الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ابن ماجه
كتاب اللقطة
کتاب: لقطہ کے احکام و مسائل
1. بَابُ: ضَالَّةِ الإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ
1. باب: گم شدہ اونٹ، گائے اور بکری کے لقطہٰ کا بیان۔
حدیث نمبر: 2502
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ضَالَّةُ الْمُسْلِمِ حَرَقُ النَّارِ".
عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کی گمشدہ چیز آگ کا شعلہ ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللقطة/حدیث: 2502]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5351، ومصباح الزجاجة: 888)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/25) (صحیح) (ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 620)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 2503
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ ، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ خَالُ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِيرٍ، عَنِ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِيرٍ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ أَبِي بِالْبَوَازِيجِ فَرَاحَتِ الْبَقَرُ فَرَأَى بَقَرَةً أَنْكَرَهَا، فَقَالَ: مَا هَذِهِ؟ قَالُوا: بَقَرَةٌ لَحِقَتْ بِالْبَقَرِ، قَالَ: فَأَمَرَ بِهَا فَطُرِدَتْ حَتَّى تَوَارَتْ ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَا يُؤْوِي الضَّالَّةَ إِلَّا ضَالٌّ".
منذر بن جریر کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ بوازیج میں تھا کہ گایوں کا ریوڑ نکلا، تو آپ نے ان میں ایک اجنبی قسم کی گائے دیکھی تو پوچھا: یہ گائے کیسی ہے؟ لوگوں نے کہا: کسی اور کی گائے ہے، جو ہماری گایوں کے ساتھ آ گئی ہے، انہوں نے حکم دیا، اور وہ ہانک کر نکال دی گئی یہاں تک کہ وہ نظر سے اوجھل ہو گئی، پھر کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: گمشدہ چیز کو وہی اپنے پاس رکھتا ہے جو گمراہ ہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللقطة/حدیث: 2503]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/اللقطة 1 (1720)، (تحفة الأشراف: 3233)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/360، 362) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں علت ہے کیونکہ ضحاک مجہول راوی ہیں، لیکن مرفوع حدیث، شاہد کی بناء پر صحیح ہے، قصہ ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 1563، و صحیح أبی داود: 1513، تراجع الألبانی: رقم: 515)

قال الشيخ الألباني: ضعيف والمرفوع صحيح

حدیث نمبر: 2504
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ الْعَلَاءِ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ، فَلَقِيتُ رَبِيعَةَ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: سُئِلَ عَنْ ضَالَّةِ الْإِبِلِ فَغَضِبَ وَاحْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ فَقَالَ:" مَا لَكَ وَلَهَا؟ مَعَهَا الْحِذَاءُ وَالسِّقَاءُ، تَرِدُ الْمَاءَ وَتَأْكُلُ الشَّجَرَ، حَتَّى يَلْقَاهَا رَبُّهَا" وَسُئِلَ عَنْ ضَالَّةِ الْغَنَمِ، فَقَالَ:" خُذْهَا، فَإِنَّمَا هِيَ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ" وَسُئِلَ عَنِ اللُّقَطَةِ، فَقَالَ:" اعْرِفْ عِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا وَعَرِّفْهَا سَنَةً فَإِنِ اعْتُرِفَتْ وَإِلَّا فَاخْلِطْهَا بِمَالِكَ".
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گمشدہ اونٹ کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ غضب ناک ہو گئے، اور غصے سے آپ کے رخسار مبارک سرخ ہو گئے اور فرمایا: تم کو اس سے کیا سروکار، اس کے ساتھ اس کا جوتا اور مشکیزہ ہے، وہ خود پانی پر جا سکتا ہے اور درخت سے کھا سکتا ہے، یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پا لیتا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گمشدہ بکری کے بارے پوچھا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو لے لو اس لیے کہ وہ یا تو تمہاری ہے یا تمہارے بھائی کی یا بھیڑیئے کی ۱؎ پھر آپ سے گری پڑی چیز کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی تھیلی اور بندھن کو پہچان لو، اور ایک سال تک اس کا اعلان کرتے رہو، ۲؎ اگر اس کی شناخت پہچان ہو جائے تو ٹھیک ہے، ورنہ اسے اپنے مال میں شامل کر لو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللقطة/حدیث: 2504]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/اللقطة 1 (2426)، صحیح مسلم/اللقطة 1 (1722)، سنن ابی داود/اللقطة 1 (1704، 1705)، سنن الترمذی/الاحکام 35 (1372)، (تحفة الأشراف: 3763)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الأقضیة 38 (46، 47)، مسند احمد (4/115، 116، 117) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

2. بَابُ: اللُّقَطَةِ
2. باب: راستہ سے اٹھائی ہوئی گری پڑی چیز کا بیان۔
حدیث نمبر: 2505
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ حِمَارٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ وَجَدَ لُقَطَةً فَلْيُشْهِدْ ذَا عَدْلٍ أَوْ ذَوَيْ عَدْلٍ، ثُمَّ لَا يُغَيِّرْهُ وَلَا يَكْتُمْ، فَإِنْ جَاءَ رَبُّهَا، فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا، وَإِلَّا فَهُوَ مَالُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ".
عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کو کوئی گری پڑی چیز ملے تو وہ ایک یا دو معتبر شخص کو اس پر گواہ بنا لے، پھر وہ نہ اس میں تبدیلی کرے اور نہ چھپائے، اگر اس کا مالک آ جائے تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے، ورنہ وہ اللہ کا مال ہے جس کو چاہتا ہے دے دیتا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللقطة/حدیث: 2505]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/اللقطة 1 (1709)، (تحفة الأشراف: 11013)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/162، 266) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 2506
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ زَيْدِ بْنِ صُوحَانَ، وَسَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْعُذَيْبِ الْتَقَطْتُ سَوْطًا، فَقَالَا لِي: أَلْقِهِ، فَأَبَيْتُ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ أَتَيْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: أَصَبْتَ، الْتَقَطْتُ مِائَةَ دِينَارٍ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ:" عَرِّفْهَا سَنَةً"، فَعَرَّفْتُهَا فَلَمْ أَجِدْ أَحَدًا يَعْرِفُهَا، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ:" عَرِّفْهَا". فَعَرَّفْتُهَا، فَلَمْ أَجِدْ أَحَدًا يَعْرِفُهَا، فَقَالَ:" اعْرِفْ وِعَاءَهَا وَوِكَاءَهَا وَعَدَدَهَا، ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ جَاءَ مَنْ يَعْرِفُهَا، وَإِلَّا، فَهِيَ كَسَبِيلِ مَالِكَ".
سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ میں زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے ساتھ نکلا، جب ہم عذیب پہنچے تو میں نے وہاں ایک کوڑا پڑا ہوا پایا، ان دونوں نے مجھ سے کہا: اس کو اسی جگہ ڈال دو، لیکن میں نے ان کا کہا نہ مانا، پھر جب ہم مدینہ پہنچے، تو میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور ان سے اس کا تذکرہ کیا، تو انہوں نے کہا: تم نے ٹھیک کیا، میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں سو دینار پڑے پائے تھے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سال بھر تک اس کے مالک کا پتہ کرتے رہو، میں پتا کرتا رہا، لیکن کسی کو نہ پایا جو انہیں پہچانتا ہو، پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا تھیلا، بندھن اور اس کی تعداد یاد رکھو، پھر سال بھر اس کے مالک کا پتا کرتے رہو، اگر اس کا جا ننے والا آ جائے تو خیر، ورنہ وہ تمہارے مال کی طرح ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللقطة/حدیث: 2506]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/اللقطة 1 (2426)، صحیح مسلم/اللقطة 1 (1723)، سنن ابی داود/اللقطة 1 (1701، 1702)، سنن الترمذی/الأحکام 35 (1374)، (تحفة الأشراف: 28)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/126، 127) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 2507
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ ، ح وَحَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ الْقُرَشِيُّ ، حَدَّثَنِي سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ اللُّقَطَةِ؟ فَقَالَ:" عَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنِ اعْتُرِفَتْ فَأَدِّهَا فَإِنْ لَمْ تُعْرَفْ فَاعْرِفْ عِفَاصَهَا وَوِعَاءَهَا ثُمَّ كُلْهَا فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ".
