الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ترمذي
كتاب الصيد والذبائح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: شکار کے احکام و مسائل
1. باب مَا جَاءَ مَا يُؤْكَلُ مِنْ صَيْدِ الْكَلْبِ وَمَا لاَ يُؤْكَلُ
1. باب: کتے کا کون سا شکار کھایا جائے اور کون سا نہ کھایا جائے؟
حدیث نمبر: 1464
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ , عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ. ح وَالْحَجَّاجُ , عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ أَبِي مَالِكٍ , عَنْ عَائِذِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيَّ , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّا أَهْلُ صَيْدٍ , قَالَ: " إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ , وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ , فَأَمْسَكَ عَلَيْكَ فَكُلْ " , قُلْتُ: وَإِنْ قَتَلَ , قَالَ: " وَإِنْ قَتَلَ " , قُلْتُ: إِنَّا أَهْلُ رَمْيٍ قَالَ: " مَا رَدَّتْ عَلَيْكَ قَوْسُكَ فَكُلْ " , قَالَ: قُلْتُ: إِنَّا أَهْلُ سَفَرٍ نَمُرُّ بِالْيَهُودِ , وَالنَّصَارَى , وَالْمَجُوسِ , فَلَا نَجِدُ غَيْرَ آنِيَتِهِمْ , قَالَ: " فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا غَيْرَهَا , فَاغْسِلُوهَا بِالْمَاءِ , ثُمَّ كُلُوا فِيهَا , وَاشْرَبُوا " , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَعَائِذُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ هُوَ: أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ , وَاسْمُ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ: جُرْثُومٌ , وَيُقَالُ: جُرْثُمُ بْنُ نَاشِبٍ , وَيُقَالُ: ابْنُ قَيْسٍ.
ابوثعلبہ خشنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ شکاری ہیں؟ (شکار کے احکام بتائیے؟) آپ نے فرمایا: جب تم (شکار کے لیے) اپنا کتا چھوڑو اور اس پر اللہ کا نام یعنی بسم اللہ پڑھ لو پھر وہ تمہارے لیے شکار کو روک رکھے تو اسے کھاؤ؟ میں نے کہا: اگرچہ وہ شکار کو مار ڈالے، آپ نے فرمایا: اگرچہ مار ڈالے، میں نے عرض کیا: ہم لوگ تیر انداز ہیں (تو اس کے بارے میں فرمائیے؟) آپ نے فرمایا: تمہارا تیر جو شکار کرے اسے کھاؤ، میں نے عرض کیا: ہم سفر کرنے والے لوگ ہیں، یہود و نصاریٰ اور مجوس کی بستیوں سے گزرتے ہیں اور ان کے برتنوں کے علاوہ ہمارے پاس کوئی برتن نہیں ہوتا (تو کیا ہم ان کے برتنوں میں کھا لیں؟) آپ نے فرمایا: اگر تم اس کے علاوہ کوئی برتن نہ پاس کو تو اسے پانی سے دھو لو پھر اس میں کھاؤ پیو ۱؎۔ اس باب میں عدی بن حاتم سے بھی روایت ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ابوثعلبہ خشنی کا نام جرثوم ہے، انہیں جرثم بن ناشب اور جرثم بن قیس بھی کہا جاتا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1464]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصید 4 (5478)، و 10 (5488)، و 14 (5496)، صحیح مسلم/الصید 1 (1930)، و 2 (1931)، سنن ابی داود/ الصید 2 (2855)، سنن النسائی/الصید 4 (4271)، سنن ابن ماجہ/الصید 3 (3207)، (تحفة الأشراف: 11875)، و مسند احمد (4/193، 194، 195) ویأتي في السیر11 (1560)، وفي الأطعمة 7 (6971) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3207)

