الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


شمائل ترمذي کل احادیث (417)
حدیث نمبر سے تلاش:

شمائل ترمذي
بَابُ: مَا جَاءَ فِي وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان
11. منگل کی رات تدفین والی روایت ضعیف ہے
حدیث نمبر: 396
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: «تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، وَدُفِنَ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ» قَالَ أَبُو عِيسَى: «هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ»
ابوسلمہ بن عبدالرحمان بن عوف فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوموار کو فوت ہوئے اور منگل کے روز دفن کیے گئے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ حدیث غریب ہے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ: مَا جَاءَ فِي وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 396]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنده ضعيف» ‏‏‏‏ :
اس روایت کی سند امام ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ مشہور تابعی تک صحیح یا حسن لذاتہ ہے، لیکن یہ روایت مرسل (منقطع) ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے اور اس طرح کی اور بھی مرسل روایتیں طبقات ابن سعد وغیرہ میں موجود ہیں، لیکن ہمارے علم کے مطابق کسی صحابی سے باسند صحیح یہ ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کو دوسرے یا تیسرے دن دفن کیا گیا تھا۔ واللہ اعلم
تنبیہ: اس سلسلے میں اسماعیل بن ابی خالد عن عبداللہ البہی، عوف الاعرابی عن الحسن البصری اور عکرمہ عن عباس رضی اللہ عنہ والی منقطع ومرسل روایات ضعیف، مردود اور باطل ہیں۔
تفصیل کے لئے طبقات ابن سعد اور سیر اعلام النبلاء (ترجمۃ وکیع بن الجراح) وغیرہما کتابوں کا مطالعہ کریں۔

12. سکرات الموت میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنی جگہ امامت کا حکم دیا
حدیث نمبر: 397
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ نُبَيْطٍ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ أَبِي هِنْدَ، عَنْ نُبَيْطِ بْنِ شَرِيطٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عُبَيْدٍ، وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ قَالَ: أُغْمِيَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ فَأَفَاقَ، فَقَالَ: «حَضَرَتِ الصَّلَاةُ» ؟ فَقَالُوا: نَعَمْ. فَقَالَ: «مُرُوا بِلَالًا فَلْيُؤَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ للنَّاسِ» - أَوْ قَالَ: بِالنَّاسِ - قَالَ: ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ، فَأَفَاقَ، فَقَالَ: «حَضَرَتِ الصَّلَاةُ؟» فَقَالُوا: نَعَمْ. فَقَالَ: «مُرُوا بِلَالًا فَلْيُؤَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ» ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: إِنَّ أَبِي رَجُلٌ أَسِيفٌ، إِذَا قَامَ ذَلِكَ الْمَقَامَ بَكَى فَلَا يَسْتَطِيعُ، فَلَوْ أَمَرْتَ غَيْرَهُ قَالَ: ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ فَأَفَاقَ فَقَالَ: «مُرُوا بِلَالًا فَلْيُؤَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، فَإِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ أَوْ صَوَاحِبَاتُ يُوسُفَ» قَالَ: فَأُمِرَ بِلَالٌ فَأَذَّنَ، وَأُمِرَ أَبُو بَكْرٍ فَصَلَّى بِالنَّاسِ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ خِفَّةً، فَقَالَ: «انْظُرُوا لِي مَنْ أَتَّكِئِ عَلَيْهِ» ، فَجَاءَتْ بَرِيرَةُ وَرَجُلٌ آخَرُ، فَاتَّكَأَ عَلَيْهِمَا فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ ذَهَبَ لِينْكُصَ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ أَنْ يَثْبُتَ مَكَانَهُ، حَتَّى قَضَى أَبُو بَكْرٍ صَلَاتَهُ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبِضَ، فَقَالَ عُمَرُ: وَاللَّهِ لَا أَسْمَعُ أَحَدًا يَذْكُرُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبِضَ إِلَا ضَرَبْتُهُ بِسَيْفِي هَذَا قَالَ: وَكَانَ النَّاسُ أُمِّيِّينَ لَمْ يَكُنْ فِيهِمْ نَبِيٌّ قَبْلَهُ، فَأَمْسَكَ النَّاسُ، فَقَالُوا: يَا سَالِمُ، انْطَلِقْ إِلَى صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَادْعُهُ، فَأَتَيْتُ أَبَا بَكْرٍ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ فَأَتَيْتُهُ أَبْكِي دَهِشًا، فَلَمَّا