الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:

صحيح مسلم
كِتَاب الْأَشْرِبَةِ
مشروبات کا بیان
1. باب تَحْرِيمِ الْخَمْرِ وَبَيَانِ أَنَّهَا تَكُونُ مِنْ عَصِيرِ الْعِنَبِ وَمِنَ التَّمْرِ وَالْبُسْرِ وَالزَّبِيبِ وَغَيْرِهَا مِمَّا يُسْكِرُ:
1. باب: خمر کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 5127
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، قَالَ: " أَصَبْتُ شَارِفًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَغْنَمٍ يَوْمَ بَدْرٍ، وَأَعْطَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَارِفًا أُخْرَى، فَأَنَخْتُهُمَا يَوْمًا عِنْدَ بَابِ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَحْمِلَ عَلَيْهِمَا إِذْخِرًا لِأَبِيعَهُ وَمَعِي صَائِغٌ مِنْ بَنِي قَيْنُقَاعَ، فَأَسْتَعِينَ بِهِ عَلَى وَلِيمَةِ فَاطِمَةَ، وَحَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ يَشْرَبُ فِي ذَلِكَ الْبَيْتِ مَعَهُ قَيْنَةٌ تُغَنِّيهِ، فَقَالَتْ: أَلَا يَا حَمْزُ لِلشُّرُفِ النِّوَاءِ، فَثَارَ إِلَيْهِمَا حَمْزَةُ بِالسَّيْفِ، فَجَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا ثُمَّ أَخَذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا، قُلْتُ لِابْنِ شِهَابٍ: وَمِنَ السَّنَامِ؟، قَالَ: قَدْ جَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا فَذَهَبَ بِهَا، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: قَالَ عَلِيٌّ: فَنَظَرْتُ إِلَى مَنْظَرٍ أَفْظَعَنِي، فَأَتَيْتُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ، فَأَخْبَرْتُهُ الْخَبَرَ، فَخَرَجَ وَمَعَهُ زَيْدٌ، وَانْطَلَقْتُ مَعَهُ، فَدَخَلَ عَلَى حَمْزَةَ فَتَغَيَّظَ عَلَيْهِ، فَرَفَعَ حَمْزَةُ بَصَرَهُ، فَقَالَ: هَلْ أَنْتُمْ إِلَّا عَبِيدٌ لِآبَائِي، فَرَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَهْقِرُ حَتَّى خَرَجَ عَنْهُمْ ".
حجاج بن محمد نے ابن جریج سے روایت کی، کہا: مجھے ابن شہاب نے علی بن حسین بن علی سے حدیث بیان کی، انھوں نے اپنے والد حسین بن علی رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے حضرت علی بن ابی طا لب رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر کے مال غنیمت میں سے ایک (جوان اونٹنی حاصل ہو ئی۔ ایک اور جوان اونٹنی (خمس میں سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عطا فرما ئی۔ایک دن میں نے ان دونوں اونٹنیوں کو ایک انصاری کے دروازے پر بٹھا یا اور میں ان دو نوں پر بیچنے کے لیے اذخر (کی خوشبو دار گھاس) لا دکر لا نا چاہتا تھا۔۔۔بنو قینقاع کا سنار بھی میرے ساتھ تھا۔۔۔اور اس (کی قیمت) سے میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا (کے ساتھ اپنی شادی) کے ولیمے میں مدد لینا چا ہتا تھا۔حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ اس گھر میں (بیٹھے) شراب پی رہے تھے، ان کے قریب ایک گا نے والی عورت گا رہی تھی پھر وہ یہ اشعار گا نے لگی۔ سنیں حمزہ! (اٹھ کر) فربہ اونٹنیوں کی طرف بڑھیں (دوسرا مصرع ہے۔ وَہُنَّ مُعَقَّلَاتٌ بِالْفِنَاءِ"اور گھر کے آگے کھلی جگہ میں بندھی ہو ئی ہیں۔) "حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ تلوار سمیت لپک کر ان کی طرف بڑھے ان کے کوہانوں کو جڑسے کاٹ لیا ان کے پہلو چیردیے پھر ان کے کلیجے نکا ل لیے۔ میں نے ابن شہاب سے کہا: اور کو ہان بھی؟ انھوں نے کہا: وہ (حمزہ رضی اللہ عنہ) ان دونوں کے کو ہان جڑ سے کا ٹ کر لے گئے۔ابن شہاب نے کہا: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے ایک ایسا منظر دیکھا جس نے مجھے دہلا کر رکھ دیا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی آپ کے پاس مو جو د تھے۔