الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ابي داود
كِتَاب اللُّقَطَةِ
کتاب: گری پڑی گمشدہ چیزوں سے متعلق مسائل
1. باب
1. باب: لقطہٰ کی پہچان کرانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1701
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ زَيْدِ بْنِ صُوحَانَ وَ سَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ فَوَجَدْتُ سَوْطًا، فَقَالَا لِيَ: اطْرَحْهُ، فَقُلْتُ: لَا، وَلَكِنْ إِنْ وَجَدْتُ صَاحِبَهُ وَإِلَّا اسْتَمْتَعْتُ بِهِ فَحَجَجْتُ فَمَرَرْتُ عَلَى الْمَدِينَةِ، فَسَأَلْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ، فَقَالَ: وَجَدْتُ صُرَّةً فِيهَا مِائَةُ دِينَارٍ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" عَرِّفْهَا حَوْلًا"، فَعَرَّفْتُهَا حَوْلًا ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ:" عَرِّفْهَا حَوْلًا"، فَعَرَّفْتُهَا حَوْلًا ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ:" عَرِّفْهَا حَوْلًا"، فَعَرَّفْتُهَا حَوْلًا ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: لَمْ أَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا، فَقَالَ:" احْفَظْ عَدَدَهَا وَوِكَاءَهَا وَوِعَاءَهَا فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلَّا فَاسْتَمْتِعْ بِهَا"، وَقَالَ: وَلَا أَدْرِي أَثَلَاثًا قَالَ عَرِّفْهَا أَوْ مَرَّةً وَاحِدَةً.
سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے زید بن صوحان اور سلیمان بن ربیعہ کے ساتھ جہاد کیا، مجھے ایک کوڑا پڑا ملا، ان دونوں نے کہا: اسے پھینک دو، میں نے کہا: نہیں، بلکہ اگر اس کا مالک مل گیا تو میں اسے دے دوں گا اور اگر نہ ملا تو خود میں اپنے کام میں لاؤں گا، پھر میں نے حج کیا، میرا گزر مدینے سے ہوا، میں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا، تو انہوں نے بتایا کہ مجھے ایک تھیلی ملی تھی، اس میں سو (۱۰۰) دینار تھے، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ نے فرمایا: ایک سال تک اس کی پہچان کراؤ، چنانچہ میں ایک سال تک اس کی پہچان کراتا رہا، پھر آپ کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک سال اور پہچان کراؤ، میں نے ایک سال اور پہچان کرائی، اس کے بعد پھر آپ کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک سال پھر پہچان کراؤ، چنانچہ میں ایک سال پھر پہچان کراتا رہا، پھر آپ کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: مجھے کوئی نہ ملا جو اسے جانتا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی تعداد یاد رکھو اور اس کا بندھن اور اس کی تھیلی بھی، اگر اس کا مالک آ جائے (تو بہتر) ورنہ تم اسے اپنے کام میں لے لینا۔ شعبہ کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ سلمہ نے «عرفها» تین بار کہا تھا یا ایک بار۔ [سنن ابي داود/كِتَاب اللُّقَطَةِ/حدیث: 1701]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/اللقطة 1 (2426)، 10 (2437)، صحیح مسلم/اللقطة 1 (1723)، سنن الترمذی/الأحکام 35 (1374)، سنن النسائی/الکبری/ اللقطة (5820، 5821)، سنن ابن ماجہ/اللقطة 2 (2506)، (تحفة الأشراف:28)، وقدأخرجہ: مسند احمد (5/126، 127) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 1702
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ بِمَعْنَاهُ، قَالَ: عَرِّفْهَا حَوْلًا، وَقَالَ ثَلَاثَ مِرَارٍ، قَالَ: فَلَا أَدْرِي قَالَ لَهُ ذَلِكَ فِي سَنَةٍ أَوْ فِي ثَلَاثِ سِنِينَ.
اس سند سے بھی شعبہ سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے وہ کہتے ہیں: «عرفها حولا» تین بار کہا، البتہ مجھے یہ نہیں معلوم کہ آپ نے اسے ایک سال میں کرنے کے لیے کہا یا تین سال میں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب اللُّقَطَةِ/حدیث: 1702]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف:28) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 1703
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، قَالَ فِي التَّعْرِيفِ:" قَالَ: عَامَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً، وَقَالَ: اعْرِفْ عَدَدَهَا وَوِعَاءَهَا وَوِكَاءَهَا"، زَادَ:" فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا فَعَرَفَ عَدَدَهَا وَوِكَاءَهَا فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ". قَالَ أَبُو دَاوُدَ: لَيْسَ يَقُولُ هَذِهِ الْكَلِمَةَ إِلَّا حَمَّادٌ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، يَعْنِي فَعَرَفَ عَدَدَهَا.