رَآنِي قَالَ: أَقُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: إِنَّ عُمَرَ يَقُولُ: لَا أَسْمَعُ أَحَدًا يَذْكُرُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبِضَ إِلَا ضَرَبْتُهُ بِسَيْفِي هَذَا، فَقَالَ لِي: انْطَلِقْ، فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ، فَجَاءَ هُوَ وَالنَّاسُ قَدْ دَخَلُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَفْرِجُوا لِي، فَأَفْرَجُوا لَهُ فَجَاءَ حَتَّى أَكَبَّ عَلَيْهِ وَمَسَّهُ، فَقَالَ: {إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ} [الزمر: 30] ثُمَّ قَالُوا: يَا صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَقُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَعَلِمُوا أَنْ قَدْ صَدَقَ، قَالُوا: يَا صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيُصَلَّى عَلَى رَسُولِ اللَّهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالُوا: وَكَيْفَ؟ قَالَ: يَدْخُلُ قَوْمٌ فَيُكَبِّرُونَ وَيُصَلُّونَ وَيَدْعُونَ، ثُمَّ يَخْرُجُونَ، ثُمَّ يَدْخُلُ قَوْمٌ فَيُكَبِّرُونَ وَيُصَلُّونَ وَيَدْعُونَ، ثُمَّ يَخْرُجُونَ، حَتَّى يَدْخُلَ النَّاسُ، قَالُوا: يَا صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيُدْفَنُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالُوا: أَينَ؟ قَالَ: فِي الْمكَانِ الَّذِي قَبَضَ اللَّهُ فِيهِ رُوحَهُ، فَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَقْبِضْ رُوحَهُ إِلَا فِي مَكَانٍ طَيِّبٍ. فَعَلِمُوا أَنْ قَدْ صَدَقَ، ثُمَّ أَمَرَهُمْ أَنْ يَغْسِلَهُ بَنُو أَبِيهِ وَاجْتَمَعَ الْمُهَاجِرُونَ يَتَشَاوَرُونَ، فَقَالُوا: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى إِخْوانِنَا مِنَ الْأَنْصَارِ نُدْخِلُهُمْ مَعَنَا فِي هَذَا الْأَمْرِ، فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ: مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: مَنْ لَهُ مِثْلُ هَذِهِ الثَّلَاثِ {ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا} [التوبة: 40] مَنْ هُمَا؟ قَالَ: ثُمَّ بَسَطَ يَدَهُ فَبَايَعَهُ وَبَايَعَهُ النَّاسُ بَيْعَةً حَسَنَةً جَمِيلَةً
صحابی رسول سالم بن عبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کی بیماری میں غشی طاری ہو گئی جب افاقہ ہوا تو فرمایا: کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے؟، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: جی ہاں، فرمایا: بلال کو حکم دو کہ وہ اذان کہیں، اور ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بے ہوشی طاری ہو گئی۔ جب ہوش میں آئے تو فرمایا: کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے؟، عرض کیا گیا: جی ہاں۔ فرمایا: بلال کو حکم دو کہ وہ اذان کہے اور ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پھر بیہوشی طاری ہو گئی اور جب افاقہ ہوا تو فرمایا: کیا نماز کا وقت ہوگیا ہے؟، عرض کیا گیا: جی ہاں۔ فرمایا: بلال کو حکم دو کے وہ اذان کہے اور ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا عرض کرتی ہیں یا رسول اللہ! میرے والد رقیق القلب ہیں، جب وہ آپ کے مقام پر کھڑے ہوں گے تو رونے لگیں گے اور نماز پڑھانے کی طاقت نہیں رکھیں گے۔ آپ کسی اور کو حکم فرما دیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بے ہوشی طاری ہو گئی۔ جب افاقہ ہوا تو فرمایا: بلال کو حکم دو کہ وہ اذان کہے اور ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ تم تو ان عورتوں کی طرح ہو جو یوسف علیہ السلام کے ساتھ تھیں۔ چنانچہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا تو انہوں نے اذان کہی اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا تو انہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وجود میں کچھ افاقہ اور کچھ ہلکا پن محسوس کیا تو فرمایا: کوئی آدمی دیکھو! جس پر میں ٹیک لگاؤں۔ تو بریرہ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خادمہ) اور دوسرا شخص آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں پر ٹیک لگا کر نکلے۔ جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کو دیکھا تو واپس پیچھے مڑنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ اپنی جگہ پر ہی رہو۔ یہاں تک کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نماز پوری کر لی۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ جو شخص یہ کہے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی ہے تو میں اپنی اس تلوار سے اس کی گردن اتار دوں گا۔ راوی بیان کرتا ہے کہ اکثر لوگ امی تھے اور اس سے پہلے ان میں کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا تھا۔ لہٰذا سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی بات پر سب خاموش ہو گئے، پھر بعض لوگوں نے سیدنا سالم رضی اللہ عنہ کو کہا: جاؤ! اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی (سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) کو بلا لاؤ۔ سیدنا سالم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس دہشت کے مارے روتا ہوا پہنچا وہ اس وقت مسجد میں تھے۔ جب انہوں نے مجھے آتے ہوئے دیکھا تو پوچھا، کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی ہے؟ میں نے کہا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں کسی شخص کو یہ کہتے ہوئے نہیں سننا چاہتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں۔ جو ایسا کہے گا میں اپنی اس تلوار سے اس کی گردن اڑا دوں گا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے فرمانے لگے چلو چلتے ہیں۔ چنانچہ میں ان کے ہمراہ چل پڑا۔ جب آپ تشریف لائے تو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر جمع ہو چکے تھے۔ آپ نے فرمایا: لوگو! مجھے راستہ دو، چنانچہ لوگوں نے آپ کے لیے راستہ خالی کر دیا۔ آپ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھک گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوا (بوسہ دیا) اور یہ آیت پڑھی «انك ميت وانهم ميتون» بے شک آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) بھی فوت ہونے والے ہیں اور یہ لوگ بھی فوت ہونے والے ہیں۔ لوگوں نے کہا: اے رسول اللہ کے ساتھی! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں؟ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں۔ لوگوں کو یقین آ گیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سچ فرمایا ہے۔ پھر لوگ کہنے لگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی! کیا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ بھی پڑھیں گے؟ فرمایا: ہاں۔ تو انہوں نے عرض کیا: کیسے؟ فرمایا: ایک جماعت حجرہ کے اندر جائے، وہ تکبیر کہے، دعا کرے اور آپ پر درود پڑھ کر باہر آ جائے، پھر دوسری جماعت داخل ہو، وہ تکبیر کہے، درود پڑھے اور دعا کر کے باہر آ جائے۔ اس طرح سب لوگ نماز جنازہ پڑھیں۔ پھر لوگوں نے پوچھا: اے صاحب رسول! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کیا جائے گا؟ فرمایا: ہاں۔ پوچھا کس جگہ؟ فرمایا: اسی جگہ جہاں آپ کی روح قبض کی گئی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح کو پاکیزہ جگہ پر ہی قبض کیا ہے۔ لوگوں کو یقین ہو گیا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سچ کہا ہے۔ پھر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی غسل دیں۔ اس دوران میں مہاجرین جمع ہو کر (امر خلافت کے بارے میں) مشورہ کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا: آؤ! اپنے انصاری بھائیوں کے پاس بھی چلیں تاکہ انہیں بھی اس معاملہ میں اپنے ساتھ شریک کر لیں۔ (جب ان کے پاس گئے) تو انہوں نے کہا: ایک امیر ہم میں سے اور ایک امیر تم میں سے ہو گا۔ اس کے جواب میں سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ کون شخص ہے جو ان تین فضائل سے متصف ہو (جن کو اللہ تعالیٰ نے ایک ہی آیت میں بیان کر دیا ہے) ① دو میں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے ② جب کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھی سے فرمایا، خوف نہ کھاؤ ③ بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ یہ دونوں کون تھے؟ راوی بیان کرتا ہے، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ بڑھا کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ پھر دوسرے لوگوں نے بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر نہایت اچھی اور خوش اسلوبی سے بیعت کی۔ [شمائل ترمذي/بَابُ: مَا جَاءَ فِي وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 397]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنده صحيح» ‏‏‏‏ :
«سنن ابن ماجه (1234)، السنن الكبريٰ للنسائي (7119 مطولا) كلاهما عن نصر بن على به، صحيح ابن خزيمه (1541، 1624) وصححه البوصيري فى الزوائد.»

13. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری لمحات میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دردناک الفاظ
حدیث نمبر: 398
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، شَيْخٌ بَاهِلِيٌّ قَدِيمٌ بَصْرِيٌّ، قَالَ: حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: لَمَّا وَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ كُرَبِ الْمَوْتِ مَا وَجَدَ، قَالَتْ فَاطِمَةُ: وَاكَرْبَاهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا كَرْبَ عَلَى أَبِيكِ بَعْدَ الْيَوْمِ، إِنَّهُ قَدْ حَضَرَ مِنْ أَبِيكِ مَا لَيْسَ بِتَارِكٍ مِنْهُ أَحَدًا الْمُوافَاةُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مرض الوفات میں سخت تکلیف برداشت فرما رہے تھے تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فرمانے لگیں: ہائے میرے باپ کی تکلیف۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج کے بعد تیرے والد کو کوئی تکلیف نہ ہو گی۔ یقیناً تیرے باپ پر وہ وقت آ گیا جو کسی ایک کو نہیں چھوڑتا اب قیامت کے دن ہی ملاقات ہو گی۔ [شمائل ترمذي/بَابُ: مَا جَاءَ فِي وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 398]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏حسن» ‏‏‏‏ :
«سنن ابن ماجه (1629)»

14. میری امت کو میری وفات کا غم آل و اولاد سب سے زیادہ ہے
حدیث نمبر: 399
حَدَّثَنَا أَبُو الْخَطَّابِ زِيَادُ بْنُ يَحْيَى الْبَصْرِيُّ، وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ بَارِقٍ الْحَنَفِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ جَدِّي أَبَا أُمِّي سِمَاكَ بْنَ الْوَلِيدِ، يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ، يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ كَانَ لَهُ فَرَطَانِ مِنْ أُمَّتِي أَدْخَلَهُ اللَّهُ تَعَالَى بِهِمَا الْجَنَّةَ» ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَمَنْ كَانَ لَهُ فَرَطٌ مِنْ أُمَّتِكَ؟ قَالَ: «وَمَنْ كَانَ لَهُ فَرَطٌ يَا مُوَفَّقَةُ» قَالَتْ: فَمَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ فَرَطٌ مِنْ أُمَّتِكَ؟ قَالَ: «فَأَنَا فَرَطٌ لِأُمَّتِي، لَنْ يُصَابُوا بِمِثْلِي»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں سے جس شخص کے دو نابالغ بچے فوت ہو جائیں، اللہ تعالیٰ اس کو ان دونوں کے بدلہ میں جنت میں داخل کرے گا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا عرض کرتی ہیں: اللہ کے رسول! آپ کی امت میں سے جس کا ایک بچہ فوت ہو جائے؟ فرمایا:ہاں! جس کا ایک بچہ بھی فوت ہو جائے۔ اے وہ خاتون جس کو اچھی بات کی توفیق نصیب ہوئی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پھر عرض کیا: اور جس کا ایک بھی نابالغ بچہ فوت نہ ہوا ہو؟، فرمایا: میں اپنی امت کے ہر اس شخص کا پیش رو (سفارش کندہ) ہوں گا جنہوں نے میری جدائی کے صدمہ جیسا کوئی بھی صدمہ دنیا میں نہیں پایا۔ [شمائل ترمذي/بَابُ: مَا جَاءَ فِي وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 399]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنده حسن» ‏‏‏‏ :
«(سنن ترمذي: 1062، وقال: حسن غريب)، مسند احمد (334/1)»


Previous    1    2