الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
حدیث نمبر: 4783
حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ بَكْرٍ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا ذَرٍّ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا أَصَحُّ الْحَدِيثَيْنِ.
بکر سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر کو بھیجا آگے یہی حدیث مروی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: دونوں حدیثوں میں یہ زیادہ صحیح ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4783]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 12001، 18459) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره

حدیث نمبر: 4784
حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو وَائِلٍ الْقَاصُّ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى عُرْوَةَ بْنِ مُحَمَّدٍ السَّعْدِيِّ فَكَلَّمَهُ رَجُلٌ، فَأَغْضَبَهُ، فَقَامَ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ رَجَعَ وَقَدْ تَوَضَّأَ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي عَطِيَّةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الْغَضَبَ مِنَ الشَّيْطَانِ، وَإِنَّ الشَّيْطَانَ خُلِقَ مِنَ النَّارِ، وَإِنَّمَا تُطْفَأُ النَّارُ بِالْمَاءِ، فَإِذَا غَضِبَ أَحَدُكُمْ، فَلْيَتَوَضَّأْ".
ابووائل قاص کہتے ہیں کہ ہم عروہ بن محمد بن سعدی کے پاس داخل ہوئے، ان سے ایک شخص نے گفتگو کی تو انہیں غصہ کر دیا، وہ کھڑے ہوئے اور وضو کیا، پھر لوٹے اور وہ وضو کئے ہوئے تھے، اور بولے: میرے والد نے مجھ سے بیان کیا وہ میرے دادا عطیہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غصہ شیطان کے سبب ہوتا ہے، اور شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے، اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے، لہٰذا تم میں سے کسی کو جب غصہ آئے تو وضو کر لے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4784]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 9903)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/226) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (عروة بن محمد لین الحدیث ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

5. باب فِي الْعَفْوِ وَالتَّجَاوُزِ فِي الأَمْرِ
5. باب: عفو و درگزر کرنے اور انتقام نہ لینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4785
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَمْرَيْنِ إِلَّا اخْتَارَ أَيْسَرَهُمَا مَا لَمْ يَكُنْ إِثْمًا، فَإِنْ كَانَ إِثْمًا كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْهُ، وَمَا انْتَقَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهِ إِلَّا أَنْ تُنْتَهَكَ حُرْمَةُ اللَّهِ تَعَالَى، فَيَنْتَقِمُ لِلَّهِ بِهَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کاموں میں جب بھی اختیار کا حکم دیا گیا تو آپ نے اس میں آسان تر کو منتخب کیا، جب تک کہ وہ گناہ نہ ہو، اور اگر وہ گناہ ہوتا تو آپ لوگوں میں سب سے زیادہ اس سے دور رہنے والے ہوتے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خاطر کبھی انتقام نہیں لیا، اس صورت کے علاوہ کہ اللہ تعالیٰ کی حرمت کو پامال کیا جاتا ہو تو آپ اس صورت میں اللہ تعالیٰ کے لیے اس سے بدلہ لیتے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4785]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/المناقب 23 (3560)، والأدب 80 (6126)، والحدود 10 (6853)، صحیح مسلم/الفضائل 20 (2327)، (تحفة الأشراف: 16595)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الجامع 1 (2)، مسند احمد (6/116، 182، 209، 262) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 4786
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَادِمًا، وَلَا امْرَأَةً قَطُّ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کبھی کسی خادم کو مارا، اور نہ کبھی کسی عورت کو۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4786]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود (تحفة الأشراف: 16664، 17262)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الفضائل 20 (2328)، سنن ابن ماجہ/النکاح 51 (1984)، مسند احمد (6/206)، سنن الدارمی/النکاح 34 (2264) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 4787
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطُّفَاوِيُّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ الزُّبَيْرِ فِي قَوْلِهِ:" خُذِ الْعَفْوَ سورة الأعراف آية 199، قَالَ: أُمِرَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْخُذَ الْعَفْوَ مِنْ أَخْلَاقِ النَّاسِ".
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے اللہ کے فرمان  «خذ العفو» عفو کو اختیار کرو کی تفسیر کے سلسلے میں روایت ہے، وہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ وہ لوگوں کے اخلاق میں سے عفو کو اختیار کریں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4787]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/تفسیر سورة الأعرف 5 (4644)، (تحفة الأشراف: 5277) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

