الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ترمذي
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
8. باب مَا جَاءَ فِي تَعْجِيلِ الْعَصْرِ
8. باب: عصر جلدی پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 159
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: " صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِهَا وَلَمْ يَظْهَرِ الْفَيْءُ مِنْ حُجْرَتِهَا " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ , وَأَبِي أَرْوَى , وَجَابِرٍ , وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: وَيُرْوَى عَنْ رَافِعٍ أَيْضًا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي تَأْخِيرِ الْعَصْرِ وَلَا يَصِحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْهُمْ عُمَرُ , وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ , وَعَائِشَةُ , وَأَنَسٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ التَّابِعِينَ: تَعْجِيلَ صَلَاةِ الْعَصْرِ وَكَرِهُوا تَأْخِيرَهَا، وَبِهِ يَقُولُ عَبْدُ اللَّهِ ابْنُ الْمُبَارَكِ , وَالشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے عصر پڑھی اس حال میں کہ دھوپ ان کے کمرے میں تھی، ان کے کمرے کے اندر کا سایہ پورب والی دیوار پر نہیں چڑھا تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں انس، ابوارویٰ، جابر اور رافع بن خدیج رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، (اور رافع رضی الله عنہ سے عصر کو مؤخر کرنے کی بھی روایت کی جاتی ہے جسے انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ لیکن یہ صحیح نہیں ہے،
۳- صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم نے جن میں عمر، عبداللہ بن مسعود، عائشہ اور انس رضی الله عنہم بھی شامل ہیں اور تابعین میں سے کئی لوگوں نے اسی کو اختیار کیا ہے کہ عصر جلدی پڑھی جائے اور اس میں تاخیر کرنے کو ان لوگوں نے مکروہ سمجھا ہے اسی کے قائل عبداللہ بن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 159]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 1 (522)، و13 (545)، والخمس 4 (3103)، صحیح مسلم/المساجد 31 (611)، سنن ابی داود/ الصلاة 5 (407)، سنن النسائی/المواقیت 8 (506)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 5 (683)، (تحفة الأشراف: 16585)، موطا امام مالک/وقوت الصلاة 1 (2) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (683)

حدیث نمبر: 160
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ فِي دَارِهِ بِالْبَصْرَةِ حِينَ انْصَرَفَ مِنَ الظُّهْرِ وَدَارُهُ بِجَنْبِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: قُومُوا فَصَلُّوا الْعَصْرَ، قَالَ: فَقُمْنَا فَصَلَّيْنَا، فَلَمَّا انْصَرَفْنَا، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " تِلْكَ صَلَاةُ الْمُنَافِقِ يَجْلِسُ يَرْقُبُ الشَّمْسَ حَتَّى إِذَا كَانَتْ بَيْنَ قَرْنَيِ الشَّيْطَانِ، قَامَ فَنَقَرَ أَرْبَعًا لَا يَذْكُرُ اللَّهَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
علاء بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ وہ بصرہ میں جس وقت ظہر پڑھ کر لوٹے تو وہ انس بن مالک رضی الله عنہ کے پاس ان کے گھر آئے، ان کا گھر مسجد کے بغل ہی میں تھا۔ انس بن مالک نے کہا: اٹھو چلو عصر پڑھو، تو ہم نے اٹھ کر نماز پڑھی، جب پڑھ چکے تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا سورج کو دیکھتا رہے، یہاں تک کہ جب وہ شیطان کی دونوں سینگوں کے درمیان آ جائے تو اٹھے اور چار ٹھونگیں مار لے، اور ان میں اللہ کو تھوڑا ہی یاد کرے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 160]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 34 (622)، سنن ابی داود/ الصلاة 5 (413)، سنن النسائی/المواقیت 9 (512)، (تحفة الأشراف: 1122) موطا امام مالک/القرآن 10 (46)، مسند احمد (3/102، 103، 149، 185، 247) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (420)

9. باب مَا جَاءَ فِي تَأْخِيرِ صَلاَةِ الْعَصْرِ
9. باب: نماز عصر دیر سے پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 161
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشَدَّ تَعْجِيلًا لِلظُّهْرِ مِنْكُمْ، وَأَنْتُمْ أَشَدُّ تَعْجِيلًا لِلْعَصْرِ مِنْهُ ".
ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ظہر میں تم لوگوں سے زیادہ جلدی کرتے تھے اور تم لوگ عصر میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ جلدی کرتے ہو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 161]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ (تحفة الأشراف: 18184)، وانظر مسند احمد (6/289، 310) (صحیح) (تراجع الألبانی 606)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (6195 / التحقيق الثانى)

