الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:

صحيح مسلم
كِتَاب الْكُسُوفِ
سورج اور چاند گرہن کے احکام
حدیث نمبر: 2099
وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ . ح وحَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، جَمِيعًا، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ، بِمِثْلِ مَعْنَى حَدِيثِ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ.
عبدالوہاب اور سفیان نے یحییٰ بن سعید سے اسی سند کے ساتھ سلیمان بن بلال کی حدیث کے ہم معنی روایت بیان کی۔
مصنف نے مذکورہ بالاروایت ایک دوسری سند سے بھی بیان کی ہے۔
3. باب مَا عُرِضَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلاَةِ الْكُسُوفِ مِنْ أَمْرِ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ:
3. باب: جنت اور جہنم میں سے کسوف کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا کچھ پیش کیا گیا؟
حدیث نمبر: 2100
وحَدَّثَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتَوَائِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمٍ شَدِيدِ الْحَرِّ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَصْحَابِهِ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ حَتَّى جَعَلُوا يَخِرُّونَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ فَصَنَعَ نَحْوًا مِنْ ذَاكَ، فَكَانَتْ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّهُ عُرِضَ عَلَيَّ كُلُّ شَيْءٍ تُولَجُونَهُ، فَعُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ حَتَّى لَوْ تَنَاوَلْتُ مِنْهَا قِطْفًا أَخَذْتُهُ "، أَوَ قَالَ: " تَنَاوَلْتُ مِنْهَا قِطْفًا فَقَصُرَتْ يَدِي عَنْهُ، وَعُرِضَتْ عَلَيَّ النَّارُ، فَرَأَيْتُ فِيهَا امْرَأَةً مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ تُعَذَّبُ فِي هِرَّةٍ لَهَا رَبَطَتْهَا، فَلَمْ تُطْعِمْهَا وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ، وَرَأَيْتُ أَبَا ثُمَامَةَ عَمْرَو بْنَ مَالِكٍ يَجُرُّ قُصْبَهُ فِي النَّارِ، وَإِنَّهُمْ كَانُوا يَقُولُونَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَخْسِفَانِ إِلَّا لِمَوْتِ عَظِيمٍ، وَإِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ يُرِيكُمُوهُمَا، فَإِذَا خَسَفَا فَصَلُّوا حَتَّى تَنْجَلِيَ ".
اسماعیل ابن علیہ نے ہشام دستوائی سے روایت کی، انھوں نے کہا: ہمیں ابو زبیر نے جابر بن عبداللہ سے حدیث سنائی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک انتہائی گرم دن سورج کوگرہن لگ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) کے ساتھ نمازپڑھی، آپ نے (اتنا) لمبا قیام کیا کہ کچھ لوگ گرنے لگے، پھر آپ نے رکوع کیا اوراے لمبا کیا، پھر (رکوع سے) سر اٹھایا اور لمبا (قیام) کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر رکوع کیا اور لمبا کیا۔پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (رکوع سے) سر اٹھایا اور (اس قیام کو لمبا) کیا، پھر دو سجدے کیے، پھر آپ (دوسری رکعت کے لئے) اٹھے اور اسی طرح کیا، اس طرح چار رکوع اورچار سجدے ہوگئے، پھر آپ نے فرمایا: بلاشبہ مجھ پر ہر وہ چیز (حشر نشر، پل صراط، جنت اور دوزخ) جس میں سے تم گزروگے، پیش کی گئی، میرے سامنے جنت پیش کی گئی حتیٰ کہ اگر میں اس میں سے ایک گچھے کو لینا چاہتا تو اسے پکڑ لیتا۔یا آپ نے (یوں) فرمایا: میں نے ایک گچھہ لیناچاہا تو میرا ہاتھ اس تک نہ پہنچا، اور میرے سامنے جہنم پیش کی گئی تو میں نے اس میں بنی اسرائیل کی ایک عورت دیکھی جسے اپنی بلی (کے معاملے) میں عذاب دیا جارہا تھا۔اس نے اسے باندھ دیا نہ اسے کچھ کھلایا (پلایا) نہ اسے چھوڑا ہی کہ وہ زمین کے چھوٹے موٹے جاندار پرندے وغیرہ کھالیتی۔اور میں نے ابو ثمامہ عمرو (بن عامر) بن مالک (جس کالقب لحی تھا اور خزاعہ اس کی اولاد میں سے تھا) کو دیکھا کہ وہ آگ میں اپنی انتڑیاں گھسیٹ رہاتھا، لوگ کہا کرتے تھےکہ سورج اور چاند کسی عظیم شخصیت کی موت پر ہی بے نور ہوتے ہیں، حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔جو وہ تمھیں دیکھاتا ہے، جب انھیں گرہن لگے تو اس وقت تک نماز پڑھتے رہو کہ وہ (گرہن) چھٹ جائے۔"