حماد کہتے ہیں سلمہ بن کہیل نے ہم سے اسی سند سے اور اسی مفہوم کی حدیث بیان کی اس میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (لقطہٰ کی) پہچان کرانے کے سلسلے میں فرمایا: دو یا تین سال تک (اس کی پہچان کراؤ)، اور فرمایا: اس کی تعداد جان لو اور اس کی تھیلی اور اس کے سر بندھن کی پہچان کر لو، اس میں اتنا مزید ہے: اگر اس کا مالک آ جائے اور اس کی تعداد اور سر بندھن بتا دے تو اسے اس کے حوالے کر دو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «فعرف عددها» کا کلمہ اس حدیث میں سوائے حماد کے کسی اور نے نہیں ذکر کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب اللُّقَطَةِ/حدیث: 1703]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم: 1701، (تحفة الأشراف:28) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح والمعتمد التعريف سنة واحدة كما في حديث زيد بن خالد

حدیث نمبر: 1704
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ اللُّقَطَةِ، قَالَ:" عَرِّفْهَا سَنَةً، ثُمَّ اعْرِفْ وِكَاءَهَا وَعِفَاصَهَا، ثُمَّ اسْتَنْفِقْ بِهَا فَإِنْ جَاءَ رَبُّهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ"، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَضَالَّةُ الْغَنَمِ، فَقَالَ:" خُذْهَا فَإِنَّمَا هِيَ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَضَالَّةُ الْإِبِلِ، فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ أَوِ احْمَرَّ وَجْهُهُ، وَقَالَ:" مَا لَكَ وَلَهَا مَعَهَا حِذَاؤُهَا وَسِقَاؤُهَا حَتَّى يَأْتِيَهَا رَبُّهَا".
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہٰ (پڑی ہوئی چیز) کے بارے میں پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک سال تک اس کی پہچان کراؤ، پھر اس کی تھیلی اور سر بندھن کو پہچان لو، پھر اسے خرچ کر ڈالو، اب اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے دے دو، اس نے کہا: اللہ کے رسول! گمشدہ بکری کو ہم کیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو پکڑ لو، اس لیے کہ وہ یا تو تمہارے لیے ہے، یا تمہارے بھائی کے لیے، یا بھیڑیئے کے لیے، اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! گمشدہ اونٹ کو ہم کیا کریں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہو گئے یہاں تک کہ آپ کے رخسار سرخ ہو گئے یا آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور فرمایا: تمہیں اس سے کیا سروکار؟ اس کا جوتا ۱؎ اور اس کا مشکیزہ اس کے ساتھ ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کا مالک آ جائے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب اللُّقَطَةِ/حدیث: 1704]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/العلم 28 (91)، المساقاة 12 (2372)، اللقطة 2 (2427)، 3 (2428)، 4 (2429)، 9 (2436)، 11 (2438)، الطلاق 22 (5292مرسلاً)، الأدب 75 (6112)، صحیح مسلم/اللقطة 31 (1722)، سنن الترمذی/الأحکام 35 (1372)، سنن النسائی/ الکبری /اللقطة (5814، 5815، 5816)، سنن ابن ماجہ/اللقطة 1 (2504)، (تحفة الأشراف: 3763)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الأقضیة 38 (46، 47)، مسند احمد (4/115، 116، 117) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 1705
حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ،حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي مَالِكٌ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، زَادَ:" سِقَاؤُهَا تَرِدُ الْمَاءَ وَتَأْكُلُ الشَّجَرَ"، وَلَمْ يَقُلْ: خُذْهَا فِي ضَالَّةِ الشَّاءِ، وَقَالَ فِي اللُّقَطَةِ:" عَرِّفْهَا سَنَةً فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلَّا فَشَأْنُكَ بِهَا"، وَلَمْ يَذْكُرْ: اسْتَنْفِقْ. قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ وَ سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ وَ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ رَبِيعَةَ مِثْلَهُ، لَمْ يَقُولُوا: خُذْهَا.