حدیث نمبر: 162
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ، عَنْ إِسْمَاعِيل ابْنِ عُلَيَّةَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ نَحْوَهُ. وَوَجَدْتُ فِي كِتَابِي، أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ.
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اسماعیل بن علیہ سے بطریق «ابن جريج عن ابن أبي مليكة عن أم سلمة» اسی طرح روایت کی گئی ہے۔ اور مجھے اپنی کتاب میں اس کی سند یوں ملی کہ مجھے علی بن حجر نے خبر دی انہوں نے اسماعیل بن ابراہیم سے اور اسماعیل نے ابن جریج سے روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 162]
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

حدیث نمبر: 163
وحَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الْبَصْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ وَهَذَا أَصَحُّ.
اسماعیل بن علیہ کی ابن جریج سے روایت زیادہ صحیح ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 163]
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

10. باب مَا جَاءَ فِي وَقْتِ الْمَغْرِبِ
10. باب: مغرب کے وقت کا بیان۔
حدیث نمبر: 164
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الْمَغْرِبَ إِذَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَتَوَارَتْ بِالْحِجَابِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ , وَالصُّنَابِحِيِّ , وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ , وَأَنَسٍ , وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ , وَأَبِي أَيُّوبَ , وَأُمِّ حَبِيبَةَ , وَعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ , وَابْنِ عَبَّاسٍ , وَحَدِيثُ الْعَبَّاسِ قَدْ رُوِيَ مَوْقُوفًا عَنْهُ، وَهُوَ أَصَحُّ، وَالصُّنَابِحِيُّ لَمْ يَسْمَعْ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ صَاحِبُ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنَ التَّابِعِينَ، اخْتَارُوا تَعْجِيلَ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ وَكَرِهُوا تَأْخِيرَهَا، حَتَّى قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَيْسَ لِصَلَاةِ الْمَغْرِبِ إِلَّا وَقْتٌ وَاحِدٌ، وَذَهَبُوا إِلَى حَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيْثُ صَلَّى بِهِ جِبْرِيلُ، وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ , وَالشَّافِعِيِّ.
سلمہ بن الاکوع رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم مغرب اس وقت پڑھتے جب سورج ڈوب جاتا اور پردے میں چھپ جاتا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- سلمہ بن الاکوع والی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں جابر، صنابحی، زید بن خالد، انس، رافع بن خدیج، ابوایوب، ام حبیبہ، عباس بن عبدالمطلب اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- عباس رضی الله عنہ کی حدیث ان سے موقوفاً روایت کی گئی ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے،
۴- اور صنابحی نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے نہیں سنا ہے، وہ تو ابوبکر رضی الله عنہ کے دور کے ہیں،
۵- اور یہی قول صحابہ کرام اور ان کے بعد تابعین میں سے اکثر اہل علم کا ہے، ان لوگوں نے نماز مغرب جلدی پڑھنے کو پسند کیا ہے اور اسے مؤخر کرنے کو مکروہ سمجھا ہے، یہاں تک کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مغرب کا ایک ہی وقت ہے ۲؎، یہ تمام حضرات نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی اس حدیث کی طرف گئے ہیں جس میں ہے کہ جبرائیل نے آپ کو نماز پڑھائی اور یہی ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 164]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 18 (561)، صحیح مسلم/المساجد 38 (636)، سنن ابی داود/ الصلاة 6 (417)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 7 (688)، (تحفة الأشراف: 4535) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (688)

11. باب مَا جَاءَ فِي وَقْتِ صَلاَةِ الْعِشَاءِ الآخِرَةِ
11. باب: نماز عشاء کے وقت کا بیان۔
حدیث نمبر: 165
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ النَّاسِ بِوَقْتِ هَذِهِ الصَّلَاةِ، " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيهَا لِسُقُوطِ الْقَمَرِ لِثَالِثَةٍ ".
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ اس نماز عشاء کے وقت کو لوگوں میں سب سے زیادہ میں جانتا ہوں، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اسے تیسری تاریخ کا چاند ڈوبنے کے وقت پڑھتے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 165]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 7 (419)، سنن النسائی/المواقیت 19 (529)، (تحفة الأشراف: 11614)، مسند احمد (4/270، 274) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (613) ، صحيح أبي داود (445)

