الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ترمذي
كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: احوال قیامت، رقت قلب اور ورع
9. باب مَا جَاءَ فِي شَأْنِ الصِّرَاطِ
9. باب: پل صراط کا بیان۔
حدیث نمبر: 2432
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " شِعَارُ الْمُؤْمِنِ عَلَى الصِّرَاطِ رَبِّ سَلِّمْ سَلِّمْ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پل صراط پر مومن کا شعار یہ ہو گا: «رب سلم سلم» میرے رب! مجھے سلامت رکھ، مجھے سلامت رکھ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث مغیرہ بن شعبہ کی روایت سے غریب ہے، اسے ہم صرف عبدالرحمٰن بن اسحاق (واسطی ہی) کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2432]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 11533) (ضعیف) (سند میں نعمان بن سعد لین الحدیث ہیں اور عبد الرحمن بن اسحاق واسطی ضعیف)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (1973) // ضعيف الجامع الصغير (3398) //

حدیث نمبر: 2433
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ الْهَاشِمِيُّ، حَدَّثَنَا بَدَلُ بْنُ الْمُحَبَّرِ، حَدَّثَنَا حَرْبُ بْنُ مَيْمُونٍ الْأَنْصَارِيُّ أَبُو الْخَطَّابِ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنْ يَشْفَعَ لِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ , فَقَالَ: " أَنَا فَاعِلٌ " قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَأَيْنَ أَطْلُبُكَ، قَالَ: " اطْلُبْنِي أَوَّلَ مَا تَطْلُبُنِي عَلَى الصِّرَاطِ "، قَالَ: قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ أَلْقَكَ عَلَى الصِّرَاطِ؟ قَالَ: " فَاطْلُبْنِي عِنْدَ الْمِيزَانِ "، قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ أَلْقَكَ عِنْدَ الْمِيزَانِ؟ قَالَ: " فَاطْلُبْنِي عِنْدَ الْحَوْضِ فَإِنِّي لَا أُخْطِئُ هَذِهِ الثَّلَاثَ الْمَوَاطِنَ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ قیامت کے دن میرے لیے شفاعت فرمائیں، آپ نے فرمایا: ضرور کروں گا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آپ کو کہاں تلاش کروں گا؟ آپ نے فرمایا: سب سے پہلے مجھے پل صراط پر ڈھونڈنا، میں نے عرض کیا: اگر پل صراط پر آپ سے ملاقات نہ ہو سکے، تو فرمایا: تو اس کے بعد میزان کے پاس ڈھونڈنا، میں نے کہا: اگر میزان کے پاس بھی ملاقات نہ ہو سکے تو؟ فرمایا: اس کے بعد حوض کوثر پر ڈھونڈنا، اس لیے کہ میں ان تین جگہوں میں سے کسی جگہ پر ضرور ملوں گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2433]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1624) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (5595) ، التعليق الرغيب (4 / 211)

10. باب مَا جَاءَ فِي الشَّفَاعَةِ
10. باب: قیامت کے دن کی شفاعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2434
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ فَأَكَلَهُ، وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً , ثُمَّ قَالَ: " أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، هَلْ تَدْرُونَ لِمَ ذَاكَ؟ يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَيُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي، وَيَنْفُذُهُمُ الْبَصَرُ، وَتَدْنُو الشَّمْسُ مِنْهُمْ فَيَبْلُغُ النَّاسُ مِنَ الْغَمِّ وَالْكَرْبِ مَا لَا يُطِيقُونَ، وَلَا يَحْتَمِلُونَ، فَيَقُولُ النَّاسُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: أَلَا تَرَوْنَ مَا قَدْ بَلَغَكُمْ؟ أَلَا تَنْظُرُونَ مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ؟ فَيَقُولُ النَّاسُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: عَلَيْكُمْ بِآدَمَ، فَيَأْتُونَ آدَمَ فَيَقُولُونَ: أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ، خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ، وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ، وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ، أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا، فَيَقُولُ لَهُمْ آدَمُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ قَدْ نَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُ، نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ، فَيَأْتُونَ نُوحًا فَيَقُولُونَ: يَا نُوحُ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ، وَقَدْ سَمَّاكَ اللَّهُ عَبْدًا شَكُورًا اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا، فَيَقُولُ لَهُمْ نُوحٌ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ قَدْ كَانَ لِي دَعْوَةٌ دَعَوْتُهَا عَلَى قَوْمِي، نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ فَيَقُولُونَ: يَا إِبْرَاهِيمُ أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ، وَخَلِيلُهُ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ، فَيَقُولُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنِّي قَدْ كَذَبْتُ ثَلَاثَ كَذِبَاتٍ، فَذَكَرَهُنَّ أَبُو حَيَّانَ فِي الْحَدِيثِ، نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى، فَيَأْتُونَ مُوسَى فَيَقُولُونَ: يَا مُوسَى أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ فَضَّلَكَ اللَّهُ بِرِسَالَتِهِ وَبِكَلَامِهِ عَلَى الْبَشَرِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ، فَيَقُولُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنِّي قَدْ قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِهَا، نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى عِيسَى، فَيَأْتُونَ عِيسَى فَيَقُولُونَ: يَا عِيسَى أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ، وَرُوحٌ مِنْهُ، وَكَلَّمْتَ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ، فَيَقُولُ عِيسَى: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ ذَنْبًا، نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ، قَالَ: فَيَأْتُونَ مُحَمَّدًا فَيَقُولُونَ: يَا مُحَمَّدُ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، وَخَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ، وَقَدْ غُفِرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ، فَأَنْطَلِقُ فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ فَأَخِرُّ سَاجِدًا لِرَبِّي، ثُمَّ يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ مَحَامِدِهِ وَحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ عَلَى أَحَدٍ قَبْلِي، ثُمَّ يُقَالَ: " يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ، سَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي " , فَأَقُولُ: يَا رَبِّ أُمَّتِي، يَا رَبِّ أُمَّتِي، يَا رَبِّ أُمَّتِي، فَيَقُولُ: " يَا مُحَمَّدُ أَدْخِلْ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لَا حِسَابَ عَلَيْهِ مِنَ الْبَابِ الْأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، وَهُمْ شُرَكَاءُ النَّاسِ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنَ الْأَبْوَابِ "، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَهَجَرَ، وَكَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَبُصْرَى " , وفي الباب عن أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَأَنَسٍ، وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ اسْمُهُ: يَحْيَى بْنُ سَعِيدِ بْنِ حَيَّانَ كُوفِيٌّ وَهُوَ ثِقَةٌ، وَأَبُو زُرْعَةَ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ اسْمُهُ: هَرِمٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گوشت پیش کیا گیا، اس میں سے آپ کو دست کا گوشت دیا گیا جو کہ آپ کو بہت پسند تھا، اسے آپ نے نوچ نوچ کر کھایا، پھر فرمایا: قیامت کے دن میں لوگوں کا سردار رہوں گا، کیا تم لوگوں کو اس کی وجہ معلوم ہے؟ وہ اس لیے کہ اس دن اللہ تعالیٰ ایک ہموار کشادہ زمین پر اگلے پچھلے تمام لوگوں کو جمع کرے گا، جنہیں ایک پکارنے والا آواز دے گا اور انہیں ہر نگاہ والا دیکھ سکے گا، سورج ان سے بالکل قریب ہو گا جس سے لوگوں کا غم و کرب اس قدر بڑھ جائے گا جس کی نہ وہ طاقت رکھیں گے اور نہ ہی اسے برداشت کر سکیں گے، لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے: کیا نہیں دیکھتے کہ تمہاری مصیبت کہاں تک پہنچ گئی ہے، ایسے شخص کو کیوں نہیں دیکھتے جو تمہارے رب سے تمہارے لیے شفاعت کرے، تو بعض لوگ بعض سے کہیں گے کہ آدم علیہ السلام کے پاس چلیں، لہٰذا لوگ آدم علیہ السلام کے پاس آ کر عرض کریں گے کہ آپ ابوالبشر ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، آپ کے اندر اپنی روح پھونکی، فرشتوں کو حکم دیا جنہوں نے آپ کا سجدہ کیا، لہٰذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کر دیجئیے۔ کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں کتنی مصیبت لاحق ہے؟ آدم علیہ السلام ان سے کہیں گے کہ آج میرا رب ایسا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہو گا، یقیناً اس نے مجھے ایک درخت سے منع فرمایا تھا، لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی، آج میری ذات کا معاملہ ہے، نفسا نفسی کا عالم ہے، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، نوح کے پاس جاؤ، چنانچہ وہ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آ کر عرض کریں گے، اے نوح! آپ زمین والوں کی طرف بھیجے گئے، پہلے رسول تھے، اللہ نے آپ کو شکر گزار بندہ کہا ہے، لہٰذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کر دیجئیے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں کتنی مصیبت لاحق ہے، نوح علیہ السلام ان لوگوں سے فرمائیں گے کہ آج میرا رب ایسا غضبناک ہے کہ نہ تو اس سے پہلے ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہو گا، میرے لیے ایک مقبول دعا تھی جسے میں نے اپنی قوم کی ہلاکت کے لیے استعمال کر لیا، اور آج میری ذات کا معاملہ ہے، نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ، چنانچہ وہ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آ کر عرض کریں گے: اے ابراہیم! آپ زمین والوں میں سے اللہ کے نبی اور اس کے خلیل (یعنی گہرے دوست) ہیں، لہٰذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کر دیجئیے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں؟ وہ فرمائیں گے کہ آج کے دن میرا رب اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہو گا، اور میں دنیا کے اندر تین جھوٹ بول چکا ہوں (ابوحیان نے اپنی روایت میں ان تینوں جھوٹ کا ذکر کیا ہے) آج میری ذات کا معاملہ ہے، نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، موسیٰ کے پاس جاؤ، چنانچہ وہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آ کر عرض کریں گے کہ اے موسیٰ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ نے آپ کو اپنی رسالت اور اپنے کلام کے ذریعے تمام لوگوں پر فضیلت عطا کی ہے، لہٰذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کر دیجئیے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں؟ وہ فرمائیں گے کہ آج کے دن میرا رب اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہو گا، دنیا کے اندر میں نے ایک شخص کو مار ڈالا تھا جسے مارنے کا مجھے حکم نہیں دیا گیا تھا، آج مجھے اپنی جان کی فکر ہے، نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، عیسیٰ کے پاس جاؤ، چنانچہ وہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آ کر عرض کریں گے: اے عیسیٰ! آپ اللہ کے رسول، اور اس کا کلمہ ہیں جسے اس نے مریم علیہا السلام کی طرف ڈالا آپ اللہ کی روح ہیں، آپ نے لوگوں سے گود ہی میں کلام کیا، لہٰذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کر دیجئیے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے: آج کے دن میرا رب اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہو گا، اور انہوں نے اپنی کسی غلطی کا ذکر نہیں کیا اور کہا کہ آج تو میری ذات کا معاملہ ہے، نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: چنانچہ وہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کریں گے: اے محمد! آپ اللہ کے رسول اور اس کے آخری نبی ہیں، آپ کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے گئے ہیں، لہٰذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کیجئے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں، (آگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں) پھر میں چل پڑوں گا اور عرش کے نیچے آ کر اپنے رب کی تعظیم کے لیے سجدے میں گر جاؤں گا، پھر اللہ تعالیٰ میرے اوپر اپنے محامد اور حسن ثناء کو اس قدر کھول دے گا کہ مجھ سے پہلے اتنا کسی پر نہیں کھولا ہو گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا کہ اے محمد! اپنے سر کو اٹھاؤ اور سوال کرو، اسے پورا کیا جائے گا، اور شفاعت کرو، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی، چنانچہ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور کہوں گا: اے میرے رب! میں اپنی امت کی نجات و فلاح مانگتا ہوں، اے میرے رب میں اپنی امت کی نجات و فلاح مانگتا ہوں، اے میرے رب! میں اپنی امت کی نجات و فلاح مانگتا ہوں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے محمد! اپنی امت میں سے ان لوگوں کو جنت کے دروازوں میں سے داہنے دروازے سے داخل کر لیں، جن پر کوئی حساب و کتاب نہیں ہے، اور یہ سب (امت محمد) دیگر دروازوں میں بھی (داخل ہونے میں) اور لوگوں کے ساتھ شریک ہوں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جنت کے پٹوں میں سے دو پٹ کے درمیان کا فاصلہ اتنا ہی ہے جتنا کہ مکہ اور ہجر یا مکہ اور بصریٰ کے درمیان فاصلہ ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوبکر صدیق، انس، عقبہ بن عامر اور ابو سعید خدری رضی الله عنہم سے احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2434]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء 3 (3340)، و 9 (3361)، وتفسیر سورة الإسراء 5 (4712)، صحیح مسلم/الإیمان 84 (194)، سنن ابن ماجہ/الأطعمة 28 (3307) (وتقدیم مفصلا برقم 1837) (تحفة الأشراف: 14927) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح تخريج الطحاوية (198) ، ظلال الجنة (811)

