الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


شمائل ترمذي کل احادیث (417)
حدیث نمبر سے تلاش:

شمائل ترمذي
بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ مِزَاحِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاح (خوش طبعی اور دل لگی) کا طریقہ
1. اے دو کانوں والے!
حدیث نمبر: 234
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ: «يَا ذَا الْأُذُنَيْنِ» قَالَ مَحْمُودٌ: قَالَ أَبُو أُسَامَةَ: «يَعْنِي يُمَازِحُهُ»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: اے دو کانوں والے۔ راوی محمود (بن غیلان) کہتے ہیں ابواسامہ نے کہا: یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے مزاح کیا۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ مِزَاحِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 234]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏حسن» ‏‏‏‏ :
«(سنن ترمذي: 1992 وقال: حسن غريب صحيح)، سنن ابي داود (5002)، مسند احمد (127/3)»
اس روایت کی سند قاضی شریک رحمہ اللہ (مدلس) کے عن کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن المعجم الکبیر للطبرانی (240/1 ح662) میں اس کا ایک حسن لذاتہ شاہد ہے، جس کے ساتھ یہ روایت بھی حسن ہے۔

2. اے عمیر کہاں گئی تیری نغیر
حدیث نمبر: 235
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُخَالِطُنَا حَتَّى يَقُولَ لِأَخٍ لِي صَغِيرٍ: «يَا أَبَا عُمَيْرٍ، مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ؟» قَالَ أَبُو عِيسَى:" وَفِقْهُ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُمَازِحُ وَفِيهِ أَنَّهُ كَنَّى غُلَامًا صَغِيرًا فَقَالَ لَهُ: يَا أَبَا عُمَيْرٍ. وَفِيهِ أَنَّهُ لَا بَأْسَ أَنْ يُعْطَى الصَّبِيُّ الطَّيْرَ لِيَلْعَبَ بِهِ. وَإِنَّمَا قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَبَا عُمَيْرٍ، مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ؟» لِأَنَّهُ كَانَ لَهُ نُغَيْرٌ يَلْعَبُ بِهِ فَمَاتَ، فَحَزِنَ الْغُلَامُ عَلَيْهِ فَمَازَحَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَبَا عُمَيْرٍ، مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ؟»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں بلاشبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اتنے مل جل جاتے تھے کہ ایک مرتبہ میرے چھوٹے بھائی کو کہا: اے عمیر کے باپ! تمہارا نغیر کیسا ہے۔ امام ابوعیسیٰ (ترمذی) فرماتے ہیں: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مزاح بھی فرما لیا کرتے تھے، اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کی کنیت ابوعمیر رکھی، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اس میں کوئی امر مانع نہیں کہ بچے کو پرندہ دیا جائے کہ وہ اس سے کھیلے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: «يا ابا عمير ما فعل النغير» اس سے مراد یہ ہے کہ اس بچے کے پاس ایک نغیر تھی جس سے وہ کھیلتا تھا وہ نغیر مر گئی تو اس بچے کو افسوس ہوا، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دل لگی اور خوش طبعی کرتے ہوئے فرمایا: «يا ابا عمير ما فعل النغير» ۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ مِزَاحِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 235]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنده صحيح» ‏‏‏‏ :
«(سنن ترمذي 333، 1989، وقال: حسن صحيح)، صحيح بخاري (6129)»

3. اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مزاح میں بھی سچ بات فرماتے
حدیث نمبر: 236
حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ: أَنبأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارِكِ، عَنِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ تُدَاعِبُنَا قَالَ: «إِنِّي لَا أَقُولُ إِلَا حَقًّا»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، بعض صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ مزاح بھی فرما لیتے ہیں؟ فرمایا: (ہاں) مگر میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اس روایت میں آمدہ لفظ «عربی عبارت» کا معنی «تداعبنا» ہے یعنی آپ ہم سے مزاح کرتے ہیں۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ مِزَاحِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 236]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنده حسن» ‏‏‏‏ :
«(سنن ترمذي: 1990، وقال: حسن صحيح)، مسند احمد (360/2)»

4. باب
حدیث نمبر: 237
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَجُلًا اسْتَحْمَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «إِنِّي حَامِلُكَ عَلَى وَلَدِ نَاقَةٍ» فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَصْنَعُ بِوَلَدِ النَّاقَةِ؟ فَقَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَهَلْ تَلِدُ الْإِبِلَ إِلَا النُّوقُ»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری طلب کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تجھے اونٹنی کے بچے پر سوار کروں گا۔ وہ کہنے لگا: اللہ کے رسول! میں اونٹنی کے بچے کو کیا کروں گا؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(سواری کے قابل) اونٹ کو بھی تو اونٹنی ہی جنم دیتی ہے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ مِزَاحِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 237]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنده صحيح» ‏‏‏‏ :
«(سنن ترمذي: 1991، وقال صحيح غريب)، سنن ابي داود (4998)، وصححه البغوي فى شرح السنته (181/13 . 182 ح3605)»