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں، ایک انتہائی گرمی کے دن سورج کو گہن لگ گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ نماز پڑھی، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا لمبا قیام کیا کہ کچھ لوگ گرنے لگے، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا، اور طویل رکوع کیا، پھر رکوع سے اٹھے، اور طویل قیام کیا، پھر رکوع کیا اور طویل رکوع کیا، پھر رکوع سے سر اٹھایا، اور دیر تک کھڑے رہے، پھر دو سجدے کیے، پھر دوسری رکعت کے لیے اٹھے، اور تقریباً پہلی رکعت کی طرح دوسری رکعت پڑھی۔ اس طرح چار رکوع اور چار سجدے ہو گئے۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ پر وہ تمام چیزیں (جنت، دوزخ، حشر، نشر) جن میں تم داخل ہو گے (گزرو گے) پیش کئی گئیں، مجھ پر جنت پیش کی گئی، حتی کہ اگر میں اس کے گچھے کو لینا چاہتا تو پکڑ لیتا یا آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے ایک گچھا لینا چاہا، تو میرا ہاتھ اس تک نہ پہنچا، اور مجھ پر آگ پیش کی گئی، تو میں نے اس میں ایک اسرائیلی عورت دیکھی، جسے ایک بلی کی بنا پر عذاب دیا جا رہا تھا۔ اس نے اسے باندھ رکھا، اور اسے کچھ نہ کھلایا پلایا اور نہ اے چھوڑا کہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی اور میں نے ابو ثمامہ عمرو بن مالک کو دیکھا کہ وہ آگ میں اپنی انتڑیاں کھینچ رہا تھا۔ اور لوگ کہا کرتے تھے، سورج اور چاند صرف کسی عظیم شخصیت کی موت پر ہی بے نور ہوتے ہیں حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کہ نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جو وہ تمہیں دکھاتا ہے جب وہ (کبھی) بے نور ہوں تو اس وقت تک نماز پڑھتے رہو کہ وہ روشن ہو جائیں۔
حدیث نمبر: 2101
وحَدَّثَنِيهِ أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ الصَّبَّاحِ ، عَنْ هِشَامٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: " وَرَأَيْتُ فِي النَّارِ امْرَأَةً حِمْيَرِيَّةً سَوْدَاءَ طَوِيلَةً "، وَلَمْ يَقُلْ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ.
عبدالملک بن صباح نے ہشام دستوائی سے اسی سند کےھ ساتھ اسی (سابقہ حدیث) کے مانند حدیث بیان کی، مگر انھوں نے کہا: (آپ نے فرمایا:) "میں نے آگ میں بلاد حمیر کی (رہنے والی) ایک سیاہ لمبی عورت دیکھی۔"اور انھوں نےمن بنی اسرائیل (بنی اسرائیل کی) کے الفاظ نہیں کہے۔
یہی روایت امام صاحب ایک دوسری سند سے بیان کرتے ہیں، ہاں یہ فرق اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے آگ میں ایک حمیری سیاہ لمبی عورت دیکھی۔ یہ نہیں کہا کہ (وہ اسرائیلی تھی۔)
حدیث نمبر: 2102
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّاسُ: إِنَّمَا انْكَسَفَتْ لِمَوْتِ إِبْرَاهِيمَ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِالنَّاسِ سِتَّ رَكَعَاتٍ بِأَرْبَعِ سَجَدَاتٍ، بَدَأَ فَكَبَّرَ، ثُمَّ قَرَأَ فَأَطَالَ الْقِرَاءَةَ، ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، فَقَرَأَ قِرَاءَةً دُونَ الْقِرَاءَةِ الْأُولَى، ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، فَقَرَأَ قِرَاءَةً دُونَ الْقِرَاءَةِ الثَّانِيَةِ، ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، ثُمَّ انْحَدَرَ بِالسُّجُودِ فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ فَرَكَعَ أَيْضًا ثَلَاثَ رَكَعَاتٍ، لَيْسَ فِيهَا رَكْعَةٌ إِلَّا الَّتِي قَبْلَهَا أَطْوَلُ مِنَ الَّتِي