اس سند سے بھی مالک سے اسی طریق سے اسی مفہوم کی روایت مروی ہے البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے کہ: وہ اپنی سیرابی کے لیے پانی پر آ جاتا ہے اور درخت کھا لیتا ہے، اس روایت میں گمشدہ بکری کے سلسلے میں «خذها» (اسے پکڑ لو) کا لفظ نہیں ہے، البتہ لقطہٰ کے سلسلے میں فرمایا: ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، اگر اس کا مالک آ جائے تو بہتر ہے ورنہ تم خود اس کو استعمال کر لو، اس میں «استنفق» کا لفظ نہیں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ثوری، سلیمان بن بلال اور حماد بن سلمہ نے اسے ربیعہ سے اسی طرح روایت کیا ہے لیکن ان لوگوں نے «خذها» کا لفظ نہیں کہا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب اللُّقَطَةِ/حدیث: 1705]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف:3763) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 1706
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ الضَّحَّاكِ يَعْنِي ابْنَ عُثْمَانَ، عَنْ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ،عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ اللُّقَطَةِ، فَقَالَ:" عَرِّفْهَا سَنَةً فَإِنْ جَاءَ بَاغِيهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ، وَإِلَّا فَاعْرِفْ عِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا ثُمَّ كُلْهَا فَإِنْ جَاءَ بَاغِيهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ".
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہٰ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: تم ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، اگر اس کا ڈھونڈنے والا آ جائے تو اسے اس کے حوالہ کر دو ورنہ اس کی تھیلی اور سر بندھن کی پہچان رکھو اور پھر اسے کھا جاؤ، اب اگر اس کا ڈھونڈھنے والا آ جائے تو اسے (اس کی قیمت) ادا کر دو۔ [سنن ابي داود/كِتَاب اللُّقَطَةِ/حدیث: 1706]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/اللقطة 1(1722)، سنن الترمذی/الأحکام 35 (1373)، سنن النسائی/الکبری (5811)، سنن ابن ماجہ/ اللقطة 1 (507)، (تحفة الأشراف:3748)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/116، 5/193) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح م وفي إسناده زيادة عن أبي النضر عن بسر وهو الصواب

حدیث نمبر: 1707
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ رَبِيعَةَ، قَالَ: وَسُئِلَ عَنِ اللُّقَطَةِ، فَقَالَ:"تُعَرِّفُهَا حَوْلًا فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا دَفَعْتَهَا إِلَيْهِ وَإِلَّا عَرَفْتَ وِكَاءَهَا وَعِفَاصَهَا ثُمَّ أَفِضْهَا فِي مَالِكَ فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ".
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (لقطے کے متعلق) پوچھا گیا پھر راوی نے ربیعہ کی طرح حدیث ذکر کی اور کہا: لقطے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک سال تک تم اس کی تشہیر کرو، اب اگر اس کا مالک آ جائے تو تم اسے اس کے حوالہ کر دو، اور اگر نہ آئے تو تم اس کے ظرف اور سر بندھن کو پہچان لو پھر اسے اپنے مال میں ملا لو، پھر اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے اس کو دے دو۔ [سنن ابي داود/كِتَاب اللُّقَطَةِ/حدیث: 1707]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم: (1704)، (تحفة الأشراف:3763) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 1708
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، وَرَبِيعَةَ، بِإِسْنَادِ قُتَيْبَةَ وَمَعْنَاهُ، وَزَادَ فِيهِ:" فَإِنْ جَاءَ بَاغِيهَا فَعَرَفَ عِفَاصَهَا وَعَدَدَهَا فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ"،وقَالَ حَمَّادٌ أَيْضًا: عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذِهِ الزِّيَادَةُ الَّتِي زَادَ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ فِي حَدِيثِ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ وَ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ وَ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ وَ رَبِيعَةَ:" إِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا فَعَرَفَ عِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ" لَيْسَتْ بِمَحْفُوظَةٍ، فَعَرَفَ عِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا، وَحَدِيثُ عُقْبَةَ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيْضًا، قَالَ:" عَرِّفْهَا سَنَةً"، وَحَدِيثُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَيْضًا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" عَرِّفْهَا سَنَةً".
