الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


موطا امام مالك رواية ابن القاسم کل احادیث (657)
حدیث نمبر سے تلاش:

موطا امام مالك رواية ابن القاسم
امامت کا بیان
1. امامت کے لئے افضل آدمی کا انتخاب کیا جائے
حدیث نمبر: 86
453- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”مروا أبا بكر فليصل للناس“ فقالت عائشة: يا رسول الله، إن أبا بكر إذا قام فى مقامك لم يسمع الناس من البكاء، فأمر عمر فليصل للناس، فقال: ”مروا أبا بكر فليصل للناس“. فقالت عائشة: فقلت لحفصة: قولي له: إن أبا بكر إذا قام فى مقامك لم يسمع الناس من البكاء، فأمر عمر فليصل للناس، ففعلت حفصة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”مه إنكن لأنتن صواحبات يوسف، مروا أبا بكر فليصل بالناس“ فقالت حفصة لعائشة: ما كنت لأصيب منك خيرا.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی آخری بیماری میں) فرمایا: ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: یا رسول اللہ! یقیناًً جب ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے مقام پر کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو آواز نہیں سنا سکیں گے آپ عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا: آپ انہیں کہیں کہ اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے مقام پر کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو آواز نہیں سنا سکیں گے، لہٰذا آپ عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسی باتیں نہ کرو، تم ان عورتوں کی طرح ہو جو یوسف علیہ السلام کے بارے میں اکٹھی ہوئی تھیں، ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔، تو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: آپ کی طرف سے مجھے کبھی خیر نہیں پہنچی۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 86]
تخریج الحدیث: «453- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 170/1، 171 ح 413، ك 9 ب 24 ح 83) التمهيد 123/22، الاستذكار: 383، و أخرجه البخاري (679) من حديث مالك به، وفي رواية يحيي بن يحيي: ”فمر.“»

2. افضل کی موجودگی میں مفضول کی امامت
حدیث نمبر: 87
408- مالك عن أبى حازم بن دينار عن سهل بن سعد أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذهب إلى بني عمرو بن عوف ليصلح بينهم وجاءت الصلاة، فجاء المؤذن إلى أبى بكر فقال: أتصلي للناس فأقيم؟ فقال: نعم، فصلى أبو بكر، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس فى الصلاة فتخلص حتى وقف فى الصف فصفق الناس وكان أبو بكر لا يلتفت فى صلاته، فلما أكثر الناس التصفيق التفت فرأى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم أن امكث مكانك، فرفع أبو بكر يديه فحمد الله على ما أمره به رسول الله صلى الله عليه وسلم من ذلك ثم استأخر حتى استوى فى الصف وتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى، فلما انصرف قال: ”يا أبا بكر، ما منعك أن تثبت إذ أمرتك؟“ فقال أبو بكر: ما كان لابن أبى قحافة أن يصلي بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”ما لي رأيتكم أكثرتم من التصفيق، من نابه شيء فى صلاته فليسبح، فإنه إذا سبح التفت إليه، وإنما التصفيق للنساء.“
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو عمرو بن عوف کی طرف صلح کرانے کے لئے گئے اور نماز کا وقت ہو گیا تو مؤذن نے آ کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں گے تاکہ میں اقامت کہوں؟ تو انہوں نے کہا: جی ہاں! پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھانی شروع کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور لوگ نماز میں تھے، آپ چلتے ہوئے (اگلی صف میں) کھڑے ہو گئے تو لوگوں نے تالیاں بجانا شروع کیں۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں ادھر ادھر نہیں دیکھتے تھے جب لوگوں نے کثرت سے تالیاں بجائیں پھر انہوں نے نگاہ کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ اپنی جگہ ٹھہرے رہو، پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے (دعا کے لئے) دونوں ہاتھ اٹھائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر پیچھے ہٹ کر صف میں کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی، پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! جب میں نے تمہیں حکم دیا تھا تو تم اپنی جگہ کیوں نہ ٹھہرے رہے؟ تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابوقحافہ کے بیٹے کی (یعنی میری) یہ طاقت نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے (کھڑے ہو کر) نماز پڑھائے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا وجہ ہے کہ میں نے تمہیں دیکھا تم کثرت سے تالیاں بجا رہے تھے؟ اگر نماز میں کوئی چیز پیش آئے تو سبحان اللہ کہنا چاہئے کیونکہ سبحان اللہ کے بعد وہ (امام) اس طرف متوجہ ہو گا اور تالیاں بجانا تو عورتوں کے لئے ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 87]
تخریج الحدیث: «408- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 163/1، 164 ح 391، ك 9 ب 20 ح 61) التمهيد 100/21، و أخرجه البخاري (684) ومسلم (421) من حديث مالك به، وفي رواية يحيي بن يحيي: ”وحانت الصلاة“۔ وفي رواية يحيي: ”فقال“ .»

