الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


الادب المفرد کل احادیث (1322)
حدیث نمبر سے تلاش:

الادب المفرد
كِتَابُ
كتاب
230. بَابُ عِيَادَةِ الْمُغْمَى عَلَيْهِ
230. بے ہوش آدمی کی عیادت کرنا
حدیث نمبر: 511
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: مَرِضْتُ مَرَضًا، فَأَتَانِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي وَابوبَكْرٍ، وَهُمَا مَاشِيَانِ، فَوَجَدَانِي أُغْمِيَ عَلَيَّ، فَتَوَضَّأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ صَبَّ وَضُوءَهُ عَلَيَّ، فَأَفَقْتُ فَإِذَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ أَصْنَعُ فِي مَالِي؟ كَيْفَ أَقْضِي فِي مَالِي؟ فَلَمْ يُجِبْنِي بِشَيْءٍ حَتَّى نَزَلَتْ آيَةُ الْمِيرَاثِ.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ بیمار ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ وہ دونوں پیدل تھے۔ دونوں حضرات نے مجھے بے ہوشی کی حالت میں پایا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا، پھر اپنے وضو کا بچا ہوا پانی مجھ پر ڈالا تو مجھے افاقہ ہو گیا۔ میں نے دیکھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اپنے مال کے بارے میں کیا کروں؟ اور کیسے فیصلہ کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کوئی جواب نہ دیا یہاں تک کہ آیت میراث نازل ہوئی۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 511]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب المرضى، باب عيادة المغمى عليه: 5651 و مسلم: 1616 و أبوداؤد: 2886 و النسائي فى الكبرىٰ: 6287 و فى الصغرىٰ مختصرًا: 1381 و الترمذي: 2097 و ابن ماجه: 2728»

قال الشيخ الألباني: صحيح

231. بَابُ عِيَادَةِ الصِّبْيَانِ
231. بچوں کی تیمار داری کرنا
حدیث نمبر: 512
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، أَنَّ صَبِيًّا لابْنَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَقُلَ، فَبَعَثَتْ أُمُّهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ وَلَدِي فِي الْمَوْتِ، فَقَالَ لِلرَّسُولِ: ”اذْهَبْ فَقُلْ لَهَا: إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ، وَلَهُ مَا أَعْطَى، وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ إِلَى أَجْلٍ مُسَمًّى، فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ“، فَرَجَعَ الرَّسُولُ فَأَخْبَرَهَا، فَبَعَثَتْ إِلَيْهِ تُقْسِمُ عَلَيْهِ لَمَا جَاءَ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، مِنْهُمْ: سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ، فَأَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّبِيَّ فَوَضَعَهُ بَيْنَ ثَنْدُوَتَيْهِ، وَلِصَدْرِهِ قَعْقَعَةٌ كَقَعْقَعَةِ الشَّنَّةِ، فَدَمَعَتْ عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ سَعْدٌ: أَتَبْكِي وَأَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ؟ فَقَالَ: ”إِنَّمَا أَبْكِي رَحْمَةً لَهَا، إِنَّ اللَّهَ لا يَرْحَمُ مِنْ عِبَادِهِ إِلا الرُّحَمَاءَ.“
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک لخت جگر (سیدہ زینب رضی اللہ عنہا) کا بچہ شدید بیمار ہو گیا تو اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیجا کہ میرا بچہ (علی) موت کی کشمکش میں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاصد سے فرمایا: جا کر انہیں کہو: بلاشبہ اللہ کا ہے جو وہ لے لے، اور اسی کا ہے جو وہ دے دے، اور ہر چیز اس کے ہاں ایک مدت مقرر تک ہے۔ اسے چاہیے کہ صبر کرے اور ثواب کی امید رکھے۔ قاصد نے آ کر سیدہ کو پیغام دیا تو انہوں نے قاصد کو دوبارہ بھیجا کہ آپ کی بیٹی قسم دیتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور تشریف لائیں۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ اٹھے جن میں سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگایا تو بچے کی چھاتی مشکیزے کی طرح کھڑکھڑا رہی تھی۔ یہ کیفیت دیکھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہو کر روتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اس پر رحمت اور شفقت کی وجہ سے رو رہا ہوں۔ بےشک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے صرف رحم کرنے والے بندوں پر رحم فرماتا ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 512]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الجنائز، باب قول النبى صلى الله عليه وسلم ......: 1284، 5655، 7377 و مسلم: 923 و أبوداؤد: 3125 و النسائي: 1868 و ابن ماجه: 1588»