بَعْدَهَا، وَرُكُوعُهُ نَحْوًا مِنْ سُجُودِهِ، ثُمَّ تَأَخَّرَ وَتَأَخَّرَتِ الصُّفُوفُ خَلْفَهُ حَتَّى انْتَهَيْنَا، وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَتَّى انْتَهَى إِلَى النِّسَاءِ، ثُمَّ تَقَدَّمَ وَتَقَدَّمَ النَّاسُ مَعَهُ حَتَّى قَامَ فِي مَقَامِهِ، فَانْصَرَفَ حِينَ انْصَرَفَ، وَقَدْ آضَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، وَإِنَّهُمَا لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ "، وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: " لِمَوْتِ بَشَرٍ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ، فَصَلُّوا حَتَّى تَنْجَلِيَ، مَا مِنْ شَيْءٍ تُوعَدُونَهُ إِلَّا قَدْ رَأَيْتُهُ فِي صَلَاتِي هَذِهِ، لَقَدْ جِيءَ بِالنَّارِ وَذَلِكُمْ حِينَ رَأَيْتُمُونِي تَأَخَّرْتُ مَخَافَةَ أَنْ يُصِيبَنِي مِنْ لَفْحِهَا، وَحَتَّى رَأَيْتُ فِيهَا صَاحِبَ الْمِحْجَنِ يَجُرُّ قُصْبَهُ فِي النَّارِ، كَانَ يَسْرِقُ الْحَاجَّ بِمِحْجَنِهِ، فَإِنْ فُطِنَ لَهُ، قَالَ: إِنَّمَا تَعَلَّقَ بِمِحْجَنِي، وَإِنْ غُفِلَ عَنْهُ ذَهَبَ بِهِ، وَحَتَّى رَأَيْتُ فِيهَا صَاحِبَةَ الْهِرَّةِ الَّتِي رَبَطَتْهَا، فَلَمْ تُطْعِمْهَا وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ حَتَّى مَاتَتْ جُوعًا، ثُمَّ جِيءَ بِالْجَنَّةِ وَذَلِكُمْ حِينَ رَأَيْتُمُونِي تَقَدَّمْتُ حَتَّى قُمْتُ فِي مَقَامِي، وَلَقَدْ مَدَدْتُ يَدِي وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَتَنَاوَلَ مِنْ ثَمَرِهَا لِتَنْظُرُوا إِلَيْهِ، ثُمَّ بَدَا لِي أَنْ لَا أَفْعَلَ، فَمَا مِنْ شَيْءٍ تُوعَدُونَهُ إِلَّا قَدْ رَأَيْتُهُ فِي صَلَاتِي هَذِهِ ".
ابو بکر بن ابی شیبہ نے کہا: ہم سے عبداللہ بن نمیر نے حدیث بیان کی، نیز محمد بن عبداللہ نمیر نے حدیث بیان کی۔۔۔دونوں کے لفظ ملتے جلتے ہیں۔کہا: ہمیں میرے والد (عبداللہ بن نمیر) نے حدیث سنائی، کہا: ہمیں عبدالملک نے عطاء سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں، جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیتے ابراہیم رضی اللہ عنہ فوت ہوئے، سورج گرہن ہوگیا، (بعض) لوگوں نے کہا: سورج کو گرہن حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی موت کی بنا پر لگا ہے۔ (پھر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور لوگوں کو چھ رکوعوں، چار سجدوں کے ساتھ (دو رکعت) نماز پڑھائی۔آغاز کیاتو اللہ اکبر کہا، پھرقراءت کی اور طویل قراءت کی، پھر جتنا قیام کیا تھا تقریباً رکوع کیا، پھر رکوع سے ا پنا سر اٹھایا اور پہلی قراءت سےکچھ کم قراءت کی، پھر (اس) قیام جتنا رکوع کیا، پھر رکوع سے اپنا سر اٹھایا اور دوسری قراءت سے کچھ کم قراءت کی، پھر (اس) قیام جتنا رکوع کیا، پھر رکوع سے اپنا سر اٹھایا، پھر سجدے کے لئے جھکے اور دو سجدے فرمائے، پھر کھڑے ہوئے اور (اس دوسری ر کعت میں بھی) تین رکوع کیے، ان میں سے ہر پہلا رکوع بعد والے رکوع سے زیادہ لمباتھا اور آپ کا رکوع تقریباً سجدے کے برابر تھا، پھرآپ پیچھے ہٹے تو آپ کے پیچھے والی صفیں بھی پیچھے ہٹ گئیں حتیٰ کہ ہم لوگ آخر (آخری کنارے) تک پہنچ گئے۔ابو بکر (ابن ابی شیبہ) نے کہا: حتیٰ کہ آپ عور توں کی صفوں کے قر یب پہنچ گئے۔پھر آپ آگے بڑھے اور آپ کے ساتھ لوگ بھی (صفوں میں) آگے بڑھ آئے حتیٰ کہ آپ (واپس) اپنی جگہ پر کھڑے ہوگئے پھر جب آپ نے نماز سے سلام پھیرا، اس وقت سورج اپنی اصلی حالت پر آچکا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "لوگو!سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہی ہیں اور بلا شبہ ان دونوں کو، لوگوں میں سے کسی کی موت پر گرہن نہیں لگتا۔ابو بکر (بن ابی شیبہ) نے"کسی بشر کی موت پر"کہا۔پس جب تم کوئی ایسی چیز دیکھو تو اس وقت تک نماز پڑھو جب تک کہ یہ زائل ہوجائے، کوئی چیز نہیں جس کا تم سے وعدہ کیاگیا ہے مگر میں نے اسے اپنی اس نماز میں دیکھ لیاہے۔