الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


الادب المفرد کل احادیث (1322)
حدیث نمبر سے تلاش:

الادب المفرد
كِتَابُ الْجَارِ
كتاب الجار
60. بَابُ مَنْ أَغْلَقَ الْبَابَ عَلَى الْجَارِ
60. جس نے پڑوسی سے بھلائی روک لی
حدیث نمبر: 111
حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ‏:‏ لَقَدْ أَتَى عَلَيْنَا زَمَانٌ، أَوْ قَالَ‏:‏ حِينٌ، وَمَا أَحَدٌ أَحَقُّ بِدِينَارِهِ وَدِرْهَمِهِ مِنْ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ، ثُمَّ الْآنَ الدِّينَارُ وَالدِّرْهَمُ أَحَبُّ إِلَى أَحَدِنَا مِنْ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ‏:‏ ”كَمْ مِنْ جَارٍ مُتَعَلِّقٌ بِجَارِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَقُولُ‏:‏ يَا رَبِّ، هَذَا أَغْلَقَ بَابَهُ دُونِي، فَمَنَعَ مَعْرُوفَهُ.“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ یا دور بھی گزرا ہے کہ درہم و دینار کا سب سے زیادہ مستحق مسلمان بھائی کو سمجھا جاتا تھا، پھر اب ایسا زمانہ آ گیا ہے کہ درہم و دینار مسلمان بھائی سے زیادہ محبوب ہو گئے ہیں۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے:کتنے پڑوسی ایسے ہیں جو قیامت کے روز اپنے پڑوسیوں سے چمٹے ہوئے کہیں گے: اے میرے رب! اس نے اپنا دروازہ مجھ پر بند کر لیا تھا، اور مجھے اپنے حسن سلوک سے محروم رکھا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْجَارِ/حدیث: 111]
تخریج الحدیث: «حسن لغيره: الصحيحة: 2646 - أخرجه المروزي فى البر و الصلة: 252 و هناد فى الزهد: 1045 و ابن أبى الدنيا فى مكارم الاخلاق: 346»

قال الشيخ الألباني: حسن لغيره

61. بَابُ لا يَشْبَعُ دُونَ جَارِهِ
61. ہمسائے کو چھوڑ کر پیٹ بھر کر نہ کھانے کا بیان
حدیث نمبر: 112
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي بَشِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُسَاوِرِ قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يُخْبِرُ ابْنَ الزُّبَيْرِ يَقُولُ‏:‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ‏: ”لَيْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِي يَشْبَعُ وَجَارُهُ جَائِعٌ.“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما کو خبر دیتے ہوئے کہا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: وہ شخص مومن نہیں ہے جو خود سیر ہو کر کھاتا ہے جبکہ اس کا پڑوسی فاقوں میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْجَارِ/حدیث: 112]
تخریج الحدیث: «صحيح: الصحيحة: 149 - أخرجه المصنف فى التاريخ: 195/5 و ابن أبى الدنيا فى مكارم الاخلاق: 347 و الطبراني فى الكبير: 154/12 و أبويعلى: 2699 و البيهقي فى الأدب: 29/1 و رواء الحاكم: 15/2، من حديث عائشة»

