الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


مشكوة المصابيح کل احادیث (6294)
حدیث نمبر سے تلاش:

مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
حدیث نمبر: 21
‏‏‏‏وَفِي رِوَايَة عَن ابْنِ عَبَّاسٍ:" وَأَمَّا شَتْمُهُ إِيَّايَ فَقَوْلُهُ: لِي وَلَدٌ وَسُبْحَانِي أَنْ أَتَّخِذَ صَاحِبَةً أَوْ وَلَدًا". رواه البخاري
اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں ہے: اور رہا اس کا مجھے گالی دینا، تو وہ اس کا یہ کہنا ہے: میری اولاد ہے، حالانکہ میں اس سے پاک ہوں کہ میری بیوی ہو یا میری اولاد ہو۔ اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 21]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه البخاري (4482)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

حدیث نمبر: 22
‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم:" قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ بِيَدِيَ الْأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ". مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ابن آدم زمانے کو گالی دینے کے باعث مجھے تکلیف پہنچاتا ہے، حالانکہ میں زمانہ ہوں، تمام معاملات میرے ہاتھ میں ہیں، میں ہی دن رات کو بدلتا ہوں۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 22]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (4826، 7491) و مسلم (2246/ 2)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

حدیث نمبر: 23
‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا أَحَدٌ أَصْبَرُ عَلَى أَذًى يَسْمَعُهُ مِنَ اللَّهِ يَدْعُونَ لَهُ الْوَلَدَ ثُمَّ يُعَافِيهِمْ وَيَرْزُقُهُمْ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تکلیف دہ بات سن کر اس پر صبر کرنے والا اللہ سے بڑھ کر کوئی نہیں، وہ اس کے لیے اولاد کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن وہ پھر بھی ان سے درگزر کرتا ہے اور انہیں رزق بہم پہنچاتا ہے۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 23]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (7378) و مسلم (2804/ 49)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

--. اللہ تعالیٰ اور بندوں کا ایک دوسرے پر حق
حدیث نمبر: 24
‏‏‏‏وَعَن معَاذ رَضِي الله عَنهُ قَالَ كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم على حمَار يُقَال لَهُ عفير فَقَالَ يَا معَاذ هَل تَدْرِي حَقُّ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ؟ قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّ حَقَّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَحَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ أَنْ لَا يُعَذِّبَ مَنْ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا أُبَشِّرُ بِهِ النَّاسَ قَالَ لَا تُبَشِّرُهُمْ فَيَتَّكِلُوا. مُتَّفق عَلَيْهِ
سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے گدھے پر سوار تھا، میرے اور آپ کے درمیان صرف پالان کی ایک لکڑی تھی، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: معاذ! کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کا اپنے بندوں پر کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے کہ وہ اس شخص کو عذاب نہ دے جو اس کے ساتھ کسی قسم کا شرک نہ کرتا ہو۔ میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! کیا میں لوگوں کو اس کی بشارت نہ دے دوں؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انہیں بشارت نہ دو ورنہ وہ (اس بات پر) توکل کر لیں گے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 24]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (2856) و مسلم (30/ 48، 49)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

حدیث نمبر: 25
‏‏‏‏وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمُعَاذٌ رديفه على الرحل قَالَ: «يَا معَاذ بن جبل قَالَ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ قَالَ يَا مُعَاذُ قَالَ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْديك ثَلَاثًا قَالَ مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ إِلَّا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا أُخْبِرُ بِهِ النَّاس فيستبشروا قَالَ إِذا يتكلوا وَأخْبر بِهَا مُعَاذٌ عِنْدَ مَوْتِهِ تَأَثُّمًا» . مُتَّفق عَلَيْهِ
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سواری پر تھے جبکہ معاذ رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے بیٹھے تھے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: معاذ! انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! سعادت مندی کے ساتھ حاضر ہوں۔ آپ نے پھر فرمایا: معاذ! انہوں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! سعادت مندی کے ساتھ حاضر ہوں، آپ نے پھر فرمایا: معاذ! انہوں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! سعادت مندی کے ساتھ حاضر ہوں، تین مرتبہ ایسے ہوا پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو شخص صدق دل سے یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللہ کے رسول ہیں، تو اللہ ا س پر جہنم کی آگ حرام کر دیتا ہے۔ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں اس کے متعلق لوگوں کو نہ بتا دوں تاکہ وہ خوش ہو جائیں؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تب تو وہ توکل کر لیں گے۔ پھر معاذ رضی اللہ عنہ نے گناہ سے بچنے کے لیے اپنی موت کے قریب اس کے متعلق بتایا۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 25]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (128) و مسلم (32/ 53)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