آگ (میرے سامنے) لائی گئی اور یہ اس وقت ہوا جب تم نے مجھے دیکھا کہ میں اس ڈر سے پیچھے ہٹا ہوں کہ اس کی لپٹیں مجھ تک نہ پہنچیں۔یہاں تک کہ میں نے اس آگ میں مڑے ہوئے سرے والی چھڑی کے مالک کو دیکھ لیا، وہ آگ میں اپنی انتڑیاں کھینچ رہا ہے۔وہ اپنی اس مڑے ہوئے سرے والی چھڑی کے زریعے سے حاجیوں کی (چیزیں) چوری کرتا تھا۔اگر اس (کی چوری) کا پتہ چل جاتا تو کہہ دیتا: یہ چیز میری لاٹھی کے ساتھ اٹک گئی تھی، اور اگر پتہ نہ چلتا تووہ اسے لے جاتا۔یہاں تک کہ میں نے اس (آگ) میں بلی والی اس عورت کو بھی دیکھا جس نے اس (بلی) کو باندھ رکھا، نہ خود اسے کچھ کھلایااور نہ اسے چھوڑا کہ وہ زمین کے اس چھوٹے موٹے جاندار اور پرندے کھا لیتی، حتیٰ کہ وہ (بلی) بھوک سے مر گئی، پھر جنت کو (میرے سامنے) لایاگیا اور یہ اس وقت ہوا جب تم نے مجھے دیکھا کہ میں آگے بڑھا حتیٰ کہ میں واپس اپنی جگہ پر آکھڑا ہوا، میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور میں چاہتا تھا کہ میں اس کے پھل میں سے کچھ لے لوں تاکہ تم اسے دیکھ سکو، پھر مجھ پر بات کھلی کہ میں ایسا نہ کروں، کوئی ایسی چیز نہیں جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے مگر میں نے وہ اپنی اس نماز میں دیکھ لی ہے۔"
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں، جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہوئے، سورج گرہن ہو گیا، بعض لوگوں نے کہا: سورج کو گہن تو بس حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موت کی بنا پر لگ گیا ہے۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور لوگوں کو چھ رکوعوں، چار سجدوں کے ساتھ (دو رکعت) نماز پڑھائی۔ تکبیر تحریمہ سے آغاز کیا پھر قراءت کی اور طویل قراءت کی، پھر قیام کے قریب رکوع کیا، پھر رکوع سے ا پنا سر اٹھایا اور قراءت کی جو پہلی قراءت سے کم تھی، پھر قیام کے بعد رکوع کیا پھر رکوع سے اپنا سراٹھایا اور قراءت کی جو دوسری قراءت سے کم تھی پھر رکوع کیا جو قیام کے قریب تھا پھر رکوع سے اپنا سر اٹھایا پھر سجدے کے لئے جھکے اور دو سجدے کئے، پھر کھڑے ہوئے اور اس دوسری ر کعت میں بھی تین رکوع کیے،اس میں بھی ہر پہلا رکوع بعد والے رکوع سے طویل تھا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کا رکوع تقریباً سجدے کے برابر تھا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم پیچھے ہٹے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے والی صفیں بھی پیچھے ہٹ گئیں۔ ابو بکرکی روایت میں ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم عورتوں تک پہنچ گئے پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگ بھی آگے بڑھ آئے حتیٰ کہ آپ اپنی جگہ پر آ کرکھڑے ہوگئے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نمازسے اس وقت فارغ ہوئے کہ سورج پہلی حالت کی طرف لوٹ چکا تھا یعنی روشن ہو چکا تھا پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا: اے لوگو! سورج اور چاند تو بس اللہ کی قدرت (کاریگری) کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہی ہیں اور یہ کسی انسان کی موت کی بنا پر بے نور نہیں ہوتے (ابو بکر نے موت بشر کہا) جب تم میں سے کسی کی یہ حالت دیکھو، تو اس کے روشن ہونے تک نماز پڑھو، اور تم سے جس کا بھی وعدہ کیا گیا ہے، میں اسے اپنی اس نماز میں دیکھ چکا ہوں، آگ لائی گئی اور یہ اس وقت کی بات ہے جب تم نے مجھے دیکھا کہ میں اس سے ڈر سے پیچھے ہٹ رہا ہوں کہ میں اس کی لپیٹ میں نہ آ جاؤں یا مجھے اس کی بو نہ لگ جائے، حتی کہ میں نے اس میں ایک طرف سے مڑی ہوئی لاٹھی والے کر دیکھا۔ وہ آگ میں اپنی انتڑیاں کھینچ رہا ہے وہ اپنی اس اسی ایکطرف مڑی ہوئی لاٹھی کے ذریعے حاجیوں کی چوری کرتا تھا۔ لگر پتا چل جاتا تو کہہ دیتا نہ کپڑا میری لاٹھی کے ساتھ اٹک گیا تھا اور اگر پتا نہ چلتا، وہ چیزلے کر چلتا بنتا اور حتی کہ میں نے اس میں (دوزخ میں) بلی والی عورت کو دیکھا، جس نے اسے باندھ رکھا، نہ اسے خود کھلایا پلایا اور نہ اسے چھوڑا کہ وہ حشرات الارض سے کھا لیتی۔ حتی کہ وہ بھوک سے مر گئی۔ پھر جنت کو لایا گیا اور یہ اس وقت کی بات ہے جب تم نے مجھے آگے بڑھتے دیکھا حتی کہ میں اپنی اس جگہ پر کھڑا ہو گیا۔ اور میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور میں چاہتا تھا کہ میں اس کے پھل میں سے کچھ پکڑ لوں تاکہ تم اسے دیکھ سکو، پھر مجھے یہ حقیقت کھلی کہ مجھے یہ کام نہیں کرنا چاہئیے، جس چیز کا بھی تم سے وعدہ کیا جاتا ہے میں اپنی اس نماز میں دیکھ چکا ہوں
حدیث نمبر: 2103
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ فَاطِمَةَ ، عَنْ أَسْمَاءَ قَالَتْ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ وَهِيَ تُصَلِّي، فَقُلْتُ: مَا شَأْنُ النَّاسِ يُصَلُّونَ، فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا إِلَى السَّمَاءِ، فَقُلْتُ: آيَةٌ. قَالَتْ: نَعَمْ، فَأَطَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِيَامَ جِدًّا حَتَّى تَجَلَّانِي الْغَشْيُ، فَأَخَذْتُ قِرْبَةً مِنْ مَاءٍ إِلَى جَنْبِي، فَجَعَلْتُ أَصُبُّ عَلَى رَأْسِي أَوْ عَلَى وَجْهِي مِنَ الْمَاءِ، قَالَتْ: فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ، فَخَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " أَمَّا بَعْدُ مَا مِنْ شَيْءٍ لَمْ أَكُنْ رَأَيْتُهُ إِلَّا قَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي هَذَا، حَتَّى الْجَنَّةَ وَالنَّارَ، وَإِنَّهُ قَدْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ قَرِيبًا، أَوْ مِثْلَ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ "، لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ، قَالَتْ أَسْمَاءُ: فَيُؤْتَى أَحَدُكُمْ، فَيُقَالُ: مَا عِلْمُكَ بِهَذَا الرَّجُلِ، فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ أَوِ الْمُوقِنُ لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ، قَالَتْ أَسْمَاءُ: فَيَقُولُ: هُوَ مُحَمَّدٌ هُوَ رَسُولُ اللَّهِ جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى، فَأَجَبْنَا وَأَطَعْنَا ثَلَاثَ مِرَارٍ، فَيُقَالُ لَهُ: نَمْ قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ إِنَّكَ لَتُؤْمِنُ بِهِ، فَنَمْ صَالِحًا، وَأَمَّا الْمُنَافِقُ أَوِ الْمُرْتَابُ لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ، قَالَتْ أَسْمَاءُ: " فَيَقُولُ: لَا أَدْرِي سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا، فَقُلْتُ:
ہمیں (عبداللہ) ابن نمیر نے حدیث بیان کی، کہا: ہم سے ہشام نے، انھوں نے (اپنی بیوی) فاطمہ (بنت منذر بن زبیر بن عوام) سے اور انھوں نے (اپنی دادی) حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں سورج کوگرہن لگ گیا، چنانچہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں آئی اور وہ (ساتھ مسجد میں) نماز پڑھ رہی تھیں، میں نے پوچھا: لوگوں کو کیا ہوا وہ (اس وقت) نماز پڑھ رہے ہیں؟انھوں نے اپنے سر سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔تو میں نے پوچھا: کوئی نشانی (ظاہر ہوئی) ہے؟انھوں نے (اشارے سے) بتایا: ہاں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کو بہت زیادہ لمبا کی حتیٰ کہ مجھ پر غشی طاری ہونے لگی، میں نے اپنے پہلو میں پڑی مشک اٹھائی اور اپنے سریا اپنے چہرے پر پانی ڈالنےلگی۔ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے توسورج روشن ہوچکا تھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے خطاب فرمایا، اللہ تعالیٰ کی حمد کی اور اس کی ثنا بیان کی، پھر فرمایا: " اما بعد (حمد وثنا کے بعد)! کوئی چیز ایسی نہیں جس کا میں نے مشاہدہ نہیں کیا تھا مگر اب میں نے اپنی اس جگہ سے اس کا مشاہدہ کر لیا ہے حتی ٰ کہ جنت اور دوزخ بھی دیکھ لی ہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مجھ پر یہ وحی کی گئی ہے کہ عنقریب ہے کہ عنقریب قبروں میں تمھاری مسیح دجال کی آزمائش کے قریب یا س جیسی آزمائش ہوگی۔۔ (فاطمہ نے کہا) مجھے پتہ نہیں، حضر ت اسما رضی اللہ عنہا نے ان میں سے کون سا لفظ کہا۔ اور تم میں سے ہر ایک کے پاس (فرشتوں کی) آمد ہو گی اور پوچھا جائے گا: تم اس آدمی کے بارے میں کیاجانتے ہو؟ تومومن یا یقین رکھنے والا۔ مجھے معلوم نہیں حضرت اسما رضی اللہ عنہا نے کون سا لفظ کہا۔۔کہنے گا: وہ محمد ہیں، وہ اللہ کے رسول ہیں، ہمارےپاس کھلی نشانیاں اور ہدایت لے کر آئے، ہم نے ان (کی بات) کوقبول کیا اور اطاعت کی، تین دفعہ (سوال وجواب) ہوگا۔ پھراُس سے کہاجائے گا: سوجاؤ، ہمیں معلوم تھا کہ تم ان پر ایمان رکھتےہو۔ ایک نیک بخت کی طرح سوجاؤ۔ اور رہامنافق یا وہ جوشک وشبہ میں مبتلا تھا۔معلوم نہیں حضرت اسما رضی اللہ عنہا نے ان میں سے کو ن سا لفظ کہا۔ تو وہ کہے گا: میں نہیں جانتا، میں نے لوگوں کو کچھ کہتےہوئے سناتھا تو وہی کہہ دیا تھا۔"
حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں سورج کوگہن لگ گیا، تو میں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئی اور وہ نماز پڑھ رہی تھیں، میں نے پوچھا:لوگوں کا کیا حال ہے وہ نماز پڑھ رہے ہیں؟ تو انھوں نے اپنے سر سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ تو میں نے پوچھا: کوئی نشانی ظاہر ہوئی ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی طویل قیام کیا، حتی کہ مجھ پر غشی طاری ہو گئی۔ میرے پہلو میں مشک پڑی ہوئی تھی میں نے وہ لے لی اور اپنے سر یا اپنے چہرے پر پانی ڈالنے لگی۔ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے اس وقت فارغ ہوئے جبکہ سورج روشن ہو چکا تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطاب فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کی ثناء بیان کی۔ پھر فرمایا: امابعد! کوئی چیز ایسی نہیں جس کا میں نے مشاہدہ نہیں کیا تھا۔ مگر اب میں نے اپنی اس جگہ اس کا مشاہدہ کرلیا ہے۔حتی کہ جنت اور دوزخ کو بھی دیکھ لیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مجھ پر یہ وحی کی گئی ہے کہ تم قبروں میں مسیح دجال کے فتنہ وامتحان کے برابر یا اس کے قریب آزمائے جاؤ گے، راوی کہتا ہے مجھے معلوم نہیں۔ اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان میں سے کون سا لفظ کہا، اور تم میں سے ہر ایک کے پاس فرشتے آ کر پوچھیں گے، تیری اس انسان کے بارے میں کیا معلومات ہیں؟ رہا مومن یا موقن (یقین رکھنے والا) مجھے معلوم نہیں اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کون سا لفظ ان میں سے کہا۔ تو وہ جواب دے گا۔ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اور یہ اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ ہمارے پاس کھلے دلائل اور ہدایت لے کر آئے۔ ہم نے ان کی بات کو قبول کیا اور اطاعت کی۔ تین دفعہ سوال وجواب ہو گا۔ اسے کہا جائے گا۔ سو جاؤ۔ہمیں خوب علم ہے کہ تیرا ان پر ایمان ہے، مزے سے سو جا، اور رہا منافق یا شک وشبہ میں مبتلا شخص،معلوم نہیں اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان میں سے کون سالفظ کہا،تو وہ کہے گا۔لوگوں کو میں نے کچھ کہتے ہوئے سنا وہی میں نے کہہ دیا۔
حدیث نمبر: 2104
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِى شَيْبَةَ وَأَبُو كُرَيْبٍ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ فَاطِمَةَ عَنْ أَسْمَاءَ قَالَتْ أَتَيْتُ عَائِشَةَ فَإِذَا النَّاسُ قِيَامٌ وَإِذَا هِىَ تُصَلِّى فَقُلْتُ مَا شَأْنُ النَّاسِ وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ ابْنِ نُمَيْرٍ عَنْ هِشَامٍ.