قال الشيخ الألباني: صحيح

62. بَابُ يُكْثِرُ مَاءَ الْمَرَقِ فَيَقْسِمُ فِي الْجِيرَانِ
62. شوربے کا پانی زیادہ کر کے اسے پڑوسیوں میں تقسیم کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 113
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ‏:‏ أَوْصَانِي خَلِيلِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلاَثٍ‏:‏ ”أَسْمَعُ وَأُطِيعُ وَلَوْ لِعَبْدٍ مُجَدَّعِ الأَطْرَافِ، وَإِذَا صَنَعْتَ مَرَقَةً فَأَكْثِرْ مَاءَهَا، ثُمَّ انْظُرْ أَهْلَ بَيْتٍ مِنْ جِيرَانِكَ، فَأَصِبْهُمْ مِنْهُ بِمَعْرُوفٍ، وَصَلِّ الصَّلاَةَ لِوَقْتِهَا، فَإِنْ وَجَدْتَ الإِمَامَ قَدْ صَلَّى، فَقَدْ أَحْرَزْتَ صَلاَتَكَ، وَإِلاَّ فَهِيَ نَافِلَةٌ.“
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تین باتوں کی وصیت فرمائی: میں (امیر کی) بات سنوں اور اطاعت کروں خواہ وہ کان کٹا غلام ہی ہو۔ (اور فرمایا:) جب تم شوربا بناؤ تو اس میں پانی زیادہ ڈالو، پھر اپنے پڑوس کے (غریب) گھروں کو دیکھو اور اس شوربے میں سے کچھ دستور کے مطابق انہیں بھیج دو۔ اور نماز کو اس کے وقت مقررہ پر ادا کرو۔ اور اگر تم (نماز گھر وغیرہ میں پڑھ کر مسجد آؤ اور) امام کو اس حالت میں پاؤ کہ اس نے نماز پڑھا دی ہے، تو تم نے اپنی (گھر میں پڑھی گئی) نماز کو محفوظ کر لیا، ورنہ (اگر وہ نماز پڑھا رہا ہے تو تم اس کے ساتھ نماز پڑھ لو) تمہاری یہ (دوسری) نماز نفل ہو جائے گی۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْجَارِ/حدیث: 113]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، البر و الصلة، باب الوصية بالجار والإحسان إليه: 2625 و الترمذي: 1833 و ابن ماجه: 2862، 1256 و رواه أبوداؤد مختصرًا: 431 - الصحيحة: 1368»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 114
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الصَّمَدِ الْعَمِّيُّ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ‏:‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”يَا أَبَا ذَرٍّ، إِذَا طَبَخْتَ مَرَقَةً فَأَكْثِرْ مَاءَ الْمَرَقَةِ، وَتَعَاهَدْ جِيرَانَكَ، أَوِ اقْسِمْ فِي جِيرَانِكَ.“
(ایک دوسری سند سے) سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوذر! جب تم شوربہ پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ ڈالو، اور اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھو، یا فرمایا: اپنے ہمسایوں میں بھی تقسیم کرو۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْجَارِ/حدیث: 114]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، الأدب، باب الوصية بالجار و الإحسان إليه: 2625 و الترمذي: 1833 و ابن ماجه: 3362»

قال الشيخ الألباني: صحيح

63. بَابُ خَيْرِ الْجِيرَانِ
63. پڑوسیوں میں سے بہترین کا بیان
حدیث نمبر: 115
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا شُرَحْبِيلُ بْنُ شَرِيكٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ‏:‏ ”خَيْرُ الأَصْحَابِ عِنْدَ اللهِ تَعَالَى خَيْرُهُمْ لِصَاحِبِهِ، وَخَيْرُ الْجِيرَانِ عِنْدَ اللهِ تَعَالَى خَيْرُهُمْ لِجَارِهِ.“
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک ساتھیوں میں سے بہترین ساتھی وہ ہے جو اپنے ساتھی کے لیے بہتر ہو، اور اللہ کے نزدیک پڑوسیوں میں سے بہترین پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے بہتر ہو۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْجَارِ/حدیث: 115]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه الترمذي، كتاب البر و الصلة، باب ماجاء فى حق الجوار: 1944 و أحمد: 6566 - الصحيحة: 103 و الحاكم فى المستدرك: 443/1، 101/2 و 164/4»

قال الشيخ الألباني: صحيح

64. بَابُ الْجَارِ الصَّالِحِ
64. نیک پڑوسی (نعمت ہے)
حدیث نمبر: 116
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي خَمِيلٌ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عَبْدِ الْحَارِثِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ‏:‏ ”مِنْ سَعَادَةِ الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ‏:‏ الْمَسْكَنُ الْوَاسِعُ، وَالْجَارُ الصَّالِحُ، وَالْمَرْكَبُ الْهَنِيءُ.“
سیدنا نافع بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کسی) مسلمان کی نیک بختی میں سے (یہ بھی ہے کہ اسے) کھلا گھر، نیک پڑوسی اور آرام دہ سواری میسر آ جائے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْجَارِ/حدیث: 116]
تخریج الحدیث: «صحيح لغيره: الصحيحة: 282 - أخرجه أحمد: 5372 و المروزي فى البر و الصلة: 240 و عبد بن حميد: 385 و ابن أبى عاصم فى الآحاد: 2366 و الطحاوي فى شرح مشكل الآثار: 2772 و الحاكم فى المستدرك: 166/4، 167 و البيهقي فى الأدب: 1022»

قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره

65. بَابُ الْجَارِ السُّوءِ
65. برے پڑوسی کا بیان
حدیث نمبر: 117
حَدَّثَنَا صَدَقَةُ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ هُوَ ابْنُ حَيَّانَ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ‏:‏ كَانَ مِنْ دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ جَارِ السُّوءِ فِي دَارِ الْمُقَامِ، فَإِنَّ جَارَ الدُّنْيَا يَتَحَوَّلُ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں یہ دعا بھی ہوتی تھی: اے اللہ! میں مستقل جائے قیام میں برے ہمسائے سے تیری پناہ چاہتا ہوں، کیونکہ دنیا (سفر) کا ہمسایہ تو بدلتا رہتا ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْجَارِ/حدیث: 117]
تخریج الحدیث: «حسن: الصحيحة: 1443 - أخرجه النسائي، كتاب الاستعاذة، باب الاستعاذة من جار السوء: 5504»

