الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ابي داود
كِتَاب الضَّحَايَا
کتاب: قربانی کے مسائل
حدیث نمبر: 2798
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صُدْرَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي عُمَارَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ طُعْمَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَصْحَابِهِ ضَحَايَا فَأَعْطَانِي عَتُودًا جَذَعًا،: فَرَجَعْتُ بِهِ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّهُ جَذَعٌ، قَالَ: ضَحِّ بِهِ، فَضَحَّيْتُ بِهِ.
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام میں قربانی کے جانور تقسیم کئے تو مجھ کو ایک بکری کا بچہ جو جذع تھا (یعنی دوسرے سال میں داخل ہو چکا تھا) دیا، میں اس کو لوٹا کر آپ کے پاس لایا اور میں نے کہا کہ یہ جذع ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی قربانی کر ڈالو، تو میں نے اسی کی قربانی کر ڈالی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الضَّحَايَا/حدیث: 2798]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3751)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الوکالة 1 (2300)، والشرکة 12 (2500)، والأضاحي 2، (5547) 7 (5555)، صحیح مسلم/الأضاحي 2 (1965)، سنن الترمذی/الأضاحي 7 (1500)، سنن النسائی/الضحایا 12 (4384)، سنن ابن ماجہ/الأضاحي 7 (3138)، مسند احمد (4/149، 152، 5/194)، سنن الدارمی/الأضاحي 4 (1996)، کلھم عن عقبة بن عامر رضي اللہ عنہ (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

حدیث نمبر: 2799
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا الثَّوْرِيُّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُقَالُ لَهُ مُجَاشِعٌ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ فَعَزَّتِ الْغَنَمُ فَأَمَرَ مُنَادِيًا، فَنَادَى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ:" إِنَّ الْجَذَعَ يُوَفِّي مِمَّا يُوَفِّي مِنْهُ الثَّنِيُّ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهُوَ مُجَاشِعُ بْنُ مَسْعُودٍ.
کلیب کہتے ہیں کہ ہم مجاشع نامی بنی سلیم کے ایک صحابی رسول کے ساتھ تھے اس وقت بکریاں مہنگی ہو گئیں تو انہوں نے منادی کو حکم دیا کہ وہ اعلان کر دے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فر ماتے تھے: جذع (ایک سالہ) اس چیز سے کفایت کرتا ہے جس سے «ثنی» (وہ جانور جس کے سامنے کے دانت گر گئے ہوں) کفایت کرتا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ مجاشع بن مسعود رضی اللہ عنہ تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الضَّحَايَا/حدیث: 2799]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الضحایا 12(4389)، سنن ابن ماجہ/الأضاحي 7 (3140)، (تحفة الأشراف: 11211)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/368) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 2800
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْبَرَاءِ قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَقَالَ:" مَنْ صَلَّى صَلَاتَنَا وَنَسَكَ نُسُكَنَا فَقَدْ أَصَابَ النُّسُكَ، وَمَنْ نَسَكَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَتِلْكَ شَاةُ لَحْمٍ، فَقَامَ أَبُو بُرْدَةَ بْنُ نِيَارٍ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ لَقَدْ نَسَكْتُ قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ إِلَى الصَّلَاةِ، وَعَرَفْتُ أَنَّ الْيَوْمَ يَوْمُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ، فَتَعَجَّلْتُ فَأَكَلْتُ وَأَطْعَمْتُ أَهْلِي وَجِيرَانِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تِلْكَ شَاةُ لَحْمٍ، فَقَالَ: إِنَّ عِنْدِي عَنَاقًا جَذَعَةً وَهِيَ خَيْرٌ مِنْ شَاتَيْ لَحْمٍ فَهَلْ تُجْزِئُ عَنِّي، قَالَ: نَعَمْ، وَلَنْ تُجْزِئَ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ".
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دسویں ذی الحجہ کو نماز عید کے بعد ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا: جس نے ہماری نماز کی طرح نماز پڑھی، اور ہماری قربانی کی طرح قربانی کی، تو اس نے قربانی کی (یعنی اس کو قربانی کا ثواب ملا) اور جس نے نماز عید سے پہلے قربانی کر لی تو وہ گوشت کی بکری ۱؎ ہو گی، یہ سن کر ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے تو نماز کے لیے نکلنے سے پہلے قربانی کر ڈالی اور میں نے یہ سمجھا کہ یہ دن کھانے اور پینے کا دن ہے، تو میں نے جلدی کی، میں نے خود کھایا، اور اپنے اہل و عیال اور ہمسایوں کو بھی کھلایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ گوشت کی بکری ہے ۲؎، تو انہوں نے کہا: میرے پاس ایک سالہ جوان بکری اور وہ گوشت کی دو بکریوں سے بہتر ہے، کیا وہ میری طرف سے کفایت کرے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، لیکن تمہارے بعد کسی کے لیے کافی نہ ہو گی (یعنی یہ حکم تمہارے لیے خاص ہے)۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الضَّحَايَا/حدیث: 2800]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/العیدین 3 (951)، 5 (955)، 8 (975)، 10 (968)، 17 (976)، 23 (983)، الأضاحي 1 (5545) (5556)، 8 (5557)، 11 (5557)، 12 (5563)، الأیمان والنذور 15 (6673)، صحیح مسلم/الأضاحي 1 (1961)، سنن الترمذی/الأضاحي 12 (1508)، سنن النسائی/العیدین 8 (1564)، الضحایا 16 (4400)، (تحفة الأشراف: 1769)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/280، 297، 302، 303)، سنن الدارمی/الأضاحي 7 (2005) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 2801
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: ضَحَّى خَالٌ لِي يُقَالُ لَهُ أَبُو بُرْدَةَ قَبْلَ الصَّلَاةِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" شَاتُكَ شَاةُ لَحْمٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ عِنْدِي دَاجِنًا جَذَعَةً مِنَ الْمَعْزِ، فَقَالَ: اذْبَحْهَا وَلَا تَصْلُحُ لِغَيْرِكَ".
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے ابوبردہ نامی ایک ماموں نے نماز سے پہلے قربانی کر لی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: یہ تمہاری بکری گوشت کی بکری ہوئی، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس بکریوں میں سے ایک پلی ہوئی جذعہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسی کو ذبح کر ڈالو، لیکن تمہارے سوا اور کسی کے لیے ایسا کرنا درست نہیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الضَّحَايَا/حدیث: 2801]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 1769) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

