الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ترمذي
كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: طلاق اور لعان کے احکام و مسائل
1. باب مَا جَاءَ فِي طَلاَقِ السُّنَّةِ
1. باب: مسنون طلاق کا بیان۔
حدیث نمبر: 1175
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ، عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَقَالَ: هَلْ تَعْرِفُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، فَإِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَسَأَلَ عُمَرُ، النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَأَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا "، قَالَ: قُلْتُ فَيُعْتَدُّ بِتِلْكَ التَّطْلِيقَةِ، قَالَ: فَمَهْ أَرَأَيْتَ إِنْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ.
طلق بن علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی الله عنہما سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی ہو تو انہوں نے کہا: کیا تم عبداللہ بن عمر کو پہچانتے ہو؟ انہوں نے بھی اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تھی، عمر رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اسے رجوع کر لیں، یونس بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: کیا یہ طلاق شمار کی جائے گی؟ کہا: تو اور کیا ہو گی؟ (یعنی کیوں نہیں شمار کی جائے گی)، بھلا بتاؤ اگر وہ عاجز ہو جاتا یا دیوانہ ہو جاتا تو واقع ہوتی یا نہیں؟ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1175]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطلاق 2 (5252)، و 45 (5333)، صحیح مسلم/الطلاق 1 (1471)، سنن ابی داود/ الطلاق 4 (2183، 2184)، سنن النسائی/الطلاق 1 (3418)، و 76 (3585)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 2 (2109)، (تحفة الأشراف: 8573)، مسند احمد (2/43، 51، 79) (صحیح) و أخرجہ کل من: صحیح البخاری/تفسیر سورة الطلاق 1 (4908)، والطلاق 1 (5251)، و 44 (5332)، والأحکام 13 (7160)، صحیح مسلم/الطلاق (المصدر المذکور) سنن ابی داود/ الطلاق 4 (2179-2182)، موطا امام مالک/الطلاق 21 (53)، سنن الدارمی/الطلاق 1 (2308)، من غیر ہذا الوجہ۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2022)

حدیث نمبر: 1176
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ فِي الْحَيْضِ، فَسَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا ثُمَّ لِيُطَلِّقْهَا طَاهِرًا أَوْ حَامِلًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَكَذَلِكَ حَدِيثُ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا، عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ طَلَاقَ السُّنَّةِ أَنْ يُطَلِّقَهَا طَاهِرًا مِنْ غَيْرِ جِمَاعٍ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنْ طَلَّقَهَا ثَلَاثًا، وَهِيَ طَاهِرٌ فَإِنَّهُ يَكُونُ لِلسُّنَّةِ أَيْضًا، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا تَكُونُ ثَلَاثًا لِلسُّنَّةِ، إِلَّا أَنْ يُطَلِّقَهَا وَاحِدَةً وَاحِدَةً، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَإِسْحَاق، وَقَالُوا فِي طَلَاقِ الْحَامِلِ: يُطَلِّقُهَا مَتَى شَاءَ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُهُمْ: يُطَلِّقُهَا عِنْدَ كُلِّ شَهْرٍ تَطْلِيقَةً.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، ان کے والد عمر رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا: اسے حکم دو کہ وہ اس سے رجوع کر لے، پھر طہر یا حمل کی حالت میں طلاق دے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یونس بن جبیر کی حدیث جسے وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں، حسن صحیح ہے۔ اور اسی طرح سالم بن عبداللہ کی بھی جسے وہ ابن عمر رضی الله عنہما سے روایت کرتے ہیں،
۲- یہ حدیث کئی اور طرق سے بھی ابن عمر رضی الله عنہما سے مروی ہے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں،
۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ طلاق سنّی یہ ہے کہ آدمی طہر کی حالت میں جماع کیے بغیر طلاق دے،