حدیث نمبر: 1465
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ , حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ , عَنْ سُفْيَانَ , عَنْ مَنْصُورٍ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ , عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّا نُرْسِلُ كِلَابًا لَنَا مُعَلَّمَةً , قَالَ: " كُلْ مَا أَمْسَكْنَ عَلَيْكَ " , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَإِنْ قَتَلْنَ , قَالَ: " وَإِنْ قَتَلْنَ , مَا لَمْ يَشْرَكْهَا كَلْبٌ غَيْرُهَا " , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّا نَرْمِي بِالْمِعْرَاضِ , قَالَ: " مَا خَزَقَ فَكُلْ , وَمَا أَصَابَ بِعَرْضِهِ فَلَا تَأْكُلْ " , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ مَنْصُورٍ , نَحْوَهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: وَسُئِلَ عَنِ الْمِعْرَاضِ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ اپنے سدھائے ۱؎ ہوئے کتے (شکار کے لیے) روانہ کرتے ہیں (یہ کیا ہے؟) آپ نے فرمایا: وہ جو کچھ تمہارے لیے روک رکھیں اسے کھاؤ، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگرچہ وہ شکار کو مار ڈالیں؟ آپ نے فرمایا: اگرچہ وہ (شکار کو) مار ڈالیں (پھر بھی حلال ہے) جب تک ان کے ساتھ دوسرا کتا شریک نہ ہو، عدی بن حاتم کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ «معراض» (ہتھیار کی چوڑان) سے شکار کرتے ہیں، (اس کا کیا حکم ہے؟) آپ نے فرمایا: جو (ہتھیار کی نوک سے) پھٹ جائے اسے کھاؤ اور جو اس کے عرض (بغیر دھاردار حصے یعنی چوڑان) سے مر جائے اسے مت کھاؤ۔ اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث روایت کی گئی ہے، مگر اس میں ہے «وسئل عن المعراض» یعنی آپ سے معراض کے بارے میں پوچھا گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1465]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 33 (175)، والبیوع 3 (2054)، والصید 1 (5475)، و3 (5476)، و3 (5477)، و 7 (5483)، و 8 (5484)، و 9 (5486)، و 10 (5487)، صحیح مسلم/الصید 1 (1929)، سنن ابی داود/ الصید 2 (2847)، سنن النسائی/الصید 1 (4268)، و2 (4269)، و 3 (4270)، و 8 (4279)، و 21 (4310)، سنن ابن ماجہ/الصید 3 (3208)، و 5 (3212)، و 6 3213)، و 7 (3215)، (تحفة الأشراف: 9878)، و مسند احمد (4/256)، 257، 258، 377، 380)، سنن الدارمی/الصید 1 (2045) ویأتي بأرقام (1467-1471) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3208 و 3212 و 3214 و 3215)

2. باب مَا جَاءَ فِي صَيْدِ كَلْبِ الْمَجُوسِ
2. باب: مجوسی کے کتے کے شکار کا بیان۔
حدیث نمبر: 1466
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , حَدَّثَنَا شَرِيكٌ , عَنْ الْحَجَّاجِ , عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ أَبِي بَزَّةَ , عَنْ سُلَيْمَانَ الْيَشْكُرِيِّ , عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: " نُهِينَا عَنْ صَيْدِ كَلْبِ الْمَجُوسِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ , لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ , لَا يُرَخِّصُونَ فِي صَيْدِ كَلْبِ الْمَجُوسِ , وَالْقَاسِمُ بْنُ أَبِي بَزَّةَ هُوَ: الْقَاسِمُ بْنُ نَافِعٍ الْمَكِّيُّ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہمیں مجوسیوں کے کتے کے شکار سے منع کیا گیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،
۲- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ مجوسی کے کتے کے شکار کی اجازت نہیں دیتے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1466]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الصید 4 (3209)، (تحفة الأشراف: 2271) (ضعیف) (سند میں دو راوی ”شریک القاضی“ اور ”حجاج بن ارطاة“ ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (3209)

3. باب مَا جَاءَ فِي صَيْدِ الْبُزَاةِ
3. باب: باز کے شکار کا بیان۔
حدیث نمبر: 1467
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ , وَهَنَّادٌ , وَأَبُو عَمَّارٍ , قَالُوا: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ , عَنْ مُجَالِدٍ , عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ , قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَيْدِ الْبَازِي , فَقَالَ: " مَا أَمْسَكَ عَلَيْكَ فَكُلْ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُجَالِدٍ , عَنْ الشَّعْبِيِّ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ , لَا يَرَوْنَ بِصَيْدِ الْبُزَاةِ وَالصُّقُورِ بَأْسًا , وقَالَ مُجَاهِدٌ: الْبُزَاةُ هُوَ: الطَّيْرُ الَّذِي يُصَادُ بِهِ مِنَ الْجَوَارِحِ الَّتِي قَالَ اللَّهُ تَعَالَى وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ سورة المائدة آية 4 فَسَّرَ الْكِلَابَ وَالطَّيْرَ الَّذِي يُصَادُ بِهِ , وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي صَيْدِ الْبَازِي , وَإِنْ أَكَلَ مِنْهُ , وَقَالُوا: إِنَّمَا تَعْلِيمُهُ إِجَابَتُهُ , وَكَرِهَهُ بَعْضُهُمْ , وَالْفُقَهَاءُ أَكْثَرُهُمْ قَالُوا: يَأْكُلُ وَإِنْ أَكَلَ مِنْهُ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باز کے شکار کے متعلق پوچھا؟ تو آپ نے فرمایا: وہ تمہارے لیے جو روک رکھے اسے کھاؤ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ہم اس حدیث کو صرف اسی سند «عن مجالد عن الشعبي» سے جانتے ہیں۔
۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ باز اور شکرے کے شکار میں مضائقہ نہیں سمجھتے،
۳- مجاہد کہتے ہیں: باز وہ پرندہ ہے جس سے شکار کیا جاتا ہے، یہ اس «جوارح» میں داخل ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ «وما علمتم من الجوارح» میں کیا ہے انہوں نے «جوارح» کی تفسیر کتے اور اس پرندے سے کی ہے جن سے شکار کیا جاتا ہے،
۴- بعض اہل علم نے باز کے شکار کی رخصت دی ہے اگرچہ وہ شکار میں سے کچھ کھا لے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس کی تعلیم کا مطلب ہے کہ جب اسے شکار کے لیے چھوڑا جائے تو وہ حکم قبول کرے، جب کہ بعض لوگوں نے اسے مکروہ کہا ہے، لیکن اکثر فقہاء کہتے ہیں: باز کا شکار کھایا جائے گا چاہے وہ شکار کا کچھ حصہ کھا لے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1467]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصید 2 (2851)، (تحفة الأشراف: 9865) (منکر) (سند میں ”مجالد“ ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: منكر، صحيح أبي داود (2541)

4. باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَرْمِي الصَّيْدَ فَيَغِيبُ عَنْهُ
4. باب: آدمی شکار کو تیر مارے اور شکار غائب ہو جائے تو اس کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 1468
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ , حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ , عَنْ أَبِي بِشْرٍ، قَال: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ يُحَدِّثُ , عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَرْمِي الصَّيْدَ فَأَجِدُ فِيهِ مِنَ الْغَدِ سَهْمِي , قَالَ: " إِذَا عَلِمْتَ أَنَّ سَهْمَكَ قَتَلَهُ وَلَمْ تَرَ فِيهِ أَثَرَ سَبُعٍ فَكُلْ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ , وَرَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ , عَنْ أَبِي بِشْرٍ , وَعَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ , عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ مِثْلَهُ , وَكِلَا الْحَدِيثَيْنِ صَحِيحٌ , وَفِي الْبَاب , عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں شکار کو تیر مارتا ہوں پھر اگلے دن اس میں اپنا تیر پاتا ہوں (اس شکار کا کیا حکم ہے؟) آپ نے فرمایا: جب تمہیں معلوم ہو جائے کہ تمہارے ہی تیر نے شکار کو مارا ہے اور تم اس میں کسی اور درندے کا اثر نہ دیکھو تو اسے کھاؤ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- شعبہ نے یہ حدیث ابوبشر سے اور عبدالملک بن میسرہ نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے عدی بن حاتم سے روایت کی ہے، دونوں روایتیں صحیح ہیں،
۳- اس باب میں ابوثعلبہ خشنی سے بھی روایت ہے،
۴- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1468]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1465 (تحفة الأشراف: 9854) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2539)

5. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ يَرْمِي الصَّيْدَ فَيَجِدُهُ مَيِّتًا فِي الْمَاءِ
5. باب: شکاری شکار پر تیر چلائے پھر اسے پانی میں مردہ پائے تو کیا کرے؟
حدیث نمبر: 1469
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ , أَخْبَرَنِي عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ , عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ , قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّيْدِ , فَقَالَ: " إِذَا رَمَيْتَ بِسَهْمِكَ فَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ , فَإِنْ وَجَدْتَهُ قَدْ قُتِلَ فَكُلْ , إِلَّا أَنْ تَجِدَهُ قَدْ وَقَعَ فِي مَاءٍ , فَلَا تَأْكُلْ , فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي الْمَاءُ قَتَلَهُ أَوْ سَهْمُكَ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکار کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: تم اپنا تیر پھینکتے وقت اس پر اللہ کا نام (یعنی بسم اللہ) پڑھو، پھر اگر اسے مرا ہوا پاؤ تو بھی کھا لو، سوائے اس کے کہ اسے پانی میں گرا ہوا پاؤ تو نہ کھاؤ اس لیے کہ تمہیں نہیں معلوم کہ پانی نے اسے مارا ہے یا تمہارے تیر نے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1469]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1465 (تحفة الأشراف: 9862) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2540)

