الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


موطا امام مالك رواية ابن القاسم کل احادیث (657)
حدیث نمبر سے تلاش:

موطا امام مالك رواية ابن القاسم
طلاق کے مسائل
1. حالت حیض میں طلاق کا حکم
حدیث نمبر: 367
233- وبه: عن ابن عمر: أنه طلق امرأته وهى حائض فى عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسأل عمر بن الخطاب رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”مره فليراجعها ثم ليمسكها حتى تطهر ثم تحيض ثم تطهر، ثم إن شاء أمسك بعد وإن شاء طلق قبل أن يمس، فتلك العدة التى أمر الله أن تطلق لها النساء.“
اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اپنی بیوی کو اس کی حالت حیض میں (ایک) طلاق دی، پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے (ابن عمر کو) حکم دو کہ وہ رجوع کر لے، پھر اسے روکے رکھے حتیٰ کہ وہ حیض سے پاک ہو جائے، پھر اسے حیض آئے پھر وہ اس سے پاک ہو جائے پھر اگر چاہے تو اسے اپنے نکاح میں رکھے اور اگر چاہے تو اسے چھونے سے پہلے طلاق دے دے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 367]
تخریج الحدیث: «233- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 576/2 ح 1253، ك 29 ب 21 ح 53) التمهيد 51/15 وقال: ”هذا حديث مجتمع عليٰ صحته من جهة النقل“، الاستذكار:1172، و أخرجه البخاري (5251) ومسلم (1471) من حديث مالك به.»

2. کوئی عورت دوسری عورت کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے
حدیث نمبر: 368
362- وبه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”لا تسأل المرأة طلاق أختها لتستفرغ صحفتها ولتنكح، فإنما لها ما قدر لها.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی عورت اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ اس کا پیالہ (اپنے لئے) خالی کرائے اور خود نکا ح کر لے، پس اسے وہی ملے گا جو اس کے لئے مقدر ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 368]
تخریج الحدیث: «362- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 900/2 ح 1731، ك 46 ب 2 ح 7) التمهيد 165/18، الاستذكار: 1663 وأخرجه البخاري (6601)، من حديث مالك به.»

3. مطلقہ عورت کے لئے نان نفقہ ہے نہ سکونت
حدیث نمبر: 369
379- وعن عبد الله بن يزيد عن أبى سلمة بن عبد الرحمن عن فاطمة بنت قيس أن أبا عمرو بن حفص طلقها البتة وهو غائب، فأرسل إليها وكيله بشعير فسخطته، فقال: والله، ما لك علينا من شيء، فجاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، فقال: ”ليس لك عليه من نفقة“ فأمرها أن تعتد فى بيت أم شريك ثم قال: ”تلك امرأة يغشاها أصحابي، اعتدي عند ابن أم مكتوم، فإنه رجل أعمى، تضعين ثيابك، فإذا حللت فآذنيني“، قالت: فلما حللت ذكرت له أن معاوية بن أبى سفيان وأبا جهم بن هشام خطباني فقال: رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”أما أبو جهم فلا يضع عصاه عن عاتقه، وأما معاوية فصعلوك لا مال له، ولكن انكحي أسامة بن زيد“ قالت: فكرهته، ثم قال: ”انكحي أسامة“ فنكحته فجعل الله فيه خيرا واغتبطت به.
سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابوعمرو بن حفص رضی اللہ عنہ نے انہیں (آخری تیسری طلاق) طلاق بتہ دی اور وہ (مدینے سے) غیر حاضر تھے پھر انہوں نے اپنے وکیل کے ذریعے سے کچھ جَو بھیجے تو وہ (کم مقدار ہونے پر) ناراض ہوئیں۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم پر تمہارے لئے کوئی چیز لازم نہیں ہے۔ پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے لئے ان پر کوئی نان نفقہ (لازم) نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ام شریک کے گھر میں عدت گزارنے کا حکم دیا پھر فرمایا: اس عورت کے پاس (اس کی سخاوت کی وجہ سے) میرے صحابہ کثرت سے جاتے رہتے ہیں، تم ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے پاس عدت گزارو کیونکہ وہ نابینا آدمی ہیں، تم وہاں دوپٹا وغیرہ اتار سکتی ہو۔ پھر جب عدت ختم ہو جائے تو مجھے اطلاع دینا۔ (فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ نے) فرمایا: جب میری عدت ختم ہوئی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ معاویہ بن ابی سفیان اور ابوجہم بن ہشام رضی اللہ عنہ نے میری طرف شادی کا پیغام بھیجا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوجہم تو کندھے سے عصا نہیں اتارتے اور معاویہ فقیر ہیں ان کے پاس کوئی مال نہیں ہے، لیکن تم اسامہ بن زید سے شادی کر لو۔ (فاطمہ) کہتی ہیں: میں نے اسے ناپسند کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسامہ سے شادی کر لو، پھر میں نے ان سے شادی کر لی تو اللہ نے اس میں خیر رکھی اور میں ان پر قابل رشک حد تک خوش رہی۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 369]
تخریج الحدیث: «379- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 580/2، 581، ح 1267، ك 29 ب 23 ح 67) التمهيد 135/19، 136 الاستذكار: 1186، و أخرجه مسلم (1480/36) من حديث مالك به.»