۴- بعض کہتے ہیں کہ اگر اس نے طہر کی حالت میں تین طلاقیں دیں، تو یہ بھی طلاق سنّی ہو گی۔ یہ شافعی اور احمد بن حنبل کا قول ہے،
۵- اور بعض کہتے ہیں کہ تین طلاق طلاق سنی نہیں ہو گی، سوائے اس کے کہ وہ ایک ایک طلاق الگ الگ کر کے دے۔ یہ سفیان ثوری اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے،
۶- اور یہ لوگ حاملہ کے طلاق کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اسے جب چاہے طلاق دے سکتا ہے، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ۷- اور بعض کہتے ہیں: اسے بھی وہ ہر ماہ ایک طلاق دے گا۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1176]
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 6797) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2023)

2. باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ
2. باب: آدمی کے اپنی بیوی کو قطعی طلاق (بتہ) دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1177
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي طَلَّقْتُ امْرَأَتِيَ الْبَتَّةَ، فَقَالَ: " مَا أَرَدْتَ بِهَا؟ " قُلْتُ: وَاحِدَةً، قَالَ: " وَاللَّهِ؟ " قُلْتُ: وَاللَّهِ، قَالَ: " فَهُوَ مَا أَرَدْتَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ، إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: فِيهِ اضْطِرَابٌ وَيُرْوَى، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رُكَانَةَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ، مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ فِي طَلَاقِ الْبَتَّةِ، فَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، أَنَّهُ جَعَلَ الْبَتَّةَ وَاحِدَةً وَرُوِيَ، عَنْ عَلِيٍّ أَنَّهُ جَعَلَهَا ثَلَاثًا، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: فِيهِ نِيَّةُ الرَّجُلِ، إِنْ نَوَى وَاحِدَةً فَوَاحِدَةٌ، وَإِنْ نَوَى ثَلَاثًا فَثَلَاثٌ، وَإِنْ نَوَى ثِنْتَيْنِ لَمْ تَكُنْ إِلَّا وَاحِدَةً، وَهُوَ قَوْلُ: الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وقَالَ: مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ فِي الْبَتَّةِ: إِنْ كَانَ قَدْ دَخَلَ بِهَا فَهِيَ ثَلَاثُ تَطْلِيقَاتٍ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: إِنْ نَوَى وَاحِدَةً فَوَاحِدَةٌ يَمْلِكُ الرَّجْعَةَ، وَإِنْ نَوَى ثِنْتَيْنِ فَثِنْتَانِ، وَإِنْ نَوَى ثَلَاثًا فَثَلَاثٌ.
رکانہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اپنی بیوی کو قطعی طلاق (بتّہ) دی ہے۔ آپ نے فرمایا: تم نے اس سے کیا مراد لی تھی؟، میں نے عرض کیا: ایک طلاق مراد لی تھی، آپ نے پوچھا: اللہ کی قسم؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم! آپ نے فرمایا: تو یہ اتنی ہی ہے جتنی کا تم نے ارادہ کیا تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث کو ہم صرف اسی طریق سے جانتے ہیں،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: اس میں اضطراب ہے، عکرمہ سے روایت ہے کہ ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں،
۳- اہل علم صحابہ کرام وغیرہم میں سے عمر بن خطاب رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے طلاق بتہ کو ایک طلاق قرار دی ہے،
۴- اور علی رضی الله عنہ سے مروی ہے انہوں نے اسے تین طلاق قرار دی ہے،
۵- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں آدمی کی نیت کا اعتبار ہو گا۔ اگر اس نے ایک کی نیت کی ہے تو ایک ہو گی اور اگر تین کی کی ہے تو تین ہو گی۔ اور اگر اس نے دو کی نیت کی ہے تو صرف ایک شمار ہو گی۔ یہی ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے،
۶- مالک بن انس قطعی طلاق (بتّہ) کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر عورت ایسی ہے کہ اس کے ساتھ دخول ہو چکا ہے تو طلاق بتّہ تین طلاق شمار ہو گی،