6. باب مَا يُكْرَهُ مِنَ الضَّحَايَا
6. باب: قربانی میں کون سا جانور مکروہ ہے۔
حدیث نمبر: 2802
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ فَيْرُوزَ، قَالَ: سَأَلْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ مَا لَا يَجُوزُ فِي الأَضَاحِيِّ، فَقَالَ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَصَابِعِي أَقْصَرُ مِنْ أَصَابِعِهِ، وَأَنَامِلِي أَقْصَرُ مِنْ أَنَامِلِهِ، فَقَالَ: أَرْبَعٌ لَا تَجُوزُ فِي الأَضَاحِيِّ الْعَوْرَاءُ بَيِّنٌ عَوَرُهَا، وَالْمَرِيضَةُ بَيِّنٌ مَرَضُهَا، وَالْعَرْجَاءُ بَيِّنٌ ظَلْعُهَا، وَالْكَسِيرُ الَّتِي لَا تَنْقَى، قَالَ: قُلْتُ: فَإِنِّي أَكْرَهُ أَنْ يَكُونَ فِي السِّنِّ نَقْصٌ، قَالَ: مَا كَرِهْتَ فَدَعْهُ، وَلَا تُحَرِّمْهُ عَلَى أَحَدٍ، قَالَ أَبُو دَاوُد: لَيْسَ لَهَا مُخٌّ.
عبید بن فیروز کہتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ: کون سا جانور قربانی میں درست نہیں ہے؟ تو آپ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے، میری انگلیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں سے چھوٹی ہیں اور میری پوریں آپ کی پوروں سے چھوٹی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار انگلیوں سے اشارہ کیا اور فرمایا: چار طرح کے جانور قربانی کے لائق نہیں ہیں، ایک کانا جس کا کانا پن بالکل ظاہر ہو، دوسرے بیمار جس کی بیماری بالکل ظاہر ہو، تیسرے لنگڑا جس کا لنگڑا پن بالکل واضح ہو، اور چوتھے دبلا بوڑھا کمزور جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو، میں نے کہا: مجھے قربانی کے لیے وہ جانور بھی برا لگتا ہے جس کے دانت میں نقص ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو تمہیں ناپسند ہو اس کو چھوڑ دو لیکن کسی اور پر اس کو حرام نہ کرو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ( «لا تنقى» کا مطلب یہ ہے کہ) اس کی ہڈی میں گودا نہ ہو۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الضَّحَايَا/حدیث: 2802]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الأضاحي 5 (1497)، سنن النسائی/الضحایا 4 (4374)، سنن ابن ماجہ/الأضاحي 8 (3144)، (تحفة الأشراف: 1790)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الضحایا 1(1)، مسند احمد (4/284، 289، 300، 301)، سنن الدارمی/الأضاحي 3 (1992) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 2803
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا. ح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرِ بْنِ بَرِيٍّ، حَدَّثَنَا عِيسَى، الْمَعْنَى عَنْ ثَوْرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو حُمَيْدٍ الرُّعَيْنِيُّ، أَخْبَرَنِي يَزِيدُ ذُو مِصْرٍ، قَالَ: أَتَيْتُ عُتْبَةَ بْنَ عَبْدٍ السُّلَمِيَّ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا الْوَلِيدِ إِنِّي خَرَجْتُ أَلْتَمِسُ الضَّحَايَا، فَلَمْ أَجِدْ شَيْئًا يُعْجِبُنِي غَيْرَ ثَرْمَاءَ فَكَرِهْتُهَا، فَمَا تَقُولُ؟ قَالَ: أَفَلَا جِئْتَنِي بِهَا؟ قُلْتُ: سُبْحَانَ اللَّهِ تَجُوزُ عَنْكَ، وَلَا تَجُوزُ عَنِّي، قَالَ: نَعَمْ إِنَّكَ تَشُكُّ وَلَا أَشُكُّ، إِنَّمَا نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُصْفَرَّةِ وَالْمُسْتَأْصَلَةِ وَالْبَخْقَاءِ وَالْمُشَيَّعَةِ وَالْكَسْرَاءُ فَالْمُصْفَرَّةُ الَّتِي تُسْتَأْصَلُ أُذُنُهَا حَتَّى يَبْدُوَ سِمَاخُهَا، وَالْمُسْتَأْصَلَةُ الَّتِي اسْتُؤْصِلَ قَرْنُهَا مِنْ أَصْلِهِ، وَالْبَخْقَاءُ الَّتِي تُبْخَقُ عَيْنُهَا، وَالْمُشَيَّعَةُ الَّتِي لَا تَتْبَعُ الْغَنَمَ عَجْفًا وَضَعْفًا، وَالْكَسْرَاءُ الْكَسِيرَةُ.
یزید ذومصر کہتے ہیں کہ میں عتبہ بن عبد سلمی کے پاس آیا اور ان سے کہا: ابوالولید! میں قربانی کے لیے جانور ڈھونڈھنے کے لیے نکلا تو مجھے سوائے ایک بکری کے جس کا ایک دانت گر چکا ہے کوئی جانور پسند نہ آیا، تو میں نے اسے لینا اچھا نہیں سمجھا، اب آپ کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا: اس کو تم میرے لیے کیوں نہیں لے آئے، میں نے کہا: سبحان اللہ! آپ کے لیے درست ہے اور میرے لیے درست نہیں، انہوں نے کہا: ہاں تم کو شک ہے مجھے شک نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بس «مصفرة والمستأصلة والبخقاء والمشيعة»، اور «كسراء» سے منع کیا ہے، «مصفرة» وہ ہے جس کا کان اتنا کٹا ہو کہ کان کا سوراخ کھل گیا ہو، «مستأصلة» وہ ہے جس کی سینگ جڑ سے اکھڑ گئی ہو، «بخقاء» وہ ہے جس کی آنکھ کی بینائی جاتی رہے اور آنکھ باقی ہو، اور «مشيعة» وہ ہے جو لاغری اور ضعف کی وجہ سے بکریوں کے ساتھ نہ چل پاتی ہو بلکہ پیچھے رہ جاتی ہو، «كسراء» وہ ہے جس کا ہاتھ پاؤں ٹوٹ گیا ہو، (لہٰذا ان کے علاوہ باقی سب جانور درست ہیں، پھر شک کیوں کرتے ہو)۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الضَّحَايَا/حدیث: 2803]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 9752)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/158) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی یزید ذومصر لین الحدیث ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

حدیث نمبر: 2804
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ النُّعْمَانِ، وَكَانَ رَجُلَ صِدْقٍ عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالأُذُنَيْنِ، وَلَا نُضَحِّي بِعَوْرَاءَ وَلَا مُقَابَلَةٍ وَلَا مُدَابَرَةٍ وَلَا خَرْقَاءَ وَلَا شَرْقَاءَ، قَالَ زُهَيْرٌ: فَقُلْتُ لِأَبِي إِسْحَاق: أَذَكَرَ عَضْبَاءَ، قَالَ، لَا قُلْتُ: فَمَا الْمُقَابَلَةُ؟ قَال: يُقْطَعُ طَرَفُ الأُذُنِ، قُلْتُ: فَمَا الْمُدَابَرَةُ؟ قَالَ: يُقْطَعُ مِنْ مُؤَخَّرِ الأُذُنِ، قُلْتُ: فَمَا الشَّرْقَاءُ؟ قَالَ: تُشَقُّ الأُذُنُ، قُلْتُ: فَمَا الْخَرْقَاءُ؟ قَالَ: تُخْرَقُ أُذُنُهَا لِلسِّمَةِ.
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو حکم دیا کہ قربانی کے جانور کی آنکھ اور کان خوب دیکھ لیں (کہ اس میں ایسا نقص نہ ہو جس کی وجہ سے قربانی درست نہ ہو) اور کانے جانور کی قربانی نہ کریں، اور نہ «مقابلة» کی، نہ «مدابرة» کی، نہ «خرقاء» کی اور نہ «شرقاء» کی۔ زہیر کہتے ہیں: میں نے ابواسحاق سے پوچھا: کیا «عضباء» کا بھی ذکر کیا؟ تو انہوں نے کہا: نہیں ( «عضباء» اس بکری کو کہتے ہیں جس کے کان کٹے ہوں اور سینگ ٹوٹے ہوں)۔ میں نے پوچھا «مقابلة» کے کیا معنی ہیں؟ کہا: جس کا کان اگلی طرف سے کٹا ہو، پھر میں نے کہا: «مدابرة» کے کیا معنی ہیں؟ کہا: جس کے کان پچھلی طرف سے کٹے ہوں، میں نے کہا: «خرقاء» کیا ہے؟ کہا: جس کے کان پھٹے ہوں (گولائی میں) میں نے کہا: «شرقاء» کیا ہے؟ کہا: جس بکری کے کان لمبائی میں چرے ہوئے ہوں (نشان کے لیے)۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الضَّحَايَا/حدیث: 2804]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الأضاحي 6 (1498)، سنن النسائی/الضحایا 8 (4377) 8 (4378)، 9 (4379)، سنن ابن ماجہ/الأضاحي 8 (3142)، (تحفة الأشراف: 10125)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/80، 108، 128، 149)، سنن الدارمی/الأضاحي 3 (1995) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی ابواسحاق مختلط اور مدلس ہیں، نیز شریح سے ان کا سماع نہیں، اس لیے سند میں انقطاع بھی ہے، مگر مطلق کان، ناک دیکھ بھال کر لینے کا حکم صحیح ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف إلا جملة الأمر بالاستشراف