آپ زید رضی اللہ عنہ کے ہمرا ہ نکل پڑے۔میں بھی آپ کے ساتھ چلنے لگا۔آپ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور غصے کا اظہار فرمایا۔حمزہ رضی اللہ عنہ نے آنکھ اٹھا ئی اور کہنے لگے: تم میرے آبا واجداد کے غلاموں سے برھ کر کیا ہو! (وہ دونوں جناب عبد المطلب کے پو تے تھے اور رشتے کے حوالے سے خدمت گزاری کے مقام پر تھے۔ حمزہ رضی اللہ عنہ رشتے میں ان سے ایک پشت اوپر تھے۔ انھوں نے شراب کی لہر میں اسی بات کو مبا لغہ آمیز فخر و مباہات کے رنگ میں کہہ دیا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الٹے پاؤں واپس ہو ئے اور ان کی محفل سے نکل آئے۔
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے بدر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غنیمت سے ایک عمر رسیدہ اونٹنی ملی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک اور عمر رسیدہ اونٹنی دے دی، تو ایک دن میں نے ان دونوں کو ایک انصاری کے دروازہ پر بیٹھا اور میں چاہتا تھا کہ ان دونوں پر بیچنے کے لیے اذخر لاؤں اور میرے ساتھ بنو قینقاع کا ایک زرگر بھی تھا، میں اس رقم سے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے شادی پر ولیمہ کی تیاری میں مدد حاصل کرنا چاہتا تھا اور حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس گھر میں شراب پی رہے تھے، ان کے پاس ایک گانے والی گا رہی تھی، اس نے کہا، خبردار! اے حمزہ، فربہ عمر رسیدہ اونٹنیوں کو ذبح کرنے کے لیے اٹھو، تو حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلوار لے کر ان دونوں کی طرف کودے اور ان دونوں کے کوہان کاٹ لیے اور دونوں کے کوکھ چاک کر ڈالے، پھر ان کے جگر نکال لیے، ابن جریج کہتے ہیں، میں نے ابن شہاب سے کہا اور کوہان سے؟ انہوں نے کہا، دونوں کے کوہان کاٹ کر لے گئے، ابن شہاب نے کہا، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، تو میں نے ایسا منظر دیکھا، جس نے مجھ دکھ پہنچایا، تو میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ کے پاس تھے، میں نے آپ کو واقعہ سے آگاہ کیا، تو آپ چل پڑے، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے اور میں بھی آپ کے ساتھ چلا، آپ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئے، اس پر ناراض ہوئے، تو حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی نظر اوپر اٹھا کر کہا، تم میرے بزرگوں کے غلام ہی تو ہو؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الٹے پاؤں لوٹے اور گھر سے نکل گئے۔
حدیث نمبر: 5128
وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
عبد الرزاق نے ابن جریج سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند روایت کی۔
ایک اور استاد سے مصنف یہی روایت بیان کرتے ہیں۔
حدیث نمبر: 5129
وحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ ، أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ كَثِيرِ بْنِ عُفَيْرٍ أَبُو عُثْمَانَ الْمِصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ ، أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَلِيًّا ، قَالَ: " كَانَتْ لِي شَارِفٌ مِنْ نَصِيبِي مِنَ الْمَغْنَمِ يَوْمَ بَدْرٍ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَانِي شَارِفًا مِنَ الْخُمُسِ يَوْمَئِذٍ، فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَبْتَنِيَ بِفَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاعَدْتُ رَجُلًا صَوَّاغًا مِنْ بَنِي قَيْنُقَاعَ يَرْتَحِلُ مَعِيَ، فَنَأْتِي بِإِذْخِرٍ أَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَهُ مِنَ الصَّوَّاغِينَ، فَأَسْتَعِينَ بِهِ فِي وَلِيمَةِ عُرْسِي، فَبَيْنَا أَنَا أَجْمَعُ لِشَارِفَيَّ مَتَاعًا مِنَ الْأَقْتَابِ وَالْغَرَائِرِ وَالْحِبَالِ وَشَارِفَايَ مُنَاخَانِ إِلَى جَنْبِ حُجْرَةِ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ وَجَمَعْتُ حِينَ جَمَعْتُ مَا جَمَعْتُ، فَإِذَا شَارِفَايَ قَدِ اجْتُبَّتْ أَسْنِمَتُهُمَا وَبُقِرَتْ خَوَاصِرُهُمَا وَأُخِذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا، فَلَمْ أَمْلِكْ عَيْنَيَّ حِينَ رَأَيْتُ ذَلِكَ الْمَنْظَرَ مِنْهُمَا، قُلْتُ: مَنْ فَعَلَ هَذَا؟