۷- شافعی کہتے ہیں: اگر اس نے ایک کی نیت کی ہے تو ایک ہو گی اور اسے رجعت کا اختیار ہو گا۔ اگر دو کی نیت کی ہے تو دو ہو گی اور اگر تین کی نیت کی ہے تو تین شمار ہو گی۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1177]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطلاق 14 (2208)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 19 (2051) سنن الدارمی/الطلاق 8 (2318)، (تحفة الأشراف: 3613) (ضعیف) (سند میں زبیر بن سعید اور عبد اللہ بن علی ضعیف ہیں، اور علی بن یزید بن رکانہ مجہول ہیں، نیز بروایتِ ترمذی بقول امام بخاری: اس حدیث میں سخت اضطراب ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے: الارواء (رقم 2063)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2051) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (444) ، ضعيف أبي داود (479 / 2206) ، الإرواء (2063) //

3. باب مَا جَاءَ فِي أَمْرُكِ بِيَدِكِ
3. باب: بیوی سے تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے کہنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1178
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: قُلْتُ لِأَيُّوبَ: هَلْ عَلِمْتَ أَنَّ أَحَدًا قَالَ: فِي أَمْرُكِ بِيَدِكِ إِنَّهَا ثَلَاثٌ، إِلَّا الْحَسَنَ، فَقَالَ: لَا إِلَّا الْحَسَنَ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ غَفْرًا إِلَّا مَا حَدَّثَنِي قَتَادَةُ، عَنْ كَثِيرٍ مَوْلَى بَنِي سَمُرَةَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ثَلَاثٌ، قَالَ أَيُّوبُ: فَلَقِيتُ كَثِيرًا مَوْلَى بَنِي سَمُرَةَ، فَسَأَلْتُهُ فَلَمْ يَعْرِفْهُ، فَرَجَعْتُ إِلَى قَتَادَةَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: نَسِيَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا، عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ بِهَذَا وَإِنَّمَا هُوَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَوْقُوفٌ وَلَمْ يُعْرَفْ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ مَرْفُوعًا، وَلَمْ يُعْرَفْ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ مَرْفُوعًا، وَكَانَ عَلِيُّ بْنُ نَصْرٍ حَافِظًا صَاحِبَ حَدِيثٍ، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي أَمْرُكِ بِيَدِكِ، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَغَيْرِهِمْ مِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ هِيَ وَاحِدَةٌ، وَهُوَ قَوْلُ: غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، وقَالَ: عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ الْقَضَاءُ مَا قَضَتْ، وقَالَ: ابْنُ عُمَرَ إِذَا جَعَلَ أَمْرَهَا بِيَدِهَا وَطَلَّقَتْ نَفْسَهَا ثَلَاثًا، وَأَنْكَرَ الزَّوْجُ، وَقَالَ: لَمْ أَجْعَلْ أَمْرَهَا بِيَدِهَا، إِلَّا فِي وَاحِدَةٍ اسْتُحْلِفَ الزَّوْجُ، وَكَانَ الْقَوْلُ قَوْلَهُ: مَعَ يَمِينِهِ، وَذَهَبَ سُفْيَانُ، وَأَهْلُ الْكُوفَةِ، إِلَى قَوْلِ عُمَرَ، وَعَبْدِ اللَّهِ، وَأَمَّا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، فَقَالَ: الْقَضَاءُ مَا قَضَتْ، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَأَمَّا إِسْحَاق، فَذَهَبَ إِلَى قَوْلِ ابْنِ عُمَرَ.
حماد بن زید کا بیان ہے کہ میں نے ایوب (سختیانی) سے پوچھا: کیا آپ حسن بصری کے علاوہ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں، جس نے «أمرك بيدك» کے سلسلہ میں کہا ہو کہ یہ تین طلاق ہے؟ انہوں نے کہا: حسن بصری کے۔ علاوہ مجھے کسی اور کا علم نہیں، پھر انہوں نے کہا: اللہ! معاف فرمائے۔ ہاں وہ روایت ہے جو مجھ سے قتادہ نے بسند «كثير مولى بني سمرة عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے فرمایا: یہ تین طلاقیں ہیں۔ ایوب کہتے ہیں: پھر میں کثیر مولی بنی سمرہ سے ملا تو میں نے ان سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا مگر وہ اسے نہیں جان سکے۔ پھر میں قتادہ کے پاس آیا اور انہیں یہ بات بتائی تو انہوں نے کہا: وہ بھول گئے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- ہم اسے صرف سلیمان بن حرب ہی کی روایت سے جانتے ہیں انہوں نے اسے حماد بن زید سے روایت کیا ہے،
۳- میں نے اس حدیث کے بارے میں محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا تو انہوں نے کہا: ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا انہوں نے اسے حماد بن زید سے روایت کیا ہے اور یہ ابوہریرہ سے موقوفاً مروی ہے، اور وہ ابوہریرہ کی حدیث کو مرفوع نہیں جان سکے،