4. لعان کا بیان
حدیث نمبر: 370
6- قال مالك: حدثني ابن شهاب: أن سهل بن سعد الساعدي أخبره، أن عويمرا العجلاني جاء إلى عاصم بن عدي الأنصاري، فقال له: أرأيت يا عاصم لو أن رجلا وجد مع امرأته رجلا أيقتله فتقتلونه أم كيف يفعل؟ سل لي يا عاصم عن ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسأل عاصم رسول الله صلى الله عليه وسلم فكره رسول الله صلى الله عليه وسلم المسائل وعابها حتى كبر على عاصم ما سمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما رجع عاصم إلى أهله جاءه عويمر فقال: يا عاصم، ماذا قال لك رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال عاصم لعويمر: لم تأتني بخير، قد كره رسول الله صلى الله عليه وسلم المسألة التى سألته عنها. فقال عويمر: والله لا أنتهي حتى أسأله عنها، فأقبل عويمر حتى أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم وسط الناس، فقال: يا رسول الله، أرأيت رجلا وجد مع امرأته رجلا، أيقتله فتقتلونه أم كيف يفعل؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”قد أنزل فيك وفي صاحبتك فاذهب فأت بها“ قال سهل: فتلاعنا وأنا مع الناس عند رسول الله صلى الله عليه وسلم. فلما فرغا قال عويمر: كذبت عليها يا رسول الله إن أمسكتها، فطلقها ثلاثا قبل أن يأمره رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال ابن شهاب: فكانت تلك سنة المتلاعنين.
سیدنا سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عویمر العجلانی رضی اللہ عنہ عاصم بن عدی الانصاری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا: اے عاصم! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھے؟ کیا وہ اسے قتل کر دے، تو آپ اس (قاتل) کو قتل کر دیں گے؟ یا وہ کیا کرے؟ اے عاصم! اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھیں۔ پھر عاصم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایسے) مسئلوں کو ناپسند فرمایا اور معیوب سمجھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سن کر عاصم رضی اللہ عنہ کو (اپنے آپ پر) بوجھ سا محسوس ہوا۔ جب عاصم اپنے گھر واپس گئے تو ان کے پاس عویمر نے آ کر پوچھا: اے عاصم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کیا جواب دیا ہے؟ عاصم نے عویمر سے کہا: آپ میرے پاس خیر کے ساتھ نہیں آئے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو مسئلہ پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسند کیا۔ عویمر نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو اس وقت تک نہیں رکوں گا جب تک آپ سے پوچھ نہ لوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان تشریف فرما تھے کہ عویمر آئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھے؟ کیا وہ اسے قتل کر دے تو آپ اس (قاتل) کو قتل کر دیں گے؟ یا وہ کیا کر ے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں (حکم) نازل ہوا ہے، جاؤ اور اسے (اپنی بیوی کو) لے آؤ۔ سہل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پھر دونوں نے لعان کیا اور میں لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا۔ پھر جب وہ دونوں (لعان سے) فارغ ہوئے (تو) عویمر نے کہا: یا رسول اللہ! اگر میں اسے (اپنی بیوی بنا کر) روکے رکھوں تو میں نے اس پر جھوٹ بولا؟ پھر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے پہلے اسے (اپنی بیوی کو) تین طلاقیں دے دیں۔ ابن شہاب (الزہری) نے کہا: پس لعان کرنے والوں یہی سنت قرار پائی۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 370]
تخریج الحدیث: «6- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 566/2، 567 ح 1232، ك 29 ب 13، ح 34) التمهيد 183/6 - 185، الاستذكار: 1152، أخرجه البخاري (5259) ومسلم (1492) من حديث مالك به.»

حدیث نمبر: 371
232- وبه: أن رجلا لاعن امرأته فى زمن رسول الله صلى الله عليه وسلم وانتفى من ولدها، ففرق رسول الله صلى الله عليه وسلم بينهما وألحق الولد بالمرأة.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی نے اپنی بیوی کے ساتھ لعان کیا، پھر اس عورت کے بچے کا باپ ہونے سے انکار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان جدائی ڈال دی اور بچہ ماں کو سونپ دیا یعنی بچہ ماں کی طرف منسوب ہوا۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 371]
تخریج الحدیث: «232- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 567/2 ح 1233، ك 29 ب 13 ح 35) التمهيد 13/15، الاستذكار:1153، و أخرجه البخاري (5315) ومسلم (1494/8) من حديث مالك به.»