، قَالُوا: فَعَلَهُ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَهُوَ فِي هَذَا الْبَيْتِ فِي شَرْبٍ مِنْ الْأَنْصَارِ غَنَّتْهُ قَيْنَةٌ وَأَصْحَابَهُ، فَقَالَتْ فِي غِنَائِهَا: أَلَا يَا حَمْزُ لِلشُّرُفِ النِّوَاءِ؟، فَقَامَ حَمْزَةُ بِالسَّيْفِ فَاجْتَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا، فَأَخَذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا، فَقَالَ عَلِيٌّ: فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ، قَالَ: فَعَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجْهِيَ الَّذِي لَقِيتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا لَكَ؟، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ قَطُّ عَدَا حَمْزَةُ عَلَى نَاقَتَيَّ فَاجْتَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا وَهَهُوَ ذَا فِي بَيْتٍ مَعَهُ شَرْبٌ، قَالَ فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرِدَائِهِ فَارْتَدَاهُ ثُمَّ انْطَلَقَ يَمْشِي وَاتَّبَعْتُهُ أَنَا وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ حَتَّى جَاءَ الْبَابَ الَّذِي فِيهِ حَمْزَةُ، فَاسْتَأْذَنَ فَأَذِنُوا لَهُ، فَإِذَا هُمْ شَرْبٌ فَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلُومُ حَمْزَةَ فِيمَا فَعَلَ، فَإِذَا حَمْزَةُ مُحْمَرَّةٌ عَيْنَاهُ، فَنَظَرَ حَمْزَةُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ إِلَى رُكْبَتَيْهِ ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى سُرَّتِهِ ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى وَجْهِهِ، فَقَالَ حَمْزَةُ: وَهَلْ أَنْتُمْ إِلَّا عَبِيدٌ لِأَبِي، فَعَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ ثَمِلٌ، فَنَكَصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَقِبَيْهِ الْقَهْقَرَى وَخَرَجَ وَخَرَجْنَا مَعَهُ ".
۔ عبد اللہ بن وہب نے کہا: مجھے یو نس بن یزید نے ابن شہاب سے حدیث بیان کی، کہا: مجھے علی بن حسین بن علی نے بتا یا کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہ نے انھیں خبر دی کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے بدر کے دن مال غنیمت میں ایک اونٹنی ملی اور اسی دن ایک اونٹنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خمس میں سے اور دی۔ پھر جب میں نے چاہا کہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا سے شادی کروں جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں تو میں نے بنی قینقاع کے ایک سنار سے وعدہ کیا کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم دونوں مل کر اذخر لائیں اور سناروں کے ہاتھ بیچیں اور اس سے میں اپنی شادی کا ولیمہ کروں۔ میں اپنی دونوں اونٹنیوں کا سامان پالان، رکابیں اور رسیاں وغیرہ اکٹھا کر رہا تھا اور وہ دونوں اونٹنیاں ایک انصاری کی کوٹھری کے بازو میں بیٹھی تھیں۔ جس وقت میں یہ سامان جو اکٹھا کر رہا تھا اکٹھا کر کے لوٹا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دونوں اونٹنیوں کے کوہان کٹے ہوئے ہیں، ان کی کوکھیں پھٹی ہوئی ہیں اور ان کے جگر نکال لئے گئے۔ مجھ سے یہ دیکھ کر نہ رہا گیا اور میری آنکھیں تھم نہ سکیں (یعنی میں رونے لگا یہ رونا دنیا کے طمع سے نہ تھا بلکہ سیدہ فاطمۃالزہراء اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں جو تقصیر ہوئی، اس خیال سے تھا) میں نے پوچھا کہ یہ کس نے کیا؟ لوگوں نے کہا کہ حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب نے اور وہ اس گھر میں انصار کی ایک جماعت کے ساتھ ہیں جو شراب پی رہے ہیں، ان کے سامنے اور ان کے ساتھیوں کے سامنے ایک گانے والی نے گانا گایا تو گانے میں یہ کہا کہ اے حمزہ اٹھ ان موٹی اونٹنیوں کو اسی وقت لے۔ حمزہ رضی اللہ عنہ تلوار لے کر اٹھے اور ان کے کوہان کاٹ لئے اور کوکھیں پھاڑ ڈالیں اور جگر (کلیجہ) نکال لیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ سن کر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، وہاں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بیٹھے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھتے ہی میرے چہرے سے رنج و مصیبت کو پہچان لیا اور فرمایا کہ تجھ کو کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! آج کا سا دن میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ حمزہ رضی اللہ عنہ نے میری دونوں اونٹنیوں پر ظلم کیا، ان کے کوہان کاٹ لئے، کوکھیں پھاڑ ڈالیں اور وہ اس گھر میں چند شرابیوں کے ساتھ ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر منگوا کر اوڑھی اور پھر پیدل چلے، میں اور زید بن حارثہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دروازے پر آئے جہاں حمزہ رضی اللہ عنہ تھے اور اندر آنے کی اجازت مانگی۔ لوگوں نے اجازت دی۔ دیکھا تو وہ شراب پئے ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو اس کام پر ملامت شروع کی اور سیدنا حمزہ کی آنکھیں (نشے کی وجہ سے) سرخ تھیں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، پھر آپ رضی اللہ عنہ کے گھٹنوں کو دیکھا، پھر نگاہ بلند کی تو ناف کو دیکھا۔ پھر نگاہ بلند کی تو منہ کو دیکھا اور (نشے میں دھت ہونے کی وجہ سے) کہا کہ تم تو میرے باپ دادوں کے غلام ہو۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہچانا کہ وہ نشہ میں مست ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم الٹے پاؤں پھرے اور باہر نکلے۔ ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ بدر کے دن غنیمت میں میرے حصہ ایک عمر رسیدہ اونٹنی آئی اور ایک عمر رسیدہ اونٹنی اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خمس (پانچواں حصہ) میں سے عنایت فرمائی، تو جب میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر کی رخصتی کا ارادہ کیا، یا شب زفاف گزارنے کا ارادہ کیا، میں نے بنو قینقاع کے ایک کاریگر (سنار) سے اپنے ساتھ جانے کا وعدہ لیا، تاکہ ہم اذخر گھاس لائیں، میں نے چاہا، اس کو زرگروں سے بیچ کر اپنی دلہن کے ولیمہ کی تیاری کروں گا، اس دوران کہ میں اپنی دونوں اونٹنیوں کے لیے سامان پالان، بورے اور رسیاں اکٹھی کر رہا تھا اور دونوں اونٹنیاں ایک انصاری آدمی کے کمرہ کے پہلو میں بٹھائی ہوئی تھیں، جب میں نے جو سامان جمع کرنا تھا، جمع کر لیا، تو میں اچانک دیکھتا ہوں، میری دونوں اونٹنیوں کے کوہان کاٹے جا چکے ہیں اور ان کی کوکھیں چاک کی جا چکی ہیں اور ان کے کلیجے نکال لئے گئے ہیں، جب میں نے ان کا یہ نظارہ دیکھا تو میں اپنی آنکھوں پر قابو نہ رکھ سکا، (رو دیا) میں نے پوچھا یہ حرکت کس نے کی ہے؟ لوگوں نے بتایا، یہ کام حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالی عنہ نے کیا ہے اور وہ اس گھر میں ایک انصاری شرابی ٹولی کے ساتھ موجود ہے، ایک مغنیہ نے اسے اور ان کے ساتھیوں کو شعر سنائے، شعر پڑھتے ہوئے کہنے لگی، خبردار! اے حمزہ، فربہ اونٹنیوں پر پل پڑو، تو حضرت حمزہ تلوار لے کر اٹھے، ان کے کوہان کاٹ لیے، ان کی کوکھیں چاک کر کے، ان کے جگر نکال لیے، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں چل پڑا حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا، زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی آپ کے پاس تھے، تو عرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر جو گزرا میرے چہرے سے جان لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا؟ میں نے کہا، اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! آج جیسا منظر میں نے کبھی نہیں دیکھا، حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ میری دونوں اونٹنیوں پر حملہ آور ہوئے، ان کی کوہانیں کاٹ لیں اور ان کی کوکھیں پھاڑ ڈالیں اور وہ ایک گھر میں، ان کے ساتھ شرابی ٹولی ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر منگوا کر اوڑھی پھر پیدل روانہ ہو گئے، میں اور زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ آپ کے پیچھے پیچھے ہو لیے، حتیٰ کہ اس دروازہ پر پہنچ گئے جس کے گھر میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ تھے، اجازت طلب فرمائی، گھر والوں نے اجازت دے دی اور وہ شرابی ٹولی نکلی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کی کرتوت پر ملامت کرنے لگے اور حمزہ کی آنکھیں سرخ ہو چکیں تھیں، تو حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، پھر نظر آپ کے گھٹنوں تک اٹھائی، پھر نظر اٹھا کر آپ کی ناف پر نظر ڈالی، پھر نظر اٹھائی اور آپ کے چہرے کو دیکھا اور حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، تم میرے باپ کے غلام ہی تو ہو نا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ گئے، وہ نشہ میں ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الٹے پاؤں، اپنی ایڑیوں پر لوٹ آئے، گھر سے نکل گئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ نکل آئے۔
حدیث نمبر: 5130
عبد اللہ بن مبارک نے یو نس سے انھوں نے زہری سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند روایت کی۔
یہی روایت امام صاحب ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں۔
حدیث نمبر: 5131
حَدَّثَنِي أَبُو الرَّبِيعِ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: " كُنْتُ سَاقِيَ الْقَوْمِ يَوْمَ حُرِّمَتِ الْخَمْرُ فِي بَيْتِ أَبِي طَلْحَةَ، وَمَا شَرَابُهُمْ إِلَّا الْفَضِيخُ الْبُسْرُ وَالتَّمْرُ، فَإِذَا مُنَادٍ يُنَادِي، فَقَالَ: اخْرُجْ فَانْظُرْ، فَخَرَجْتُ فَإِذَا مُنَادٍ يُنَادِي أَلَا إِنَّ الْخَمْرَ قَدْ حُرِّمَتْ، قَالَ: فَجَرَتْ فِي سِكَكِ الْمَدِينَةِ، فَقَالَ لِي أَبُو طَلْحَةَ: اخْرُجْ فَاهْرِقْهَا فَهَرَقْتُهَا، فَقَالُوا أَوَ قَالَ بَعْضُهُمْ: قُتِلَ فُلَانٌ قُتِلَ فُلَانٌ وَهِيَ فِي بُطُونِهِمْ "، قَالَ: فَلَا أَدْرِي هُوَ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوْا وَآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سورة المائدة آية 93.
ثابت نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: جس دن شرا ب حرام کی گئی، میں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے گھر (لو گوں کو) شراب پلا رہا تھا۔ان کی شرا ب ادھ پکی اور خشک کھجوروں سے تیار شدہ شرا ب کے سوا اور کوئی نہ تھی، اتنے میں ایک اعلا ن کرنے والا پکا رنے لگا۔انھوں نے کہا: میں جاؤں اور دیکھوں تو (دیکھا کہ وہاں) ایک منا دی اعلا ن کر رہا تھا: (لوگو) سنو! شراب حرام کر دی گئی۔ کہا: پھر مدینہ کی گلیوں میں شراب بہنے لگی۔ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: نکلو اور اسے بہا دو! میں نے وہ (سب) بہادی۔