۴- اہل علم کا «أمرك بيدك» کے سلسلے میں اختلاف ہے، بعض صحابہ کرام وغیرہم جن میں عمر بن خطاب، عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہما بھی ہیں کہتے ہیں کہ یہ ایک (طلاق) ہو گی۔ اور یہی تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے کئی اہل علم کا بھی قول ہے،
۵- عثمان بن عفان اور زید بن ثابت کہتے ہیں کہ فیصلہ وہ ہو گا جو عورت کہے گی،
۶- ابن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: جب شوہر کہے کہ اس کا معاملہ اس (عورت) کے ہاتھ میں ہے، اور عورت خود سے تین طلاق قرار دے لے۔ اور شوہر انکار کرے اور کہے: میں نے صرف ایک طلاق کے سلسلہ میں کہا تھا کہ اس کا معاملہ اس کے ہاتھ میں ہے تو شوہر سے قسم لی جائے گی اور شوہر کا قول اس کی قسم کے ساتھ معتبر ہو گا،
۷- سفیان اور اہل کوفہ عمر اور عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہما کے قول کی طرف گئے ہیں،
۸- اور مالک بن انس کا کہنا ہے کہ فیصلہ وہ ہو گا جو عورت کہے گی، یہی احمد کا بھی قول ہے،
۹- اور رہے اسحاق بن راہویہ تو وہ ابن عمر رضی الله عنہما کے قول کی طرف گئے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1178]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطلاق 13 (2204)، سنن النسائی/الطلاق 11 (3439) (ضعیف) (سند میں کثیر لین الحدیث ہیں مگر حسن کا قول صحیح ہے، جس کی روایت ابوداود (برقم 2205) نے بھی کی ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، لكنه عن الحسن قوله: صحيح، ضعيف أبي داود (379) ، صحيح أبي داود (1914)

4. باب مَا جَاءَ فِي الْخِيَارِ
4. باب: عورت کو ساتھ رہنے یا نہ رہنے کے اختیار دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1179
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " خَيَّرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاخْتَرْنَاهُ، أَفَكَانَ طَلَاقًا؟ ". حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ بِمِثْلِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْخِيَارِ فَرُوِيَ، عَنْ عُمَرَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، أنهما قَالَا: إِنِ اخْتَارَتْ نَفْسَهَا فَوَاحِدَةٌ بَائِنَةٌ، وَرُوِيَ عَنْهُمَا أَنَّهُمَا، قَالَا: أَيْضًا وَاحِدَةٌ يَمْلِكُ الرَّجْعَةَ، وَإِنِ اخْتَارَتْ زَوْجَهَا فَلَا شَيْءَ وَرُوِيَ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنَّهُ قَالَ: إِنِ اخْتَارَتْ نَفْسَهَا فَوَاحِدَةٌ بَائِنَةٌ، وَإِنِ اخْتَارَتْ زَوْجَهَا فَوَاحِدَةٌ يَمْلِكُ الرَّجْعَةَ، وقَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: إِنِ اخْتَارَتْ زَوْجَهَا فَوَاحِدَةٌ، وَإِنِ اخْتَارَتْ نَفْسَهَا فَثَلَاثٌ، وَذَهَبَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالْفِقْهِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، فِي هَذَا الْبَابِ إِلَى قَوْلِ عُمَرَ، وَعَبْدِ اللَّهِ، وَهُوَ قَوْلُ: الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وَأَمَّا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، فَذَهَبَ إِلَى قَوْلِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اختیار دیا (چاہیں تو ہم آپ کے نکاح میں رہیں اور چاہیں تو نہ رہیں) ہم نے آپ کو اختیار کیا۔ کیا یہ طلاق مانی گئی تھی؟ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- (ساتھ رہنے اور نہ رہنے کے) اختیار دینے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ ۳- عمر اور عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہما کا کہنا ہے کہ اگر عورت نے خود کو اختیار کر لیا تو طلاق بائنہ ہو گی۔ اور انہی دونوں کا یہ قول بھی ہے کہ ایک طلاق ہو گی اور اسے رجعت کا اختیار ہو گا۔ اور اگر اس نے اپنے شوہر ہی کو اختیار کیا تو اس پر کچھ نہ ہو گا یعنی کوئی طلاق واقع نہ ہو گی ۲؎،
۴- اور علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے خود کو اختیار کیا تو طلاق بائن ہو گی اور اگر اس نے اپنے شوہر کو اختیار کیا تو ایک ہو گی لیکن رجعت کا اختیار ہو گا،
۵- زید بن ثابت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے اپنے شوہر کو اختیار کیا تو ایک ہو گی اور اگر خود کو اختیار کیا تو تین ہوں گی،