5. ایک دیہاتی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دل لگی اور خوش طبعی
حدیث نمبر: 238
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ كَانَ اسْمُهُ زَاهِرًا وَكَانَ يُهْدِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدِيَّةً مِنَ الْبَادِيَةِ، فَيُجَهِّزُهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ زَاهِرًا بَادِيَتُنَا وَنَحْنُ حَاضِرُوهُ» وَكَانَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّهُ وَكَانَ رَجُلًا دَمِيمًا فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا وَهُوَ يَبِيعُ مَتَاعَهُ فَاحْتَضَنَهُ مِنْ خَلْفِهِ وَهُوَ لَا يُبْصِرُهُ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ أَرْسِلْنِي. فَالْتَفَتَ فَعَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ لَا يَأْلُو مَا أَلْصَقَ ظَهْرَهُ بِصَدْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ عَرَفَهُ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ يَشْتَرِي هَذَا الْعَبْدَ» فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِذًا وَاللَّهِ تَجِدُنِي كَاسِدًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَكِنْ عِنْدَ اللَّهِ لَسْتَ بِكَاسِدٍ» أَوْ قَالَ: «أَنتَ عِنْدَ اللَّهِ غَالٍ»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص دیہات کا رہنے والا تھا جس کا نام زاھر تھا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تو دیہات کا کوئی تحفہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کرتا، پھر جب وہ شخص جانے کا ارادہ کرتا تو رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم اس کو کوئی تحفہ عنایت کرتے۔ ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زاھر ہمارا دیہاتی ہے اور ہم اس کے شہری ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص سے محبت کرتے تھے، اور وہ آدمی قدرے بدصورت تھا۔ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس اس حالت میں آئے کہ وہ اپنا کچھ سامان فروخت کر رہا تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے سے آ کر اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا اور اس کو اپنے ساتھ لگا لیا تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکے۔ وہ کہنے لگا، یہ کون ہے؟ مجھے چھوڑو۔ جب اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا تو اپنی کمر کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ مبارک کے ساتھ لگانے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس غلام کا کون خریدار ہے؟ وہ کہنے لگا: اللہ کے رسول! مجھے تو آپ گھاٹے کا سودا پائیں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لیکن تو اللہ تعالیٰ کے ہاں گھاٹے والا نہیں ہے۔ یا فرمایا:تو اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑا قیمتی ہے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ مِزَاحِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 238]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنده صحيح» ‏‏‏‏ :
«صحيح ابن حبان (2276)، نيز ديكهئے اضواء المصابيح (4889)»

6. جنت میں کوئی بڑھیا داخل نہ ہو گی
حدیث نمبر: 239
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ الْمِقْدَامِ قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُبَارِكُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: أَتَتْ عَجُوزٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يُدْخِلَنِي الْجَنَّةَ، فَقَالَ: «يَا أُمَّ فُلَانٍ، إِنَّ الْجَنَّةَ لَا تَدْخُلُهَا عَجُوزٌ» قَالَ: فَوَلَّتْ تَبْكِي فَقَالَ: «أَخْبِرُوهَا أَنَّهَا لَا تَدْخُلُهَا وَهِيَ عَجُوزٌ» إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: {إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَاءً فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا عُرُبًا أَتْرَابًا} [الواقعة: 36]
حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک بوڑھی عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ میرے لیے دعا فرمائیں کہ میں جنت میں داخل ہو جاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے فلان شخص کی والدہ! جنت میں کوئی بڑھیا داخل نہیں ہو گی۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ بڑھیا روتی ہوئی واپس چلی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے خبر کر دو کہ کوئی عورت بڑھاپے کی حالت میں نہیں جائے گی (بلکہ نواجوان دوشیزہ بن کر جائے گی) جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «انا انشاناهن انشاء فجعلناهن ابكارا عربا اترابا» کہ ہم نے ان عورتوں کو اس خاص انداز پر پیدا کیا کہ وہ کنواریاں، دل پسند اور ہم عمر ہیں۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ مِزَاحِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 239]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنده ضعيف» ‏‏‏‏ :
اس روایت کی سند دو وجہ سے ضعیف ہے:
➊ مرسل ہے۔
➋ مبارک بن فضالہ مدلس ہیں اور یہ سند عن سے ہے۔
یاد رہے کہ مصعب بن المقدام جمہور کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے حسن الحدیث راوی ہیں۔
اس روایت کا ایک ضعیف شاہد بھی ہے۔ [ديكهئے اضواء المصابيح: 4888]