الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح البخاري کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:

صحيح البخاري
كِتَاب الْمَنَاقِبِ
کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
حدیث نمبر: 3498
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مِنْ هَا هُنَا جَاءَتِ الْفِتَنُ نَحْوَ الْمَشْرِقِ وَالْجَفَاءُ وَغِلَظُ الْقُلُوبِ فِي الْفَدَّادِينَ أَهْلِ الْوَبَرِ عِنْدَ أُصُولِ أَذْنَابِ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ فِي رَبِيعَةَ وَمُضَرَ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے اسماعیل نے، ان سے قیس نے اور ان سے ابومسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی طرف سے فتنے اٹھیں گے یعنی مشرق سے اور بے وفائی اور سخت دلی ان لوگوں میں ہے جو اونٹوں اور گایوں کی دم کے پاس چلاتے رہتے ہیں یعنی ربیعہ اور مضر کے لوگوں میں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3498]
حدیث نمبر: 3499
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الْفَخْرُ وَالْخُيَلَاءُ فِي الْفَدَّادِينَ أَهْلِ الْوَبَرِ وَالسَّكِينَةُ فِي أَهْلِ الْغَنَمِ وَالْإِيمَانُ يَمَانٍ وَالْحِكْمَةُ يَمَانِيَةٌ، سُمِّيَتْ الْيَمَنَ لِأَنَّهَا عَنْ يَمِينِ الْكَعْبَةِ وَالشَّأْمَ لِأَنَّهَا عَنْ يَسَارِ الْكَعْبَةِ وَالْمَشْأَمَةُ الْمَيْسَرَةُ، وَالْيَدُ الْيُسْرَى الشُّؤْمَى، وَالْجَانِبُ الْأَيْسَرُ الْأَشْأَمُ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ فخر اور تکبر ان چیخنے اور شور مچانے والے اونٹ والوں میں ہے اور بکری چرانے والوں میں نرم دلی اور ملائمت ہوتی ہے اور ایمان تو یمن میں ہے حکمت (حدیث) بھی یمنی ہے، ابوعبداللہ یعنی (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ یمن کا نام یمن اس لیے ہوا کہ یہ کعبہ کے دائیں جانب ہے اور شام کو شام اس لیے کہتے ہیں کہ یہ کعبہ کے بائیں جانب ہے۔ «المشأمة» بائیں جانب کو کہتے ہیں۔ بائیں ہاتھ کو «الشؤمى» کہتے ہیں اور بائیں جانب کو «الأشأم‏.» کہتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3499]
2. بَابُ مَنَاقِبِ قُرَيْشٍ:
2. باب: قریش کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3500
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ يُحَدِّثُ أَنَّهُ بَلَغَ مُعَاوِيَةَ وَهُوَ عِنْدَهُ فِي وَفْدٍ مِنْ قُرَيْشٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَيَكُونُ مَلِكٌ مِنْ قَحْطَانَ فَغَضِبَ مُعَاوِيَةُ، فَقَامَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ، قَالَ: أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ رِجَالًا مِنْكُمْ يَتَحَدَّثُونَ أَحَادِيثَ لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا تُؤْثَرُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُولَئِكَ جُهَّالُكُمْ فَإِيَّاكُمْ وَالْأَمَانِيَّ الَّتِي تُضِلُّ أَهْلَهَا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ فِي قُرَيْشٍ لَا يُعَادِيهِمْ أَحَدٌ إِلَّا كَبَّهُ اللَّهُ عَلَى وَجْهِهِ مَا أَقَامُوا الدِّينَ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا کہ محمد بن جبیر بن مطعم بیان کرتے تھے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ تک یہ بات پہنچی جب وہ قریش کی ایک جماعت میں تھے کہ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ عنقریب (قرب قیامت میں) بنی قحطان سے ایک حکمراں اٹھے گا۔ یہ سن کر معاویہ رضی اللہ عنہ غصہ ہو گئے، پھر آپ خطبہ دینے اٹھے اور اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق حمد و ثنا کے بعد فرمایا: لوگو! مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض لوگ ایسی احادیث بیان کرتے ہیں جو نہ تو قرآن مجید میں موجود ہیں اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔ دیکھو! تم میں سب سے جاہل یہی لوگ ہیں۔ ان سے اور ان کے خیالات سے بچتے رہو جن خیالات نے ان کو گمراہ کر دیا ہے۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے کہ یہ خلافت قریش میں رہے گی اور جو بھی ان سے دشمنی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو سرنگوں اور اوندھا کر دے گا جب تک وہ (قریش) دین کو قائم رکھیں گے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3500]
حدیث نمبر: 3501
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَزَالُ هَذَا الْأَمْرُ فِي قُرَيْشٍ مَا بَقِيَ مِنْهُمُ اثْنَانِ".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے عاصم بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے والد سے سنا اور انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ خلافت اس وقت تک قریش کے ہاتھوں میں باقی رہے گی جب تک کہ ان میں دو آدمی بھی باقی رہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3501]