ابو اسامہ نے ہشام سے، انھوں نے فاطمہ سے اور انھوں نے حضرت اسمارضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی تو اس وقت لوگ (نماز میں) کھڑے تھے اور وہ بھی نما ز پڑھ رہی تھیں۔ میں نے پوچھا: لوگو ں کو کیا ہوا؟ اور (آگے) ہشام سے ابن نمیر کی (سابقہ) حدیث کی طرح حدیث بیان کی۔
حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئی، لوگ نماز میں کھڑے تھے اور وہ بھی نماز پڑھ رہی تھیں، تو میں نے پوچھا، لوگوں کو کیا ہوا؟ پھر مذکورہ بالا روایت بیان کی۔
حدیث نمبر: 2105
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ فَاطِمَةَ ، عَنْ أَسْمَاءَ ، قَالَتْ: أَتَيْتُ عَائِشَةَ فَإِذَا النَّاسُ قِيَامٌ، وَإِذَا هِيَ تُصَلِّي، فَقُلْتُ: مَا شَأْنُ النَّاسِ؟، وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ ابْنِ نُمَيْرٍ، عَنْ هِشَامٍ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ: " لَا تَقُلْ كَسَفَتِ الشَّمْسُ، وَلَكِنْ قُلْ خَسَفَتِ الشَّمْسُ ".
عروہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: سورج کے لیے کسف نہ کہو، بلکہ خسف کا لفظ استعمال کرو۔ (اردو میں دونوں کا معنی "گرہن " ہی ہے۔)
عروہ کہتے ہیں سورج کے لیے کسوف کا لفظ نہ کہو۔ خسوف کا لفظ استعمال کرو۔
حدیث نمبر: 2106
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي مَنْصُورُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أُمِّهِ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّهَا قَالَتْ: " فَزِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، قَالَتْ: تَعْنِي يَوْمَ كَسَفَتِ الشَّمْسُ، فَأَخَذَ دِرْعًا حَتَّى أُدْرِكَ بِرِدَائِهِ، فَقَامَ لِلنَّاسِ قِيَامًا طَوِيلًا، لَوْ أَنَّ إِنْسَانًا أَتَى لَمْ يَشْعُرْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكَعَ مَا حَدَّثَ أَنَّهُ رَكَعَ مِنْ طُولِ الْقِيَامِ ".
خالد بن حارث نے کہا: ہم سے ابن جریج نے حدیث بیان کی، (انھوں نے کہا:) مجھ سے منصور بن عبدالرحٰمن نے اپنی والدہ صفیہ بنت شیبہ سے اور انھوں نے حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تیزی سے (لپک کر) گئے۔ کہا: ان کی مراد اس دن سے تھی جس دن سورج کو گرہن لگا تھا۔۔ تو (جلدی میں) آپ نے ایک زنانہ قمیض اٹھالی حتیٰ کہ پیچھے سے آپ کو آپ کی چادر لا کر دی گئی۔ آپ نے لوگوں کی امامت کرتے ہوئے انتہائی طویل قیام کیا۔ اگرکوئی ایسا انسان آتا جس کو یہ پتہ نہ ہوتا کہ آ پ (قیام کے بعد) رکوع کرچکے ہیں تو اس قیام کی لمبائی کی بنا پر وہ کبھی نہ کہہ سکتا کہ آپ (ایک دفعہ) رکوع کرچکے ہیں۔
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا گئے یعنی اس دن جس وقت سورج کو گہن لگا تھا (اس گھبراہٹ کی بنا پر، جلد بازی میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی کو قمیص اٹھا لی اور چل پڑے حتی کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی چادر لا کر دی گئی، آپ5 نے لوگوں کے ساتھ انتہائی طویل قیام کیا۔ حتی کہ اگر ایسا انسان آتا جس کو یہ پتا نہ ہوکہ آپصلی اللہ علیہ وسلم (قیام کے بعد) رکوع کر چکے ہیں، تو اس کو (رکوع کے بعد) کے طویل قیام سے یہ پتہ نہ چل سکتا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم رکوع کر چکے ہیں۔
حدیث نمبر: 2107
وحَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى الْأُمَوِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، وَقَالَ: " قِيَامًا طَوِيلًا يَقُومُ، ثُمَّ يَرْكَعُ "، وَزَادَ: " فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَى الْمَرْأَةِ أَسَنَّ مِنِّي، وَإِلَى الْأُخْرَى هِيَ أَسْقَمُ مِنِّي ".