حدیث نمبر: 166
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ هُشَيْمٌ عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ هُشَيْمٌ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ ثَابِتٍ، وَحَدِيثُ أَبِي عَوَانَةَ أَصَحُّ عِنْدَنَا، لِأَنَّ يَزِيدَ بْنَ هَارُونَ رَوَى عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ نَحْوَ رِوَايَةِ أَبِي عَوَانَةَ.
اس طریق سے بھی ابو عوانہ سے اسی سند سے اسی طرح مروی ہے۔ امام ترمذی نے پہلے ابو عوانہ کا طریق ذکر کیا پھر ہشیم کے طریق کا اور فرمایا: ابو عوانہ والی حدیث ہمارے نزدیک زیادہ صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 166]
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

12. باب مَا جَاءَ فِي تَأْخِيرِ صَلاَةِ الْعِشَاءِ الآخِرَةِ
12. باب: نماز عشاء دیر سے پڑھنے کا بیان​۔
حدیث نمبر: 167
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ أَنْ يُؤَخِّرُوا الْعِشَاءَ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ أَوْ نِصْفِهِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ , وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , وَأَبِي بَرْزَةَ , وَابْنِ عَبَّاسٍ , وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ , وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ , وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالتَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ رَأَوْا تَأْخِيرَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ، وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ , وَإِسْحَاقُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں اپنی امت پر دشوار نہ سمجھتا تو میں عشاء کو تہائی رات یا آدھی رات تک دیر کر کے پڑھنے کا حکم دیتا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں
: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں جابر بن سمرہ، جابر بن عبداللہ، ابوبرزہ، ابن عباس، ابو سعید خدری، زید بن خالد اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اور اسی کو صحابہ کرام اور تابعین وغیرہم میں سے اکثر اہل علم نے پسند کیا ہے، ان کی رائے ہے کہ عشاء تاخیر سے پڑھی جائے، اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 167]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الصلاة 8 (690)، (تحفة الأشراف: 12988)، مسند احمد (2/245) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (691)

13. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ النَّوْمِ قَبْلَ الْعِشَاءِ وَالسَّمَرِ بَعْدَهَا
13. باب: عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات کرنے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 168
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا عَوْفٌ، قَالَ أَحْمَدُ: وَحَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ هُوَ الْمُهَلَّبِيُّ، وَإِسْمَاعِيل ابْنُ علية جميعا، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ سَيَّارِ بْنِ سَلَامَةَ هُوَ أَبُو الْمِنْهَالِ الرِّيَاحِيُّ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَ الْعِشَاءِ وَالْحَدِيثَ بَعْدَهَا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ , وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي بَرْزَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ كَرِهَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ النَّوْمَ قَبْلَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ وَالْحَدِيثَ بَعْدَهَا، وَرَخَّصَ فِي ذَلِكَ بَعْضُهُمْ، وقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: أَكْثَرُ الْأَحَادِيثِ عَلَى الْكَرَاهِيَةِ، وَرَخَّصَ بَعْضُهُمْ فِي النَّوْمِ قَبْلَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ فِي رَمَضَانَ، وَسَيَّارُ بْنُ سَلَامَةَ هُوَ أَبُو الْمِنْهَالِ الرِّيَاحِيُّ.
ابوبرزہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند فرماتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوبرزہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عائشہ، عبداللہ بن مسعود اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اور اکثر اہل علم نے نماز عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات کرنے کو مکروہ کہا ہے، اور بعض نے اس کی اجازت دی ہے، عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: اکثر حدیثیں کراہت پر دلالت کرنے والی ہیں، اور بعض لوگوں نے رمضان میں عشاء سے پہلے سونے کی اجازت دی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 168]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 11 (541)، و13 (547)، و23 (568)، و38 (598)، صحیح مسلم/المساجد 40 (647)، سنن ابی داود/ الصلاة 3 (398)، والأدب 27 (4849)، سنن النسائی/المواقیت 2 (496)، و16 (526)، و20 (531)، والافتتاح 42 (949)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 3 (674)، (تحفة الأشراف: 11606)، مسند احمد (4/420، 421، 423، 424، 425)، سنن الدارمی/الصلاة 66 (1338) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (701)


Previous    1    2    3    4    5    6    Next