۶- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم و فقہ اس باب میں عمر اور عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہما کے قول کی طرف گئے ہیں اور یہی ثوری اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے،
۷- البتہ احمد بن حنبل کا قول وہی ہے جو علی رضی الله عنہ کا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1179]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطلاق 5 (5263)، صحیح مسلم/الطلاق 4 (1477)، سنن النسائی/النکاح 2 (3204)، والطلاق 27 (3471- 3475) (تحفة الأشراف: 17614) مسند احمد 6/202، 205، 240) (صحیح) وأخرجہ کل من: سنن ابی داود/ الطلاق 12 (2203)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 20 (152)، مسند احمد (6/45، 48، 171، 173، 185، 264) من غیر ہذا الوجہ۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2052)

5. باب مَا جَاءَ فِي الْمُطَلَّقَةِ ثَلاَثًا لاَ سُكْنَى لَهَا وَلاَ نَفَقَةَ
5. باب: تین طلاق پائی عورت کو نہ رہنے کے لیے گھر ملے گا اور نہ کھانے پینے کا خرچہ۔
حدیث نمبر: 1180
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: قَالَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ: طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا، عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا سُكْنَى لَكِ، وَلَا نَفَقَةَ ". قَالَ مُغِيرَةُ: فَذَكَرْتُهُ لِإِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ: قَالَ عُمَرُ: لَا نَدَعُ كِتَابَ اللَّهِ، وَسُنَّةَ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لِقَوْلِ امْرَأَةٍ لَا نَدْرِي أَحَفِظَتْ أَمْ نَسِيَتْ، وَكَانَ عُمَرُ يَجْعَلُ لَهَا السُّكْنَى، وَالنَّفَقَةَ. حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَنْبَأَنَا حُصَيْنٌ، وَإِسْمَاعِيل، وَمُجَالِدٌ، قَالَ هُشَيْمٌ، وَحَدَّثَنَا دَاوُدُ أَيْضًا، عن الشَّعْبِيِّ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ فَسَأَلْتُهَا، عَنْ قَضَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِيهَا فَقَالَتْ: طَلَّقَهَا زَوْجُهَا الْبَتَّةَ فَخَاصَمَتْهُ فِي السُّكْنَى، وَالنَّفَقَةِ، فَلَمْ يَجْعَلْ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُكْنَى، وَلَا نَفَقَةً، وَفِي حَدِيثِ دَاوُدَ قَالَتْ: وَأَمَرَنِي أَنْ أَعْتَدَّ فِي بَيْتِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ قَوْلُ: بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ: مِنْهُمْ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ، وَعَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ، وَالشَّعْبِيُّ، وَبِهِ يَقُولُ: أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، وَقَالُوا: لَيْسَ لِلْمُطَلَّقَةِ سُكْنَى، وَلَا نَفَقَةٌ، إِذَا لَمْ يَمْلِكْ زَوْجُهَا الرَّجْعَةَ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ، عُمَرُ، وَعَبْدُ اللَّهِ، إِنَّ الْمُطَلَّقَةَ ثَلَاثًا لَهَا السُّكْنَى، وَالنَّفَقَةُ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَهَا السُّكْنَى، وَلَا نَفَقَةَ لَهَا، وَهُوَ قَوْلُ: مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَاللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، وَالشَّافِعِيِّ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: إِنَّمَا جَعَلْنَا لَهَا السُّكْنَى بِكِتَابِ اللَّهِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: لا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلا يَخْرُجْنَ إِلا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ سورة الطلاق آية 1، قَالُوا: هُوَ الْبَذَاءُ أَنْ تَبْذُوَ عَلَى أَهْلِهَا، وَاعْتَلَّ بِأَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ، لَمْ يَجْعَلْ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، السُّكْنَى لِمَا كَانَتْ تَبْذُو عَلَى أَهْلِهَا، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَلَا نَفَقَةَ لَهَا لِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي قِصَّةِ حَدِيثِ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ.