تو لو گوں نے کہا۔۔۔ یا ان میں سے کچھ نے کہا۔۔۔فلا ں شہید ہوا تھا اور فلا ں شہید ہوا تھا تو یہ (شراب) ان کے پیٹ میں مو جو د تھی۔۔۔ (ایک راوی نے) کہا: مجھے معلوم نہیں یہ (بھی) حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں سے ہے (یا نہیں)۔۔۔اس پر اللہ تعا لیٰ نے (لَیْسَ عَلَی ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا وَعَمِلُوا ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ جُنَاحٌ فِیمَا طَعِمُوٓا إِذَا مَا ٱتَّقَوا وَّءَامَنُوا وَعَمِلُوا ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ) نازل فرمائی: " جو لو گ ایمان لا ئے اور نیک کا م کیے جب انھوں نے تقوی اختیار کیا ایمان لا ئے اور نیک عمل کیے (تو) ان پر اس چیز کے سبب کوئی گناہ نہیں جس کو انھوں نے (حرمت سے پہلے) کھا یا پیا (تھا۔)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، جس دن شراب حرام ہوئی، میں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں لوگوں کو شراب پلا رہا تھا اور ان کی شراب صرف فضیخ یعنی گدری کھجور اور چھوہارے کا آمیزہ تھی، تو اچانک ایک منادی کرنے والے نے آواز بلند کی، ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، نکل کر دیکھو، (کیا آواز ہے) میں نے نکل کر دیکھا، ایک اعلان کرنے والا اعلان کر رہا ہے، خبردار شراب حرام ہو چکی ہے، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، وہ مدینہ کی گلیوں میں بہنے لگی، مجھے بھی ابوطلحہ ؓ نے کہا، باہر نکل کر اس کو بہا دو، میں نے اسے بہا دیا، لوگوں نے یا بعض نے کہا، فلاں لوگ قتل کئے گئے، جبکہ شراب ان کے پیٹوں میں تھی، راوی کہتے ہیں، مجھے معلوم نہیں، یہ بات حضرت انس کی حدیث میں ہے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری، جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کیے، انہیں گناہ نہیں ہو گا، جو وہ حرمت شراب سے پہلے پی چکے ہیں، جبکہ وہ تقویٰ، ایمان اور عمل صالح کی روش پر قائم ہوں۔
حدیث نمبر: 5132
وحَدَّثَنَا وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ أَيُّوبَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ ، قَالَ: سَأَلُوا أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ عَنِ الْفَضِيخِ، فَقَالَ: مَا كَانَتْ لَنَا خَمْرٌ غَيْرَ فَضِيخِكُمْ هَذَا الَّذِي تُسَمُّونَهُ الْفَضِيخَ إِنِّي لَقَائِمٌ أَسْقِيهَا أَبَا طَلْحَةَ وَأَبَا أَيُّوبَ، وَرِجَالًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِنَا إِذْ جَاءَ رَجُلٌ، فَقَالَ: " هَلْ بَلَغَكُمُ الْخَبَرُ؟ قُلْنَا: لَا قَالَ: فَإِنَّ الْخَمْرَ قَدْ حُرِّمَتْ، فَقَالَ يَا أَنَسُ: أَرِقْ هَذِهِ الْقِلَالَ، قَالَ: فَمَا رَاجَعُوهَا وَلَا سَأَلُوا عَنْهَا بَعْدَ خَبَرِ الرَّجُلِ ".
عبد العز یز بن صہیب نے کہا: لوگوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے فضیخ (ملی جلی کچی اور پکی ہو ئی کھجوروں کا رس جس میں خمیراٹھ جا ئے) کے متعلق سوال کیا۔انھوں نے کہا: تمھا رے اس فضیخ کے علاوہ ہماری کوئی شراب تھی ہی نہیں یہی شراب تھی جس کو تم فضیخ کہتے ہو، میں اپنے گھر میں کھڑے ہو کر یہی شراب حضرت ابو طلحہ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر ساتھیوں کو پلا رہا تھا کہ ایک شخص آیا اور کہنے لگا: تمھیں خبر پہنچی؟ ہم نے کہا: نہیں۔ اس نے کہا: شراب حرام کر دی گئی ہے۔ تو (ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: انس! (شراب کے) یہ سارے مٹکے بہا دو۔ اس آدمی کے خبر دینے کے بعد ان لوگوں نے نہ کبھی شراب پی اور نہ اس کے بارے میں (کبھی) کچھ پوچھا۔
