الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ
کتاب: جہاد کے مسائل
7. باب فِي فَضْلِ الْقَفْلِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى
7. باب: جہاد سے (فارغ ہو کر) لوٹنے کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2487
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ عَنِ ابْنِ شُفَيٍّ، عَنْ شُفَيِّ بْنِ مَاتِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ هُوَ ابْنُ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" قَفْلَةٌ كَغَزْوَةٍ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہاد سے لوٹنا (ثواب میں) جہاد ہی کی طرح ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2487]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 8826)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/174) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

8. باب فَضْلِ قِتَالِ الرُّومِ عَلَى غَيْرِهِمْ مِنَ الأُمَمِ
8. باب: دوسری قوموں کے مقابلے میں رومیوں سے لڑنے کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2488
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَلَّامٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ فَرَجِ بْنِ فَضَالَةَ، عَنْ عَبْدِ الْخَبِيرِ بْنِ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَالُ لَهَا أُمُّ خَلَّادٍ وَهِيَ مُنْتَقِبَةٌ تَسْأَلُ عَنِ ابْنِهَا وَهُوَ مَقْتُولٌ، فَقَالَ لَهَا بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: جِئْتِ تَسْأَلِينَ عَنِ ابْنِكِ وَأَنْتِ مُنْتَقِبَةٌ، فَقَالَتْ: إِنْ أُرْزَأَ ابْنِي فَلَنْ أُرْزَأَ حَيَائِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ابْنُكِ لَهُ أَجْرُ شَهِيدَيْنِ" قَالَتْ: وَلِمَ ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" لِأَنَّهُ قَتَلَهُ أَهْلُ الْكِتَابِ".
قیس بن شماس کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی جس کو ام خلاد کہا جاتا تھا وہ نقاب پوش تھی، وہ اپنے شہید بیٹے کے بارے میں پوچھ رہی تھی، ایک صحابی نے اس سے کہا: تو اپنے بیٹے کو پوچھنے چلی ہے اور نقاب پہنے ہوئی ہے؟ اس نے کہا: اگر میں اپنے لڑکے کی جانب سے مصیبت زدہ ہوں تو میری حیاء کو مصیبت نہیں لاحق ہوئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرے بیٹے کے لیے دو شہیدوں کا ثواب ہے، وہ کہنے لگی: ایسا کیوں؟ اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس وجہ سے کہ اس کو اہل کتاب نے مارا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2488]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 2068) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی عبد الخبیر مجہول ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

9. باب فِي رُكُوبِ الْبَحْرِ فِي الْغَزْوِ
9. باب: جہاد کے لیے سمندر کے سفر کا بیان۔
حدیث نمبر: 2489
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ زَكَرِيَّا، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ بِشْرٍ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَرْكَبُ الْبَحْرَ إِلَّا حَاجٌّ أَوْ مُعْتَمِرٌ أَوْ غَازٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَإِنَّ تَحْتَ الْبَحْرِ نَارًا وَتَحْتَ النَّارِ بَحْرًا".
عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سمندر کا سفر نہ کرے مگر حج کرنے والا، یا عمرہ کرنے والا، یا اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والا کیونکہ سمندر کے نیچے آگ ہے اور اس آگ کے نیچے سمندر ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2489]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 8609) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی بشر اور بشیر دونوں مجہول ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