--. لا الہ الا اللہ کہنے والے کے لیے خوشخبری
حدیث نمبر: 26
‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ ثَوْبٌ أَبْيَضُ وَهُوَ نَائِمٌ ثُمَّ أَتَيْتُهُ وَقَدِ اسْتَيْقَظَ فَقَالَ: «مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ثُمَّ مَاتَ عَلَى ذَلِكَ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ قُلْتُ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قَالَ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قُلْتُ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قَالَ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قُلْتُ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قَالَ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ عَلَى رَغْمِ أَنْفِ أَبِي ذَرٍّ وَكَانَ أَبُو ذَرٍّ إِذَا حَدَّثَ بِهَذَا قَالَ وَإِنْ رَغِمَ أَنْفُ أَبِي ذَر» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ میں نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ سفید کپڑا اوڑھے سو رہے تھے۔ میں پھر دوبارہ حاضر ہوا تو آپ بیدار ہو چکے تھے۔ تب آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس شخص نے یہ اقرار کیا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ پھر وہ اسی پر فوت ہو گیا۔ تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ میں نے عرض کیا اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو۔ میں نے پھر عرض کیا، اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو۔ میں نے عرض کیا، اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو۔ خواہ ابوذر کو ناگوار ہو۔ ابوذر رضی اللہ عنہ جب یہ حدیث بیان کرتے تو یہ الفاظ بھی بیان کرتے تھے۔ اگرچہ ابوذر کو ناگوار گزرے۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 26]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (5827) و مسلم (94/ 154)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

حدیث نمبر: 27
‏‏‏‏وَعَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَأَنَّ عِيسَى عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ وَابْنُ أَمَتِهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ وَالْجَنَّةُ وَالنَّارُ حَقٌّ أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ عَلَى مَا كَانَ من الْعَمَل» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو شخص یہ گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور یہ کہ محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اور یہ کہ عیسیٰ ؑ اللہ کے بندے، اس کے رسول اور اس کی باندی کے بیٹے ہیں، اس کا کلمہ ہیں جسے اس نے مریم ؑ کی طرف ڈالا اور اس کی طرف ایک روح ہیں۔ جنت اور جہنم حق ہیں۔ اللہ اس شخص کو جنت میں داخل فرمائے گا، خواہ اس کے اعمال کیسے بھی ہوں۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 27]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (3435) و مسلم (28 / 46)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

--. اسلام سابقہ تمام گناہ مٹا دیتا ہے
حدیث نمبر: 28
‏‏‏‏وَعَن عَمْرو بن الْعَاصِ قَالَ: «أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقلت ابْسُطْ يَمِينك فلأبايعك -[16]- فَبسط يَمِينه قَالَ فَقَبَضْتُ يَدِي فَقَالَ مَا لَكَ يَا عَمْرُو قلت أردْت أَن أشْتَرط قَالَ تَشْتَرِطُ مَاذَا قُلْتُ أَنْ يُغْفَرَ لِي قَالَ أما علمت أَنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ وَأَنَّ الْهِجْرَةَ تَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهَا وَأَنَّ الْحَجَّ يهدم مَا كَانَ قبله» ؟ ‏‏‏‏وَالْحَدِيثَانِ الْمَرْوِيَّانِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ:" قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: «أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ» . والاخر: «الْكِبْرِيَاء رِدَائي» سَنَذْكُرُهُمَا فِي بَابِ الرِّيَاءِ وَالْكِبْرِ إِنْ شَاءَ الله تَعَالَى. رَوَاهُ مُسلم
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ میں نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے عرض کیا: اپنا دایاں ہاتھ بڑھائیں تاکہ میں آپ کی بیعت کروں، آپ نے دایاں ہاتھ بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عمرو! تمہیں کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا، میں شرط قائم کرنا چاہتا ہوں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بتاؤ! کیا شرط قائم کرنا چاہتے ہو؟ میں نے عرض کیا: یہ کہ مجھے بخش دیا جائے۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عمرو! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام پہلے (حالت کفر والے) گناہ مٹا دیتا ہے۔ ہجرت اپنے سے پہلے کیے ہوئے گناہ مٹا دیتی ہے اور بیشک حج بھی ان گناہوں کو مٹا دیتا ہے جو اس سے پہلے کیے ہوتے ہیں۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی دو حدیثیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں شرکاء کے شرک سے بے نیاز ہوں۔ اور دوسری حدیث: کبر میری چادر ہے۔ میں ان دونوں حدیثوں کو ان شاء اللہ تعالیٰ باب الریاء اور باب الکبر میں بیان کروں گا۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 28]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (121/ 192)
حديث: ’’قال الله تعالٰي: أنا أغني الشرکاء عن الشرک‘‘ سيأتي (5315) و حديث: ’’الکبرياء ردائي‘‘ سيأتي (5110)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