3. امام کی اقتدا کی جائے
حدیث نمبر: 88
1- مالك عن ابن شهاب عن أنس بن مالك: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ركب فرسا فصرع عنه فجحش شقه الأيمن فصلى صلاة من الصلوات وهو قاعد وصلينا وراءه قعودا فلما انصرف قال: إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا صلى قائما فصلوا قياما وإذا ركع فاركعوا وإذا رفع فارفعوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا ولك الحمد. وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا أجمعون.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے تو اس سے گر گئے پس آپ کا دایاں پہلو چھل گیا۔ پھر آپ نے نمازوں میں سے ایک نماز بیٹھ کر پڑھائی اور ہم نے آپ کے پیچھے (وہ) نماز بیٹھ کر پڑھی۔ جب آپ (فارغ ہو کر ہماری طرف) پھرے تو فرمایا: امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور جب وہ رکوع کرے تو تم رکوع کرو۔ جب وہ (رکوع سے) اٹھ جائے تو تم (بھی) اٹھ جاؤ۔ جب وہ «سمع الله لمن حمده»  کہے تو تم  «ربنا ولك الحمد»  کہو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بیٹھ کر نماز پڑھو۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 88]
تخریج الحدیث: «1- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 135/1، ح 302، كتاب 8 باب 5 حديث 16) التمهيد 129/6، الاستذكار: 273، أخرجه البخاري (689) أخرجه مسلم (411/79) من حديث مالك به.»

حدیث نمبر: 89
454- وبه: أنها قالت: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فى بيته وهو شاك، فصلى جالسا وصلى وراءه قوم قياما، فأشار إليهم أن اجلسوا، فلما انصرف قال: ”إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا، وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر میں بیٹھ کر نماز پڑھائی اور آپ بیمار تھے۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھنی شروع کر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارے سے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، جب وہ رکوع کرے تو تم رکوع کرو، جب وہ (رکوع سے) سر اٹھائے تو تم سر اٹھاؤ اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم (بھی) بیٹھ کر نماز پڑھو۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 89]
تخریج الحدیث: «454- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 135/1 ح 303، ك 8 ب 5 ح 17) التمهيد 121/22، الاستذكار: 272، و أخرجه البخاري (688) من حديث مالك به .»

4. نابینا امام کی امامت جائز ہے
حدیث نمبر: 90
8- مالك عن ابن شهاب عن محمود بن الربيع الأنصاري أن عتبان بن مالك كان يؤم قومه وهو أعمى، وأنه قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: إنها تكون الظلمة والمطر والسيل وأنا رجل ضرير البصر، فصل يا رسول الله فى بيتي مكانا أتخذه مصلى. قال: فجاءه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ”أين تحب أن أصلي؟“ فأشار إليه إلى مكان من البيت فصلى فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم.
سیدنا محمود بن الربیع الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بےشک سیدنا عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ اپنی قوم کو نماز پڑھاتے تھے اور وہ نابینا تھے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میں نابینا ہوں اور (بعض اوقات) اندھیرا، بارش اور سیلاب ہوتا ہے۔ یا رسول اللہ! آپ میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھیں، میں اسے جائے نماز بنا لوں گا۔ انہوں نے کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو فرمایا: کہاں چاہتے ہو کہ میں نماز پڑھوں؟ انہوں (عتبان رضی اللہ عنہ) نے گھر کی ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں نماز پڑھائی۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 90]
تخریج الحدیث: «8- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 172/1 ح 416، ك 9، ب 24، ح 82) التمهيد 226،227/6، الاستذكار: 382، أخرجه البخاري (667) عن مالك به ورواه مسلم (33 بعد ح 657) من حديث ابن شهاب الزهري به نحو المعني.»

5. اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی بھی . . .
حدیث نمبر: 91
1- مالك عن ابن شهاب عن أنس بن مالك: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ركب فرسا فصرع عنه فجحش شقه الأيمن فصلى صلاة من الصلوات وهو قاعد وصلينا وراءه قعودا فلما انصرف قال: إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا صلى قائما فصلوا قياما وإذا ركع فاركعوا وإذا رفع فارفعوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا ولك الحمد. وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا أجمعون.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے تو اس سے گر گئے پس آپ کا دایاں پہلو چھل گیا۔ پھر آپ نے نمازوں میں سے ایک نماز بیٹھ کر پڑھائی اور ہم نے آپ کے پیچھے (وہ) نماز بیٹھ کر پڑھی۔ جب آپ (فارغ ہو کر ہماری طرف) پھرے تو فرمایا: امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور جب وہ رکوع کرے تو تم رکوع کرو۔ جب وہ (رکوع سے) اٹھ جائے تو تم (بھی) اٹھ جاؤ۔ جب وہ «سمع الله لمن حمده»  کہے تو تم  «ربنا ولك الحمد»  کہو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بیٹھ کر نماز پڑھو۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 91]
تخریج الحدیث: «1- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 135/1، ح 302، كتاب 8 باب 5 حديث 16) التمهيد 129/6، الاستذكار: 273، أخرجه البخاري (689) أخرجه مسلم (411/79) من حديث مالك به.»

