الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


شمائل ترمذي کل احادیث (417)
حدیث نمبر سے تلاش:

شمائل ترمذي
بَابُ مَا جَاءَ فِي حَيَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حیاء کا بیان
1. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام حیاء
حدیث نمبر: 357
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي عُتْبَةَ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشدَّ حَيَاءً مِنَ الْعَذرَاءِ فِي خِدْرِهَا، وَكَانَ إِذَا كَرِهَ شَيْئًا عَرَفْنَاهُ فِي وَجْهِهِ»
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شرم و حیاء میں کنواری لڑکی سے جو اپنے پردہ میں ہو کہیں زائد بڑھے ہوئے تھے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی بات ناگوار ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ اقدس سے اسے پہچان لیا جاتا تھا۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي حَيَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 357]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنده صحيح» ‏‏‏‏ :
«صحيح بخاري (3562)، صحيح مسلم (2320)، مسند ابي داود الطيالسي (2222، نسخه محققه: 2336)»

2. آپ صلی اللہ علیہ وسلم حیاء کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے
حدیث نمبر: 358
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ الْخَطْمِيِّ، عَنْ مَوْلًى لِعَائِشَةَ قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: «مَا نَظَرْتُ إِلَى فَرْجِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» أَوْ قَالَتْ: «مَا رَأَيْتُ فَرْجَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطُّ»
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں کبھی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محل شرم پر نظر نہیں کی۔ یا فرمایا کہ میں نے (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاء اور تستّر کی وجہ سے) آپ کی شرم گاہ کو کبھی نہیں دیکھا۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي حَيَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 358]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنده ضعيف» ‏‏‏‏ :
«سنن ابن ماجه (662، 1922)»
اس روایت کی سند اس وجہ سے ضعیف ہے کہ اس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا غلام مجہول راوی ہے۔ بوصیری نے کہا: «هذا إسناد ضعيف، مولي عائشه لم يسم» یہ سند ضعیف ہے، عائشہ کے غلام کا نام (اور توثیق) معلوم نہیں ہے۔ (زوائد سنن ابن ماجہ بحوالہ انوار الصحیفہ ص 402)
فائدہ: ضعیف روایت کا وجود اور عدمِ وجود ایک برابر ہے۔ دیکھئے کتاب المجروحین لابن حبان (328/1 ترجمۃ سعید بن زیاد بن قائد، دوسرا نسخہ 412/1)