یحییٰ بن سعید اور ربیعہ سے قتیبہ کی سند سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں اتنا اضافہ ہے: اگر اس کا ڈھونڈنے والا آ جائے اور تھیلی اور گنتی کی پہچان بتائے تو اسے اس کو دے دو۔ اور حماد نے بھی عبیداللہ بن عمر سے، عبیداللہ نے عمرو بن شعیب نے «عن ابیہ عن جدہ» عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے اسی کے مثل مرفوعاً روایت کی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ زیادتی جو حماد بن سلمہ نے سلمہ بن کہیل، یحییٰ بن سعید، عبیداللہ اور ربیعہ کی حدیث (یعنی حدیث نمبر: ۱۷۰۲ -۱۷۰۳) میں کی ہے: «إن جاء صاحبها فعرف عفاصها ووكاءها فادفعها إليه» یعنی: اگر اس کا مالک آ جائے اور اس کی تھیلی اور سر بندھن کی پہچان بتا دے تو اس کو دے دو، اس میں: «فعرف عفاصها ووكاءها» تھیلی اور سر بندھن کی پہچان بتا دے کا جملہ محفوظ نہیں ہے۔ اور عقبہ بن سوید کی حدیث میں بھی جسے انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے یعنی «عرفها سنة» (ایک سال تک اس کی تشہیر کرو) موجود ہے۔ اور عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: «عرفها سنة» تم ایک سال تک اس کی تشہیر کرو ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب اللُّقَطَةِ/حدیث: 1708]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم: (1704)، ویأتی ہذا الحدیث برقم (1713)، (تحفة الأشراف:28، 3763، 8755، 8784) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح والزيادة عند خ أبي

حدیث نمبر: 1709
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي الطَّحَّانَ. ح وحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ الْمَعْنَى، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ، عَنْ مُطَرِّفٍ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ حِمَارٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ وَجَدَ لُقَطَةً فَلْيُشْهِدْ ذَا عَدْلٍ أَوْ ذَوِي عَدْلٍ وَلَا يَكْتُمْ وَلَا يُغَيِّبْ فَإِنْ وَجَدَ صَاحِبَهَا فَلْيَرُدَّهَا عَلَيْهِ وَإِلَّا فَهُوَ مَالُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ".
عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے لقطہٰ ملے تو وہ ایک یا دو معتبر آدمیوں کو گواہ بنا لے ۱؎ اور اسے نہ چھپائے اور نہ غائب کرے، اگر اس کے مالک کو پا جائے تو اسے واپس کر دے، ورنہ وہ اللہ عزوجل کا مال ہے جسے وہ چاہتا ہے دیتا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب اللُّقَطَةِ/حدیث: 1709]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/ الکبری (5808، 5809)، سنن ابن ماجہ/اللقطة 2 (2505)، (تحفة الأشراف:11013)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/162) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 1710
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الثَّمَرِ الْمُعَلَّقِ؟ فَقَالَ:" مَنْ أَصَابَ بِفِيهِ مِنْ ذِي حَاجَةٍ غَيْرَ مُتَّخِذٍ خُبْنَةً فَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ، وَمَنْ خَرَجَ بِشَيْءٍ مِنْهُ فَعَلَيْهِ غَرَامَةُ مِثْلَيْهِ وَالْعُقُوبَةُ، وَمَنْ سَرَقَ مِنْهُ شَيْئًا بَعْدَ أَنْ يُؤْوِيَهُ الْجَرِينُ فَبَلَغَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ فَعَلَيْهِ الْقَطْعُ"، وَذَكَرَ فِي ضَالَّةِ الْإِبِلِ وَالْغَنَمِ كَمَا ذَكَرَهُ غَيْرُهُ، قَالَ: وَسُئِلَ عَنِ اللُّقَطَةِ، فَقَالَ:" مَا كَانَ مِنْهَا فِي طَرِيقِ الْمِيتَاءِ أَوِ الْقَرْيَةِ الْجَامِعَةِ فَعَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ جَاءَ طَالِبُهَا فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ، وَإِنْ لَمْ يَأْتِ فَهِيَ لَكَ، وَمَا كَانَ فِي الْخَرَابِ يَعْنِي فَفِيهَا وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخت پر لٹکتے ہوئے پھل کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو حاجت مند اسے کھائے اور چھپا کر نہ لے جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں، اور جو اس میں سے کچھ چھپا کر لے جائے تو اس کا دو گنا جرمانہ دے اور سزا الگ ہو گی، اور جب میوہ پک کر سوکھنے کے لیے کھلیان میں ڈال دیا جائے اور اس میں سے کوئی اس قدر چرا کر لے جائے جس کی قیمت سپر (ڈھال) کی قیمت کے برابر ہو تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اس کے بعد گمشدہ اونٹ اور بکری کا ذکر کیا جیسا کہ اوروں نے ذکر کیا ہے، اس میں ہے: آپ سے لقطے کے سلسلے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو لقطہٰ گزر گاہ عام یا آباد گاؤں میں ملے تو ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے دے دو اور اگر نہ آئے تو وہ تمہارا ہے اور جو لقطہٰ کسی اجڑے یا غیر آباد مقام پر ملے تو اس میں اور رکاز (جاہلیت کے دفینہ) میں پانچواں حصہ حاکم کو دینا ہو گا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب اللُّقَطَةِ/حدیث: 1710]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/البیوع 54 (1289)، سنن النسائی/قطع السارق 9 (4961)، (تحفة الأشراف:8798)ویأتی عند المؤلف برقم (4390) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن


1    2    Next