قال الشيخ الألباني: حسن

حدیث نمبر: 118
حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَغْرَاءَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا بُرَيْدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى‏:‏ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَقْتُلَ الرَّجُلُ جَارَهُ وَأَخَاهُ وَأَبَاهُ.“
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ آدمی اپنے ہمسائے، اپنے بھائی اور باپ کو قتل کرے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْجَارِ/حدیث: 118]
تخریج الحدیث: «حسن: الصحيحة: 3185 - أخرجه أبويعلي: 7198 و ابن ماجه: 3959 و أحمد: 19636»

قال الشيخ الألباني: حسن

66. بَابُ لا يُؤْذِي جَارَهُ
66. (کوئی شخص) اپنے ہمسائے کو اذیت نہ پہنچائے
حدیث نمبر: 119
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى مَوْلَى جَعْدَةَ بْنِ هُبَيْرَةَ قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ‏:‏ قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ فُلاَنَةً تَقُومُ اللَّيْلَ وَتَصُومُ النَّهَارَ، وَتَفْعَلُ، وَتَصَّدَّقُ، وَتُؤْذِي جِيرَانَهَا بِلِسَانِهَا‏؟‏ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”لَا خَيْرَ فِيهَا، هِيَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ“، قَالُوا‏:‏ وَفُلاَنَةٌ تُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ، وَتَصَّدَّقُ بِأَثْوَارٍ، وَلاَ تُؤْذِي أَحَدًا‏؟‏ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”هِيَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی: اے اللہ کے رسول! فلاں خاتون رات کو قیام کرتی ہے اور دن کو روزہ رکھتی ہے اور نیکی کے دیگر کام کرتی ہے اور صدقہ و خیرات بھی کرتی ہے لیکن اپنی زبان سے ہمسایوں کو تکلیف پہنچاتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر) فرمایا: اس میں کوئی خیر نہیں، وہ دوزخی ہے۔ انہوں (صحابہ) نے کہا: اور فلاں عورت (صرف) فرض نماز ادا کرتی ہے اور پنیر کے چند ٹکڑے صدقہ کر دیتی ہے لیکن کسی کو ایذا نہیں پہنچاتی؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنتی عورتوں میں سے ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْجَارِ/حدیث: 119]
تخریج الحدیث: «صحيح: الصحيحة: 190 - أخرجه أحمد: 9675 و ابن وهب فى الجامع: 315 و المروزي فى البر و الصلة: 242 و اسحق بن راهويه فى سنده: 293 و الحاكم: 166/4 و البيهقي فى شعب الإيمان: 9545»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 120
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادٍ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي عُمَارَةُ بْنُ غُرَابٍ، أَنَّ عَمَّةً لَهُ حَدَّثَتْهُ، أَنَّهَا سَأَلَتْ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَتْ‏:‏ إِنَّ زَوْجَ إِحْدَانَا يُرِيدُهَا فَتَمْنَعُهُ نَفْسَهَا، إِمَّا أَنْ تَكُونَ غَضَبَى أَوْ لَمْ تَكُنْ نَشِيطَةً، فَهَلْ عَلَيْنَا فِي ذَلِكَ مِنْ حَرَجٍ‏؟‏ قَالَتْ‏:‏ نَعَمْ، إِنَّ مِنْ حَقِّهِ عَلَيْكِ أَنْ لَوْ أَرَادَكِ وَأَنْتِ عَلَى قَتَبٍ لَمْ تَمْنَعِيهِ، قَالَتْ‏:‏ قُلْتُ لَهَا‏:‏ إِحْدَانَا تَحِيضُ، وَلَيْسَ لَهَا وَلِزَوْجِهَا إِلاَّ فِرَاشٌ وَاحِدٌ أَوْ لِحَافٌ وَاحِدٌ، فَكَيْفَ تَصْنَعُ‏؟