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہٰ کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سال بھر اس کے مالک کا پتہ کرتے رہو، اگر کوئی اس کی (پہچان) کر لے تو اسے دے دو، ورنہ اس کی تھیلی اور اس کا بندھن یاد رکھو، پھر اس کو اپنے کھانے میں استعمال کر لو، اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے ادا کر دو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللقطة/حدیث: 2507]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/اللقطة 1 (1722)، سنن ابی داود/اللقطة 1 (1706)، سنن الترمذی/الأحکام 35 (1372، 1373)، (تحفة الأشراف: 3748)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/116، 5/193) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

3. بَابُ: الْتِقَاطِ مَا أَخْرَجَ الْجُرَذُ
3. باب: چوہا جو مال سوراخ سے نکالے اس کے لینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2508
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَثْمَةَ ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ يَعْقُوبَ الزَّمْعِيُّ ، حَدَّثَتْنِي عَمَّتِي قُرَيْبَةُ بِنْتُ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ أُمَّهَا كَرِيمَةَ بِنْتَ الْمِقْدَادِ بْنِ عَمْرٍو أَخْبَرَتْهَا، عَنِ ضُبَاعَةَ بِنْتِ الزُّبَيْرِ ، عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّهُ خَرَجَ ذَاتَ يَوْمٍ إِلَى الْبَقِيعِ وَهُوَ: الْمَقْبَرَةُ لِحَاجَتِهِ، وَكَانَ النَّاسُ لَا يَذْهَبُ أَحَدُهُمْ فِي حَاجَتِهِ إِلَّا فِي الْيَوْمَيْنِ وَالثَّلَاثَةِ، فَإِنَّمَا يَبْعَرُ كَمَا تَبْعَرُ الْإِبِلُ، ثُمَّ دَخَلَ خَرِبَةً، فَبَيْنَمَا هُوَ جَالِسٌ لِحَاجَتِهِ، إِذْ رَأَى جُرَذًا أَخْرَجَ مِنْ جُحْرٍ دِينَارًا، ثُمَّ دَخَلَ فَأَخْرَجَ آخَرَ حَتَّى أَخْرَجَ سَبْعَةَ عَشَرَ دِينَارًا، ثُمَّ أَخْرَجَ طَرَفَ خِرْقَةٍ حَمْرَاءَ. قَالَ الْمِقْدَادُ: فَسَلَلْتُ الْخِرْقَةَ، فَوَجَدْتُ فِيهَا دِينَارًا، فَتَمَّتْ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ دِينَارًا، فَخَرَجْتُ بِهَا حَتَّى أَتَيْتُ بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْتُهُ خَبَرَهَا، فَقُلْتُ: خُذْ صَدَقَتَهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" ارْجِعْ بِهَا، لَا صَدَقَةَ فِيهَا بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِيهَا"، ثُمَّ قَالَ:" لَعَلَّكَ أَتْبَعْتَ يَدَكَ فِي الحُجْرِ" قُلْتُ: لَا وَالَّذِي أَكْرَمَكَ بِالْحَقِّ. قَالَ: فَلَمْ يَفْنَ آخِرُهَا حَتَّى مَاتَ.