قال الشيخ الألباني: صحيح

232. بَابٌ
232. بلا عنوان
حدیث نمبر: 513
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ وَاقِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي عَبْلَةَ، قَالَ: مَرِضَتِ امْرَأَتِي، فَكُنْتُ أَجِيءُ إِلَى أُمِّ الدَّرْدَاءِ، فَتَقُولُ لِي: كَيْفَ أَهْلُكَ؟ فَأَقُولُ لَهَا: مَرْضَى، فَتَدْعُو لِي بِطَعَامٍ، فَآكُلُ، ثُمَّ عُدْتُ فَفَعَلَتْ ذَلِكَ، فَجِئْتُهَا مَرَّةً، فَقَالَتْ: كَيْفَ؟ قُلْتُ: قَدْ تَمَاثَلُوا، فَقَالَتْ: إِنَّمَا كُنْتُ أَدْعُو لَكَ بِطَعَامٍ أَنْ كُنْتَ تُخْبِرُنَا عَنْ أَهْلِكَ أَنَّهُمْ مَرْضَى، فَأَمَّا إِذْ تَمَاثَلُوا فَلا نَدْعُو لَكَ بِشَيْءٍ.
ابراہیم بن ابی عبلہ رحمہ اللہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میری بیوی بیمار ہو گئی، تو میں سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوتا تو وہ مجھ سے پوچھتیں: تیری بیوی کا کیا حال ہے؟ میں ان سے کہتا: بیمار ہی ہے، تو وہ میرے لیے کھانا منگواتیں اور میں کھا لیتا۔ پھر آتا تو اسی طرح کرتا۔ ایک دفعہ میں ان کے پاس آیا تو انہوں نے حسب سابق پوچھا: تیری بیوی کا کیا حال ہے؟ میں کہا: اس کی طبیعت کافی بہتر ہے۔ انہوں نے فرمایا: جب تم مجھے بتاتے تھے کہ میری بیوی بیمار ہے تو میں تیرے لیے کھانا منگواتی تھی، اب چونکہ اس کی طبیعت بہتر ہے (وہ کھانا بنا سکتی ہے) اس لیے ہم تیرے لیے کوئی چیز نہیں منگوائیں گے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 513]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه الطبراني فى مسند الشامين: 26/1 و أبونعيم فى الحلية: 245/5 و ابن عساكر فى تاريخه: 438/6»

قال الشيخ الألباني: صحيح

233. بَابُ عِيَادَةِ الأَعْرَابِ
233. دیہاتیوں کی عیادت کا بیان
حدیث نمبر: 514
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، دَخَلَ عَلَى أَعْرَابِيٍّ، يَعُودُهُ، فَقَالَ: ”لا بَأْسَ عَلَيْكَ، طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ“، قَالَ: قَالَ الأَعْرَابِيُّ: بَلْ هِيَ حُمَّى تَفُورُ، عَلَى شَيْخٍ كَبِيرٍ، كَيْمَا تُزِيرُهُ الْقُبُورَ، قَالَ: ”فَنَعَمْ إِذًا.“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دیہاتی کی عیادت کرنے کے لیے اس کے ہاں تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تجھے کوئی حرج اور ڈر نہیں، یہ بیماری گناہوں سے پاک کرنے والی ہے، ان شاء اللہ۔ راوی کہتے ہیں کہ اس دیہاتی نے کہا: نہیں بلکہ یہ بخار ہے جو بوڑھے شیخ پر جوش مار رہا ہے تاکہ اسے قبرستان پہنچا دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تب ایسا ہی ہو گا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 514]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب التوحيد، باب فى المشية و الإرادة: 7470، 3616 و النسائي فى الكبرىٰ: 10811 - انظر التعليقات الحسان: 2948»