5. عورت دعویٔ خلع کر سکتی ہے
حدیث نمبر: 372
498- وعن عمرة ابنة عبد الرحمن بن سعد بن زرارة الأنصاري أنها أخبرته عن حبيبة بنت سهل الأنصارية أنها كانت تحت ثابت بن قيس بن شماس، وأن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى الصبح فوجد حبيبة بنت سهل عند بابه فى الغلس، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”من هذه؟“ فقالت: أنا حبيبة بنت سهل، فقال: ”ما شأنك؟“ فقالت: لا أنا ولا ثابت ابن قيس لزوجها. فلما جاء ثابت بن قيس قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”هذه حبيبة بنت سهل، قد ذكرت ما شاء الله أن تذكر“؛ فقالت حبيبة: يا رسول الله، كل ما أعطاني فهو عندي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لثابت ”خذ منها“ فأخذ منها، وجلست فى أهلها.
سیدہ حبیبہ بنت سہل الانصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ سیدنا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کے نکا ح میں تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح (کی نماز) کے لئے نکلے تو اندھیرے میں اپنے دروازے کے پاس حبیبہ بنت سہل رضی اللہ عنہا کو پایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کون ہے؟ اس نے کہا: میں حبیبہ بنت سہل ہوں تو آپ نے پوچھا: کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا: میں اور ثابت بن قیس (اکٹھے) نہیں رہ سکتے۔ ثابت بن قیس ان کے خاوند تھے۔ پھر جب ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ آئے تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حبیبہ بنت سہل نے جو اللہ کو منظور تھا تذکرہ کیا ہے۔ پھر حبیبہ نے کہا: یا رسول اللہ! انہوں نے جو کچھ مجھے دیا ہے وہ سب میرے پاس موجود ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اس سے لے لو۔ تو انہوں نے اس سے لے لیا (اور اسے ایک طلاق دے دی) اور حبیبہ اپنے گھر میں (عدت گزارنے کے لئے) بیٹھ گئیں۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 372]
تخریج الحدیث: «498- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 564/2 ح 1228، ك 29 ب 11 ح 31) التمهيد 367/23 وقال: ”وهو حديث ثابت مسند متصل“، الاستذكار: 1148، و أخرجه أبوداود (2227) من حديث مالك، و النسائي (169/6 ح 3492) من حديث ابن القاسم عن مالك به وصححه ابن حبان (الموارد: 1326)»

6. لونڈی آزاد ہو جانے کے بعد اپنے غلام خاوند کے سلسلے میں بااختیار ہے
حدیث نمبر: 373
160- مالك عن ربيعة عن القاسم بن محمد عن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم أنها قالت: كان فى بريرة ثلاث سنن، فكانت إحدى السنن الثلاث أنها أعتقت فخيرت فى زوجها. وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”الولاء لمن أعتق“، ودخل رسول الله صلى الله عليه وسلم والبرمة تفور بلحم فقرب إليه خبز وأدم من أدم البيت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”ألم أر برمة فيها لحم؟“ فقالوا: بلى يا رسول الله، ولكن ذلك لحم تصدق به على بريرة، وأنت لا تأكل الصدقة. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”وهو عليها صدقة وهو لنا هدية.“
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: بریرہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں تین سنتیں ہیں ان تین میں سے ایک سنت یہ ہے کہ جب وہ آزاد کی گئیں تو انہیں اپنے خاوند کے بارے میں اختیار دیا گیا (جو کہ غلام تھے) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رشتہَ ولاء اسی کا ہے جو آزاد کرے  اور (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  (گھر میں) داخل ہوئے تو  ہانڈی گوشت کے ساتھ ابل رہی تھی  جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روٹی اور گھر کا سالن پیش کیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں نے وہ ہانڈی نہیں دیکھی تھی جس میں گوشت تھا؟ (گھر والوں نے) کہا: جی ہاں یا رسول اللہ! لیکن یہ وہ گوشت ہے جو بریرہ کو صدقے میں دیا گیا ہے اور آپ صدقہ نہیں کھاتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اس (بریرہ) کے لئے صدقہ ہے اور ہمارے لئے ہدیہ ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 373]
تخریج الحدیث: «160- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 562/2 ح 1223، ك 29 ب 10 ح 25) التمهيد 48/3، الاستذكار:1143، و أخرجه البخاري (5279) ومسلم (1504/14) من حديث مالك به.»