عامر بن شراحیل شعبی کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ مجھے میرے شوہر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تین طلاقیں دیں ۱؎ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں نہ «سکنی» (رہائش) ملے گا اور نہ «نفقہ» (اخراجات)۔ مغیرہ کہتے ہیں: پھر میں نے اس کا ذکر ابراہیم نخعی سے کیا، تو انہوں نے کہا کہ عمر رضی الله عنہ کا کہنا ہے کہ ہم ایک عورت کے کہنے سے اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ترک نہیں کر سکتے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اسے یہ بات یاد بھی ہے یا بھول گئی۔ عمر ایسی عورت کو «سکنٰی» اور «نفقہ» دلاتے تھے۔ دوسری سند سے ہشیم کہتے ہیں کہ ہم سے داود نے بیان کیا شعبی کہتے ہیں: میں فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کے پاس آیا اور میں نے ان سے ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: ان کے شوہر نے انہیں طلاق بتہ دی تو انہوں نے «سکنٰی» اور «نفقہ» کے سلسلے میں مقدمہ کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نہ «سکنٰی» ہی دلوایا اور نہ «نفقہ» ۔ داود کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ انہوں نے کہا: اور مجھے آپ نے حکم دیا کہ میں ابن ام مکتوم کے گھر میں عدت گزاروں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- بعض اہل علم کا یہی قول ہے۔ ان میں حسن بصری، عطاء بن ابی رباح اور شعبی بھی ہیں۔ اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ مطلقہ کے لیے جب اس کا شوہر رجعت کا اختیار نہ رکھے نہ سکنیٰ ہو گا اور نہ نفقہ،
۳- صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم جن میں عمر اور عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہما ہیں کہتے ہیں کہ تین طلاق والی عورت کو «سکنٰی» اور «نفقہ» دونوں ملے گا۔ یہی ثوری اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے،
۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں: اسے «سکنٰی» ملے گا «نفقہ» نہیں ملے گا۔ یہ مالک بن انس، لیث بن سعد اور شافعی کا قول ہے،
۵- شافعی کہتے ہیں کہ ہم نے اس کے لیے «سکنٰی» کا حق کتاب اللہ کی بنیاد پر رکھا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور وہ بھی نہ نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلم کھلا کوئی بےحیائی کر بیٹھیں ۲؎، «بذاء» یہ ہے کہ عورت شوہر کے گھر والوں کے ساتھ بدکلامی کرے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کو «سکنٰی» نہ دینے کی علت بھی یہی ہے کہ وہ گھر والوں سے بدکلامی کرتی تھیں۔ اور فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کے واقعے میں «نفقہ» نہ دینے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی رو سے اسے نفقہ نہیں ملے گا۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1180]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطلاق 6 (1480)، سنن ابی داود/ الطلاق 39 (2288)، سنن النسائی/الطلاق 7 (3432، 3433)، و 70 (3578، 3579)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 10 (2036)، مسند احمد (6/412، 415، 415، 416)، سنن الدارمی/الطلاق 10 (2321) (تحفة الأشراف: 18025) و أخرجہ کل من: صحیح مسلم/الطلاق (المصدر المذکور) سنن ابی داود/ الطلاق 39 (2284)، سنن النسائی/النکاح 8 (3224)، و 21 (3246)، و 22 (3247)، والطلاق 15 (3447)، موطا امام مالک/الطلاق 23 (67)، مسند احمد (6/411-417)، سنن الدارمی/النکاح 7 (2223)، من غیر ھذا الوجہ، و بتغیر یسیر في السیاق، وانظر أیضا ما تقدم برقم: 1135۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2035 و 2036)

6. باب مَا جَاءَ لاَ طَلاَقَ قَبْلَ النِّكَاحِ
6. باب: نکاح سے پہلے طلاق واقع نہ ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1181
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا عَامِرٌ الْأَحْوَلُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا نَذْرَ لِابْنِ آدَمَ فِيمَا لَا يَمْلِكُ، وَلَا عِتْقَ لَهُ فِيمَا لَا يَمْلِكُ، وَلَا طَلَاقَ لَهُ فِيمَا لَا يَمْلِكُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، وَجَابِرٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَهُوَ أَحْسَنُ شَيْءٍ رُوِيَ فِي هَذَا الْبَابِ وَهُوَ قَوْلُ: أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، رُوِيَ ذَلِكَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، وَالْحَسَنِ، وَسَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَعَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، وَشُرَيْحٍ، وَجَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ فُقَهَاءِ التَّابِعِينَ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَرُوِيَ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّهُ قَالَ: فِي الْمَنْصُوبَةِ إِنَّهَا تَطْلُقُ وَقَدْ رُوِيَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، وَالشَّعْبِيِّ وَغَيْرِهِمَا، مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُمْ قَالُوا: إِذَا وَقَّتَ نُزِّلَ وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، أَنَّهُ إِذَا سَمَّى امْرَأَةً بِعَيْنِهَا، أَوْ وَقَّتَ وَقْتًا، أَوْ قَالَ: إِنْ تَزَوَّجْتُ مِنْ كُورَةِ كَذَا، فَإِنَّهُ إِنْ تَزَوَّجَ، فَإِنَّهَا تَطْلُقُ، وَأَمَّا ابْنُ الْمُبَارَكِ فَشَدَّدَ فِي هَذَا الْبَابِ، وَقَالَ: إِنْ فَعَلَ لَا أَقُولُ هِيَ حَرَامٌ، وقَالَ أَحْمَدُ: إِنْ تَزَوَّجَ لَا آمُرُهُ، أَنْ يُفَارِقَ امْرَأَتَهُ، وقَالَ إِسْحَاق: أَنَا أُجِيزُ فِي الْمَنْصُوبَةِ، لِحَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَإِنْ تَزَوَّجَهَا لَا أَقُولُ تَحْرُمُ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ، وَوَسَّعَ إِسْحَاق فِي غَيْرِ الْمَنْصُوبَةِ وَذُكِرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، أَنَّهُ سُئِلَ، عَنْ رَجُلٍ حَلَفَ بِالطَّلَاقِ، أَنَّهُ لَا يَتَزَوَّجُ ثُمَّ بَدَا لَهُ أَنْ يَتَزَوَّجَ هَلْ لَهُ رُخْصَةٌ بِأَنْ يَأْخُذَ بِقَوْلِ الْفُقَهَاءِ الَّذِينَ رَخَّصُوا فِي هَذَا؟، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: إِنْ كَانَ يَرَى هَذَا الْقَوْلَ حَقَّا، مِنْ قَبْلِ أَنْ يُبْتَلَى بِهَذِهِ الْمَسْأَلَةِ، فَلَهُ أَنْ يَأْخُذَ بِقَوْلِهِمْ فَأَمَّا مَنْ لَمْ يَرْضَ بِهَذَا فَلَمَّا ابْتُلِيَ أَحَبَّ، أَنْ يَأْخُذَ بِقَوْلِهِمْ فَلَا أَرَى لَهُ ذَلِكَ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن آدم کے لیے ایسی چیز میں نذر نہیں جس کا وہ اختیار نہ رکھتا ہو، اور نہ اسے ایسے شخص کو آزاد کرنے کا اختیار ہے جس کا وہ مالک نہ ہو، اور نہ اسے ایسی عورت کو طلاق دینے کا حق حاصل ہے جس کا وہ مالک نہ ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں علی، معاذ بن جبل، جابر، ابن عباس اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ اور یہ سب سے بہتر حدیث ہے جو اس باب میں روایت کی گئی ہے،
۳- یہی صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا قول ہے۔ اور علی بن ابی طالب، ابن عباس، جابر بن عبداللہ، سعید بن المسیب، حسن، سعید بن جبیر، علی بن حسین، شریح، جابر بن زید رضی الله عنہم، اور فقہاء تابعین میں سے بھی کئی لوگوں سے یہی مروی ہے۔ اور یہی شافعی کا بھی قول ہے،
۴- اور ابن مسعود سے مروی ہے انہوں نے منصوبہ ۱؎ کے سلسلہ میں کہا ہے کہ طلاق ہو جائے گی،
۵- اور اہل علم میں سے ابراہیم نخعی اور شعبی وغیرہ سے مروی ہے ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جب وہ کسی وقت کی تحدید کرے ۲؎ تو طلاق واقع ہو جائے گی۔ اور یہی سفیان ثوری اور مالک بن انس کا بھی قول ہے کہ جب اس نے کسی متعین عورت کا نام لیا، یا کسی وقت کی تحدید کی یا یوں کہا: اگر میں نے فلاں محلے کی عورت سے شادی کی تو اسے طلاق ہے۔ تو اگر اس نے شادی کر لی تو اسے طلاق واقع ہو جائے گی،
۶- البتہ ابن مبارک نے اس باب میں شدت سے کام لیا ہے لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر اس نے ایسا کیا تو میں یہ بھی نہیں کہتا کہ وہ اس پر حرام ہو گی،
۷- اور احمد کہتے ہیں: اگر اس نے شادی کی تو میں اسے یہ حکم نہیں دوں گا کہ وہ اپنی بیوی سے علاحدگی اختیار کر لے،
۸- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ میں ابن مسعود کی حدیث کی رو سے منسوبہ عورت سے نکاح کی اجازت دیتا ہوں، اگر اس نے اس سے شادی کر لی، تو میں یہ نہیں کہتا کہ اس کی عورت اس پر حرام ہو گی۔ اور غیر منسوبہ عورت کے سلسلے میں اسحاق بن راہویہ نے وسعت دی ہے،
۹- اور عبداللہ بن مبارک سے منقول ہے کہ ان سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا گیا کہ جس نے طلاق کی قسم کھائی ہو کہ وہ شادی نہیں کرے گا، پھر اسے سمجھ میں آیا کہ وہ شادی کر لے۔ تو کیا اس کے لیے رخصت ہے کہ ان فقہاء کا قول اختیار کرے جنہوں نے اس سلسلے میں رخصت دی ہے؟ تو عبداللہ بن مبارک نے کہا: اگر وہ اس معاملے میں پڑنے سے پہلے ان کے رخصت کے قول کو درست سمجھتا ہو تو اس کے لیے ان کے قول پر عمل درست ہے اور اگر وہ پہلے اس قول سے مطمئن نہ رہا ہو، اب آزمائش میں پڑ جانے پر ان کے قول پر عمل کرنا چاہے تو میں اس کے لیے ایسا کرنا درست نہیں سمجھتا۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1181]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطلاق 17 (2047) (تحفة الأشراف: 8721)، مسند احمد (2/190) (حسن صحیح) وأخرجہ کل من: سنن ابی داود/ الطلاق 7 (2190)، سنن النسائی/البیوع 60 (4616)، مسند احمد (2/189) من غیر ہذا الوجہ۔»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (2047)

