الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:

صحيح مسلم
كِتَاب اللُّقَطَةِ
کسی کو ملنے والی چیز جس کے مالک کا پتہ نہ ہو
حدیث نمبر: 4508
وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي جَمِيعًا، عَنْ سُفْيَانَ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ . ح وحَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ كُلُّ هَؤُلَاءِ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ شُعْبَةَ، وَفِي حَدِيثِهِمْ جَمِيعًا " ثَلَاثَةَ أَحْوَالٍ "، إِلَّا حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ فَإِنَّ فِي حَدِيثِهِ " عَامَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً "، وَفِي حَدِيثِ سُفْيَانَ، وَزَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ، وَحَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ " فَإِنْ جَاءَ أَحَدٌ يُخْبِرُكَ بِعَدَدِهَا وَوِعَائِهَا وَوِكَائِهَا، فَأَعْطِهَا إِيَّاهُ " وَزَادَ سُفْيَانُ فِي رِوَايَةِ وَكِيعٍ وَإِلَّا فَهِيَ كَسَبِيلِ مَالِكَ، وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ نُمَيْرٍ " وَإِلَّا فَاسْتَمْتِعْ بِهَا ".
قتیبہ بن سعید نے کہا: ہمیں جریر نے اعمش سے حدیث بیان کی۔ ابوبکر بن ابی شیبہ نے کہا: ہمیں وکیع نے حدیث بیان کی۔ ابن نمیر نے کہا: ہمیں میرے والد نے حدیث بیان کی، وکیع اور عبداللہ بن نمیر نے سفیان سے روایت کی۔ محمد بن حاتم نے کہا: ہمیں عبداللہ بن جعفر رَقی نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں عبیداللہ بن عمر نے زید بن ابی انیسہ سے حدیث بیان کی۔ عبدالرحمٰن بن بشر نے کہا: ہمیں بہز نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں حماد بن سلمہ نے حدیث بیان کی، ان سب (اعمش، سفیان، زید بن ابی انیسہ اور حماد بن سلمہ) نے سلمہ بن کہیل سے اسی سند کے ساتھ شعبہ کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی۔ حماد بن سلمہ کے سوا، ان سب کی حدیث میں تین سال ہیں اور ان (حماد) کی حدیث میں دو یا تین سال ہیں۔ سفیان، زید بن ابی انیسہ اور حماد بن سلمہ کی حدیث میں ہے: "اگر کوئی (تمہارے پاس) آ کر تمہیں اس کی تعداد، تھیلی اور بندھن کے بارے میں بتا دے تو وہ اسے دے دو۔" وکیع کی روایت میں سفیان نے یہ اضافہ کیا: "ورنہ وہ تمہارے مال کے طریقے پر ہے۔" اور ابن نمیر کی روایت میں ہے: "اور اگر نہیں (آیا) تو اسے فائدہ اٹھاؤ
امام صاحب اپنے پانچ اساتذہ کی سندوں سے سلمہ بن کہیل کی مذکورہ بالا سند سے شعبہ ہی کی طرح حدیث بیان کرتے ہیں اور سب کی حدیث میں تین سال کا ذکر ہے، مگر حماد بن سلمہ کی حدیث میں ہے دو یا تین سال اور سفیان، زید بن ابی انیسہ اور حماد بن سلمہ کی حدیث میں ہے، اگر تمہارے پاس ایسا آدمی آئے جو تمہیں ان کی تعداد، ان کی تھیلی اور ان کے بندھن کے بارے میں بتا دے تو اسے دے دو۔ اور سفیان نے وکیع کی روایت میں یہ اضافہ کیا ہے، وگرنہ تمہارے مال کے حکم میں ہے۔ اور ابن نمیر کی روایت میں ہے، وگرنہ تو اس سے فائدہ اٹھا لے۔
1. باب فِي لُقَطَةِ الْحَاجِّ:
1. باب: حاجیوں کی پڑی چیز کا بیان۔
حدیث نمبر: 4509
حضرت عبدالرحمان بن عثمان تیمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاجیوں کی گری پڑی چیز اٹھانے سے منع فرمایا
حضرت عبدالرحمٰن بن عثمان تیمی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاجیوں کی گری پڑی چیز اٹھانے سے منع فرمایا۔
حدیث نمبر: 4510
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَيُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ بَكْرِ بْنِ سَوَادَةَ ، عَنْ أَبِي سَالِمٍ الْجَيْشَانِيِّ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " مَنْ آوَى ضَالَّةً فَهُوَ ضَالٌّ مَا لَمْ يُعَرِّفْهَا ".
حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپ نے فرمایا: "جس نے (کسی کے) بھٹکتے ہوئے جانور (اونٹنی) کو اپنے پاس رکھ لیا ہے تو وہ (خود) بھٹکا ہوا ہے جب تک اس کی تشہیر نہیں کرتا
حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے گمشدہ حیوان کو رکھ لیا، وہ گم کردہ راہ ہے، جب تک اس کی تشہیر نہیں کرتا۔
2. باب تَحْرِيمِ حَلْبِ الْمَاشِيَةِ بِغَيْرِ إِذْنِ مَالِكِهَا:
2. باب: جانور کا دودھ دوہنا بغیر مالک کی اجازت کے حرام ہے۔
حدیث نمبر: 4511
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَحْلُبَنَّ أَحَدٌ مَاشِيَةَ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِهِ، أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تُؤْتَى مَشْرُبَتُهُ، فَتُكْسَرَ خِزَانَتُهُ، فَيُنْتَقَلَ طَعَامُهُ إِنَّمَا تَخْزُنُ لَهُمْ ضُرُوعُ مَوَاشِيهِمْ أَطْعِمَتَهُمْ، فَلَا يَحْلُبَنَّ أَحَدٌ مَاشِيَةَ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِهِ "،
4511. امام مالک بن انس نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی آدمی کسی کے جانور کا دودھ اس کی اجازت کے بغیر نہ نکالے، کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اس کے بالا خانے میں آیا جائے، اس کا گودام توڑا جائے اور اس کا غلہ منتقل کر لیا جائے؟ لوگوں کے مویشیوں کے تھن بھی ان کے لیے ان کی خوراک محفوظ رکھتے ہیں، لہذا کوئی آدمی کسی کے جانور کا دودھ اس کی اجازت کے بغیر دوہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی ہرگز دوسرے کا مویشی اس کی اجازت کے بغیر نہ دوہے، کیا تم میں سے کسی کو یہ بات پسند ہے کہ اس کے کمرہ (گودام) میں آ کر کوئی اس کا خزانہ توڑ کر اس کا غلہ نقل کر لے، (لے جائے)؟ لوگوں کے مویشی بھی اپنے تھنوں میں ان کی خوراک محفوظ کرتے ہیں، اس لیے کوئی کسی کا حیوان اس کی اجازت کے بغیر نہ دوہے۔
حدیث نمبر: 4512
وحَدَّثَنَاه قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ جَمِيعًا، عَنْ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ . ح وحَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي كِلَاهُمَا، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو الرَّبِيعِ ، وَأَبُو كَامِلٍ قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ . ح وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ عُلَيَّةَ جَمِيعًا، عَنْ أَيُّوبَ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، وَابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ مُوسَى كُلُّ هَؤُلَاءِ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ حَدِيثِ مَالِكٍ، غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِهِمْ جَمِيعًا " فَيُنْتَثَلَ " إِلَّا اللَّيْثَ بْنَ سَعْدٍ فَإِنَّ فِي حَدِيثِهِ " فَيُنْتَقَلَ طَعَامُهُ " كَرِوَايَةِ مَالِكٍ.
4512. لیث بن سعد، ابن مسہر، عبیداللہ، ایوب، اسماعیل بن امیہ اور موسیٰ (بن عقبہ) سب نے نافع سے، انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے امام مالک کی حدیث کی طرح روایت کی ہے اور لیث بن سعد کے سوا ان سب کی حدیث میں فَيُنتَثَل (نکال پھینکا جائے) ہے اور ان (لیث) کی حدیث میں امام مالک کی روایت کی طرح فَيُنتَقَل طَعَامُه اس کا کھانا منتقل کر لیا جائے کے الفاظ ہیں۔
امام صاحب نے اپنے مختلف اساتذہ کی سات سندوں سے، حضرت نافع کے واسطہ سے ہی مذکورہ بالا حدیث بیان کی، جس میں فرق یہ ہے کہ امام مالک نے مذکورہ بالا حدیث میں، يُنتَقَل
3. باب الضِّيَافَةِ وَنَحْوِهَا:
3. باب: مہمان داری کا بیان۔
حدیث نمبر: 4513
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعَتْ أُذُنَايَ وَأَبْصَرَتْ عَيْنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ جَائِزَتَهُ، قَالُوا: وَمَا جَائِزَتُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: يَوْمُهُ وَلَيْلَتُهُ وَالضِّيَافَةُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ، فَمَا كَانَ وَرَاءَ ذَلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ عَلَيْهِ، وَقَالَ: مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ ".