قال الشيخ الألباني: صحيح

234. بَابُ عِيَادَةِ الْمَرْضَى
234. عام مریضوں کی عیادت کرنا
حدیث نمبر: 515
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ كَيْسَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”مَنْ أَصْبَحَ الْيَوْمَ مِنْكُمْ صَائِمًا؟“ قَالَ أبوبَكْرٍ: أَنَا، قَالَ: ”مَنْ عَادَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ مَرِيضًا؟“ قَالَ أبوبَكْرٍ: أَنَا، قَالَ: ”مَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ جَنَازَةً؟“ قَالَ أبوبَكْرٍ: أَنَا، قَالَ: ”مَنْ أَطْعَمَ الْيَوْمَ مِسْكِينًا؟“ قَالَ أبوبَكْرٍ: أَنَا، قَالَ مَرْوَانُ: بَلَغَنِي أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ”مَا اجْتَمَعَ هَذِهِ الْخِصَالُ فِي رَجُلٍ فِي يَوْمٍ، إِلا دَخَلَ الْجَنَّةَ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج تم میں سے کس نے روزہ رکھا ہے؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: آج تم میں سے کس نے مریض کی تیمارداری کی ہے؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: آج تم میں سے کس نے جنازے کے ساتھ شرکت کی ہے؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں جنازے میں شریک ہوا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: آج مسکین کو کھانا کس نے کھلایا ہے؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے کھلایا ہے۔ مروان بن معاویہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کسی آدمی میں ایک دن یہ خوبیاں جمع ہو جائیں تو وہ ضرور جنت میں جائے گا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 515]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل أبى بكر الصديق رضي الله عنه: 1028 - انظر الصحيحة: 88»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 516
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْمُغِيرَةُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أُمِّ السَّائِبِ، وَهِيَ تُزَفْزِفُ، فَقَالَ: ”مَا لَكِ؟“ قَالَتِ: الْحُمَّى أَخْزَاهَا اللَّهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”مَهْ، لا تَسُبِّيهَا، فَإِنَّهَا تُذْهِبُ خَطَايَا الْمُؤْمِنِ، كَمَا يُذْهِبُ الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ.“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ ام السائب رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے تو وہ کانپ رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہیں کیا ہوا؟ انہوں نے عرض کیا: بخار ہے، اللہ اسے رسوا کرے۔ یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چپ رہو، بخار کو برا بھلا مت کہو کیونکہ یہ مومن کے گناہوں کو اسی طرح ختم کر دیتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کا میل کچیل ختم کر دیتی ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 516]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب البر و الصلة و الأدب: 2575 و النسائي فى الكبرىٰ: 10835 - انظر الصحيحة: 715، 1215»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 517
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ”يَقُولُ اللَّهُ: اسْتَطْعَمْتُكَ فَلَمْ تُطْعِمَنِي، قَالَ: فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، وَكَيْفَ اسْتَطْعَمْتَنِي وَلَمْ أُطْعِمْكَ، وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ؟ قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُلانًا اسْتَطْعَمَكَ فَلَمْ تُطْعِمْهُ؟ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ كُنْتَ أَطْعَمْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي؟ ابْنَ آدَمَ، اسْتَسْقَيْتُكَ فَلَمْ تَسْقِنِي، فَقَالَ: يَا رَبِّ، وَكَيْفَ أَسْقِيكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ؟ فَيَقُولُ: إِنَّ عَبْدِي فُلانًا اسْتَسْقَاكَ فَلَمْ تَسْقِهِ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ كُنْتَ سَقَيْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي؟ يَا ابْنَ آدَمَ، مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي، قَالَ: يَا رَبِّ، كَيْفَ أَعُودُكَ، وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ؟ قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُلانًا مَرِضَ، فَلَوْ كُنْتَ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي؟ أَوْ وَجَدْتَنِي عِنْدَهُ؟“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ روز قیامت فرمائے گا: بندے! میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا لیکن تو نے مجھے کھلایا نہیں۔ بندہ کہے گا: اے میرے رب! تو نے مجھ سے کیسے کھانا مانگا تھا اور میں نے تجھے کھلایا نہیں تھا جبکہ تو تو رب العالمین ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا اور تو نے ایسے نہیں کھلایا۔ تو نہیں جانتا ہے کہ اگر تو اس کو کھلاتا تو اس کو میرے پاس پاتا۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی طلب کیا لیکن تو نے مجھے نہ پلایا۔ وہ عرض کرے گا: اے میرے رب! میں تجھے کیسے پلاتا جبکہ تو تمام جہانوں کا رب ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے اسے نہ پلایا۔ کیا تجھے معلوم نہیں اگر تو اسے پانی پلاتا تو اس کو میرے پاس پا لیتا؟ اے ابن آدم! میں بیمار ہوا تو تو نے میری تیمارداری بھی نہ کی۔ وہ کہے گا: اے میرے رب! میں کیسے تیری تیمارداری کرتا جبکہ تو تمام جہانوں کا رب ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا، اگر تو اس کی تیمارداری کرتا تو اس کو میرے پاس پا لیتا، یا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 517]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب البر و الصلة و الأدب: 2569»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 518
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أبوعِيسَى الأُسْوَارِيُّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ”عُودُوا الْمَرِيضَ، وَاتَّبَعُوا الْجَنَائِزَ، تُذَكِّرُكُمُ الآخِرَةَ.“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مریض کی تیمارداری کرو اور جنازوں میں شمولیت اختیار کرو۔ یہ تم کو آخرت یاد دلائے گا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 518]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن المبارك فى الزهد: 248 و الطيالسي: 2355 و أحمد: 11180 و ابن أبى شيبة: 10841 و ابن حبان: 2955 و البيهقي: 532/3 - انظر الصحيحة: 1981»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 519
حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أبوعَوَانَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ”ثَلاثٌ كُلُّهُنَّ حَقٌّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ: عِيَادَةُ الْمَرِيضِ، وَشُهُودُ الْجَنَازَةِ، وَتَشْمِيتُ الْعَاطِسِ إِذَا حَمِدَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین چیزیں ہر مسلمان پر لازم ہیں: مریض کی عیادت کرنا، جنازے میں حاضر ہونا، اور چھینکنے والا جب الحمد للہ کہے تو اس کا جواب دینا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 519]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد: 8675 و أبويعلى: 5904 و ابن حبان: 239 - انظر الصحيحة: 1800»

