الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح البخاري کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:

صحيح البخاري
كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ
کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 3109
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَنَّ قَدَحَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْكَسَرَ، فَاتَّخَذَ مَكَانَ الشَّعْبِ سِلْسِلَةً مِنْ فِضَّةٍ، قَالَ عَاصِمٌ: رَأَيْتُ الْقَدَحَ وَشَرِبْتُ فِيهِ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا ‘ ان سے ابوحمزہ نے ‘ ان سے عاصم نے ‘ ان سے ابن سیرین نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پانی پینے کا پیالہ ٹوٹ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹوٹی ہوئی جگہوں کو چاندی کی زنجیروں سے جڑوا لیا۔ عاصم کہتے ہیں کہ میں نے وہ پیالہ دیکھا ہے۔ اور اس میں میں نے پانی بھی پیا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: 3109]
حدیث نمبر: 3110
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجَرْمِيُّ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، أَنَّ الْوَلِيدَ بْنَ كَثِيرٍ حَدَّثَهُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ الدُّؤَلِيِّحَدَّثَهُ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ حُسَيْنٍ حَدَّثَهُ، أَنَّهُمْ حِينَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ مِنْ عِنْدِ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ مَقْتَلَ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهِ لَقِيَهُ الْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ، فَقَالَ لَهُ: هَلْ لَكَ إِلَيَّ مِنْ حَاجَةٍ تَأْمُرُنِي بِهَا، فَقُلْتُ لَهُ: لَا، فَقَالَ لَهُ: فَهَلْ أَنْتَ مُعْطِيَّ سَيْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَغْلِبَكَ الْقَوْمُ عَلَيْهِ وَايْمُ اللَّهِ لَئِنْ أَعْطَيْتَنِيهِ، لَا يُخْلَصُ إِلَيْهِمْ أَبَدًا حَتَّى تُبْلَغَ نَفْسِي إِنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ خَطَبَ ابْنَةَ أَبِي جَهْلٍ عَلَى فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام، فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ النَّاسَ فِي ذَلِكَ عَلَى مِنْبَرِهِ هَذَا وَأَنَا يَوْمَئِذٍ مُحْتَلِمٌ، فَقَالَ:" إِنَّ فَاطِمَةَ مِنِّي وَأَنَا أَتَخَوَّفُ أَنْ تُفْتَنَ فِي دِينِهَا ثُمَّ ذَكَرَ صِهْرًا لَهُ مِنْ بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، فَأَثْنَى عَلَيْهِ فِي مُصَاهَرَتِهِ إِيَّاهُ، قَالَ: حَدَّثَنِي فَصَدَقَنِي وَوَعَدَنِي فَوَفَى لِي وَإِنِّي لَسْتُ أُحَرِّمُ حَلَالًا، وَلَا أُحِلُّ حَرَامًا، وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَا تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِنْتُ عَدُوِّ اللَّهِ أَبَدًا".
ہم سے سعید بن محمد جرمی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے میرے والد نے بیان کیا ‘ ان سے ولید بن کثیر نے ‘ ان سے محمد بن عمرو بن حلحلہ ڈولی نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے علی بن حسین (زین العابدین رحمہ اللہ) نے بیان کیا کہ جب ہم سب حضرات حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی شہادت کے بعد یزید بن معاویہ کے یہاں سے مدینہ منورہ تشریف لائے تو مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے ملاقات کی ‘ اور کہا اگر آپ کو کوئی ضرورت ہو تو مجھے حکم فرما دیجئیے۔ (زین العابدین نے بیان کیا کہ) میں نے کہا ‘ مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پھر مسور رضی اللہ عنہ نے کہا تو کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار عنایت فرمائیں گے؟ کیونکہ مجھے خوف ہے کہ کچھ لوگ (بنو امیہ) اسے آپ سے نہ چھین لیں اور اللہ کی قسم! اگر وہ تلوار آپ مجھے عنایت فرما دیں تو کوئی شخص بھی جب تک میری جان باقی ہے اسے چھین نہیں سکے گا۔ پھر مسور رضی اللہ عنہ نے ایک قصہ بیان کیا کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی موجودگی میں ابوجہل کی ایک بیٹی (جمیلہ نامی رضی اللہ عنہا) کو پیغام نکاح دے دیا تھا۔ میں نے خود سنا کہ اسی مسئلہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اسی منبر پر کھڑے ہو کر صحابہ کو خطاب فرمایا۔ میں اس وقت بالغ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا کہ فاطمہ مجھ سے ہے۔ اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ (اس رشتہ کی وجہ سے) کسی گناہ میں نہ پڑ جائے کہ اپنے دین میں وہ کسی فتنہ میں مبتلا ہو۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاندان بنی عبد شمس کے ایک اپنے داماد (عاص بن ربیع) کا ذکر کیا اور دامادی سے متعلق آپ نے ان کی تعریف کی ‘ آپ نے فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے جو بات کہی سچ کہی ‘ جو وعدہ کیا ‘ اسے پورا کیا۔ میں کسی حلال (یعنی نکاح ثانی) کو حرام نہیں کر سکتا اور نہ کسی حرام کو حلال بناتا ہوں۔ لیکن اللہ کی قسم! رسول اللہ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک ساتھ جمع نہیں ہوں گی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: 3110]
حدیث نمبر: 3111
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ، عَنْ مُنْذِرٍ، عَنْ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ، قَالَ: لَوْ كَانَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ذَاكِرًا عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ذَكَرَهُ يَوْمَ جَاءَهُ نَاسٌ فَشَكَوْا سُعَاةَ عُثْمَانَ، فَقَالَ لِي عَلِيٌّ:" اذْهَبْ إِلَى عُثْمَانَ، فَأَخْبِرْهُ أَنَّهَا صَدَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمُرْ سُعَاتَكَ يَعْمَلُونَ فِيهَا فَأَتَيْتُهُ بِهَا، فَقَالَ: أَغْنِهَا عَنَّا، فَأَتَيْتُ بِهَا عَلِيًّا فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: ضَعْهَا حَيْثُ أَخَذْتَهَا"،
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے محمد بن سوقہ نے ‘ ان سے منذر بن یعلیٰ نے اور ان سے محمد بن حنفیہ نے ‘ انہوں نے کہا کہ اگر علی رضی اللہ عنہ، عثمان رضی اللہ عنہ کو برا کہنے والے ہوتے تو اس دن ہوتے جب کچھ لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کے عاملوں کی (جو زکوٰۃ وصول کرتے تھے) شکایت کرنے ان کے پاس آئے۔ انہوں نے مجھ سے کہا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس جا اور یہ زکوٰۃ کا پروانہ لے جا۔ ان سے کہنا کہ یہ پروانہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لکھوایا ہوا ہے۔ تم اپنے عاملوں کو حکم دو کہ وہ اسی کے مطابق عمل کریں۔ چنانچہ میں اسے لے کر عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں پیغام پہنچا دیا ‘ لیکن انہوں نے فرمایا کہ ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں (کیونکہ ہمارے پاس اس کی نقل موجود ہے) میں نے جا کر علی رضی اللہ عنہ سے یہ واقعہ بیان کیا ‘ تو انہوں نے فرمایا کہ اچھا ‘ پھر اس پروانے کو جہاں سے اٹھایا ہے وہیں رکھ دو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: 3111]
حدیث نمبر: 3112
قَال: الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُوقَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ مُنْذِرًا الثَّوْرِيَّ، عَنْ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ، قَالَ: أَرْسَلَنِي أَبِي خُذْ هَذَا الْكِتَابَ فَاذْهَبْ بِهِ إِلَى عُثْمَانَ، فَإِنَّ فِيهِ أَمْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّدَقَةِ.
حمیدی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے محمد بن سوقہ نے کہا کہ میں نے منذر ثوری سے سنا ‘ وہ محمد بن حنفیہ سے بیان کرتے تھے کہ میرے والد (علی رضی اللہ عنہ) نے مجھ کو کہا کہ یہ پروانہ عثمان رضی اللہ عنہ کو لے جا کر دے آؤ ‘ اس میں زکوٰۃ سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ احکامات درج ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: 3112]
6. بَابُ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْخُمُسَ لِنَوَائِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمَسَاكِينِ:
6. باب: اس بات کی دلیل کہ غنیمت کا پانچواں حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپ کی ضرورتوں (جیسے ضیافت مہمان، سامان جہاد کی تیاری وغیرہ) اور محتاجوں کے لیے تھا۔
حدیث نمبر: Q3113
وَإِيثَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهْلَ الصُّفَّةِ وَالأَرَامِلَ حِينَ سَأَلَتْهُ فَاطِمَةُ وَشَكَتْ إِلَيْهِ الطَّحْنَ وَالرَّحَى أَنْ يُخْدِمَهَا مِنَ السَّبْيِ، فَوَكَلَهَا إِلَى اللَّهِ.
‏‏‏‏ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفہ والوں (محتاجوں) اور بیوہ عورتوں کی خدمت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے آرام پر مقدم رکھی۔ جب انہوں نے قیدیوں میں سے ایک خدمتگار آپ سے مانگا اور اپنی تکلیف کا ذکر کیا ‘ جو آٹا گوندھنے اور پیسنے میں ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ضروریات کو اللہ کے بھروسہ پر چھوڑ دیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: Q3113]
حدیث نمبر: 3113
حَدَّثَنَا بَدَلُ بْنُ الْمُحَبَّرِ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الْحَكَمُ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي لَيْلَى، حَدَّثَنَا عَلِيٌّ أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام اشْتَكَتْ مَا تَلْقَى مِنَ الرَّحَى مِمَّا تَطْحَنُ فَبَلَغَهَا أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُتِيَ بِسَبْيٍ فَأَتَتْهُ تَسْأَلُهُ خَادِمًا فَلَمْ تُوَافِقْهُ فَذَكَرَتْ لِعَائِشَةَ فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ عَائِشَةُ لَهُ فَأَتَانَا وَقَدْ دَخَلْنَا مَضَاجِعَنَا فَذَهَبْنَا لِنَقُومَ، فَقَالَ:" عَلَى مَكَانِكُمَا حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ قَدَمَيْهِ عَلَى صَدْرِي، فَقَالَ: أَلَا أَدُلُّكُمَا عَلَى خَيْرٍ مِمَّا سَأَلْتُمَاهُ إِذَا أَخَذْتُمَا مَضَاجِعَكُمَا فَكَبِّرَا اللَّهَ أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ، وَاحْمَدَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَسَبِّحَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، فَإِنَّ ذَلِكَ خَيْرٌ لَكُمَا مِمَّا سَأَلْتُمَاهُ".
ہم سے بدل بن محبر نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی ‘ کہا کہ مجھے حکم نے خبر دی ‘ کہا کہ میں نے ابن ابی لیلیٰ سے سنا ‘ کہا مجھ سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو چکی پیسنے کی بہت تکلیف ہوتی۔ پھر انہیں معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے ہیں۔ اس لیے وہ بھی ان میں سے ایک لونڈی یا غلام کی درخواست لے کر حاضر ہوئیں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم موجود نہیں تھے۔ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کے متعلق کہہ کر (واپس) چلی آئیں۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان کی درخواست پیش کر دی۔ علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اسے سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں (رات ہی کو) تشریف لائے۔ جب ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے (جب ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا (تو ہم لوگ کھڑے ہونے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح ہو ویسے ہی لیٹے رہو۔ (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بیچ میں بیٹھ گئے اور اتنے قریب ہو گئے کہ) میں نے آپ کے دونوں قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے پر پائی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کچھ تم لوگوں نے (لونڈی یا غلام) مانگے ہیں ‘ میں تمہیں اس سے بہتر بات کیوں نہ بتاؤں ‘ جب تم دونوں اپنے بستر پر لیٹ جاؤ (تو سونے سے پہلے) اللہ اکبر 34 مرتبہ اور الحمداللہ 33 مرتبہ اور سبحان اللہ 33 مرتبہ پڑھ لیا کرو ‘ یہ عمل بہتر ہے اس سے جو تم دونوں نے مانگا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: 3113]
7. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ}:
7. باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد (سورۃ الانفال میں) کہ جو کچھ تم غنیمت میں حاصل کرو، بیشک اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تقسیم کریں گے۔
حدیث نمبر: Q3114
يَعْنِي لِلرَّسُولِ قَسْمَ ذَلِكَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَخَازِنٌ وَاللَّهُ يُعْطِي".
‏‏‏‏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے میں تو بانٹنے والا ہوں ‘ خزانچی اور دینے والا تو صرف اللہ پاک ہی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: Q3114]
حدیث نمبر: 3114
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ وَمَنْصُورٍ وَقَتَادَةَ، سمعوا سالم بن أبي الجعد، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: وُلِدَ لِرَجُلٍ مِنَّا مِنْ الْأَنْصَارِ غُلَامٌ فَأَرَادَ أَنْ يُسَمِّيَهُ مُحَمَّدًا، قَالَ شُعْبَةُ: فِي حَدِيثِ مَنْصُورٍ إِنَّ الْأَنْصَارِيَّ، قَالَ: حَمَلْتُهُ عَلَى عُنُقِي فَأَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِي حَدِيثِ سُلَيْمَانَ وُلِدَ لَهُ غُلَامٌ فَأَرَادَ أَنْ يُسَمِّيَهُ مُحَمَّدًا، قَالَ: سَمُّوا بِاسْمِي وَلَا تَكَنَّوْا بِكُنْيَتِي، فَإِنِّي إِنَّمَا جُعِلْتُ قَاسِمًا أَقْسِمُ بَيْنَكُمْ، وَقَالَ حُصَيْنٌ: بُعِثْتُ قَاسِمًا أَقْسِمُ بَيْنَكُمْ، قَالَ: عَمْرٌو، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ سَالِمًا، عَنْ جَابِرٍ أَرَادَ أَنْ يُسَمِّيَهُ الْقَاسِمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَمُّوا بِاسْمِي وَلَا تَكْتَنُوا بِكُنْيَتِي".
