الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح البخاري کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:

صحيح البخاري
كِتَاب الْأَحْكَامِ
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
12. بَابُ الْحَاكِمِ يَحْكُمُ بِالْقَتْلِ عَلَى مَنْ وَجَبَ عَلَيْهِ دُونَ الإِمَامِ الَّذِي فَوْقَهُ:
12. باب: ماتحت حاکم قصاص کا حکم دے سکتا ہے بڑے حاکم سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔
حدیث نمبر: 7155
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ الذُّهْلِيُّ، حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ ثُمَامَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: إِنَّ قَيْسَ بْنَ سَعْدٍ كَانَ يَكُونُ بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمَنْزِلَةِ صَاحِبِ الشُّرَطِ مِنَ الْأَمِيرِ".
ہم سے محمد بن خالد ذہلی نے بیان کیا، کہا ہم سے انصاری محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے ثمامہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس طرح رہتے تھے جیسے امیر کے ساتھ کوتوال رہتا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَحْكَامِ/حدیث: 7155]
حدیث نمبر: 7156
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى هُوَ الْقَطَّانُ، عَنْ قُرَّةَ بْنِ خَالِدٍ، حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَن النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" بَعَثَهُ وَأَتْبَعَهُ بِمُعَاذٍ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے قرہ نے، ان سے حمید بن ہلال نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھیجا تھا اور ان کے ساتھ معاذ رضی اللہ عنہ کو بھی بھیجا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَحْكَامِ/حدیث: 7156]
حدیث نمبر: 7157
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا مَحْبُوبُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّ رَجُلًا أَسْلَمَ، ثُمَّ تَهَوَّدَ، فَأَتَى مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ وَهُوَ عِنْدَ أَبِي مُوسَى، فَقَالَ: مَا لِهَذَا؟، قَالَ:" أَسْلَمَ ثُمَّ تَهَوَّدَ، قَالَ: لَا أَجْلِسُ حَتَّى أَقْتُلَهُ قَضَاءُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے عبداللہ بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے محبوب بن الحسن نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے حمید بن ہلال نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص اسلام لایا پھر یہودی ہو گیا پھر معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ آئے اور وہ شخص ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس تھا۔ انہوں نے پوچھا اس کا کیا معاملہ ہے؟ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اسلام لایا پھر یہودی ہو گیا، پھر انہوں نے کہا کہ جب تک میں اسے قتل نہ کر لو نہیں بیٹھوں گا، یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَحْكَامِ/حدیث: 7157]
13. بَابُ هَلْ يَقْضِي الْحَاكِمُ أَوْ يُفْتِي وَهْوَ غَضْبَانُ:
13. باب: قاضی کو فیصلہ یا فتویٰ غصہ کی حالت میں دینا درست ہے یا نہیں۔
حدیث نمبر: 7158
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ، سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرَةَ، قَالَ: كَتَبَ أَبُو بَكْرَةَ إِلَى ابْنِهِ، وَكَانَ بِسِجِسْتَانَ، بِأَنْ لَا تَقْضِيَ بَيْنَ اثْنَيْنِ وَأَنْتَ غَضْبَانُ، فَإِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا يَقْضِيَنَّ حَكَمٌ بَيْنَ اثْنَيْنِ وَهُوَ غَضْبَانُ".
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالملک بن عمیر نے کہا کہ میں نے عبدالرحمٰن ابن ابی بکرہ سے سنا کہا کہ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے اپنے لڑکے (عبیداللہ) کو لکھا اور وہ اس وقت سجستان میں تھے کہ دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ اس وقت نہ کرنا جب تم غصہ میں ہو کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ کوئی ثالث دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ اس وقت نہ کرے جب وہ غصہ میں ہو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَحْكَامِ/حدیث: 7158]
حدیث نمبر: 7159
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ،" إِنِّي وَاللَّهِ لَأَتَأَخَّرُ عَنْ صَلَاةِ الْغَدَاةِ مِنْ أَجْلِ فُلَانٍ مِمَّا يُطِيلُ بِنَا فِيهَا، قَالَ: فَمَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطُّ أَشَدَّ غَضَبًا فِي مَوْعِظَةٍ مِنْهُ يَوْمَئِذٍ، ثُمَّ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ مِنْكُمْ مُنَفِّرِينَ، فَأَيُّكُمْ مَا صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيُوجِزْ، فَإِنَّ فِيهِمُ الْكَبِيرَ وَالضَّعِيفَ وَذَا الْحَاجَةِ".