6. باب مَا جَاءَ فِي الْكَلْبِ يَأْكُلُ مِنَ الصَّيْدِ
6. باب: کتا شکار میں سے کھا لے اس کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 1470
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ مُجَالِدٍ , عَنْ الشَّعْبِيِّ , عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ , قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَيْدِ الْكَلْبِ الْمُعَلَّمِ , قَالَ: " إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ الْمُعَلَّمَ , وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ , فَكُلْ مَا أَمْسَكَ عَلَيْكَ , فَإِنْ أَكَلَ فَلَا تَأْكُلْ فَإِنَّمَا أَمْسَكَ عَلَى نَفْسِهِ " , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَرَأَيْتَ إِنْ خَالَطَتْ كِلَابَنَا كِلَابٌ أُخَرُ , قَالَ: " إِنَّمَا ذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ عَلَى كَلْبِكَ , وَلَمْ تَذْكُرْ عَلَى غَيْرِهِ " , قَالَ سُفْيَانُ: أَكْرَهُ لَهُ أَكْلَهُ , قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , فِي الصَّيْدِ وَالذَّبِيحَةِ , إِذَا وَقَعَا فِي الْمَاءِ أَنْ لَا يَأْكُلَ , فَقَالَ بَعْضُهُمْ فِي الذَّبِيحَةِ: إِذَا قُطِعَ الْحُلْقُومُ , فَوَقَعَ فِي الْمَاءِ فَمَاتَ فِيهِ , فَإِنَّهُ يُؤْكَلُ , وَهُوَ قَوْلُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ , وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْكَلْبِ إِذَا أَكَلَ مِنَ الصَّيْدِ , فَقَالَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا أَكَلَ الْكَلْبُ مِنْهُ فَلَا تَأْكُلْ , وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ , وَالشَّافِعِيِّ , وَأَحْمَدَ , وَإِسْحَاق , وَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , فِي الْأَكْلِ مِنْهُ , وَإِنْ أَكَلَ الْكَلْبُ مِنْهُ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سدھائے ہوئے کتے کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: جب تم اپنا سدھایا ہوا کتا روانہ کرو، اور (بھیجتے وقت اس پر) اللہ کا نام (یعنی بسم اللہ) پڑھ لو تو تمہارے لیے جو کچھ وہ روک رکھے اسے کھاؤ اور اگر وہ شکار سے کچھ کھا لے تو مت کھاؤ، اس لیے کہ اس نے شکار اپنے لیے روکا ہے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کا کیا خیال ہے اگر ہمارے کتے کے ساتھ دوسرے کتے شریک ہو جائیں؟ آپ نے فرمایا: تم نے اللہ کا نام (یعنی بسم اللہ) اپنے ہی کتے پر پڑھا ہے دوسرے کتے پر نہیں۔ سفیان (ثوری) کہتے ہیں: آپ نے اس کے لیے اس کا کھانا درست نہیں سمجھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ذبیحہ اور شکار کے سلسلے میں صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم اور دوسرے لوگوں کے نزدیک اسی پر عمل ہے کہ جب وہ پانی میں گر جائیں تو انہیں کوئی نہ کھائے اور بعض لوگ ذبیحہ کے بارے میں کہتے ہیں: جب اس کا گلا کاٹ دیا جائے، پھر پانی میں گرے اور مر جائے تو اسے کھایا جائے گا، عبداللہ بن مبارک کا یہی قول ہے،
۲- اہل علم کا اس مسئلہ میں کہ جب کتا شکار کا کچھ حصہ کھا لے اختلاف ہے، اکثر اہل علم کہتے ہیں: جب کتا شکار سے کھا لے تو اسے مت کھاؤ، سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،
۳- جب کہ صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم اور دوسرے لوگوں نے کھانے کی رخصت دی ہے، اگرچہ اس میں سے کتے نے کھا لیا ہو۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1470]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1465 (تحفة الأشراف: 9866) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2538 و 2543) ، الإرواء (2546)

7. باب مَا جَاءَ فِي صَيْدِ الْمِعْرَاضِ
7. باب: بغیر پر کے تیر کے شکار کا بیان۔
حدیث نمبر: 1471
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا , عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ , قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَيْدِ الْمِعْرَاضِ , فَقَالَ: " مَا أَصَبْتَ بِحَدِّهِ فَكُلْ , وَمَا أَصَبْتَ بِعَرْضِهِ فَهُوَ وَقِيذٌ " , حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ زَكَرِيَّا , عَنْ الشَّعْبِيِّ , عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بغیر پر کے تیر کے شکار کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: جسے تم نے دھار سے مارا ہے اسے کھاؤ اور جسے عرض (بغیر دھاردار حصہ یعنی چوڑان) سے مارا ہے تو وہ «وقيذ» ہے ۱؎۔ اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث صحیح ہے،
۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1471]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1465 (تحفة الأشراف: 9860) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: **