قال الشيخ الألباني: صحيح

235. بَابُ دُعَاءِ الْعَائِدِ لِلْمَرِيضِ بِالشِّفَاءِ
235. عیادت کرنے والے کا مریض کے لیے شفایابی کی دعا کرنا
حدیث نمبر: 520
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنِي ثَلاثَةٌ مِنْ بَنِي سَعْدٍ، كُلُّهُمْ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، دَخَلَ عَلَى سَعْدٍ يَعُودُهُ بِمَكَّةَ، فَبَكَى، فَقَالَ: ”مَا يُبْكِيكَ؟“ قَالَ: خَشِيتُ أَنْ أَمُوتَ بِالأَرْضِ الَّتِي هَاجَرْتُ مِنْهَا كَمَا مَاتَ سَعْدٌ، قَالَ: ”اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا“، ثَلاثًا، فَقَالَ: لِي مَالٌ كَثِيرٌ، يَرِثُنِي ابْنَتَيْ، أَفَأُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ؟ قَالَ: ”لَا“، قَالَ: فَبِالثُّلُثَيْنِ؟ قَالَ: ”لَا“، قَالَ: فَالنِّصْفُ؟ قَالَ: ”لَا“، قَالَ: فَالثُّلُثُ؟ قَالَ: ”الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّ صَدَقَتَكَ مِنْ مَالِكَ صَدَقَةٌ، وَنَفَقَتَكَ عَلَى عِيَالِكَ صَدَقَةٌ، وَمَا تَأْكُلُ امْرَأَتُكَ مِنْ طَعَامِكَ لَكَ صَدَقَةٌ، وَإِنَّكَ أَنْ تَدَعَ أَهْلَكَ بِخَيْرٍ، أَوْ قَالَ: بِعَيْشٍ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ“، وَقَالَ بِيَدِهِ.
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے تین بیٹوں سے روایت ہے کہ مکہ مکرمہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو وہ رو پڑے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کیوں روتے ہو؟ انہوں نے کہا: مجھے ڈر ہے کہ میں اس زمین میں فوت ہو جاؤں گا جہاں سے ہجرت کی تھی جیسا کہ سعد بن خولہ فوت ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: اے اللہ سعد کو شفا عطا فرما۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ دعا کی۔ انہوں نے کہا: میرے پاس مال و دولت کی فراوانی ہے اور میری وارث صرف میری بیٹی ہے۔ کیا میں اپنے تمام مال کے بارے میں فی سبیل اللہ وصیت کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ انہوں نے عرض کیا: دو تہائی کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ انہوں نے کہا: آدھے مال کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ انہوں نے کہا: ایک تہائی کی کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیسرے حصے کی کر لو، ویسے تیسرے حصے کی بھی ہے زیادہ۔ تیرا مال میں سے صدقہ کرنا بھی صدقہ ہے، اور تیرا اہل و عیال پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے، اور جو تیری بیوی تیرا کھانا کھائے وہ بھی تیرے حق میں صدقہ ہے، اور تم اپنے اہل و عیال کو خوش حال چھوڑ کر دنیا سے جاؤ یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ تم انہیں اس حال میں چھوڑو کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 520]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب الوصية، باب الوصية بالثلث: 1628 - و انظر الحديث: 499»

قال الشيخ الألباني: صحيح


Previous    1    2    3    4    5    Next