الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


شمائل ترمذي کل احادیث (417)
حدیث نمبر سے تلاش:

شمائل ترمذي
بَابُ مَا جَاءَ فِي نَعْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاپوش مبارک کا بیان
حدیث نمبر: 84
حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَشْعَثُ هُوَ ابْنُ أَبِي الشَّعْثَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ التَّيَمُّنَ مَا اسْتَطَاعَ فِي تَرَجُّلِهِ وَتَنَعُّلِهِ وَطُهُورِهِ»
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کنگھی فرمانے میں، جوتا پہننے میں، وضو کرنے میں حتی المقدور داہنی طرف سے شروع کرنے کو بہت پسند رکھتے تھے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي نَعْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 84]
تخریج الحدیث: «سنده صحيح» :
«‏‏‏‏صحيح بخاري و صحيح مسلم»
دیکھئے حدیث سابق: 34

9. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور شیخیں رضی اللہ عنہا کے جوتے
حدیث نمبر: 85
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْزُوقٍ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ قَيْسٍ أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: «كَانَ لِنَعْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِبَالَانِ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ» ، «وَأَوَّلُ مَنْ عَقَدَ عَقْدًا وَاحِدًا عُثْمَانُ»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ایک کفش مبارک کے دو تسمے تھے، اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بھی۔ اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پہلے صاحب ہیں جنہوں نے ایک تسمے کی گرہ باندھی۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي نَعْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 85]
تخریج الحدیث: «سنده ضعيف جدًا» :
اس کا راوی عبدالرحمٰن بن قیس ابومعاویہ متروک و مجروح ہے اور المعجم الصغیر للطبرانی (92/1) میں اس کا ایک ضعیف شاہد بھی ہے۔ اس شاہد کی سند میں صالح مولیٰ التوامہ اختلاط کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے [ علمي مقالات ج 3 ص 206 ]
نیز ابراہیم بن اسحاق الطبرانی مجہول یا مجروح ہے۔ «والله اعلم»


Previous    1    2