8. باب مَا جَاءَ فِي الذَّبِيحَةِ بِالْمَرْوَةِ
8. باب: پتھر سے ذبح کئے ہوئے جانور کا بیان۔
حدیث نمبر: 1472
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْقُطَعِيُّ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى , عَنْ سَعِيدٍ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ " أَنَّ رَجُلًا مِنْ قَوْمِهِ صَادَ أَرْنَبًا أَوِ اثْنَيْنِ فَذَبَحَهُمَا بِمَرْوَةٍ , فَعَلَّقَهُمَا حَتَّى لَقِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ , فَأَمَرَهُ بِأَكْلِهِمَا " , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ صَفْوَانَ , وَرَافِعٍ , وَعَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ , قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُذَكِّيَ بِمَرْوَةٍ , وَلَمْ يَرَوْا بِأَكْلِ الْأَرْنَبِ بَأْسًا , وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ , وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُهُمْ أَكْلَ الْأَرْنَبِ , وَقَدِ اخْتَلَفَ أَصْحَابُ الشَّعْبِيِّ فِي رِوَايَةِ هَذَا الْحَدِيثِ , فَرَوَى دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ , عَنْ الشَّعْبِيِّ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ صَفْوَانَ , وَرَوَى عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ , عَنْ الشَّعْبِيِّ , عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ أَوْ مُحَمَّدِ بْنِ صَفْوَانَ , وَمُحَمَّدُ بْنُ صَفْوَانَ أَصَحُّ , وَرَوَى جَابِرٌ الْجُعْفِيُّ , عَنْ الشَّعْبِيِّ , عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , نَحْوَ حَدِيثِ قَتَادَةَ , عَنْ الشَّعْبِيِّ , وَيُحْتَمَلُ أَنَّ رِوَايَةَ الشَّعْبِيِّ عَنْهُمَا , قَالَ مُحَمَّدٌ: حَدِيثُ الشَّعْبِيِّ , عَنْ جَابِرٍ , غَيْرُ مَحْفُوظٍ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان کی قوم کے ایک آدمی نے ایک یا دو خرگوش کا شکار کان اور ان کو پتھر سے ذبح کیا ۱؎، پھر ان کو لٹکائے رکھا یہاں تک کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور اس کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے اسے کھانے کا حکم دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث کی روایت میں شعبی کے شاگردوں کا اختلاف ہے، داود بن أبی ہند بسند الشعبی عن محمد بن صفوان رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں، اور عاصم الأحول بسند الشعبی عن صفوان بن محمد یا محمد بن صفوان روایت کرتے ہیں، (صفوان بن محمد کے بجائے محمد بن صفوان زیادہ صحیح ہے) جابر جعفی بھی بسند «شعبي عن جابر بن عبد الله» قتادہ کی حدیث کی طرح روایت کرتے ہیں، اس بات کا احتمال ہے کہ شعبی کی روایت دونوں سے ہو ۳؎،
۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: جابر کی شعبی سے روایت غیر محفوظ ہے،
۳- اس باب میں محمد بن صفوان، رافع اور عدی بن حاتم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- بعض اہل علم نے پتھر سے ذبح کرنے کی رخصت دی ہے ۲؎،
۵- یہ لوگ خرگوش کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے، اکثر اہل علم کا یہی قول ہے،
۶- بعض لوگ خرگوش کھانے کو مکروہ سمجھتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1472]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 2350) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3175)

9. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ أَكْلِ الْمَصْبُورَةِ
9. باب: بندھا ہوا جانور جسے تیر مار کر ہلاک کیا گیا ہو کا کھانا مکروہ ہے۔
حدیث نمبر: 1473
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ , عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَفْرِيقِيِّ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَكْلِ الْمُجَثَّمَةِ: وَهِيَ الَّتِي تُصْبَرُ بِالنَّبْلِ " , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ , وَأَنَسٍ , وَابْنِ عُمَرَ , وَابْنِ عَبَّاسٍ , وَجَابِرٍ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي الدَّرْدَاءِ حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
ابو الدرداء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «مجثمة» کے کھانے سے منع فرمایا۔ «مجثمة» اس جانور یا پرندہ کو کہتے ہیں، جسے باندھ کر تیر سے مارا جائے یہاں تک کہ وہ مر جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابو الدرداء کی حدیث غریب ہے،
۲- اس باب میں عرباض بن ساریہ، انس، ابن عمر، ابن عباس، جابر اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1473]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 2350) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (2391)


1    2    3    Next