لیث نے سعید بن ابی سعید سے، انہوں نے ابو شریح عدوی سے روایت کی، انہوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گفتگو کی، تو میرے دونوں کانوں نے سنا اور میری دونوں آنکھوں نے دیکھا، آپ نے فرمایا: "جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کو، جو پیش کرتا ہے، اس کو لائق عزت بنائے۔" صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! اس کو جو پیش کیا جائے، وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: "اس کے ایک دن اور ایک رات کا اہتمام اور مہمان نوازی تین دن ہے، جو اس سے زائد ہے وہ اس پر صدقہ ہے۔" اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے
حضرت ابو شریح عدوی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ گفتگو فرمائی تو میرے کانوں نے سنا اور میری آنکھوں نے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے مہمان کی خاطر و مدارت کر کے اس کا احترام کرے۔ صحابہ نے پوچھا، اس کا جائزہ (خاطر مدارت) کتنا ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دن، رات اور مہمانی تین دن ہے اور اس سے زائد دن اس پر صدقہ ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اچھی بات کرے یا خاموشی اختیار کرے۔
حدیث نمبر: 4514
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الضِّيَافَةُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ وَجَائِزَتُهُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، وَلَا يَحِلُّ لِرَجُلٍ مُسْلِمٍ أَنْ يُقِيمَ عِنْدَ أَخِيهِ حَتَّى يُؤْثِمَهُ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ يُؤْثِمُهُ؟، قَالَ: يُقِيمُ عِنْدَهُ وَلَا شَيْءَ لَهُ يَقْرِيهِ بِهِ "،
وکیع نے کہا: ہمیں عبدالحمید بن جعفر نے سعید بن ابی سعید مقبری سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوشریح خزاعی سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مہمان نوازی تین دن ہے اور خصوصی اہتمام ایک دن اور ایک رات کا ہے اور کسی مسلمان آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ہاں (ہی) ٹھہرا رہے حتی کہ اسے گناہ میں مبتلا کر دے۔" صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! وہ اسے گناہ میں کیسے مبتلا کرے گا؟ آپ نے فرمایا: "وہ اس کے ہاں ٹھہرا رہے اور اس کے پاس کچھ نہ ہو جس سے وہ اس کی میزبانی کر سکے (تو وہ غلط کام کے ذریعے سے اس کی میزبانی کا انتظام کرے
حضرت ابو شریح خزاعی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ضیافت (مہمان نوازی) تین دن اور خاطر مدارات ایک دن رات ہے اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنے بھائی کے پاس اتنے دن ٹھہرے کہ اس کو گناہ گار کر دے۔ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے پوچھا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کو گناہ گار کیسے کرے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے پاس ٹھہر گیا ہے، حالانکہ اس کے پاس اس کی مہمان نوازی کے لیے کچھ نہیں ہے۔
حدیث نمبر: 4515
وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ يَعْنِي الْحَنَفِيَّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الْمَقْبُرِيُّ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعَتْ أُذُنَايَ وَبَصُرَ عَيْنِي، وَوَعَاهُ قَلْبِي حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ اللَّيْثِ وَذَكَرَ فِيهِ: وَلَا يَحِلُّ لِأَحَدِكُمْ أَنْ يُقِيمَ عِنْدَ أَخِيهِ حَتَّى يُؤْثِمَهُ، بِمِثْلِ مَا فِي حَدِيثِ وَكِيعٍ.
ابوبکر حنفی نے کہا: ہمیں عبدالحمید بن جعفر نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے سعید مقبری نے حدیث بیان کی کہ انہوں نے ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: میرے دونوں کانوں نے سنا اور میری آنکھ نے دیکھا اور میرے دل نے یاد رکھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ گفتگو فرمائی۔۔ (آگے) لیث کی حدیث کی طرح بیان کیا اور اس میں یہ ذکر کیا: "تم میں سے کسی کے لیے حلال نہیں کہ اپنے بھائی کے ہاں ٹھہرا رہے حتی کہ اسے گناہ میں ڈال دے۔" اسی کے مانند جس طرح وکیع کی حدیث میں ہے
حضرت ابو شریح خزاعی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میرے کانوں نے سنا اور میری آنکھوں نے دیکھا اور میرے دل نے اسے یاد رکھا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گفتگو فرمائی، آگے لیث کی حدیث نمبر 1 کی طرح بیان کیا اور اس میں وکیع کی حدیث نمبر 2 کی طرح یہ بیان کیا، تم میں سے کسی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کے ہاں اس قدر ٹھہرے کہ اس کو گناہ گار کر دے۔
حدیث نمبر: 4516
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، أَنَّهُ قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ تَبْعَثُنَا فَنَنْزِلُ بِقَوْمٍ فَلَا يَقْرُونَنَا فَمَا تَرَى؟، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ نَزَلْتُمْ بِقَوْمٍ فَأَمَرُوا لَكُمْ بِمَا يَنْبَغِي لِلضَّيْفِ فَاقْبَلُوا، فَإِنْ لَمْ يَفْعَلُوا فَخُذُوا مِنْهُمْ حَقَّ الضَّيْفِ الَّذِي يَنْبَغِي لَهُمْ ".