‏ قَالَتْ‏:‏ لِتَشُدَّ عَلَيْهَا إِزَارَهَا ثُمَّ تَنَامُ مَعَهُ، فَلَهُ مَا فَوْقَ ذَلِكَ، مَعَ أَنِّي سَوْفَ أُخْبِرُكِ مَا صَنَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ إِنَّهُ كَانَ لَيْلَتِي مِنْهُ، فَطَحَنْتُ شَيْئًا مِنْ شَعِيرٍ، فَجَعَلْتُ لَهُ قُرْصًا، فَدَخَلَ فَرَدَّ الْبَابَ، وَدَخَلَ إِلَى الْمَسْجِدِ، وَكَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَنَامَ أَغْلَقَ الْبَابَ، وَأَوْكَأَ الْقِرْبَةَ، وَأَكْفَأَ الْقَدَحَ، وَأطْفَأَ الْمِصْبَاحَ، فَانْتَظَرْتُهُ أَنْ يَنْصَرِفَ فَأُطْعِمُهُ الْقُرْصَ، فَلَمْ يَنْصَرِفْ، حَتَّى غَلَبَنِي النَّوْمُ، وَأَوْجَعَهُ الْبَرْدُ، فَأَتَانِي فَأَقَامَنِي ثُمَّ قَالَ‏:‏ ”أَدْفِئِينِي أَدْفِئِينِي“، فَقُلْتُ لَهُ‏:‏ إِنِّي حَائِضٌ، فَقَالَ‏:‏ ”وَإِنْ، اكْشِفِي عَنْ فَخِذَيْكِ“، فَكَشَفْتُ لَهُ عَنْ فَخِذَيَّ، فَوَضَعَ خَدَّهُ وَرَأْسَهُ عَلَى فَخِذَيَّ حَتَّى دَفِئَ‏.‏ فَأَقْبَلَتْ شَاةٌ لِجَارِنَا دَاجِنَةٌ فَدَخَلَتْ، ثُمَّ عَمَدَتْ إِلَى الْقُرْصِ فَأَخَذَتْهُ، ثُمَّ أَدْبَرَتْ بِهِ‏.‏ قَالَتْ‏:‏ وَقَلِقْتُ عَنْهُ، وَاسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَادَرْتُهَا إِلَى الْبَابِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”خُذِي مَا أَدْرَكْتِ مِنْ قُرْصِكِ، وَلاَ تُؤْذِي جَارَكِ فِي شَاتِهِ.“
حضرت عمارہ بن غراب سے روایت ہے کہ انہیں ان کی ایک پھوپھی نے بتایا کہ اس نے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: ہم میں سے کسی عورت کا خاوند اس کا ارادہ کرتا ہے، یعنی ہم بستری کے لیے بلاتا ہے اور وہ اسے روک دیتی ہے، غصے کی وجہ سے یا اس کا دل نہیں چاہتا، تو کیا اس صورت میں ہم پر گناه ہو گا؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! خاوند کا تجھ پر حق ہے کہ اگر وہ تجھے مباشرت کے لیے بلائے تو اسے مت روکو، خواہ تم کجاوے کی لکڑی پر ہی ہو۔ وہ (راویہ) کہتی ہیں: میں نے ان سے کہا: ہم میں سے اگر کوئی عورت حالت حیض میں ہو، اور اس کا اور اس کے خاوند کا ایک ہی بستر کا لحاف ہو تو اس صورت میں کیا کرے؟ انہوں نے فرمایا: وہ اپنا تہبند اچھی طرح باندھ لے اور خاوند کے ساتھ سو جائے، اس کے لیے تہبند کے اوپر سے استمتاع جائز ہے۔ میں تمہیں بتاتی ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا۔ ایک رات میری باری تھی۔ میں نے کچھ جَو پیس کر ٹکیہ بنائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور دروازہ بند کر کے مسجد چلے گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سونے کا ارادہ فرماتے تو دروازہ بند کر دیتے، مشکیزے کا تسمہ باندھ دیتے، پیالے کو الٹ دیتے اور چراغ بجھا دیتے۔ میں آپ کی واپسی کا انتظار کرتی رہی کہ آپ کو وہ ٹکیہ کھلاؤں لیکن آپ (جلد) واپس تشریف نہ لائے اور مجھے نیند آ گئی۔ جب آپ کو سردی محسوس ہوئی تو آپ میرے پاس آئے اور مجھے اٹھایا پھر فرمایا: مجھے گرماؤ، مجھے گرماؤ۔ میں نے عرض کیا: مجھے حیض آ رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذرا اپنی ران کھول دو۔ میں نے آپ کے لیے اپنی ران کھول دی۔ آپ نے اپنا رخسار اور سر میری ران پر رکھ دیا یہاں تک کہ آپ گرم ہو گئے۔ اتنے میں ہمارے ہمسائے کی بکری کا بچہ اندر گھس آیا اور ٹکیہ کی طرف بڑھ کر اسے پکڑ لیا اور پھر چلا گیا۔ وہ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں: مجھے بڑی تشویش ہوئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی جاگ گئے تو میں جلدی سے دروازے کی طرف گئی (تاکہ وہ ٹکیہ بکری کے بچہ سے پکڑ سکوں) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیری ٹکیہ جتنی بچی ہے وہ پکڑ لو اور ہمسائی کو بکری کی وجہ سے تکلیف نہ پہنچانا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْجَارِ/حدیث: 120]
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه ابن أبى عمر كما فى المطالب العاليه: 488/11 و أبوداؤد: 270 و البيهقي فى الكبرىٰ: 313/1، مختصرًا»

قال الشيخ الألباني: ضعيف


Previous    1    2    3    Next