حدیث نمبر: 2805
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الدَّسْتُوَائِيُّ وَيُقَالُ لَهُ هِشَامُ بْنُ سَنْبَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ جُرَيِّ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى أَنْ يُضَحَّى بِعَضْبَاءِ الأُذُنِ وَالْقَرْنِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: جُرَيٌّ سَدُوسِيٌّ بَصْرِيٌّ لَمْ يُحَدِّثْ عَنْهُ إِلَّا قَتَادَةُ.
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے «عضباء» (یعنی سینگ ٹوٹے کان کٹے جانور) کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الضَّحَايَا/حدیث: 2805]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الأضاحي 9 (1504)، سنن النسائی/الضحایا 11 (4382)، سنن ابن ماجہ/الأضاحي 8 (3145)، (تحفة الأشراف: 10031)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/83، 101، 109، 127، 129، 150) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی جری لین الحدیث ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

حدیث نمبر: 2806
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: قُلْتُ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ: مَا الْأَعْضَبُ؟ قَالَ: النِّصْفُ فَمَا فَوْقَهُ.
قتادہ کہتے ہیں میں نے سعید بن مسیب سے پوچھا: «اعضب» (یا «عضباء») کیا ہے؟ انہوں نے کہا: (جس کی سینگ یا کان) آدھا یا آدھے سے زیادہ ٹوٹا یا کٹا ہوا ہو۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الضَّحَايَا/حدیث: 2806]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 18721) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: مقطوع

7. باب فِي الْبَقَرِ وَالْجَزُورِ عَنْ كَمْ، تُجْزِئُ
7. باب: گائے بیل اور اونٹ کی قربانی کتنے آدمیوں کی طرف سے کفایت کرتی ہے؟
حدیث نمبر: 2807
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: كُنَّا نَتَمَتَّعُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَذْبَحُ الْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ، وَالْجَزُورَ عَنْ سَبْعَةٍ نَشْتَرِكُ فِيهَا.
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حج تمتع کرتے تو گائے سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کرتے تھے، اور اونٹ بھی سات آدمیوں کی طرف سے، ہم سب اس میں شریک ہو جاتے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الضَّحَايَا/حدیث: 2807]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الحج 62 (1318)، سنن النسائی/الضحایا 15 (4398)، (تحفة الأشراف: 2435)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الحج 66 (904)، موطا امام مالک/الضحایا 5 (9) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح


Previous    1    2    3    4    5    6    Next