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! آپ ہمیں کسی (اہم کام کے لیے) روانہ کرتے ہیں، ہم کچھ لوگوں کے ہاں اترتے ہیں تو وہ ہماری مہمان نوازی نہیں کرتے، آپ کی رائے کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا: "اگر تم کسی قوم کے ہاں اترو اور وہ تمہارے لیے ایسی چیز کا حکم دیں جو مہمان کے لائق ہے تو قبول کر لو اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان سے مہمان کا اتنا حق لے لو جو ان (کی استطاعت کے مطابق ان) کے لائق ہو۔"
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ہمیں بھیجتے ہیں اور ہم ایسے لوگوں میں جا کر ٹھہرتے ہیں، جو ہماری مہمان نوازی نہیں کرتے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم کا کیا خیال ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا: اگر تم کسی قوم میں ٹھہرو اور وہ تمہارے لیے وہ چیز مہیا کریں جو مہمان کو ملنی چاہیے تو اس کو قبول کر لو، اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان سے مہمان کا مناسب حق، جو انہیں دینا چاہیے تھا چھین لو۔
4. باب اسْتِحْبَابِ الْمُؤَاسَاةِ بِفُضُولِ الْمَالِ:
4. باب: جو مال اپنی حاجت سے فاضل ہو وہ بھائی مسلمان کی خاطر داری میں صرف کرے۔
حدیث نمبر: 4517
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْهَبِ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ فِي سَفَرٍ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ جَاءَ رَجُلٌ عَلَى رَاحِلَةٍ لَهُ، قَالَ: فَجَعَلَ يَصْرِفُ بَصَرَهُ يَمِينًا وَشِمَالًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَانَ مَعَهُ فَضْلُ ظَهْرٍ فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لَا ظَهْرَ لَهُ، وَمَنْ كَانَ لَهُ فَضْلٌ مِنْ زَادٍ فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لَا زَادَ لَهُ "، قَالَ: فَذَكَرَ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ مَا ذَكَرَ حَتَّى رَأَيْنَا أَنَّهُ لَا حَقَّ لِأَحَدٍ مِنَّا فِي فَضْلٍ.
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے، اس اثنا میں ایک آدمی اپنی سواری پر آپ کے پاس آیا، کہا: پھر وہ اپنی نگاہ دائیں بائیں دوڑانے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کے پاس ضرورت سے زائد سواری ہو، وہ اس کے ذریعے سے ایسے شخص کے ساتھ نیکی کرے جس کے پاس سواری نہیں ہے اور جس کے پاس زائد از ضرورت زادِ راہ ہے وہ اس کے ذریعے سے ایسے شخص کی خیرخواہی کرے جس کے پاس زاد راہ نہیں ہے۔کہا: آپ نے مال کی بہت سی اقسام کا ذکر کیا جس طرح کیا، حتی کہ ہم نے خیال کیا کہ زائد مال پر ہم میں سے کسی کا کوئی حق نہیں ہے
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر پر تھے، اس دوران اچانک ایک آدمی اپنی سواری پر آیا اور اپنی نظر دائیں بائیں دوڑانے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس ضرورت سے زائد سواری کا اونٹ ہو تو وہ اس کے ذریعہ اس کی خیرخواہی کرے، جس کے پاس سواری نہیں ہے اور جس کے پاس ضرورت سے زائد توشہ ہو، وہ اس کے ساتھ اس سے حسن سلوک کرے، جس کے پاس زادراہ نہیں ہے۔" حضرت ابو سعید ؓ بیان کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کی بہت سی اقسام کا ذکر کیا حتی کہ ہم نے یہ سمجھا، ہم میں سے کسی کا فالتو چیز پر حق نہیں ہے۔

Previous    1    2    3    Next