یحیٰ اموی نے کہا: ہم سے ا بن جریج نے اسی سند کے ساتھ اسی (سابقہ حدیث) کے مانند حدیث بیان کی۔ (اس میں) انھوں نے کہا: (آپ نے) طویل قیام کیا، آپ قیام کرتے، پھر رکو ع میں چلے جاتے۔ اور اس میں یہ اضافہ کیا: میں (بیٹھنے کا ارادہ کرتی تو) ایسی عورت کو دیکھنے لگتی جو مجھ سے بڑھ کر عمر رسیدہ ہوتی اور کسی دوسری کو دیکھتی جو مجھ سے زیادہ بیمار ہوتی (اور ان سے حوصلہ پا کر کھڑی رہتی۔)
امام صاحب دوسرے استاد سے ابن جریج ہی کی سند سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔ اس میں ہے آپصلی اللہ علیہ وسلم نے طویل قیام کیا۔ قیام کرتے پھر رکوع میں چلے جاتے۔ اور اس میں یہ اضافہ بھی ہے کہ میں (بیٹھنے کا ارادہ کرتی تو) ایک ایسی عورت پر نظر پڑتی جو مجھ سے عمر رسیدہ ہے اور دوسری کو دیکھتی جو مجھ سے بڑھ کر بیمار ہے۔
حدیث نمبر: 2108
وحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ ، عَنْ أُمِّهِ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَتْ: " كَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَفَزِعَ فَأَخْطَأَ بِدِرْعٍ حَتَّى أُدْرِكَ بِرِدَائِهِ بَعْدَ ذَلِكَ، قَالَتْ: فَقَضَيْتُ حَاجَتِي، ثُمَّ جِئْتُ وَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمًا، فَقُمْتُ مَعَهُ فَأَطَالَ الْقِيَامَ حَتَّى رَأَيْتُنِي أُرِيدُ أَنْ أَجْلِسَ، ثُمَّ أَلْتَفِتُ إِلَى الْمَرْأَةِ الضَّعِيفَةِ، فَأَقُولُ: هَذِهِ أَضْعَفُ مِنِّي فَأَقُومُ، فَرَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَأَطَالَ الْقِيَامَ، حَتَّى لَوْ أَنَّ رَجُلًا جَاءَ خُيِّلَ إِلَيْهِ أَنَّهُ لَمْ يَرْكَعْ ".
وہیب نے کہا: ہمیں منصور نے اپنی والدہ (صفیہ) سے حدیث بیان کی، انھوں نے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں سورج کوگرہن لگ گیا تو آپ جلدی سے لپکے (اور) غلطی سے زنانہ قمیص اٹھا لی حتیٰ کہ اسکے بعد (پیچھےسے) آپ کی چادر آپ کو لاکر دی گئی۔کہا: میں اپنی ضرورت سے فارغ ہوئی اور (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے) مسجد میں داخل ہوئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیام کی حالت میں دیکھا۔میں بھی آپ کی اقتداء میں کھڑی ہوگئی۔آپ نے بہت لمبا قیام کیا حتیٰ کہ میں نے اپنے آپ کو اس حالت میں دیکھا کہ میں بیٹھنا چاہتی تھی، پھر میں کسی کمزور عورت کی طرف متوجہ ہوتی اور (دل میں) کہتی: یہ تو مجھ سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ (اور کھڑی رہتی ہے) پھر آپ نے رکوع کیا تو رکوع کو انتہائی لمبا کردیا، پھر آپ نے (رکوع سے) اپناسر اٹھایا تو قیام کو بہت طول دیا۔یہاں تک کہ اگر کوئی آدمی (اس حالت میں) آتا تو اسے خیال ہوتا کہ ابھی تک آپ نے رکوع نہیں کیا۔
حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں سورج کوگرہن لگ گیا تو آپ جلدی سے لپکے(اور) غلطی سے زنانہ قمیص اٹھا لی حتیٰ کہ اسکے بعد(پیچھےسے)آپ کی چادر آپ کو لاکر دی گئی۔کہا:میں اپنی ضرورت سے فارغ ہوئی اور(حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر سے)مسجد میں داخل ہوئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیام کی حالت میں دیکھا۔میں بھی آپ کی اقتداء میں کھڑی ہوگئی۔آپ نے بہت لمبا قیام کیا حتیٰ کہ میں نے اپنے آپ کو اس حالت میں دیکھا کہ میں بیٹھنا چاہتی تھی،پھر میں کسی کمزور عورت کی طرف متوجہ ہوتی اور(دل میں) کہتی:یہ تو مجھ سے بھی زیادہ کمزور ہے۔(اور کھڑی رہتی ہے)پھر آپ نے رکوع کیا تو رکوع کو انتہائی لمبا کردیا،پھر آپ نے(رکوع سے) اپناسر اٹھایا تو قیام کو بہت طول دیا۔یہاں تک کہ اگر کوئی آدمی(اس حالت میں)آتا تو اسے خیال ہوتا کہ ابھی تک آپ نے رکوع نہیں کیا۔

Previous    1    2    3    4    Next