الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ابي داود
كتاب صلاة الاستسقاء
کتاب: نماز استسقاء کے احکام ومسائل
حدیث نمبر: 1171
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يَسْتَسْقِي هَكَذَا، يَعْنِي، وَمَدَّ يَدَيْهِ وَجَعَلَ بُطُونَهُمَا مِمَّا يَلِي الْأَرْضَ حَتَّى رَأَيْتُ بَيَاضَ إِبِطَيْهِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم استسقا میں اس طرح دعا کرتے تھے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ پھیلاتے اور ان کی پشت اوپر رکھتے اور ہتھیلی زمین کی طرف یہاں تک کہ میں نے آپ کے بغلوں کی سفیدی دیکھی۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1171]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الاستسقاء 1 (896)، (تحفة الأشراف: 323)، وقد أخرجہ: (3/153، 241) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 1172
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنِي مَنْ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو عِنْدَ أَحْجَارِ الزَّيْتِ بَاسِطًا كَفَّيْهِ".
محمد بن ابراہیم (تیمی) کہتے ہیں مجھے اس شخص نے خبر دی ہے جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ احجار زیت کے پاس اپنی دونوں ہتھیلیاں پھیلائے دعا فرما رہے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1172]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 10900) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 1173
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ نِزَارٍ، حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ مَبْرُورٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: شَكَا النَّاسُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُحُوطَ الْمَطَرِ، فَأَمَرَ بِمِنْبَرٍ فَوُضِعَ لَهُ فِي الْمُصَلَّى، وَوَعَدَ النَّاسَ يَوْمًا يَخْرُجُونَ فِيهِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ بَدَا حَاجِبُ الشَّمْسِ، فَقَعَدَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَكَبَّرَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَمِدَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّكُمْ شَكَوْتُمْ جَدْبَ دِيَارِكُمْ وَاسْتِئْخَارَ الْمَطَرِ عَنْ إِبَّانِ زَمَانِهِ عَنْكُمْ، وَقَدْ أَمَرَكُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ تَدْعُوهُ وَوَعَدَكُمْ أَنْ يَسْتَجِيبَ لَكُمْ، ثُمَّ قَالَ: 0 الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ 0 لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ، اللَّهُمَّ أَنْتَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الْغَنِيُّ وَنَحْنُ الْفُقَرَاءُ أَنْزِلْ عَلَيْنَا الْغَيْثَ، وَاجْعَلْ مَا أَنْزَلْتَ لَنَا قُوَّةً وَبَلَاغًا إِلَى حِينٍ"، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ فَلَمْ يَزَلْ فِي الرَّفْعِ حَتَّى بَدَا بَيَاضُ إِبِطَيْهِ، ثُمَّ حَوَّلَ إِلَى النَّاسِ ظَهْرَهُ وَقَلَبَ، أَوْ حَوَّلَ رِدَاءَهُ، وَهُوَ رَافِعٌ يَدَيْهِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ، وَنَزَلَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَأَنْشَأَ اللَّهُ سَحَابَةً فَرَعَدَتْ وَبَرَقَتْ، ثُمَّ أَمْطَرَتْ بِإِذْنِ اللَّهِ، فَلَمْ يَأْتِ مَسْجِدَهُ حَتَّى سَالَتِ السُّيُولُ، فَلَمَّا رَأَى سُرْعَتَهُمْ إِلَى الْكِنِّ ضَحِكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ، فَقَالَ:" أَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، وَأَنِّي عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِسْنَادُهُ جَيِّدٌ، أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَقْرَءُونَ 0 مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ 0 وَإِنَّ هَذَا الْحَدِيثَ حُجَّةٌ لَهُمْ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش نہ ہونے کی شکایت کی تو آپ نے منبر (رکھنے) کا حکم دیا تو وہ آپ کے لیے عید گاہ میں لا کر رکھا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے ایک دن عید گاہ کی طرف نکلنے کا وعدہ لیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (حجرہ سے) اس وقت نکلے جب کہ آفتاب کا کنارہ ظاہر ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے، اللہ تعالیٰ کی تکبیر و تحمید کی پھر فرمایا: تم لوگوں نے بارش میں تاخیر کی وجہ سے اپنی آبادیوں میں قحط سالی کی شکایت کی ہے، اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ حکم دیا ہے کہ تم اس سے دعا کرو اور اس نے تم سے یہ وعدہ کیا ہے کہ (اگر تم اسے پکارو گے) تو وہ تمہاری دعا قبول کرے گا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی: «الحمد لله رب العالمين * الرحمن الرحيم * ملك يوم الدين ‏، لا إله إلا الله يفعل ما يريد اللهم أنت الله لا إله إلا أنت الغني ونحن الفقراء أنزل علينا الغيث واجعل ما أنزلت لنا قوة وبلاغا إلى حين» یعنی تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں جو رحمن و رحیم ہے اور روز جزا کا مالک ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ جو چاہتا ہے، کرتا ہے، اے اللہ! تو ہی معبود حقیقی ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو غنی ہے اور ہم فقیر ہیں، تو ہم پر باران رحمت نازل فرما اور جو تو نازل فرما اسے ہمارے لیے قوت (رزق) بنا دے اور ایک مدت تک اس سے فائدہ پہنچا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو اٹھایا اور اتنا اوپر اٹھایا کہ آپ کے بغلوں کی سفیدی ظاہر ہونے لگی، پھر حاضرین کی طرف پشت کر کے اپنی چادر کو پلٹا، آپ اپنے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور اتر کر دو رکعت پڑھی، اسی وقت (اللہ کے حکم سے) آسمان سے بادل اٹھے، جن میں گرج اور چمک تھی، پھر اللہ کے حکم سے بارش ہوئی تو ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مسجد نہیں آ سکے تھے کہ بارش کی کثرت سے نالے بہنے لگے، جب آپ نے لوگوں کو سائبانوں کی طرف بڑھتے دیکھا تو ہنسے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے اور فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند جید (عمدہ) ہے، اہل مدینہ «ملك يوم الدين» پڑھتے ہیں اور یہی حدیث ان کی دلیل ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1173]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 17340) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن

حدیث نمبر: 1174
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَيُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:أَصَابَ أَهْلَ الْمَدِينَةِ قَحْطٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَيْنَمَا هُوَ يَخْطُبُنَا يَوْمَ جُمُعَةٍ إِذْ قَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلَكَ الْكُرَاعُ، هَلَكَ الشَّاءُ، فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَسْقِيَنَا" فَمَدَّ يَدَيْهِ وَدَعَا". قَالَ أَنَسٌ: وَإِنَّ السَّمَاءَ لَمِثْلُ الزُّجَاجَةِ فَهَاجَتْ رِيحٌ، ثُمَّ أَنْشَأَتْ سَحَابَةً، ثُمَّ اجْتَمَعَتْ، ثُمَّ أَرْسَلَتِ السَّمَاءُ عَزَالِيَهَا فَخَرَجْنَا نَخُوضُ الْمَاءَ حَتَّى أَتَيْنَا مَنَازِلَنَا فَلَمْ يَزَلِ الْمَطَرُ إِلَى الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى، فَقَامَ إِلَيْهِ ذَلِكَ الرَّجُلُ أَوْ غَيْرُهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تَهَدَّمَتِ الْبُيُوتُ فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَحْبِسَهُ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ:" حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا" فَنَظَرْتُ إِلَى السَّحَابِ يَتَصَدَّعُ حَوْلَ الْمَدِينَةِ كَأَنَّهُ إِكْلِيلٌ.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اہل مدینہ قحط میں مبتلا ہوئے، اسی دوران کہ آپ جمعہ کے دن ہمیں خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص کھڑا ہو اور عرض کیا کہ اللہ کے رسول! گھوڑے مر گئے، بکریاں ہلاک ہو گئیں، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں سیراب کرے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلایا اور دعا کی۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس وقت آسمان آئینہ کی طرح صاف تھا، اتنے میں ہوا چلنے لگی پھر بدلی اٹھی اور گھنی ہو گئی پھر آسمان نے اپنا دہانہ کھول دیا، پھر جب ہم (نماز پڑھ کر) واپس ہونے لگے تو پانی میں ہو کر اپنے گھروں کو گئے اور آنے والے دوسرے جمعہ تک برابر بارش کا سلسلہ جاری رہا، پھر وہی شخص یا دوسرا کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! گھر گر گئے، اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ بارش بند کر دے، (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے پھر فرمایا: اے اللہ! تو ہمارے اردگرد بارش نازل فرما اور ہم پر نہ نازل فرما۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو میں نے بادل کو دیکھا وہ مدینہ کے اردگرد سے چھٹ رہا تھا گویا وہ تاج ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1174]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الجمعة 34 (932)، الاستسقاء 6 (1013)، 7 (1014)، 8 (1015)، 9 (1016)، 10 (1017)، 11 (1018)، 12 (1019)، 14 (1021)، 21 (1029)، 24 (1033)، المناقب 25 (3582)، (تحفة الأشراف: 493)، وقد أخرجہ: الاستسقاء 1 (897)، 2 (897)، سنن النسائی/الاستسقاء 1 (1503) 10، مسند احمد (3/104، 182، 194، 245، 261، 271) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 1175
حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُ، يَقُولُ: فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ: فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ بِحِذَاءِ وَجْهِهِ، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ اسْقِنَا" وَسَاقَ نَحْوَهُ.
شریک بن عبداللہ بن ابی نمر سے روایت ہے کہ انہوں نے انس رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا، پھر راوی نے عبدالعزیز کی روایت کی طرح ذکر کیا اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو اپنے چہرہ کے بالمقابل اٹھایا اور یہ دعا کی «اللهم اسقنا» اے اللہ! ہمیں سیراب فرما اور آگے انہوں نے اسی جیسی حدیث ذکر کی۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1175]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الاستسقاء 6 (1013)، 7 (1014)، 9 (1016)، 10 (1017)، صحیح مسلم/الاستسقاء 1 (897)، سنن النسائی/الاستسقاء 1 (1505)، (تحفة الأشراف: 906) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 1176
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ. ح حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ قَادِمٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَسْقَى، قَالَ:" اللَّهُمَّ اسْقِ عِبَادَكَ وَبَهَائِمَكَ، وَانْشُرْ رَحْمَتَكَ، وَأَحْيِ بَلَدَكَ الْمَيِّتَ". هَذَا لَفْظُ حَدِيثِ مَالِكٍ.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بارش کے لیے دعا مانگتے تو فرماتے: «اللهم اسق عبادك وبهائمك، وانشر رحمتك، وأحي بلدك الميت» اے اللہ! تو اپنے بندوں اور چوپایوں کو سیراب کر، اور اپنی رحمت عام کر دے، اور اپنے مردہ شہر کو زندگی عطا فرما (یہ مالک کی روایت کے الفاظ ہیں)۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1176]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 8816)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الاستسقاء عن عمرو بن شعیب مرسلاً 2 (3) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن

4. باب صَلاَةِ الْكُسُوفِ
4. باب: نماز کسوف کا بیان۔
حدیث نمبر: 1177
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، أَخْبَرَنِي مَنْ أُصَدِّقُ، وَظَنَنْتُ أَنَّهُ يُرِيدُ عَائِشَةَ، قَالَ: كُسِفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِيَامًا شَدِيدًا يَقُومُ بِالنَّاسِ، ثُمَّ يَرْكَعُ، ثُمَّ يَقُومُ، ثُمَّ يَرْكَعُ، ثُمَّ يَقُومُ، ثُمَّ يَرْكَعُ، فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ ثَلَاثُ رَكَعَاتٍ يَرْكَعُ الثَّالِثَةَ، ثُمَّ يَسْجُدُ حَتَّى إِنَّ رِجَالًا يَوْمَئِذٍ لَيُغْشَى عَلَيْهِمْ مِمَّا قَامَ بِهِمْ حَتَّى إِنَّ سِجَالَ الْمَاءِ لَتُصَبُّ عَلَيْهِمْ، يَقُولُ إِذَا رَكَعَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، وَإِذَا رَفَعَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، حَتَّى تَجَلَّتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ يُخَوِّفُ بِهِمَا عِبَادَهُ، فَإِذَا كُسِفَا فَافْزَعُوا إِلَى الصَّلَاةِ".
عبید بن عمیر سے روایت ہے کہ مجھے اس شخص نے خبر دی ہے جس کو میں سچا جانتا ہوں (عطا کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ اس سے ان کی مراد عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں) کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبا قیام کیا، آپ لوگوں کے ساتھ قیام میں رہے پھر رکوع میں رہے، پھر قیام میں رہے پھر رکوع میں رہے پھر قیام میں رہے پھر رکوع میں رہے اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں ہر رکعت میں آپ نے تین تین رکوع کیا ۱؎ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیسرا رکوع کرتے پھر سجدہ کرتے یہاں تک کہ آپ کے لمبے قیام کے باعث اس دن کچھ لوگوں کو (کھڑے کھڑے) غشی طاری ہو گئی اور ان پر پانی کے ڈول ڈالے گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرتے تو «الله أكبر» کہتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو «سمع الله لمن حمده» کہتے یہاں تک کہ سورج روشن ہو گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی کے مرنے یا جینے کی وجہ سے سورج یا چاند میں گرہن نہیں لگتا بلکہ یہ دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں، ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے لہٰذا جب ان دونوں میں گرہن لگے تو تم نماز کی طرف دوڑو۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1177]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الکسوف 1 (901)، سنن النسائی/الکسوف 10 (1471)، (تحفة الأشراف: 16323)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/76) (صحیح)» ‏‏‏‏ (لیکن «تین رکوع» والی بات صحیح نہیں ہے، صحیح دو رکوع ہے، جیسا کہ حدیث نمبر: (1180) میں آ رہا ہے)

قال الشيخ الألباني: صحيح م لكن قوله ثلاث ركعات شاذ والمحفوظ ركوعان كما في الصحيحين

5. باب مَنْ قَالَ أَرْبَعُ رَكَعَاتٍ
5. باب: نماز کسوف میں چار رکوع کے قائلین کی دلیل کا بیان۔
حدیث نمبر: 1178
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، حَدَّثَنِي عَطَاءٌ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُسِفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ ذَلِكَ فِي الْيَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ إِبْرَاهِيمُ بْنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّاسُ: إِنَّمَا كُسِفَتْ لِمَوْتِ إِبْرَاهِيمَ ابْنِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِالنَّاسِ سِتَّ رَكَعَاتٍ فِي أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ، كَبَّرَ، ثُمَّ قَرَأَ فَأَطَالَ الْقِرَاءَةَ، ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَرَأَ دُونَ الْقِرَاءَةِ الْأُولَى، ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَرَأَ الْقِرَاءَةَ الثَّالِثَةَ دُونَ الْقِرَاءَةِ الثَّانِيَةِ، ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَانْحَدَرَ لِلسُّجُودِ فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ فَرَكَعَ ثَلَاثَ رَكَعَاتٍ قَبْلَ أَنْ يَسْجُدَ لَيْسَ فِيهَا رَكْعَةٌ إِلَّا الَّتِي قَبْلَهَا أَطْوَلُ مِنَ الَّتِي بَعْدَهَا إِلَّا أَنَّ رُكُوعَهُ نَحْوٌ مِنْ قِيَامِهِ، قَالَ: ثُمَّ تَأَخَّرَ فِي صَلَاتِهِ فَتَأَخَّرَتِ الصُّفُوفُ مَعَهُ، ثُمَّ تَقَدَّمَ فَقَامَ فِي مَقَامِهِ وَتَقَدَّمَتِ الصُّفُوفُ فَقَضَى الصَّلَاةَ وَقَدْ طَلَعَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ بَشَرٍ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَصَلُّوا حَتَّى تَنْجَلِيَ". وَسَاقَ بَقِيَّةَ الْحَدِيثِ.
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن لگا، یہ اسی دن کا واقعہ ہے جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم کی وفات ہوئی، لوگ کہنے لگے کہ آپ کے صاحبزادے ابراہیم کی وفات کی وجہ سے سورج گرہن لگا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور لوگوں کو نماز (کسوف) پڑھائی، چار سجدوں میں چھ رکوع کیا ۱؎، اللہ اکبر کہا، پھر قرآت کی اور دیر تک قرآت کرتے رہے، پھر اتنی ہی دیر تک رکوع کیا جتنی دیر تک قیام کیا تھا، پھر رکوع سے سر اٹھایا اور پہلی قرآت کی بہ نسبت مختصر قرآت کی پھر اتنی ہی دیر تک رکوع کیا جتنی دیر تک قیام کیا تھا، پھر رکوع سے سر اٹھایا پھر تیسری قرآت کی جو دوسری قرآت کے بہ نسبت مختصر تھی اور اتنی دیر تک رکوع کیا جتنی دیر تک قیام کیا تھا، پھر رکوع سے سر اٹھایا، اس کے بعد سجدے کے لیے جھکے اور دو سجدے کئے، پھر کھڑے ہوئے اور سجدے سے پہلے تین رکوع کیے، ہر رکوع اپنے بعد والے سے زیادہ لمبا ہوتا تھا، البتہ رکوع قیام کے برابر ہوتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں پیچھے ہٹے تو صفیں بھی آپ کے ساتھ پیچھے ہٹیں، پھر آپ آگے بڑھے اور اپنی جگہ چلے گئے تو صفیں بھی آگے بڑھ گئیں پھر آپ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج (صاف ہو کر) نکل چکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، کسی انسان کے مرنے کی وجہ سے ان میں گرہن نہیں لگتا، لہٰذا جب تم اس میں سے کچھ دیکھو تو نماز میں مشغول ہو جاؤ، یہاں تک کہ وہ صاف ہو کر روشن ہو جائے، اور راوی نے بقیہ حدیث بیان کی۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1178]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الکسوف 3 (904)، سنن النسائی/الکسوف 12 (1477)، (تحفة الأشراف: 2438)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/274، 382) (صحیح)» ‏‏‏‏ (چھ رکوع والی بات شاذ ہے، صحیح ’’چار رکوع‘‘ ہے)

قال الشيخ الألباني: صحيح وساق بقية الحديث

حدیث نمبر: 1179
حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: كُسِفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمٍ شَدِيدِ الْحَرِّ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَصْحَابِهِ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ حَتَّى جَعَلُوا يَخِرُّونَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ فَصَنَعَ نَحْوًا مِنْ ذَلِكَ فَكَانَ أَرْبَعُ رَكَعَاتٍ وَأَرْبَعُ سَجَدَاتٍ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں سخت گرمی کے دن میں سورج گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو نماز کسوف پڑھائی، (اس میں) آپ نے لمبا قیام کیا یہاں تک کہ لوگ گرنے لگے پھر آپ نے رکوع کیا تو لمبا (رکوع) کیا پھر رکوع سے سر اٹھایا تو لمبا قیام کیا، پھر رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا، پھر رکوع سے سر اٹھایا تو لمبا (قیام) کیا، پھر دو سجدے کئے پھر (دوسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوئے تو ویسے ہی کیا، اس طرح (دو رکعت میں) چار رکوع اور چار سجدے ہوئے اور راوی نے پوری حدیث بیان کی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1179]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الکسوف 3 (904)، سنن النسائی/الکسوف 12 (1479)، (تحفة الأشراف: 2976)، وقد أخرجہ: (3/374، 382، 335، 349) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 1180
حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ. ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْمُرَادِيُّ /a>، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: خُسِفَتِ الشَّمْسُ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَقَامَ، فَكَبَّرَ، وَصَفَّ النَّاسُ وَرَاءَهُ، فَاقْتَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً، ثُمَّ كَبَّرَ، فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، ثُمَّ قَامَ فَاقْتَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً هِيَ أَدْنَى مِنَ الْقِرَاءَةِ الْأُولَى، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا هُوَ أَدْنَى مِنَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الْأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ فَاسْتَكْمَلَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ، وَانْجَلَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَنْصَرِفَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں سورج گرہن لگا تو آپ مسجد کی طرف نکلے اور (نماز کے لیے) کھڑے ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «الله أكبر» کہا اور لوگوں نے آپ کے پیچھے صف لگائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبی قرات کی پھر «الله أكبر» کہہ کر لمبا رکوع کیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور «سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد» کہا، پھر کھڑے رہے اور لمبی قرآت کی، اور یہ پہلی قرآت سے کچھ مختصر تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «الله أكبر» کہہ کر لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کچھ مختصر تھا، (پھر رکوع سے سر اٹھایا) اور «سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد» کہا، پھر دوسری رکعت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا اس طرح (دو رکعت میں) آپ نے پورے چار رکوع اور چار سجدے کئے، اور آپ کے نماز سے فارغ ہونے سے پہلے سورج روشن ہو گیا۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1180]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الکسوف 4 (1046)، 5 (1047)، 13 (1058)، والعمل في الصلاة 11 (1212)، وبدء الخلق 4 (3199)، صحیح مسلم/ الکسوف 1 (901)، سنن النسائی/ الکسوف 11 (1476)، سنن ابن ماجہ/ إقامة الصلاة 152 (1263)، (تحفة الأشراف: 16692)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/ الصلاة 279 (الجمعة 44) (561)، موطا امام مالک/صلاة الکسوف 1 (1)، مسند احمد (6/76، 78، 164، 168)، سنن الدارمی/ الصلاة 187 (1568) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح


Previous    1    2    3    4    Next