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو اسماعیل بن ابی خالد نے خبر دی، انہیں قیس ابن ابی حازم نے، ان سے ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں واللہ صبح کی جماعت میں فلاں (امام معاذ بن جبل یا ابی بن کعب رضی اللہ عنہما) کی وجہ سے شرکت نہیں کر پاتا کیونکہ وہ ہمارے ساتھ اس نماز کو بہت لمبی کر دیتے ہیں۔ ابومسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وعظ و نصیحت کے وقت اس سے زیادہ غضب ناک ہوتا کبھی نہیں دیکھا جیسا کہ آپ اس دن تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! تم میں سے بعض نمازیوں کو نفرت دلانے والے ہیں، پس تم میں سے جو شخص بھی لوگوں کو نماز پڑھائے اسے اختصار کرنا چاہئے کیونکہ جماعت میں بوڑھے، بچے اور ضرورت مند سب ہی ہوتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَحْكَامِ/حدیث: 7159]
حدیث نمبر: 7160
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ الْكَرْمَانِيُّ، حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ الزُّهْرِيُّ، أَخْبَرَنِي سَالِمٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَذَكَرَ عُمَرُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَغَيَّظَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ:"لِيُرَاجِعْهَا ثُمَّ لِيُمْسِكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ تَحِيضَ فَتَطْهُرَ، فَإِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يُطَلِّقَهَا فَلْيُطَلِّقْهَا".
ہم سے محمد بن ابی یعقوب الکرمانی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حسان بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یونس نے بیان کیا، محمد نے بیان کیا کہ مجھے سالم نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ انہوں نے اپنی بیوی کو جب کہ وہ حالت حیض میں تھیں (آمنہ بنت غفار) طلاق دے دی، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا تذکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ بہت خفا ہوئے پھر فرمایا انہیں چاہئے کہ وہ رجوع کر لیں اور انہیں اپنے پاس رکھیں، یہاں تک کہ جب وہ پاک ہو جائیں پھر حائضہ ہوں اور پھر پاک ہوں تب اگر چاہے تو اسے طلاق دیدے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَحْكَامِ/حدیث: 7160]
14. بَابُ مَنْ رَأَى لِلْقَاضِي أَنْ يَحْكُمَ بِعِلْمِهِ فِي أَمْرِ النَّاسِ إِذَا لَمْ يَخَفِ الظُّنُونَ وَالتُّهَمَةَ:
14. باب: قاضی کا اپنے ذاتی علم کی رو سے معاملات میں فیصلہ دینا درست ہے۔
حدیث نمبر: Q7161
كَمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِهِنْدٍ: خُذِي مَا يَكْفِيكِ وَوَلَدَكِ بِالْمَعْرُوفِ وَذَلِكَ إِذَا كَانَ أَمْرًا مَشْهُورًا.
‏‏‏‏ (قاضی کو اپنے ذاتی علم کی رو سے معاملات میں حکم دینا درست ہے، نہ کہ حدود اور حقوق اللہ میں) یہ بھی جب کہ بدگمانی اور تہمت کا ڈر نہ ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہند (ابوسفیان کی بیوی) کو یہ حکم دیا تھا کہ تو ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے مال میں سے اتنا لے سکتی ہے جو دستور کے موافق تجھ کو اور تیری اولاد کو کافی ہو اور یہ اس وقت ہو گا جب معاملہ مشہور ہو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَحْكَامِ/حدیث: Q7161]
حدیث نمبر: 7161
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" جَاءَتْ هِنْدٌ بِنْتُ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا كَانَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَهْلُ خِبَاءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ يَذِلُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ، وَمَا أَصْبَحَ الْيَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَهْلُ خِبَاءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ يَعِزُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ، ثُمَّ قَالَتْ: إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ مِسِّيكٌ، فَهَلْ عَلَيَّ مِنْ حَرَجٍ أَنْ أُطْعِمَ مِنَ الَّذِي لَهُ عِيَالَنَا؟، قَالَ لَهَا: لَا حَرَجَ عَلَيْكِ أَنْ تُطْعِمِيهِمْ مِنْ مَعْرُوفٍ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ہند بنت عتبہ بن ربیعہ آئیں اور کہا: یا رسول اللہ! روئے زمین کا کوئی گھرانہ ایسا نہیں تھا جس کے متعلق اس درجہ میں ذلت کی خواہشمند ہوں جتنا آپ کے گھرانہ کی ذلت و رسوائی کی میں خواہشمند تھی لیکن اب میرا یہ حال ہے کہ میں سب سے زیادہ خواہشمند ہوں کہ روئے زمین کے تمام گھرانوں میں آپ کا گھرانہ عزت و سربلندی والا ہو۔ پھر انہوں نے کہا کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ بخیل آدمی ہیں، تو کیا میرے لیے کوئی حرج ہے اگر میں ان کے مال میں سے (ان کی اجازت کے بغیر لے کر) اپنے اہل و عیال کو کھلاؤں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تمہارے لیے کوئی حرج نہیں ہے، اگر تم انہیں دستور کے مطابق کھلاؤ۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَحْكَامِ/حدیث: 7161]
15. بَابُ الشَّهَادَةِ عَلَى الْخَطِّ الْمَخْتُومِ:
15. باب: مہری خط پر گواہی دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: Q7162
وَمَا يَجُوزُ مِنْ ذَلِكَ وَمَا يَضِيقُ عَلَيْهِمْ وَكِتَابِ الْحَاكِمِ إِلَى عَامِلِهِ وَالْقَاضِي إِلَى الْقَاضِي وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ كِتَابُ الْحَاكِمِ جَائِزٌ إِلَّا فِي الْحُدُودِ، ثُمَّ قَالَ إِنْ كَانَ الْقَتْلُ خَطَأً فَهُوَ جَائِزٌ لِأَنَّ هَذَا مَالٌ بِزَعْمِهِ، وَإِنَّمَا صَارَ مَالًا بَعْدَ أَنْ ثَبَتَ الْقَتْلُ فَالْخَطَأُ وَالْعَمْدُ وَاحِدٌ وَقَدْ كَتَبَ عُمَرُ إِلَى عَامِلِهِ فِي الْجَارُودِ وَكَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ فِي سِنٍّ كُسِرَتْ، وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ كِتَابُ الْقَاضِي إِلَى الْقَاضِي جَائِزٌ إِذَا عَرَفَ الْكِتَابَ وَالْخَاتَمَ وَكَانَ الشَّعْبِيُّ يُجِيزُ الْكِتَابَ الْمَخْتُومَ بِمَا فِيهِ مِنَ الْقَاضِي وَيُرْوَى عَنِ ابْنِ عُمَرَ نَحْوُهُ، وَقَالَ مُعَاوِيَةُ بْنُ عَبْدِ الْكَرِيمِ الثَّقَفِيُّ شَهِدْتُ عَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ يَعْلَى قَاضِيَ الْبَصْرَةِ، وَإِيَاسَ بْنَ مُعَاوِيَةَ، وَالْحَسَنَ، وَثُمَامَةَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ، وَبِلَالَ بْنَ أَبِي بُرْدَةَ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيَّ، وَعَامِرَ بْنَ عَبِيدَةَ، وَعَبَّادَ بْنَ مَنْصُورٍ يُجِيزُونَ كُتُبَ الْقُضَاةِ بِغَيْرِ مَحْضَرٍ مِنَ الشُّهُودِ فَإِنْ قَالَ الَّذِي جِيءَ عَلَيْهِ بِالْكِتَابِ إِنَّهُ زُورٌ قِيلَ لَهُ اذْهَبْ فَالْتَمِسِ الْمَخْرَجَ مِنْ ذَلِكَ، وَأَوَّلُ مَنْ سَأَلَ عَلَى كِتَابِ الْقَاضِي الْبَيِّنَةَ ابْنُ أَبِي لَيْلَى، وَسَوَّارُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَقَالَ لَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُحْرِزٍ جِئْتُ بِكِتَابٍ مِنْ مُوسَى بْنِ أَنَسٍ قَاضِي الْبَصْرَةِ وَأَقَمْتُ عِنْدَهُ الْبَيِّنَةَ أَنَّ لِي عِنْدَ فُلَانٍ كَذَا وَكَذَا وَهُوَ بِالْكُوفَةِ وَجِئْتُ بِهِ الْقَاسِمَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَأَجَازَهُ وَكَرِهَ الْحَسَنُ وَأَبُو قِلَابَةَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَى وَصِيَّةٍ حَتَّى يَعْلَمَ مَا فِيهَا لِأَنَّهُ لَا يَدْرِي لَعَلَّ فِيهَا جَوْرًا، وَقَدْ كَتَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَهْلِ خَيْبَرَ إِمَّا أَنْ تَدُوا صَاحِبَكُمْ وَإِمَّا أَنْ تُؤْذِنُوا بِحَرْبٍ، وَقَالَ الزُّهْرِيُّ فِي الشَّهَادَةِ عَلَى الْمَرْأَةِ مِنْ وَرَاءِ السِّتْرِ إِنْ عَرَفْتَهَا فَاشْهَدْ وَإِلَّا فَلَا تَشْهَدْ
‏‏‏‏ اور کون سی گواہی اس مقدمہ میں جائز ہے اور کون سی ناجائز اور حاکم جو اپنے نائبوں کو پروانے لکھے۔ اسی طرح ایک ملک کا قاضی دوسرے ملک کے قاضی کو، اس کا بیان اور بعض لوگوں نے کہا حاکم جو پروانے اپنے نائبوں کو لکھے ان پر عمل ہو سکتا ہے۔ مگر حدود شرعیہ میں نہیں ہو سکتا (کیونکہ ڈر ہے کہ پروانہ جعلی نہ ہو) پھر خود ہی کہتے ہیں کہ قتل خطا میں پروانے پر عمل ہو سکتا ہے کیونکہ وہ اس کی رائے پر مثل مالی دعوؤں کے ہے حالانکہ قتل خطا مالی دعوؤں کی طرح نہیں ہے بلکہ ثبوت کے بعد اس کی سزا مالی ہوتی ہے تو قتل خطا اور عمد دونوں کا حکم ایک رہنا چاہئے۔ (دونوں میں پروانے کا اعتبار نہ ہونا چاہئے) اور عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عاملوں کو حدود میں پروانے لکھے ہیں اور عمر بن عبدالعزیز نے دانت توڑنے کے مقدمہ میں پروانہ لکھا اور ابراہیم نخعی نے کہا ایک قاضی دوسرے قاضی کے خط پر عمل کر لے جب اس کی مہر اور خط کو پہچانتا ہو تو یہ جائز ہے اور شعبی مہری خط کو جو ایک قاضی کی طرف سے آئے جائز رکھتے تھے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی ایسا ہی منقول ہے اور معاویہ بن عبدالکریم ثقفی نے کہا میں عبدالملک بن یعلیٰ (بصرہ کے قاضی) اور ایاس بن معاویہ (بصریٰ کے قاضی) اور حسن بصری اور ثمامہ بن عبداللہ بن انس اور بلال بن ابی بردہ (بصریٰ کے قاضی) اور عبداللہ بن بریدہ (مرو کے قاضی) اور عامر بن عبیدہ (کوفہ کے قاضی) اور عباد بن منصور (بصریٰ کے قاضی) ان سب سے ملا ہوں۔ یہ سب ایک قاضی کا خط دوسرے قاضی کے نام بغیر گواہوں کے منظور کرتے۔ اگر فریق ثانی جس کو اس خط سے ضرر ہوتا ہے یوں کہے کہ یہ خط جعلی ہے تو اس کو حکم دیں گے کہ اچھا اس کا ثبوت دے اور قاضی کے خط پر سب سے پہلے ابن ابی لیلیٰ (کوفہ کے قاضی) اور سوار بن عبداللہ (بصریٰ کے قاضی) نے گواہی چاہی اور ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے کہا، ہم سے عبیداللہ بن محرز نے بیان کیا کہ میں نے موسیٰ بن انس بصریٰ کے پاس اس مدعی پر گواہ پیش کئے کہ فلاں شخص پر میرا اتنا حق آتا ہے اور وہ کوفہ میں ہے پھر میں ان کا خط لے کر قاسم بن عبدالرحمٰن کوفہ کے قاضی کے پاس آیا۔ انہوں نے اس کو منظور کیا اور امام حسن بصری اور ابوقلابہ نے کہا وصیت نامہ پر اس وقت تک گواہی کرنا مکروہ ہے جب تک اس کا مضمون نہ سمجھ لے ایسا نہ ہو وہ ظلم اور خلاف شرع ہو۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں کو خط بھیجا کہ یا تو اس شخص (یعنی عبداللہ بن سہل) مقتول کی دیت دو جو تمہاری بستی میں مارا گیا ہے ورنہ جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔ اور زہری نے کہا اگر عورت پردے کی آڑ میں ہو اور آواز وغیرہ سے تو اسے پہچانتا ہو تو اس پر گواہی دے سکتا ہے ورنہ نہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَحْكَامِ/حدیث: Q7162]
حدیث نمبر: 7162
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" لَمَّا أَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَكْتُبَ إِلَى الرُّومِ، قَالُوا: إِنَّهُمْ لَا يَقْرَءُونَ كِتَابًا إِلَّا مَخْتُومًا، فَاتَّخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمًا مِنْ فِضَّةٍ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِهِ وَنَقْشُهُ، مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے قتادہ سے سنا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل روم کو خط لکھنا چاہا تو صحابہ نے کہا کہ رومی صرف مہر لگا ہوا خط ہی قبول کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک مہر بنوائی گویا میں اس کی چمک کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور اس پر کلمہ «محمد رسول الله‏.‏» نقش تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَحْكَامِ/حدیث: 7162]

Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next