ: قُلْتُ لِمَالِك : حَدَّثَكَ نَافِعٌ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ : أَنَّ رَجُلًا لَاعَنَ امْرَأَتَهُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَفَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا، وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِأُمِّهِ، قَالَ: نَعَمْ ".
3752. یحییٰ بن یحییٰ نے کہا۔۔ اور الفاظ انہی کے ہیں۔۔ میں نے امام مالک سے پوچھا: کیا آپ سے نافع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے حوالے سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی نے اپنی بیوی سے لعان کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان تفریق کر دی اور بچے (کے نسب) کو اس کی ماں کے ساتھ ملا دیا؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں-
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اپنی بیوی سے لعان کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں جدائی ڈال دی اور بچے کو ماں کے ساتھ ملایا، امام مالک نے نافع سے اس روایت کے سماع کی تصدیق کی، اس لیے کہا: ہاں میں نے سنا ہے۔

1    2    3    Next