مقداد بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن وہ بقیع کے قبرستان کی طرف قضائے حاجت کے لیے نکلے، ان دنوں لوگ قضائے حاجت کے لیے دو دو تین تین دن بعد ہی جایا کرتے تھے، اور مینگنیاں نکالتے تھے، خیر وہ ایک ویرانے میں گئے اور قضائے حاجت کے لیے بیٹھے ہی تھے کہ اتنے میں ایک چوہے پر نظر پڑی جس نے سوراخ میں سے ایک دینار نکالا، پھر وہ اندر گھس گیا، اور پھر ایک دینار اور نکالا یہاں تک کہ اس نے سترہ دینار نکالے، پھر ایک سرخ کپڑے کے ٹکڑے کا کنارہ نکالا۔ مقداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے وہ ٹکڑا کھینچا تو اس میں ایک دینار اور ملا اس طرح کل اٹھارہ دینار پورے ہو گئے، انہیں لے کر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا، اور آپ کو پورا واقعہ بتایا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ اس کی زکاۃ لے لیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لے جاؤ، اس میں زکاۃ نہیں، اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاید تم نے سوراخ میں اپنا ہاتھ ڈالا؟ میں نے کہا: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کی حق سے عزت فرمائی۔ راوی کہتے ہیں: ان دیناروں میں اتنی برکت ہوئی کہ ان کی وفات تک آخری دینار ختم نہیں ہوا تھا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللقطة/حدیث: 2508]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الخراج 40 (3087)، (تحفة الأشراف: 11550) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں موسیٰ بن یعقوب ضعیف اور قر یبة بنت عبداللہ لین الحدیث ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

4. بَابُ: مَنْ أَصَابَ رِكَازًا
4. باب: جس شخص کو دفینہ (رکاز) مل جائے اس کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 2509
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَيْمُونٍ الْمَكِّيُّ ، وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدٍ وأَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" فِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «رکاز» میں پانچواں حصہ (بیت المال کا) ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللقطة/حدیث: 2509]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحدود 11 (1710)، سنن ابی داود/الخراج 40 (3085)، سنن الترمذی/الأحکام 37 (1377)، سنن النسائی/الزکاة 28 (2497)، (تحفة الأشراف: 13128، 15147)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الزکاة 66 (1499)، المساقاة 3 (2355)، الدیات 28 (6912)، 29 (6913)، موطا امام مالک/ العقول 18 (12)، مسند احمد (2/228، 229، 254، 274، 285، 319، 382، 386، 406، 411، 414، 454، 456، 467، 475، 482، 482، 495، 499، 501، 507)، سنن الدارمی/الزکاة 30 (1710)، الدیات 9 (2422) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 2510
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «رکاز» میں پانچواں حصہ (بیت المال کا) ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللقطة/حدیث: 2510]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6129، ومصباح الزجاجة: 889)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/314، 3/180) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 2511
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ ثَابِتٍ الْجَحْدَرِيُّ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِسْحَاق الْحَضْرَمِيُّ ، حَدَّثَنَا سُلَيْم بْنُ حَيَّانَ ، سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ رَجُلٌ اشْتَرَى عَقَارًا، فَوَجَدَ فِيهَا جَرَّةً مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ: اشْتَرَيْتُ مِنْكَ الْأَرْضَ وَلَمْ أَشْتَرِ مِنْكَ الذَّهَبَ، فَقَالَ الرَّجُلُ: إِنَّمَا بِعْتُكَ الْأَرْضَ بِمَا فِيهَا فَتَحَاكَمَا إِلَى رَجُلٍ، فَقَالَ: أَلَكُمَا وَلَدٌ فَقَالَ أَحَدُهُمَا: لِي غُلَامٌ، وَقَالَ الْآخَرُ: لِي جَارِيَةٌ، قَالَ: فَأَنْكِحَا الْغُلَامَ الْجَارِيَةَ وَلْيُنْفِقَا عَلَى أَنْفُسِهِمَا مِنْهُ وَلْيَتَصَدَّقَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک شخص نے ایک زمین خریدی، اس میں اسے سونے کا ایک مٹکا ملا، خریدار بائع (بیچنے والے) سے کہنے لگا: میں نے تو تم سے زمین خریدی ہے سونا نہیں خریدا، اور بائع کہہ رہا تھا: میں نے زمین اور جو کچھ اس میں ہے سب تمہارے ہاتھ بیچا ہے، الغرض دونوں ایک شخص کے پاس معاملہ لے گئے، اس نے پوچھا: تم دونوں کا کوئی بچہ ہے؟ ان میں سے ایک نے کہا: ہاں میرے پاس ایک لڑکا ہے اور دوسرے نے کہا: میرے پاس ایک لڑکی ہے، تو اس شخص نے کہا: تم دونوں اس لڑکے کی شادی اس لڑکی سے کر دو، اور چاہیئے کہ اس سونے کو وہی دونوں اپنے اوپر خرچ کریں، اور اس میں سے صدقہ بھی دیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللقطة/حدیث: 2511]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12296)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأنبیاء 54 (3472)، صحیح مسلم/الأقضیة 11 (1721)، مسند احمد (2/316) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح