6. باب فِي الرَّجُلِ يَسْمَعُ السَّجْدَةَ وَهُوَ رَاكِبٌ وَفِي غَيْرِ الصَّلاَةِ
6. باب: سوار یا وہ شخص جو نماز میں نہ ہو سجدے کی آیت سنے تو کیا کرے؟
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے سال سجدے والی آیت پڑھی تو تمام لوگوں نے سجدہ کیا، کچھ ان میں سوار تھے اور کچھ زمین پر سجدہ کرنے والے تھے حتیٰ کہ سوار اپنے ہاتھ پر سجدہ کر رہے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب سجود القرآن /حدیث: 1411]
تخریج الحدیث: «تفرد به أبوداود، (تحفة الأشراف:8444) (ضعیف)» (اس کے راوی مصعب لین الحدیث ہیں مگر صحیحین میں یہی روایت قدرے مختصر سیاق میں موجود ہے جیسا کہ اگلی حدیث میں ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سورۃ پڑھ کر سناتے (ابن نمیر کی روایت میں ہے) ”نماز کے علاوہ میں“ (آگے یحییٰ بن سعید اور ابن نمیر سیاق حدیث میں متفق ہیں)، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (سجدہ کی آیت آنے پر) سجدہ کرتے، ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے یہاں تک کہ ہم میں سے بعض کو اپنی پیشانی رکھنے کی جگہ نہ مل پاتی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب سجود القرآن /حدیث: 1412]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/سجود القرآن 8 (1075)، صحیح مسلم/المساجد 20 (575)، (تحفة الأشراف:8008، 8014)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/157)، سنن الدارمی/الصلاة 161 (1507) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو قرآن سناتے، جب کسی سجدے کی آیت سے گزرتے تو ”الله أكبر“ کہتے اور سجدہ کرتے اور آپ کے ساتھ ہم بھی سجدہ کرتے۔ عبدالرزاق کہتے ہیں: یہ حدیث ثوری کو اچھی لگتی تھی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: انہیں یہ اس لیے پسند تھی کہ اس میں ”الله أكبر“ کا ذکر ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب سجود القرآن /حدیث: 1413]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف:7726) (منکر)» (سجدہ کے لئے تکبیر کا تذکرہ منکر ہے، نافع سے روایت کرنے والے عبداللہ العمری ضعیف ہیں، بغیر تکبیر کے تذکرے کے یہ حدیث ثابت ہے جیسا کہ پچھلی حدیث میں ہے، البتہ دوسروے دلائل سے تکبیر ثابت ہے)
قال الشيخ الألباني: منكر والمحفوظ دونه
7. باب مَا يَقُولُ إِذَا سَجَدَ
7. باب: سجدہ تلاوت میں کیا پڑھے؟
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي سُجُودِ الْقُرْآنِ بِاللَّيْلِ، يَقُولُ فِي السَّجْدَةِ مِرَارًا:" سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں قرآن کے سجدوں میں کئی بار «سجد وجهي للذي خلقه وشق سمعه وبصره بحوله وقوته» یعنی ”میرے چہرے نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اپنی قوت و طاقت سے اسے پیدا کیا اور اس کے کان اور آنکھ بنائے“ کہتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب سجود القرآن /حدیث: 1414]
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 290 (الجمعة 55) (580)، والدعوات 33 (3425)، سنن النسائی/التطبیق 70 (1130)، (تحفة الأشراف:16083)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/30، 217) (صحیح)» (ترمذی اور نسائی کے یہاں سند میں عن رجل (مجہول راوی) نہیں ہے، اور خالد الخداء کی روایت ابوالعالیہ سے ثابت ہے اس لئے اس حدیث کی صحت میں کوئی کلام نہیں)
قال الشيخ الألباني: صحيح
8. باب فِيمَنْ يَقْرَأُ السَّجْدَةَ بَعْدَ الصُّبْحِ
8. باب: جو شخص فجر کے بعد سجدہ والی آیت پڑھے تو وہ کب سجدہ کرے؟
ابوتمیمہ طریف بن مجالد ہجیمی کہتے ہیں کہ جب ہم قافلہ کے ساتھ مدینہ آئے تو میں فجر کے بعد وعظ کہا کرتا تھا، اور (سجدہ کی آیت پڑھنے کے بعد) سجدہ کرتا تھا تو مجھے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے تین مرتبہ منع کیا، لیکن میں باز نہیں آیا، آپ نے پھر کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے نماز پڑھی لیکن کسی نے سجدہ نہیں کیا یہاں تک کہ سورج نکل آیا۔ [سنن ابي داود/كتاب سجود القرآن /حدیث: 1415]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:7110)، وقد أخرجہ: (حم (2/24، 106) (ضعیف)» (اس کے راوی ابوبحر عبدالرحمن بن عثمان ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف