الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سلسله احاديث صحيحه کل احادیث (4103)
حدیث نمبر سے تلاش:

سلسله احاديث صحيحه
المواعظ والرقائق
نصيحتين اور دل کو نرم کرنے والی احادیث
حدیث نمبر: 2324
- (لا تحقِرنَّ شَيئاً من المعروفِ أن تأتيَه؛ ولو أن تَهَبَ صِلَةَ الحبلِ، ولو أن تُفرغَ من دلوكِ في إناءِ المستقِي، ولو أن تلقَى أخاك المسلمَ ووجهُك بسطٌ إليه، ولو أن تؤنِس الوَحشان بنفسكَ، ولو أن تهَبَ الشِّسعَ).
سہم بن معتمر، ہجیمی سے روایت کرتے ہیں کہ وہ مدینہ منورہ تشریف لائے اور مدینہ کی کسی گلی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں پایا کہ آپ نے روئی سے بنا ہوا تہبند باندھا ہوا تھا اور اس کا کنارہ پھیلا ہوا تھا۔ ہجیمی نے فرمایا: اے اللہ کے رسول! «عليك السلام» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «عليك السلام» تو مردوں کا سلام ہے۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے کوئی وصیت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی نیکی سر انجام دینے کو معمولی خیال نہ کرنا، اگرچہ (وہ نیکی یہ ہو کہ تو کسی کو) رسی کا عطیہ دے دے، اپنے ڈول سے پانی مانگنے والے کے برتن میں پانی ڈال دے، اپنے مسلمان بھائی کو خندہ پیشانی کے ساتھ ملے، خوف و گھبراہٹ میں مبتلا آدمی کا دل بہلا دے یا (کسی کو) تسمہ ہبہ کر دے۔ [سلسله احاديث صحيحه/المواعظ والرقائق/حدیث: 2324]
1561. اللہ تعالیٰ کس کی ملاقات پسند اور کس کی ناپسند کرتا ہے
حدیث نمبر: 2325
- (قال الله تبارك وتعالى: إذا أحب عبدي لقائي أحببتُ لقاءه، وإذا كره لقائي كرهتُ لقاءه).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: جب میرا بندہ میری ملاقات پسند کرتا ہے تو میں بھی اس کی ملاقات پسند کرتا ہوں اور جب وہ میری ملاقات ناپسند کرتا ہے میں بھی اس کی ملاقات نا پسند کرتا ہوں۔ [سلسله احاديث صحيحه/المواعظ والرقائق/حدیث: 2325]
1562. گناہ پر ندامت کا اظہار ہی توبہ ہے
حدیث نمبر: 2326
-" أما بعد يا عائشة! فإنه قد بلغني عنك كذا وكذا، [إنما أنت من بنات آدم]، فإن كنت بريئة فسيبرئك الله، وإن كنت ألممت بذنب فاستغفري الله وتوبي إليه، فإن العبد إذا اعترف بذنبه ثم تاب إلى الله تاب الله عليه. وفي رواية: فإن التوبة من الذنب الندم".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے قصہ افک کے بارے میں روایت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (حمد و ثناء کے بعد بات یہ ہے کہ) اے عائشہ! مجھے تیرے متعلق اس قسم کی باتیں موصول ہوئی ہیں، بے شک تو آدم کی بیٹیوں میں سے ایک ہے، اگر تو بَری (اور پاکدامن) ہے تو عنقریب اللہ تعالیٰ تیری برأت ثابت کر دے گا۔ لیکن اگر تو نے گناہ کر لیا تو اللہ سے معافی مانگ اور اس کی طرف رجوع کر، یقیناً بندہ جب اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی توبہ قبول کرتا ہے اور ایک روایت میں ہے: یقیناً (کسی گناہ پر) ندامت کا اظہار کرنا اس سے توبہ کرنا ہے۔ [سلسله احاديث صحيحه/المواعظ والرقائق/حدیث: 2326]
1563. توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے
حدیث نمبر: 2327
- (إنّ الله عز وجل يبسط يده بالليل؛ ليتوب مُسيءُ النهار، ويبسط يده بالنهار؛ ليتوب مسيء الليل، حتى تطلع الشمس من مغربها).
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ رات کو اپنا ہاتھ پھیلاتے ہیں تاکہ دن کو گناہ کرنے والا توبہ کر سکے، پھر دن کو ہاتھ پھیلا دیتے ہیں تاکہ رات کو گناہ کرنے والا توبہ کر سکے۔ مغرب سے سورج کے طلوع ہونے تک (یہی سلسلہ جاری رہے گا)۔ [سلسله احاديث صحيحه/المواعظ والرقائق/حدیث: 2327]
1564. توبہ ہر گناہ پر غالب ہے
حدیث نمبر: 2328
- (كان رجلٌ من الأنصار أسلمَ؛ ثم ارتدَّ ولَحِقَ بالشركِ؛ ثم تَنَدَّمَ، فأرسل إلى قومِهِ: سَلُوا رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: هل له من توبةٍ؟ فجاء قومُهُ إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقالوا: إنَّ فلاناً قد نَدِمَ، وإنّه أمَرَنا أن نسألك: هل له من توبةٍ؟ فنزلت: (كَيْفَ يهدِي اللهُ قوماً كَفَرُوا بَعْدَ إيمانِهِم..) إلى قوله: (غفورٌ رحيمٌ)، فأرسل إليهِ [قومُه] ؛ فأَسلَم).
سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: انصاری قبیلہ کا ایک آدمی مسلمان ہوا اور پھر مرتد ہو گیا اور مشرکوں سے جا ملا۔ بعد میں وہ (اپنے کئے پر) شرمندہ ہوا اور اس نے اپنی قوم کی طرف پیغام بھیجا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرو کہ کیا اس کے لیے توبہ ہے؟ چنانچہ اس کی قوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: بے شک فلاں شخص کو ندامت ہوئی ہے اور اس نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم آپ سے پوچھیں کیا اس کی کوئی توبہ ہے؟ پس یہ آیت نازل ہوئی: اللہ ایسی قوم کو کیسے ہدایت دے جنہوں نے ایمان کے بعد کفر کیا۔ غفور رحیم تک آیت پڑھی۔ پس قوم نے اس کی طرف پیغام بھیجا اور وہ پھر سے مسلمان ہو گیا۔ [سلسله احاديث صحيحه/المواعظ والرقائق/حدیث: 2328]
1565. اللہ تعالیٰ کے سامنے تواضع کا انداز
حدیث نمبر: 2329
-" كن مع صاحب البلاء تواضعا لربك وإيمانا".
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے رب کے سامنے عاجزی کرتے ہوئے اور اس پر ایمان رکھتے ہوئے آزمائش والے آدمی کے ساتھ بھی رہا کر۔ [سلسله احاديث صحيحه/المواعظ والرقائق/حدیث: 2329]
1566. اعمال صالحہ انسان کو جنت میں داخل نہیں کر سکتے، لیکن پھر بھی . . .
حدیث نمبر: 2330
- (يا أسَدُ بْنَ كُرْزٍ! لا تدخلُ الجنةَ بعملٍ، ولكن برحمةِ الله، [قلتُ: ولا أنتَ يا رسول الله؛ قال:] ولا أنا؛ إلا أن يتلافاني الله، أو يتغمدني [الله] منه برحمةٍ).
سیدنا اسد بن کرز رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: اے اسد بن کرز! تو اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں ہو گا، بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بل بوتے پر۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اور آپ بھی (اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں داخل) نہیں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ہاں) میں بھی نہیں، ہاں اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی رحمت میں ڈھانپ لیا (تو جنت میں داخل ہو جاؤں گا۔) [سلسله احاديث صحيحه/المواعظ والرقائق/حدیث: 2330]
حدیث نمبر: 2331
-" لن يدخل أحدا منكم عمله الجنة [ولا ينجيه من النار]، قالوا: ولا أنت يا رسول الله؟ قال: ولا أنا -[وأشار بيده هكذا على رأسه:]- إلا أن يتغمدني الله منه بفضل ورحمة، [مرتين أو ثلاثا] [فسددوا وقاربوا] [ وأبشروا] [واغدوا وروحوا، وشيء من الدلجة، والقصد القصد تبلغوا] [ واعلموا أن أحب العمل إلى الله أدومه وإن قل]".