حدیث نمبر: 92
454- وبه: أنها قالت: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فى بيته وهو شاك، فصلى جالسا وصلى وراءه قوم قياما، فأشار إليهم أن اجلسوا، فلما انصرف قال: ”إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا، وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر میں بیٹھ کر نماز پڑھائی اور آپ بیمار تھے۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھنی شروع کر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارے سے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، جب وہ رکوع کرے تو تم رکوع کرو، جب وہ (رکوع سے) سر اٹھائے تو تم سر اٹھاؤ اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم (بھی) بیٹھ کر نماز پڑھو۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 92]
تخریج الحدیث: «454- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 135/1 ح 303، ك 8 ب 5 ح 17) التمهيد 121/22، الاستذكار: 272، و أخرجه البخاري (688) من حديث مالك به .»

6. امام کو بیمار اور بوڑھے لوگوں کاخیال رکھنا چاہئیے
حدیث نمبر: 93
326- وبه: عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: ”إذا صلى أحدكم بالناس فليخفف فإن فيهم السقيم والضعيف والكبير وإذا صلى لنفسه فليطول ما شاء.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو اس میں تخفیف کرے کیونکہ لوگوں میں بیمار، کمزور اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں اور جب اکیلے نماز پڑھے تو جتنی چاہے لمبی پڑھے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 93]
تخریج الحدیث: «326- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 134/1 ح 299، ك 8 ب 4 ح 13) التمهيد 4/19، الاستذكار: 269، و أخرجه البخاري (703) من حديث مالك به .»

7. اگر جماعت میں دو آدمی ہوں تو امام بائیں جانب کھڑا ہو گا
حدیث نمبر: 94
193- مالك عن مخرمة بن سليمان عن كريب مولى عبد الله بن عباس أن عبد الله بن عباس أخبره أنه بات عند ميمونة زوج النبى صلى الله عليه وسلم وهى خالته، قال: فاضطجعت فى عرض الوسادة واضطجع رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأهله فى طولها، فنام رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا انتصف الليل أو قبله بقليل أو بعده بقليل استيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم فجلس يمسح النوم عن وجهه بيديه ثم قرأ العشر الآيات الخواتم من سورة آل عمران ثم قام إلى شن معلقة فتوضأ منها فأحسن وضوءه ثم قام يصلي. قال عبد الله بن عباس: فقمت فصنعت مثل ما صنع ثم ذهبت فقمت إلى جنبه، فوضع رسول الله صلى الله عليه وسلم يده اليمنى على رأسي وأخذ بأذني اليمنى يفتلها، فصلى ركعتين ثم ركعتين ثم ركعتين ثم ركعتين ثم ركعتين ثم ركعتين ثم أوتر، ثم اضطجع حتى جاءه المؤذن، فقام فصلى ركعتين خفيفتين، ثم خرج فصلى الصبح.
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ایک رات رہے جو کہ ان کی خالہ تھیں، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں سرہانے کی چوڑائی میں لیٹ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے گھر والے اس کی لمبائی میں لیٹ گئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے، حتیٰ کہ آدھی رات یا اس سے کچھ پہلے یا کچھ بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہوئے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر پھیر کر نیند (کے اثرات) دور کرنے لگے، پھر آپ نے سورہ آل عمران کی آخری دس آیات تلاوت فرمائیں، پھر ایک لٹکی ہوئی مشک کے پاس گئے تو اس (کے پانی) سے بہترین وضو کیا، پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: پھر میں نے کھڑے ہو کر اسی طرح کیا جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، پھر میں آپ کے پاس کھڑا ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا دایاں کان (پیار سے) پکڑ کر مروڑنے لگے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں (کل بارہ رکعتیں ہوئی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک) وتر پڑھا، پھر آپ لیٹ گئے حتی کہ جب مؤذن آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر ہلکی دو رکعتیں پڑھیں۔ پھر باہر تشریف لے گئے اور صبح کی نماز پڑھائی۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 94]
تخریج الحدیث: «193- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 121/1، 122 ح 264، ك 7 ب 2 ح 11) التمهيد 206/13، الاستذكار:235، وأخرجه البخاري (183) ومسلم (763/182) من حديث مالك به .»

8. قرآن مجید ترتیل سے پڑھنا چاہئیے
حدیث نمبر: 95
7- مالك عن ابن شهاب عن السائب بن يزيد عن المطلب بن أبى وداعة السهمي عن حفصة أم المؤمنين أنها قالت: ما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي فى سبحته قاعدا قط، حتى كان قبل وفاته بعام، فكان يصلي فى سبحته قاعدا، ويقرأ بالسورة فيرتلها حتى تكون أطول من أطول منها.
ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹھ کر نفل پڑھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا حتٰی کہ آپ اپنی وفات سے ایک سال پہلے بیٹھ کر نوافل پڑھنے لگے، آپ ترتیل سے (ٹھہر ٹھہر کر) سورت پڑھتے تھے حتیٰ کہ آپ کی ترتیل کے سبب وہ سورت اپنے سے طویل سورت سے بھی طویل تر ہو جاتی۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 95]
تخریج الحدیث: «7- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 137/1، ح 307، ك 8، ب 7، ح 21) التمهيد 220/6، الاستذكار: 277، أخرجه مسلم (733) من حديث مالك به .»


1    2    Next