الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


الادب المفرد کل احادیث (1322)
حدیث نمبر سے تلاش:

الادب المفرد
كِتَابُ
كتاب
حدیث نمبر: 289
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ يَزِيدَ قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ‏:‏ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ‏:‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”تَدْرُونَ مَا أَكْثَرُ مَا يُدْخِلُ النَّارَ‏؟‏“ قَالُوا‏:‏ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ‏:‏ ”الأَجْوَفَانِ‏:‏ الْفَرْجُ وَالْفَمُ، وَأَكْثَرُ مَا يُدْخِلُ الْجَنَّةَ‏؟‏ تَقْوَى اللهِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ‏.‏“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جانتے ہو لوگوں کو کیا چیز زیادہ آگ میں لے جائے گی؟ لوگوں نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو کھوکھلی چیزیں شرم گاہ اور منہ، اور جو لوگوں کے لیے سب سے زیادہ دخول جنت کا باعث ہو گی وہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اور حسن اخلاق ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 289]
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه ابن ماجه، كتاب الزهد، باب ذكر الذنوب: 4246 - الصحيحة: 977»

قال الشيخ الألباني: حسن

حدیث نمبر: 290
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَلِيلِ بْنُ عَطِيَّةَ، عَنْ شَهْرٍ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ قَالَتْ‏:‏ قَامَ أَبُو الدَّرْدَاءِ لَيْلَةً يُصَلِّي، فَجَعَلَ يَبْكِي وَيَقُولُ‏:‏ اللَّهُمَّ أَحْسَنْتَ خَلْقِي فَحَسِّنْ خُلُقِي، حَتَّى أَصْبَحَ، قُلْتُ‏:‏ يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ، مَا كَانَ دُعَاؤُكَ مُنْذُ اللَّيْلَةِ إِلاَّ فِي حُسْنِ الْخُلُقِ‏؟‏ فَقَالَ‏:‏ يَا أُمَّ الدَّرْدَاءِ، إِنَّ الْعَبْدَ الْمُسْلِمَ يَحْسُنُ خُلُقُهُ، حَتَّى يُدْخِلَهُ حُسْنُ خُلُقِهِ الْجَنَّةَ، وَيَسِيءُ خُلُقُهُ، حَتَّى يُدْخِلَهُ سُوءُ خُلُقِهِ النَّارَ، وَالْعَبْدُ الْمُسْلِمُ يُغْفَرُ لَهُ وَهُوَ نَائِمٌ، قُلْتُ‏:‏ يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ، كَيْفَ يُغْفَرُ لَهُ وَهُوَ نَائِمٌ‏؟‏ قَالَ‏:‏ يَقُومُ أَخُوهُ مِنَ اللَّيْلِ فَيَجْتَهِدُ فَيَدْعُو اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فَيَسْتَجِيبُ لَهُ، وَيَدْعُو لأَخِيهِ فَيَسْتَجِيبُ لَهُ فِيهِ‏.‏
سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے رات کو اٹھ کر نماز پڑھی تو رونے لگے اور کہہ رہے تھے: اے اللہ تو نے میری شکل و صورت اچھی بنائی ہے تو اخلاق بھی اچھا کر دے۔ صبح تک یہی دعا کرتے رہے۔ میں نے عرض کیا: اے ابودرداء! آپ رات بھر حسن اخلاق ہی کی دعا کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: ام درداء! مسلمان بندے کا اخلاق اگر اچھا ہو گا تو اس کا اخلاق اسے جنت میں داخل کر دے گا، اور اگر اخلاق برا ہو گا تو وہ اسے آگ میں داخل کرے گا۔ اور مسلمان بندہ سویا ہوتا ہے تو اسے معاف کر دیا جاتا ہے۔ میں نے کہا: اے ابودرداء! سوئے ہوئے کو کیسے معاف کر دیا جاتا ہے؟ انہوں نے کہا: اس کا بھائی رات کو اٹھ کر تہجد پڑھتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے تو اس کی دعا قبول ہو جاتی ہے، اور وہ اپنے بھائی کے لیے دعا کرتا ہے تو اس کی اپنے بھائی کے بارے میں کی گئی دعا بھی قبول ہوتی ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 290]
تخریج الحدیث: «ضعيف الإسناد لضعف شهر لكن الدعاء بتحسين الخلق صحيح: الإرواء: 74 - رواه أحمد فى الزهد: 753 و البيهقي فى الشعب: 62/11 و ابن عساكر فى تاريخه: 47، 156»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد لضعف شهر، لكن الدعاء بتحسين الخلق صحيح