11. باب مِنْهُ
11. باب: امت محمدیہ کے اہل کبائر کی شفاعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2435
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " شَفَاعَتِي لِأَهْلِ الْكَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِي " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وفي الباب عن جَابِرٍ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ والوں کے لیے ہو گی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،
۲- اس باب میں جابر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2435]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 481) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (5599) ، الظلال (831 - 832) ، الروض النضير (65)

حدیث نمبر: 2436
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " شَفَاعَتِي لِأَهْلِ الْكَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِي " , قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ: فَقَالَ لِي جَابِرٌ: يَا مُحَمَّدُ مَنْ لَمْ يَكُنْ مِنْ أَهْلِ الْكَبَائِرِ فَمَا لَهُ وَلِلشَّفَاعَةِ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ والوں کے لیے ہو گی۔ محمد بن علی الباقر کہتے ہیں: مجھ سے جابر رضی الله عنہ نے کہا: محمد! جو اہل کبائر میں سے نہ ہوں گے انہیں شفاعت سے کیا تعلق؟
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث جعفر الصادق بن محمد الباقر کی روایت سے حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2436]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 37 (4310) (تحفة الأشراف: 2608)، و مسند احمد (3/213) (صحیح)»

12. باب مِنْهُ
12. باب: ستر ہزار مسلمان بلا حساب کتاب اور مزید لوگ شفاعت سے داخل جنت ہوں گے۔
حدیث نمبر: 2437
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ الْأَلْهَانِيِّ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ , يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " وَعَدَنِي رَبِّي أَنْ يُدْخِلَ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعِينَ أَلْفًا لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ وَلَا عَذَابَ مَعَ كُلِّ أَلْفٍ سَبْعُونَ أَلْفًا وَثَلَاثُ حَثَيَاتٍ مِنْ حَثَيَاتِهِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ابوامامہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: میرے رب نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ میری امت میں سے ستر ہزار لوگوں کو جنت میں داخل کرے گا، نہ ان کا حساب ہو گا اور نہ ان پر کوئی عذاب، (پھر) ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہوں گے، اور ان کے سوا میرے رب کی مٹھیوں میں سے تین مٹھیوں کے برابر بھی ہوں گے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2437]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 34 (4286) (تحفة الأشراف: 4924)، و مسند احمد (5/250، 268) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4286)

حدیث نمبر: 2438
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَهْطٍ بِإِيلِيَاءَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " يَدْخُلُ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَةِ رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي أَكْثَرُ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ "، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , سِوَاكَ؟ قَالَ: " سِوَايَ "، فَلَمَّا قَامَ , قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا ابْنُ أَبِي الْجَذْعَاءِ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، أَبِي الْجَذْعَاءِ، هُوَ عَبْدُ اللَّهِ، وَإِنَّمَا يُعْرَفُ لَهُ هَذَا الْحَدِيثُ الْوَاحِدُ.
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں ایلیاء میں ایک جماعت کے ساتھ تھا، ان میں سے ایک آدمی نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: میری امت کے ایک فرد کی شفاعت سے قبیلہ بنی تمیم کی تعداد سے بھی زیادہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے، کسی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا وہ شخص آپ کے علاوہ ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں، میرے علاوہ ہو گا، پھر جب وہ (راوی حدیث) کھڑے ہوئے تو میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا یہ ابن ابی جذعاء رضی الله عنہ ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- ابن ابی جذعاء رضی الله عنہ کا نام عبداللہ ہے، ان سے صرف یہی ایک حدیث مشہور ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2438]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 37 (4316) (تحفة الأشراف: 5212) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4316)

حدیث نمبر: 2439
حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ الْكُوفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ، عَنْ جِسْرٍ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَشْفَعُ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِمِثْلِ رَبِيعَةَ , وَمُضَرَ ".
حسن بصری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عثمان بن عفان رضی الله عنہ قیامت کے دن قبیلہ ربیعہ اور مضر کے برابر، لوگوں کے لیے شفاعت کریں گے۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2439]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (لم یذکرہ المزي ولایوجد في اکثر نسخ السنن) (ضعیف مرسل) (حسن بصری تابعی اور مدلس ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد مرسل

حدیث نمبر: 2440
حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ مِنْ أُمَّتِي مَنْ يَشْفَعُ لِلْفِئَامِ مِنَ النَّاسِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَشْفَعُ لِلْقَبِيلَةِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَشْفَعُ لِلْعَصْبَةِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَشْفَعُ لِلرَّجُلِ، حَتَّى يَدْخُلُوا الْجَنَّةَ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کا کوئی شخص کئی جماعت کے لیے شفاعت کرے گا، کوئی ایک قبیلہ کے لیے شفاعت کرے گا، کوئی ایک گروہ کے لیے شفاعت کرے گا، اور کوئی ایک آدمی کے لیے شفاعت کرے گا، یہاں تک کہ سب جنت میں داخل ہوں جائیں گے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2440]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4197) (ضعیف) (سند میں ”عطیہ عوفی“ ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (5602) // ضعيف الجامع الصغير (2002) //

13. باب مِنْهُ
13. باب: صرف موحد ہی شفاعت نبوی کا مستحق ہو گا۔
حدیث نمبر: 2441
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتَانِي آتٍ مِنْ عِنْدِ رَبِّي فَخَيَّرَنِي بَيْنَ أَنْ يُدْخِلَ نِصْفَ أُمَّتِي الْجَنَّةَ وَبَيْنَ الشَّفَاعَةِ، فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ، وَهِيَ لِمَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا " , وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ رَجُلٍ آخَرَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَذْكُرْ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ.
عوف بن مالک اشجعی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا (جبرائیل علیہ السلام) میرے پاس آیا اور مجھے اختیار دیا کہ میری آدھی امت جنت میں داخل ہو یا یہ کہ مجھے شفاعت کا حق حاصل ہو، چنانچہ میں نے شفاعت کو اختیار کیا، یہ شفاعت ہر اس شخص کے لیے ہے جس کا خاتمہ شرک کی حالت پر نہیں ہو گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث ابوملیح نے ایک اور صحابی سے روایت کی ہے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، (لیکن) اس میں عوف بن مالک کا ذکر نہیں کیا، اس حدیث میں ایک طویل قصہ مذکور ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2441]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10920) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4317)


Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next