ب. الفصل الثاني
حدیث نمبر: Q29
--. جنت میں داخلہ دوزخ سے نجات
حدیث نمبر: 29
عَن معَاذ بن جبل قَالَ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سفر فَأَصْبَحت يَوْمًا قَرِيبا مِنْهُ وَنحن نسير فَقلت يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ وَيُبَاعِدنِي عَن النَّار قَالَ لقد سَأَلتنِي عَن عَظِيمٍ وَإِنَّهُ لِيَسِيرٌ عَلَى مَنْ يَسَّرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ تَعْبُدُ اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَيْت ثُمَّ قَالَ أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى أَبْوَابِ الْخَيْرِ الصَّوْمُ جُنَّةٌ وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِيئَةُ كَمَا يُطْفِئُ المَاء النَّار وَصَلَاة الرجل من جَوف اللَّيْل قَالَ ثمَّ تَلا (تَتَجَافَى جنُوبهم عَن الْمضَاجِع) ‏‏‏‏حَتَّى بَلَغَ (يَعْمَلُونَ) ‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ أَلَا أَدُلُّكَ بِرَأْس الْأَمر كُله وَعَمُودِهِ وَذِرْوَةِ سَنَامِهِ قُلْتُ بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ رَأْسُ الْأَمْرِ الْإِسْلَامُ وَعَمُودُهُ الصَّلَاةُ وَذِرْوَةُ سَنَامِهِ الْجِهَادُ ثُمَّ قَالَ أَلَا أُخْبِرُكَ بِمِلَاكِ ذَلِكَ كُلِّهِ قُلْتُ بَلَى يَا نَبِيَّ اللَّهِ فَأَخَذَ بِلِسَانِهِ فَقَالَ كُفَّ عَلَيْكَ هَذَا فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُونَ بِمَا نتكلم بِهِ فَقَالَ ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا مُعَاذُ وَهَلْ يَكُبُّ النَّاسَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ أَوْ عَلَى مَنَاخِرِهِمْ إِلَّا حَصَائِدُ أَلْسِنَتِهِمْ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه ‏‏‏‏ 
سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت میں داخل کر دے اور جہنم سے دور کر دے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے ایک بہت بڑی بات کے متعلق پوچھا ہے، لیکن وہ ایسے شخص کے لیے آسان ہے، جس پر اللہ تعالیٰ اسے آسان فرما دے، تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو۔ پھر فرمایا: کیا میں تمہیں ابواب خیر کے متعلق نہ بتاؤں؟ روزہ ڈھال ہے، صدقہ گناہوں کو ایسے مٹا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے، اور رات کے اوقات میں آدمی کا نماز پڑھنا (گناہوں کو مٹا دیتا ہے)۔ پھر آپ نے (سورۃ السجدہ کی آیت) تلاوت فرمائی: ان کے پہلو بستروں سے دور رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ آپ نے وہ عمل کیا کرتے تھے تک تلاوت مکمل فرمائی، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں دین کی بنیاد اس کے ستون اور اس کی چوٹی کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! ضرور بتائیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دین کی بنیاد اسلام ہے، اس کا ستون نماز اور اس کی چوٹی جہاد ہے۔ پھر فرمایا: کیا میں تمہیں ان سب سے بڑی چیز کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں، اللہ کے نبی! ضرور بتائیں، آپ نے اپنی زبان کو پکڑ کر فرمایا: اسے روک لو۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! ہم اس سے جو کلام کرتے ہیں کیا اس پر ہمارا مؤاخذا ہو گا؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: معاذ! تیری ماں تجھے گم پائے۔ لوگوں کو ان کی زبانوں کی کاٹ ہی ان کے چہروں یا نتھنوں کے بل جہنم میں گرائے گی۔ اس حدیث کو احمد، ترمذی، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 29]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «حسن، رواه أحمد (5/ 231ح 22366) والترمذي (2616 وقال: ھذا حديث حسن صحيح) و ابن ماجه (3973) [وللحديث شواهد عند أحمد (236/5. 237، 248) وغيره وھو بھا حسن .] »


قال الشيخ زبير على زئي: حسن


Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next