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کسی ایک کو اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا اور نہ ہی اس کو نجات دلائے گا۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اور آپ کو بھی نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! نہ ہی مجھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اپنے سر کی طرف اشارہ کیا۔ ہاں اگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے مجھے ڈھانپ لے (تو کام بن جائے گا)۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین دفعہ ذکر کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رائے صواب پر چلتے رہو، میانہ روی اختیار کرو، خوشخبریاں سناتے رہو اور صبح کو، شام کو اور کچھ وقت رات کو عبادت کرتے رہو اور میانہ روی اختیار کرو، اعتدال کو اپناو، منزل مقصود تک پہنچ جاؤ گے اور جان لو اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے، جس پر ہمیشگی اختیار کی جائے، اگرچہ وہ تھوڑا ہی ہو۔ یہ حدیث متعدد صحابہ سے مروی ہے، ان میں سیدنا ابوہریرہ، سیدہ عائشہ، سیدنا جابر، سیدنا ابوسعید خدری، سیدنا اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ [سلسله احاديث صحيحه/المواعظ والرقائق/حدیث: 2331]
1567. برائیوں کا نیکیوں میں بدل جانا، اسلام قبول کرنے، نیکیاں کرنے اور براییاں ترک کرنے کی برکتیں
حدیث نمبر: 2332
- (نَعَم، تفعلُ الخيرات، وتتركُ السيئات، فيجعلُهنَّ اللهُ لكَ خيراتٍ كلَّهنَّ).
سیدنا ابو طویل شطب ممدود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاس آئے اور کہا: ایسے آدمی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جس نے تمام گناہوں کا ارتکاب کیا ہو اور کوئی گناہ نہ رہنے دیا ہو اور اس سلسلے میں اس نے اپنی ہر چھوٹی بڑی (بری) حاجت اور خواہش پوری کر لی ہو۔ کیا ایسے شخص کے لیے بھی کوئی توبہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو مسلمان ہو گیا ہے؟ اس نے کہا: بلاشبہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں (ایسے آدمی کی توبہ قبول ہو سکتی ہے، لیکن بات یہ ہے کہ) تو اعمال صالح کرتا رہ اور برائیاں ترک کر دے، اللہ تعالیٰ تیرے تمام گناہوں کو نیکی میں تبدیل کر دے گا۔ اس نے کہا: میرے تمام فریبوں اور ساری بدکاریوں (کو بھی نیکیوں میں تبدیل کر دیا جائے گا)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ اس نے کہا: اللہ اکبر، پھر وہ غائب ہونے تک اللہ اکبر کہتا چلا گیا۔ [سلسله احاديث صحيحه/المواعظ والرقائق/حدیث: 2332]
حدیث نمبر: 2333
- (يُؤتَى بالرجل يوم القيامة فيُقالُ: اعرِضوا عليه صغارَ ذُنُوبِهِ. فتُعرضُ عليه، ويُخَبَّأُ عنه كبارُها، فيُقالُ: عملت يوم كذا وكذا؛ كذا وكذا، وهو مُقرٌّ لا يُنكرُ، وهو مُشفِقٌ من الكبارِ، فيُقالُ: أعطُوهُ مكان كلِّ سيئةٍ عَمِلَها حسنةً. قال: فيقول: إنَّ لي ذنوباً ما أراها هَهُنا. قال أبو ذرٍّ: فلقد رأيتُ رسولَ اللهِ - صلى الله عليه وسلم - ضَحِكَ حتى بَدَتْ نَواجِذُهُ).
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی کو قیامت کے روز لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اس پر اس کے صغیرہ گناہ پیش کرو، سو وہ اس پر پیش کئے جائیں گے اور اس کے کبیرہ گناہوں کو پوشیدہ رکھا جائے گا اور (اقرار کروانے کے لیے) اسے کہا جائے گا: کیا تو نے فلاں فلاں دن فلاں فلاں گناہ کیا تھا؟ (جواباً) وہ اقرار کرے گا اور انکار نہیں کرے گا، لیکن اپنے کبیرہ گناہوں (کی پیشی سے) ڈر رہا ہو گا۔ (اتنے میں کہا: جائے گا: اس کے ہر گناہ کے عوض اس کو نیکی عطا کر دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (رحمت ایزدی کا یہ عالم دیکھ کر) وہ بندہ کہے گا: میرے تو کچھ اور گناہ بھی تھے، وہ مجھے یہاں نظر نہیں آ رہے۔ ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (یہ بات کہہ کر) ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈاڑھیں نظر آنے لگیں۔ [سلسله احاديث صحيحه/المواعظ والرقائق/حدیث: 2333]

Previous    1    2    3    4    5    Next