10. باب فَضْلِ الْغَزْوِ فِي الْبَحْرِ
10. باب: سمندر میں جہاد کرنے کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2490
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ حَرَامٍ بِنْتُ مِلْحَانَ أُخْتُ أُمِّ سُلَيْمٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عِنْدَهُمْ فَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَضْحَكَكَ؟ قَالَ:" رَأَيْتُ قَوْمًا مِمَّنْ يَرْكَبُ ظَهْرَ هَذَا الْبَحْرِ كَالْمُلُوكِ عَلَى الأَسِرَّةِ قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ قَالَ:" فَإِنَّكِ مِنْهُمْ"، قَالَتْ: ثُمَّ نَامَ فَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَضْحَكَكَ فَقَالَ مِثْلَ مَقَالَتِهِ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ:" أَنْتِ مِنَ الأَوَّلِينَ" قَالَ: فَتَزَوَّجَهَا عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ فَغَزَا فِي الْبَحْرِ فَحَمَلَهَا مَعَهُ فَلَمَّا رَجَعَ قُرِّبَتْ لَهَا بَغْلَةٌ لِتَرْكَبَهَا فَصَرَعَتْهَا فَانْدَقَّتْ عُنُقُهَا فَمَاتَتْ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کی بہن ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے یہاں قیلولہ کیا، پھر بیدار ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ فرمایا: میں نے اپنی امت میں سے چند لوگوں کو دیکھا جو اس سمندر کی پشت پر سوار ہیں جیسے بادشاہ تخت پر، میں نے کہا: اللہ کے رسول! دعا کیجئے، اللہ مجھ کو ان لوگوں میں سے کر دے، فرمایا: تو انہیں میں سے ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے اور ہنستے ہوئے بیدار ہوئے، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کے ہنسنے کا سبب کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی فرمایا جو پہلے فرمایا تھا، میں نے کہا: اللہ کے رسول! دعا کیجئے، اللہ مجھ کو ان لوگوں میں سے کر دے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پہلے لوگوں میں سے ہے۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو ان سے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے شادی کی، پھر انہوں نے سمندر میں جہاد کیا توا نہیں بھی اپنے ساتھ لے گئے، جب لوٹے تو ایک خچر ان کی سواری کے لیے ان کے قریب لایا گیا، تو اس نے انہیں گرا دیا جس سے ان کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ انتقال کر گئیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2490]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الجھاد 3 (2788)، 8 (2799)، 63 (2877)، 75 (2894)، 93 (2924)، الاستئذان 41 (6282)، والتعبیر 12 (7001)، صحیح مسلم/الجہاد 49 (1912)، سنن الترمذی/فضائل الجھاد 15 (1645)، سنن النسائی/الجھاد 40 (3174)، سنن ابن ماجہ/الجھاد 10 (2776)، (تحفة الأشراف: 18307)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الجھاد 18(39)، مسند احمد (3/264، 6/361، 423، 435)، دی/ الجہاد 29 (2465) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 2491
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَهَبَ إِلَى قُبَاءٍ يَدْخُلُ عَلَى أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ وَكَانَتْ تَحْتَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا يَوْمًا فَأَطْعَمَتْهُ وَجَلَسَتْ تَفْلِي رَأْسَهُ وَسَاقَ هَذَا الْحَدِيثَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَمَاتَتْ بِنْتُ مِلْحَانَ بِقُبْرُصَ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قباء جاتے تو ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کے پاس جاتے، یہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھیں، ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے تو انہوں نے آپ کو کھانا کھلایا اور بیٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کی جوئیں نکالنے لگیں ۱؎، اور آگے راوی نے یہی حدیث بیان کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: بنت ملحان کا انتقال قبرص میں ہوا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2491]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الجھاد 3 (2788)، الاستئذان 41 (6282)، التعبیر 12 (7001)، صحیح مسلم/الجہاد 49 (1912)، سنن الترمذی/الجھاد 15 (1645)، سنن النسائی/الجھاد 40 (3173)، سنن ابن ماجہ/الجھاد 18 (39)، (تحفة الأشراف: 199)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/240) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 2492
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أُخْتِ أُمِّ سُلَيْمٍ الرُّمَيْصَاءِ، قَالَتْ: نَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَيْقَظَ وَكَانَتْ تَغْسِلُ رَأْسَهَا فَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَضْحَكُ مِنْ رَأْسِي؟ قَالَ: لَا، وَسَاقَ هَذَا الْخَبَرَ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ. قَالَ أَبُو دَاوُد: الرُّمَيْصَاءُ أُخْتُ أُمِّ سُلَيْمٍ مِنَ الرَّضَاعَةِ.
ام حرام رمیصاء ۱؎ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سوئے پھر بیدار ہوئے، اور وہ اپنا سر دھو رہی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنستے ہوئے بیدار ہوئے، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ میرے بال دیکھ کر ہنس رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، پھر انہوں نے یہی حدیث کچھ کمی بیشی کے ساتھ بیان کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: رمیصاء ام سلیم کی رضاعی بہن تھیں ۲؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2492]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم: (2490)، (تحفة الأشراف: 18307) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 2493
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارٍ الْعَيْشِيُّ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ. ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ الْجَوْبَرِيُّ الدِّمَشْقِيُّ الْمَعْنَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ،أَخْبَرَنَا هِلَالُ بْنُ مَيْمُونٍ الرَّمْلِيِّ، عَنْ يَعْلَى بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ أُمِّ حَرَامٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:" الْمَائِدُ فِي الْبَحْرِ الَّذِي يُصِيبُهُ الْقَيْءُ لَهُ أَجْرُ شَهِيدٍ وَالْغَرِقُ لَهُ أَجْرُ شَهِيدَيْنِ".
ام حرام رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جہاد یا حج کے لیے) سمندر میں سوار ہونے سے جس کا سر گھومے اور اسے قے آئے تو اس کے لیے ایک شہید کا ثواب ہے، اور جو ڈوب جائے تو اس کے لیے دو شہیدوں کا ثواب ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2493]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 18309) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن

حدیث نمبر: 2494
حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ عَتِيقٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ سَمَاعَةَ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" ثَلَاثَةٌ كُلُّهُمْ ضَامِنٌ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ رَجُلٌ خَرَجَ غَازِيًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَهُوَ ضَامِنٌ عَلَى اللَّهِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُ، فَيُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ أَوْ يَرُدَّهُ بِمَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ وَغَنِيمَةٍ، وَرَجُلٌ رَاحَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَهُوَ ضَامِنٌ عَلَى اللَّهِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُ، فَيُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ أَوْ يَرُدَّهُ بِمَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ وَغَنِيمَةٍ، وَرَجُلٌ دَخَلَ بَيْتَهُ بِسَلَامٍ فَهُوَ ضَامِنٌ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین قسم کے افراد ایسے ہیں جن کا ضامن اللہ تعالیٰ ہے: ایک وہ جو اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلے، اللہ اس کا ضامن ہے یا اسے وفات دے کر جنت میں داخل کرے گا، یا اجر اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹائے گا، دوسرا وہ شخص جو مسجد کی طرف چلا، اللہ اس کا ضامن ہے یا اسے وفات دے کر جنت میں داخل کرے گا، یا اجر اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹائے گا، تیسرا وہ شخص جو اپنے گھر میں سلام کر کے داخل ہوا، اللہ اس کا بھی ضامن ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2494]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 4875) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

11. باب فِي فَضْلِ مَنْ قَتَلَ كَافِرًا
11. باب: کافر کو قتل کرنے والے کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2495
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ، عَنِ الْعَلَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَجْتَمِعُ فِي النَّارِ كَافِرٌ وَقَاتِلُهُ أَبَدًا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کافر اور اس کو قتل کرنے والا مسلمان دونوں جہنم میں کبھی بھی اکٹھا نہ ہوں گے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2495]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الإمارة 36 (1891)، (تحفة الأشراف: 14004)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/263، 368، 378) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

12. باب فِي حُرْمَةِ نِسَاءِ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ
12. باب: جہاد میں حصہ نہ لینے والے لوگوں پر مجاہدین کی بیویوں کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2496
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ قَعْنَبٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" حُرْمَةُ نِسَاءِ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ كَحُرْمَةِ أُمَّهَاتِهِمْ وَمَا مِنْ رَجُلٍ مِنَ الْقَاعِدِينَ يَخْلُفُ رَجُلًا مِنَ الْمُجَاهِدِينَ فِي أَهْلِهِ إِلَّا نُصِبَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، فَقِيلَ لَهُ: هَذَا قَدْ خَلَفَكَ فِي أَهْلِكَ، فَخُذْ مِنْ حَسَنَاتِهِ مَا شِئْتَ، فَالْتَفَتَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مَا ظَنُّكُمْ؟، قَالَ أَبُو دَاوُد: كَانَ قَعْنَبٌ رَجُلًا صَالِحًا وَكَانَ ابْنُ أَبِي لَيْلَى أَرَادَ قَعْنَبًا عَلَى الْقَضَاءِ فَأَبَى عَلَيْهِ، وَقَالَ: أَنَا أُرِيدُ الْحَاجَةَ بِدِرْهَمٍ فَأَسْتَعِينُ عَلَيْهَا بِرَجُلٍ قَالَ: وَأَيُّنَا لَا يَسْتَعِينُ فِي حَاجَتِهِ قَالَ: أَخْرِجُونِي حَتَّى أَنْظُرَ فَأُخْرِجَ، فَتَوَارَى قَالَ سُفْيَانُ: بَيْنَمَا هُوَ مُتَوَارٍ إِذْ وَقَعَ عَلَيْهِ الْبَيْتُ فَمَاتَ.
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجاہدین کی بیویوں کی حرمت جہاد سے بیٹھے رہنے والے لوگوں پر ایسی ہے جیسے ان کی ماؤں کی حرمت ہے، اور جو خانہ نشین مرد مجاہدین کے گھربار کی خدمت میں رہے، پھر ان کے اہل میں خیانت کرے تو قیامت کے دن ایسا شخص کھڑا کیا جائے گا اور مجاہد سے کہا جائے گا: اس شخص نے تیرے اہل و عیال میں تیری خیانت کی اب تو اس کی جتنی نیکیاں چاہے لے لے، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: پھر تم کیا سمجھتے ہو ۱؎؟ ابوداؤد کہتے ہیں: قعنب ایک نیک آدمی تھے، ابن ابی لیلیٰ نے قعنب کو قاضی بنانے کا ارادہ کیا تو انہوں نے اس سے انکار کیا، اور کہا کہ میں ایک درہم میں اپنی ضرورت پوری کرنا چاہتا ہوں کہ میں اس میں کسی آدمی کی مدد لے سکوں، پھر کہا: کون ہے جو اپنی ضرورت کے لیے کسی سے مدد نہیں لیتا، پھر عرض کیا: تم لوگ مجھے نکال دو یہاں تک کہ میں دیکھوں (کہ کیسے میری ضرورت پوری ہوتی ہے) تو انہیں نکال دیا گیا، پھر وہ (ایک مکان میں) چھپ گئے، سفیان کہتے ہیں: اسی دوران کہ وہ چھپے ہوئے تھے وہ مکان ان پر گر پڑا اور وہ مر گئے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2496]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الإمارة 39 (1897)، سنن النسائی/الجھاد 47 (3191)، (تحفة الأشراف: 1933)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/352، 355) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح


Previous    1    2    3    4    5    6    Next