حدیث نمبر: 3502
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، قَالَ: مَشَيْتُ أَنَا وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعْطَيْتَ بَنِي الْمُطَّلِبِ وَتَرَكْتَنَا وَإِنَّمَا نَحْنُ وَهُمْ مِنْكَ بِمَنْزِلَةٍ وَاحِدَةٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا بَنُو هَاشِمٍ وَبَنُو الْمُطَّلِبِ شَيْءٌ وَاحِدٌ"
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابن مسیب نے اور ان سے جبیر بن مطعم نے بیان کیا کہ میں اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہما دونوں مل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بنو مطلب کو تو آپ نے عطا فرمایا اور ہمیں (بنی امیہ کو) نظر انداز کر دیا حالانکہ آپ کے لیے ہم اور وہ ایک ہی درجے کے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (یہ صحیح ہے) مگر بنو ہاشم اور بنو مطلب ایک ہی ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3502]
حدیث نمبر: 3503
وَقَالَ: اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي أَبُو الْأَسْوَدِ مُحَمَّدٌ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: ذَهَبَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ مَعَ أُنَاسٍ مِنْ بَنِي زُهْرَةَ إِلَى عَائِشَةَ وَكَانَتْ أَرَقَّ شَيْءٍ عَلَيْهِمْ لِقَرَابَتِهِمْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
اور لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے ابوالاسود محمد نے بیان کیا اور ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بنی زہرہ کے چند لوگوں کے ساتھ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا بنی زہرہ کے ساتھ بہت اچھی طرح پیش آتی تھیں کیونکہ ان لوگوں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3503]
حدیث نمبر: 3504
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدٍ، قَالَ: ح يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ هُرْمُزَ الْأَعْرَجُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قُرَيْشٌ وَالْأَنْصَارُ وَجُهَيْنَةُ وَمُزَيْنَةُ وَأَسْلَمُ وَأَشْجَعُ وَغِفَارُ مَوَالِيَّ لَيْسَ لَهُمْ مَوْلًى دُونَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا اور ان سے سعد بن ابراہیم نے (دوسری سند) یعقوب بن ابراہیم نے کہا کہ ہمارے والد نے ہم سے بیان کیا اور ان سے ان کے والد نے، کہا مجھ سے عبدالرحمٰن بن ہرمزالاعرج نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قریش، انصار، جہینہ، مزینہ، اسلم، اشجع اور غفار ان سب قبیلوں کے لوگ میرے خیرخواہ ہیں اور ان کا بھی اللہ اور اس کے رسول کے سوا کوئی حمایتی نہیں ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3504]
حدیث نمبر: 3505
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَال: حَدَّثَنِي أَبُو الْأَسْوَدِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ:" كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ أَحَبَّ الْبَشَرِ إِلَى عَائِشَةَ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَكَانَ أَبَرَّ النَّاسِ بِهَا وَكَانَتْ لَا تُمْسِكُ شَيْئًا مِمَّا جَاءَهَا مِنْ رِزْقِ اللَّهِ إِلَّا تَصَدَّقَتْ، فَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: يَنْبَغِي أَنْ يُؤْخَذَ عَلَى يَدَيْهَا، فَقَالَتْ: أَيُؤْخَذُ عَلَى يَدَيَّ عَلَيَّ نَذْرٌ إِنْ كَلَّمْتُهُ فَاسْتَشْفَعَ إِلَيْهَا بِرِجَالٍ مِنْ قُرَيْشٍ وَبِأَخْوَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً فَامْتَنَعَتْ، فَقَالَ لَهُ: الزُّهْرِيُّونَ أَخْوَالُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ، وَالْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ إِذَا اسْتَأْذَنَّا فَاقْتَحِمْ الْحِجَابَ فَفَعَلَ فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا بِعَشْرِ رِقَابٍ فَأَعْتَقَتْهُمْ ثُمَّ لَمْ تَزَلْ تُعْتِقُهُمْ حَتَّى بَلَغَتْ أَرْبَعِينَ، فَقَالَتْ: وَدِدْتُ أَنِّي جَعَلْتُ حِينَ حَلَفْتُ عَمَلًا أَعْمَلُهُ فَأَفْرُغُ مِنْهُ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، کہا کہ مجھ سے ابوالاسود نے، ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے عائشہ رضی اللہ عنہا کو سب سے زیادہ محبت تھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عادت تھی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو رزق بھی ان کو ملتا وہ اسے صدقہ کر دیا کرتی تھیں۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے (کسی سے) کہا ام المؤمنین کو اس سے روکنا چاہیے (جب عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کی بات پہنچی) تو انہوں نے کہا: کیا اب میرے ہاتھوں کو روکا جائے گا، اب اگر میں نے عبداللہ سے بات کی تو مجھ پر نذر واجب ہے۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے (عائشہ رضی اللہ عنہا کو راضی کرنے کے لیے) قریش کے چند لوگوں اور خاص طور سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نانہالی رشتہ داروں (بنو زہرہ) کو ان کی خدمت میں معافی کی سفارش کے لیے بھیجا لیکن عائشہ رضی اللہ عنہا پھر بھی نہ مانیں۔ اس پر بنو زہرہ نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں ہوتے تھے اور ان میں عبدالرحمٰن بن اسود بن عبدیغوث اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ جب ہم ان کی اجازت سے وہاں جا بیٹھیں تو تم ایک دفعہ آن کر پردہ میں گھس جاؤ۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا (جب عائشہ رضی اللہ عنہا خوش ہو گئیں تو) انہوں نے ان کی خدمت میں دس غلام (آزاد کرانے کے لیے بطور کفارہ قسم) بھیجے اور ام المؤمنین نے انہیں آزاد کر دیا۔ پھر آپ برابر غلام آزاد کرتی رہیں۔ یہاں تک کہ چالیس غلام آزاد کر دیئے پھر انہوں نے کہا کاش میں نے جس وقت قسم کھائی تھی (منت مانی تھی) تو میں کوئی خاص چیز بیان کر دیتی جس کو کر کے میں فارغ ہو جاتی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3505]
3. بَابُ نَزَلَ الْقُرْآنُ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ:
3. باب: قرآن کا قریش کی زبان میں نازل ہونا۔
حدیث نمبر: 3506
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسٍ:" أَنَّ عُثْمَانَ دَعَا زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ وَ سَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ فَنَسَخُوهَا فِي الْمَصَاحِفِ، وَقَالَ عُثْمَانُ" لِلرَّهْطِ الْقُرَشِيِّينَ الثَّلَاثَةِ إِذَا اخْتَلَفْتُمْ أَنْتُمْ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ فِي شَيْءٍ مِنَ الْقُرْآنِ فَاكْتُبُوهُ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ فَإِنَّمَا نَزَلَ بِلِسَانِهِمْ فَفَعَلُوا ذَلِكَ".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر، سعید بن عاص اور عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم کو بلایا (اور ان کو قرآن مجید کی کتابت پر مقرر فرمایا، چنانچہ ان حضرات نے) قرآن مجید کو کئی مصحفوں میں نقل فرمایا اور عثمان رضی اللہ عنہ نے (ان چاروں میں سے) تین قریشی صحابہ سے فرمایا تھا کہ جب آپ لوگوں کا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے (جو مدینہ منورہ کے رہنے والے تھے) قرآن کے کسی مقام پر (اس کے کسی محاورے میں) اختلاف ہو جائے تو اس کو قریش کے محاورے کے مطابق لکھنا، کیونکہ قرآن شریف قریش کے محاورہ میں نازل ہوا ہے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3506]
4. بَابُ نِسْبَةِ الْيَمَنِ إِلَى إِسْمَاعِيلَ مِنْهُمْ أَسْلَمُ بْنُ أَفْصَى بْنِ حَارِثَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَامِرٍ مِنْ خُزَاعَةَ:
4. باب: یمن والوں کا اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں ہونا قبیلہ خزاعہ کی شاخ بنو اسلم بن افصی بن حارثہ بن عمرو بن عامر اہل یمن میں سے ہیں۔
حدیث نمبر: 3507
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَوْمٍ مِنْ أَسْلَمَ يَتَنَاضَلُونَ بِالسُّوقِ، فَقَالَ:" ارْمُوا بَنِي إِسْمَاعِيلَ فَإِنَّ أَبَاكُمْ كَانَ رَامِيًا وَأَنَا مَعَ بَنِي فُلَانٍ لِأَحَدِ الْفَرِيقَيْنِ فَأَمْسَكُوا بِأَيْدِيهِمْ، فَقَالَ: مَا لَهُمْ قَالُوا وَكَيْفَ نَرْمِي وَأَنْتَ مَعَ بَنِي فُلَانٍ، قَالَ: ارْمُوا وَأَنَا مَعَكُمْ كُلِّكُمْ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبید نے اور ان سے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ اسلم کے صحابہ کی طرف سے گزرے جو بازار میں تیر اندازی کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اولاد اسماعیل! خوب تیر اندازی کرو کہ تمہارے باپ اسماعیل علیہ السلام بھی تیرانداز تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں فلاں جماعت کے ساتھ ہوں، یہ سن کر دوسری جماعت والوں نے ہاتھ روک لیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہوئی؟ انہوں نے عرض کیا کہ جب آپ دوسرے فریق کے ساتھ ہو گئے تو پھر ہم کیسے تیر اندازی کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم تیر اندازی جاری رکھو۔ میں تم سب کے ساتھ ہوں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3507]

Previous    1    2    3    4    5    6    Next