6. باب فِي حُسْنِ الْعِشْرَةِ
6. باب: حسن معاشرت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4788
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ يَعْنِي الْحِمَّانِيَّ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بَلَغَهُ عَنِ الرَّجُلِ الشَّيْءُ، لَمْ يَقُلْ: مَا بَالُ فُلَانٍ يَقُولُ، وَلَكِنْ يَقُولُ: مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَقُولُونَ كَذَا وَكَذَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کسی شخص کے بارے میں کوئی بری بات پہنچتی تو آپ یوں نہ فرماتے: فلاں کو کیا ہوا کہ وہ ایسا کہتا ہے؟ بلکہ یوں فرماتے: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو ایسا اور ایسا کہتے ہیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4788]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 17640) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 4789
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا سَلْمٌ الْعَلَوِيُّ، عَنْ أَنَسٍ،" أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ أَثَرُ صُفْرَةٍ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَلَّمَا يُوَاجِهُ رَجُلًا فِي وَجْهِهِ بِشَيْءٍ يَكْرَهُهُ، فَلَمَّا خَرَجَ، قَالَ: لَوْ أَمَرْتُمْ هَذَا أَنْ يَغْسِلَ ذَا عَنْهُ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: سَلْمٌ لَيْسَ هُوَ عَلَوِيًّا، كَانَ يُبْصِرُ فِي النُّجُومِ، وَشَهِدَ عِنْدَ عَدِيِّ بْنِ أَرْطَاةَ عَلَى رُؤْيَةِ الْهِلَالِ، فَلَمْ يُجِزْ شَهَادَتَهُ.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس پر زردی کا نشان تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال یہ تھا کہ آپ بہت کم کسی ایسے شخص کے روبرو ہوتے، جس کے چہرے پر کوئی ایسی چیز ہوتی جسے آپ ناپسند کرتے تو جب وہ نکل گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کاش تم لوگ اس سے کہتے کہ وہ اسے اپنے سے دھو ڈالے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: سلم علوی (یعنی اولاد علی میں سے) نہیں تھا بلکہ وہ ستارے دیکھا کرتا تھا ۱؎ اور اس نے عدی بن ارطاۃ کے پاس چاند دیکھنے کی گواہی دی تو انہوں نے اس کی گواہی قبول نہیں کی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4789]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم: (4182)، (تحفة الأشراف: 867) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس میں سلم العلوی ضعیف ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

حدیث نمبر: 4790
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنِي أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ فُرَافِصَةَ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْعَسْقَلَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ رَافِعٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَفَعَاهُ جَمِيعًا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْمُؤْمِنُ غِرٌّ كَرِيمٌ، وَالْفَاجِرُ خِبٌّ لَئِيمٌ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن بھولا بھالا اور شریف ہوتا ہے اور فاجر فسادی اور کمینہ ہوتا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4790]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/البر والصلة 41 (1964)، (تحفة الأشراف: 15362)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/394) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن

حدیث نمبر: 4791
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" اسْتَأْذَنَ رَجُلٌ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: بِئْسَ ابْنُ الْعَشِيرَةِ، أَوْ بِئْسَ رَجُلُ الْعَشِيرَةِ، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنُوا لَهُ، فَلَمَّا دَخَلَ أَلَانَ لَهُ الْقَوْلَ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَنْتَ لَهُ الْقَوْلَ وَقَدْ قُلْتَ لَهُ مَا قُلْتَ، قَالَ: إِنَّ شَرَّ النَّاسِ عِنْدَ اللَّهِ مَنْزِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَنْ وَدَعَهُ، أَوْ تَرَكَهُ النَّاسُ لِاتِّقَاءِ فُحْشِهِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (اندر آنے کی) اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا: اپنے خاندان کا لڑکا یا خاندان کا آدمی برا شخص ہے پھر فرمایا: اسے اجازت دے دو، جب وہ اندر آ گیا تو آپ نے اس سے نرمی سے گفتگو کی، اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے اس سے نرم گفتگو کی حالانکہ آپ اس کے متعلق ایسی ایسی باتیں کہہ چکے تھے، آپ نے فرمایا: لوگوں میں سب سے برا شخص اللہ کے نزدیک قیامت کے دن وہ ہو گا جس سے لوگوں نے اس کی فحش کلامی سے بچنے کے لیے علیحدگی اختیار کر لی ہو یا اسے چھوڑ دیا ہو۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4791]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الأدب 38 (6032)، 48 (6054)، 82 (6131)، صحیح مسلم/البر والصلة 22 (2591)، سنن الترمذی/البر والصلة 59 (1996)، (تحفة الأشراف: 16754)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/38) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 4792
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْروٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ:" أَنَّ رَجُلًا اسْتَأْذَنَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بِئْسَ أَخُو الْعَشِيرَةِ، فَلَمَّا دَخَلَ انْبَسَطَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَلَّمَهُ، فَلَمَّا خَرَجَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمَّا اسْتَأْذَنَ؟ قُلْتَ: بِئْسَ أَخُو الْعَشِيرَةِ، فَلَمَّا دَخَلَ انْبَسَطْتَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ، إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَاحِشَ الْمُتَفَحِّشَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اندر آنے کی اجازت مانگی تو آپ نے فرمایا: اپنے کنبے کا برا شخص ہے جب وہ اندر آ گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے کشادہ دلی سے ملے اور اس سے باتیں کیں، جب وہ نکل کر چلا گیا تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جب اس نے اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا: اپنے کنبے کا برا شخص ہے، اور جب وہ اندر آ گیا تو آپ اس سے کشادہ دلی سے ملے آپ نے فرمایا: عائشہ! اللہ تعالیٰ کو فحش گو اور منہ پھٹ شخص پسند نہیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4792]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 17755) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح


Previous    1    2    3    4    5    6    Next