7. باب مَا جَاءَ أَنَّ طَلاَقَ الأَمَةِ تَطْلِيقَتَانِ
7. باب: لونڈی کے لیے دو ہی طلاق ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1182
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُظَاهِرُ بْنُ أَسْلَمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " طَلَاقُ الْأَمَةِ تَطْلِيقَتَانِ وَعِدَّتُهَا حَيْضَتَانِ ". قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى: وحَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، أَنْبَأَنَا مُظَاهِرٌ بِهَذَا، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ، حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُظَاهِرِ بْنِ أَسْلَمَ، وَمُظَاهِرٌ لَا نَعْرِفُ لَهُ فِي الْعِلْمِ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لونڈی کے لیے دو ہی طلاق ہے اور اس کی عدت دو حیض ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اسے مظاہر بن اسلم ہی کی روایت سے جانتے ہیں، اور مظاہر بن اسلم کی اس کے علاوہ کوئی اور روایت میرے علم میں نہیں،
۲- اس باب میں عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،
۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور یہی سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1182]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطلاق 17 (2340) (تحفة الأشراف: 18555) (ضعیف) (سند میں مظاہر ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2080) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (452) ، ضعيف أبي داود (475 / 2189) ، المشكاة (3289) ، الإرواء (2066) ، ضعيف الجامع الصغير (3650) //

8. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ يُحَدِّثُ نَفْسَهُ بِطَلاَقِ امْرَأَتِهِ
8. باب: جو شخص دل میں اپنی بیوی کی طلاق کا خیال لائے تو کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 1183
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَجَاوَزَ اللَّهُ لِأُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَكَلَّمْ بِهِ، أَوْ تَعْمَلْ بِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا حَدَّثَ نَفْسَهُ بِالطَّلَاقِ لَمْ يَكُنْ شَيْءٌ حَتَّى يَتَكَلَّمَ بِهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری امت کے خیالات کو جو دل میں آتے ہیں معاف فرما دیا ہے جب تک کہ وہ انہیں زبان سے ادا نہ کرے، یا ان پر عمل نہ کرے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ آدمی جب اپنے دل میں طلاق کا خیال کر لے تو کچھ نہیں ہو گا، جب تک کہ وہ منہ سے نہ کہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1183]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العتق 6 (2528)، والطلاق 11 (5265)، والأیمان والنذور 15 (6664)، صحیح مسلم/الإیمان 58 (201)، سنن ابی داود/ الطلاق 15 (2209)، سنن النسائی/الطلاق 22 (3464)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 14 (2040)، مسند احمد (2/392، 425، 474، 481، 491) (تحفة الأشراف: 12896) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2040)

9. باب مَا جَاءَ فِي الْجِدِّ وَالْهَزْلِ فِي الطَّلاَقِ
9. باب: سنجیدگی سے اور ہنسی مذاق میں طلاق دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1184
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَرْدَكَ الْمَدَنِيِّ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ مَاهَكَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثٌ جِدُّهُنَّ جِدٌّ، وَهَزْلُهُنَّ جِدٌّ النِّكَاحُ، وَالطَّلَاقُ، وَالرَّجْعَةُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وعَبْدُ الرَّحْمَنِ: هُوَ ابْنُ حَبِيبِ بْنِ أَرْدَكَ الْمَدَنِيُّ، وَابْنُ مَاهَكَ هُوَ عِنْدِي يُوسُفُ بْنُ مَاهَكَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں کہ انہیں سنجیدگی سے کرنا بھی سنجیدگی ہے اور ہنسی مذاق میں کرنا بھی سنجیدگی ہے نکاح، طلاق اور رجعت ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے،
۳- عبدالرحمٰن، حبیب بن اردک مدنی کے بیٹے ہیں اور ابن ماہک میرے نزدیک یوسف بن ماہک ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1184]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطلاق 9 (2194)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 13 (2039)، (تحفة الأشراف: 14854) (حسن) (آثار صحابہ سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ عبدالرحمن بن اردک ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (2039)


1    2    3    4    Next