ہم سے ابوولید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے سلیمان ‘ منصور اور قتادہ نے ‘ انہوں نے سالم بن ابی الجعد سے سنا اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ہم انصاریوں کے قبیلہ میں ایک انصاری کے گھر بچہ پیدا ہو تو انہوں نے بچے کا نام محمد رکھنے کا ارادہ کیا اور شعبہ نے منصور سے روایت کر کے بیان کیا ہے کہ ان انصاری نے بیان کیا (جن کے یہاں بچہ پیدا ہوا تھا) کہ میں بچے کو اپنی گردن پر اٹھا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور سلیمان کی روایت میں ہے کہ ان کے یہاں بچہ پیدا ہوا ‘ تو انہوں نے اس کا نام محمد رکھنا چاہا ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ میرے نام پر نام رکھو ‘ لیکن میری کنیت (ابوالقاسم) پر کنیت نہ رکھنا ‘ کیونکہ مجھے تقسیم کرنے والا (قاسم) بنایا گیا ہے۔ میں تم میں تقسیم کرتا ہوں ‘ اور حصین نے (اپنی روایت میں) یوں بیان کیا ‘ کہ مجھے تقسیم کرنے والا (قاسم) بنا کر بھیجا گیا ہے ‘ میں تم میں تقسیم کرتا ہوں۔ عمرو بن مرزوق نے کہا کہ ہمیں شعبہ نے خبر دی ‘ ان سے قتادہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے سالم سے سنا انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے کہ ان انصاری صحابی نے اپنے بچے کا نام قاسم رکھنا چاہا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے نام پر نام رکھو لیکن کنیت نہ رکھو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: 3114]
حدیث نمبر: 3115
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: وُلِدَ لِرَجُلٍ مِنَّا غُلَامٌ فَسَمَّاهُ الْقَاسِمَ، فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: لَا نَكْنِيكَ أَبَا الْقَاسِمِ وَلَا نُنْعِمُكَ عَيْنًا، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وُلِدَ لِي غُلَامٌ فَسَمَّيْتُهُ الْقَاسِمَ، فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: لَا نَكْنِيكَ أَبَا الْقَاسِمِ وَلَا نُنْعِمُكَ عَيْنًا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَحْسَنَتْ الْأَنْصَارُ سَمُّوا بِاسْمِي وَلَا تَكَنَّوْا بِكُنْيَتِي فَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ".
ہم سے محمد بن یوسف بیکندی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ‘ ان سے اعمش نے ‘ ان سے ابوسالم نے ‘ ان سے ابوالجعد نے اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ہمارے قبیلہ میں ایک شخص کے یہاں بچہ پیدا ہوا ‘ تو انہوں نے اس کا نام قاسم رکھا ‘ انصار کہنے لگے کہ ہم تمہیں ابوالقاسم کہہ کر کبھی نہیں پکاریں گے اور ہم تمہاری آنکھ ٹھنڈی نہیں کریں گے یہ سن کر وہ انصاری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی یا رسول اللہ! میرے گھر ایک بچہ پیدا ہوا ہے۔ میں نے اس کا نام قاسم رکھا ہے تو انصار کہتے ہیں ہم تیری کنیت ابوالقاسم نہیں پکاریں گے اور تیری آنکھ ٹھنڈی نہیں کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انصار نے ٹھیک کہا ہے میرے نام پر نام رکھو ‘ لیکن میری کنیت مت رکھو ‘ کیونکہ قاسم میں ہوں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: 3115]
حدیث نمبر: 3116
حَدَّثَنَا حِبَّانُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ وَاللَّهُ الْمُعْطِي وَأَنَا الْقَاسِمُ، وَلَا تَزَالُ هَذِهِ الْأُمَّةُ ظَاهِرِينَ عَلَى مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ".
ہم سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبداللہ بن مبارک نے ‘ انہیں یونس نے، انہیں زہری نے ‘ انہیں حمید بن عبدالرحمٰن نے ‘ انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ آپ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔ اور دینے والا تو اللہ ہی ہے میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور اپنے دشمنوں کے مقابلے میں یہ امت (مسلمہ) ہمیشہ غالب رہے گی۔ تاآنکہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے اور اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: 3116]

Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next