عبدالعزیز بن صہیب بیان کرتے ہیں، لوگوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فضیخ کے بارے میں دریافت کیا، تو انہوں نے کہا ہماری شراب تمہاری اس فضیخ کے سوا نہ تھی جس کو تم فضیخ کا نام دیتے ہو، میں کھڑا حضرت ابوطلحہ، ابو ایوب اور بہت سے دوسرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو اپنے گھر میں یہ فضیخ پلا رہا تھا، تو اچانک ایک آدمی آیا اور کہا، کیا تمہیں خبر پہنچ گئی ہے؟ ہم نے کہا، نہیں، اس نے کہا، شراب حرام ہو چکی ہے، تو حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، اے انس! ان مٹکوں کو بہا دو، انہوں نے اس آدمی سے خبر سننے کے بعد اس کو نہیں پیا اور نہ اس کے بارے میں سوال کیا۔
حدیث نمبر: 5133
وحَدَّثَنَا وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ أَيُّوبَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ ، قَالَ: وَأَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، قَالَ: " إِنِّي لَقَائِمٌ عَلَى الْحَيِّ عَلَى عُمُومَتِي أَسْقِيهِمْ مِنْ فَضِيخٍ لَهُمْ وَأَنَا أَصْغَرُهُمْ سِنًّا، فَجَاءَ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنَّهَا قَدْ حُرِّمَتِ الْخَمْرُ، فَقَالُوا: اكْفِئْهَا يَا أَنَسُ فَكَفَأْتُهَا، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسٍ: مَا هُوَ قَالَ بُسْرٌ وَرُطَبٌ؟، قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ أَنَسٍ: كَانَتْ خَمْرَهُمْ يَوْمَئِذٍ، قَالَ سُلَيْمَانُ : وَحَدَّثَنِي، رَجُلٌ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّهُ قَالَ: ذَلِكَ أَيْضًا.
ابن علیہ نے کہا: ہمیں سلیمان تیمی نے بتا یا کہا: ہمیں حضرت انس بن ما لک رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، کہا: میں اپنے قبیلے والوں اپنے چچاؤں کو ان کی (شراب) فضیخ پلا رہا تھا اور میں ہی ان میں سب سے کم سن تھا، اتنے میں ایک شخص آیا اور کہا: "شراب حرام کر دی گئی ہے۔تو (ان) لوگوں نے کہا: انس! اس کو بہا دو۔میں نے وہ سب بہا دی۔ (سلیمان تیمی نے) کہا: میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پو چھا: وہ کیا تھا (جس سے شراب بنا ئی گئی تھی؟) انھوں نے کہا: وہ کچی اور پکی کھجور یں تھیں (تیمی نے) کہا: ابو بکر بن انس نے کہا: ان دنوں یہی ان کی شراب تھی۔ سلیمان نے کہا: مجھے ایک شخص نے حجرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی کہ خود انھوں نے (انس رضی اللہ عنہ) نے بھی یہی کہا تھا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں خاندان کے لوگوں کو اپنے چچوں کو کھڑا، ان کی فضیخ پلا رہا تھا، کیونکہ میں سب سے کم عمر تھا، کہ ایک آدمی آ کر کہنے لگا، واقعہ یہ ہے کہ خمر حرام کر دی گئی ہے، تو انہوں نے کہا، اس کو الٹ دو، اے انس! تو میں نے اسے الٹا دیا، سلیمان تیمی کہتے ہیں، میں نے انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا، فضیخ کیا ہے؟ انہوں نے کہا، کچی پکی اور تازہ کھجوروں کا آمیزہ، حضرت ابوبکر بن انس نے بتایا، ان دنوں ان کا خمر یہی تھا، سلیمان کہتے ہیں، مجھے ایک آدمی نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہی قول نقل کیا (ابوبکر والا)
حدیث نمبر: 5134
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ أَنَسٌ: كُنْتُ قَائِمًا عَلَى الْحَيِّ أَسْقِيهِمْ بِمِثْلِ حَدِيثِ ابْنِ عُلَيَّةَ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ أَنَسٍ: كَانَ خَمْرَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَأَنَسٌ شَاهِدٌ فَلَمْ يُنْكِرْ أَنَسٌ ذَاكَ، وقَالَ ابْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى : حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي بَعْضُ مَنْ كَانَ مَعِي أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسًا ، يَقُولُ: كَانَ خَمْرَهُمْ يَوْمَئِذٍ.
محمد بن عبد الاعلیٰ نے کہا: ہمیں معتمر (بن سلیمان تیمی) نے اپنے والد سے حدیث بیان کی کہا: حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں کھڑا ہوا قبیلے (کے لوگوں) کو شراب پلا رہا تھا، ابن علیہ کی روایت کے مانند البتہ انھوں نے (معتمر) نے کہا: ابو بکر بن انس نے بتا یا ان دنوں ان کی شراب یہی تھی اور اس وقت حضرت انس رضی اللہ عنہ (خود بھی) مو جو د تھے اور انھوں نے اس کا انکا ر نہیں کیا۔ (سلیمان نے کہا:) اور جو لوگ میرے ساتھ تھے ان میں سے ایک شخص نے کہا: اس نے (خود) انس رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ان دنوں ان کی شراب یہی تھی۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں قبیلہ کے لوگوں کو کھڑا شراب پلا رہا تھا، جیسا کہ اوپر ابن علیہ نے بیان کیا ہے، اس میں یہ بھی ہے تو ابوبکر بن انس نے کہا، ان دنوں ان کا خمر یہی تھا اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود تھے، تو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا انکار نہ کیا۔
حدیث نمبر: 5135
وحَدَّثَنَا وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ أَيُّوبَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ ، قَالَ: وَأَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: كُنْتُ أَسْقِي أَبَا طَلْحَةَ، وَأَبَا دُجَانَةَ، وَمُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ فِي رَهْطٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَدَخَلَ عَلَيْنَا دَاخِلٌ، فَقَالَ: حَدَثَ خَبَرٌ نَزَلَ تَحْرِيمُ الْخَمْرِ، فَأَكْفَأْنَاهَا يَوْمَئِذٍ وَإِنَّهَا لَخَلِيطُ الْبُسْرِ وَالتَّمْرِ، قَالَ قَتَادَةُ: وَقَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: " لَقَدْ حُرِّمَتِ الْخَمْرُ وَكَانَتْ عَامَّةُ خُمُورِهِمْ يَوْمَئِذٍ خَلِيطَ الْبُسْرِ وَالتَّمْرِ ".
سعید بن ابی عروبہ نے قتادہ سے، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں انصاری کی ایک جمیعت میں حضرت ابو طلحہ، حضرت ابو دجانہ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو شراب پلا رہاتھا، اس وقت ایک آنے والا شخص آیا اور کہا: شراب کی حُرمت نازل ہوگئی ہے، (یہ سنتے ہی) ہم نے اسی دن اسے (شراب کو) بہادیا، وہ نیم پختہ اور خشک کھجوروں کی (بنی ہوئی) شراب تھی۔ قتادہ نے بتایا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: شراب حرام کردی گئی اور ان دنوں عام طور پر ان کی شراب ملی جلی، نیم پختہ اور خشک کھجور کی (بنی ہوئی) ہوتی تھی۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک انصاری جماعت کے ساتھ ابوطلحہ، ابو دجانہ اور معاذ بن جبل کو ایک انصاری گروہ میں شراب پلا رہا تھا، تو ایک آنے والا ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا، ایک واقعہ رونما ہو گیا ہے، خمر کی حرمت کا حکم نازل ہو گیا ہے، تو ہم نے اس وقت اس کو الٹ دیا اور وہ بسر اور تمر کا آمیزہ تھا، حضرت انس بن مالک ؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، شراب (خمر) حرام قرار دیا گیا اور ان دنوں ان کا عمومی خمر بسر (کچی پکی کھجور) اور تمر (خشک کھجور) کا آمیزہ تھا۔
حدیث نمبر: 5136
وحَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّار ٍ، قَالُوا: أَخْبَرَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: إِنِّي لَأَسْقِي أَبَا طَلْحَةَ، وَأَبَا دُجَانَةَ، وَسُهَيْلَ بْنَ بَيْضَاء مِنْ مَزَادَةٍ فِيهَا خَلِيطُ بُسْرٍ وَتَمْرٍ بِنَحْوِ حَدِيثِ سَعِيدٍ.
معاذ کے والد ہشام نے قتادہ سے، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں حضرت ابو طلحہ، حضرت ابو دجانہ اور حضرت سہیل بن بیضاء رضوان اللہ عنھم اجمعین کو ایک مشکیزے سے شراب پلارہاتھا، ملی جلی نیم پختہ اورخشک کھجوروں کی شراب تھی، جس طرح سعید (بن ابی عروبہ) کی حدیث ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں ابوطلحہ، ابو دجابہ اور سہیل بن ضیاء کو ایک مشک سے شراب پلا رہا تھا، جس میں بسر اور تمر کا آمیزہ تھا، اوپر والی حدیث بیان کی۔

1    2    3    4    5    Next