حدیث نمبر: 291
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلاَقَةَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ شَرِيكٍ قَالَ‏:‏ كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَاءَتِ الأَعْرَابُ، نَاسٌ كَثِيرٌ مِنْ هَاهُنَا وَهَاهُنَا، فَسَكَتَ النَّاسُ لاَ يَتَكَلَّمُونَ غَيْرَهُمْ، فَقَالُوا‏:‏ يَا رَسُولَ اللهِ، أَعَلَيْنَا حَرَجٌ فِي كَذَا وَكَذَا‏؟‏ فِي أَشْيَاءَ مِنْ أُمُورِ النَّاسِ، لاَ بَأْسَ بِهَا، فَقَالَ‏:‏ ”يَا عِبَادَ اللهِ، وَضَعَ اللَّهُ الْحَرَجَ، إِلاَّ امْرَءًا اقْتَرَضَ امْرَءًا ظُلْمًا فَذَاكَ الَّذِي حَرِجَ وَهَلَكَ“، قَالُوا‏:‏ يَا رَسُولَ اللهِ، أَنَتَدَاوَى‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”نَعَمْ يَا عِبَادَ اللهِ تَدَاوَوْا، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يَضَعْ دَاءً إِلاَّ وَضَعَ لَهُ شِفَاءً، غَيْرَ دَاءٍ وَاحِدٍ“، قَالُوا‏:‏ وَمَا هِيَ يَا رَسُولَ اللهِ‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”الْهَرَمُ“، قَالُوا‏:‏ يَا رَسُولَ اللهِ، مَا خَيْرُ مَا أُعْطِيَ الإِنْسَانُ‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”خُلُقٌ حَسَنٌ‏.‏“
سیدنا اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (حج کے موقعہ پر) موجود تھا اور دیہاتی آئے۔ بہت سارے لوگ اس طرف سے اور بہت سے اس طرف سے۔ لوگ خاموش ہو گئے اور ان کے علاوہ کوئی بات نہیں کر رہا تھا۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا فلاں فلاں کام کرنے میں کوئی گناہ ہے؟ انہوں نے لوگوں کے بہت سے ایسے امور کا ذکر کیا جن کے کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حرج اور تنگی دور کر دی ہے۔ البتہ جس نے ظلماً کسی کا گوشت کھایا تو وہ حرج میں رہا اور ہلاک ہوا۔ انہوں نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم دوا استعمال کر سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ کے بندو! علاج معالجہ کراؤ، بلاشبہ اللہ عزوجل نے جو بیماری نازل کی ہے اس کی دوا بھی اتاری ہے، سوائے ایک بیماری کے۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ کون سی بیماری ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بڑھاپا۔ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! انسان کو سب سے بہتر اور اچھی چیز کون سی عطا کی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا اخلاق۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 291]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب الطب، باب الرجل يتداوي: 3855، 2015 و الترمذي: 2038 و ابن ماجة: 3436 - انظر التعليقات الحسان: 470/1»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 292
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ‏:‏ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَيْرِ، وَكَانَ أَجْوَدَ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ، حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ جِبْرِيلُ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ، يَعْرِضُ عَلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنَ، فَإِذَا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ‏.‏
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور تمام اوقات میں سب سے زیادہ سخی اس وقت ہوتے جب رمضان میں جبریل امین علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے، اور جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان کی ہر رات میں ملتے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کا دور فرماتے۔ اور جب جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیز ہوا سے بھی زیادہ سخاوت کرتے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 292]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الصوم، باب أجود ما كان النبى صلى الله عليه وسلم يكون فى رمضان: 1902 و مسلم: 2308 و النسائي: 2095»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 293
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ قَالَ‏:‏ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”حُوسِبَ رَجُلٌ مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، فَلَمْ يُوجَدْ لَهُ مِنَ الْخَيْرِ إِلاَّ أَنَّهُ كَانَ رَجُلاً يُخَالِطُ النَّاسَ وَكَانَ مُوسِرًا، فَكَانَ يَأْمُرُ غِلْمَانَهُ أَنْ يَتَجَاوَزُوا عَنِ الْمُعْسِرِ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ‏:‏ فَنَحْنُ أَحَقُّ بِذَلِكَ مِنْهُ، فَتَجَاوَزَ عَنْهُ‏.‏“
سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے والے لوگوں میں سے ایک آدمی کا حساب لیا گیا تو اس کے نامہ اعمال میں اس کے سوا کوئی نیکی نہیں تھی کہ وہ لوگوں سے میل جول رکھتا تھا اور خوشحال تھا، چنانچہ وہ اپنے نوکروں چاکروں کو حکم دیتا کہ تنگ دست سے تجاوز کرو۔ اللہ عزوجل نے فرمایا: ہم اس کی نسبت اس (عفو و درگزر) کے زیادہ حق دار ہیں، اس لیے اس نے اسے معاف کر دیا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 293]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب المساقاة: 30، 1561 و الترمذي: 1307»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 294
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، عَنِ ابْنِ إِدْرِيسَ قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ عَنْ جَدِّي، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ‏:‏ سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ مَا أَكْثَرُ مَا يُدْخِلُ الْجَنَّةَ‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”تَقْوَى اللهِ، وَحُسْنُ الْخُلُقِ“، قَالَ‏:‏ وَمَا أَكْثَرُ مَا يُدْخِلُ النَّارَ‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”الأَجْوَفَانِ‏:‏ الْفَمُ وَالْفَرْجُ‏.‏“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: جنت میں سب سے زیادہ کیا چیز داخل کرے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا تقویٰ اور حسن اخلاق۔ سائل نے پوچھا: جہنم میں جانے کا کیا چیز زیادہ باعث بنے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو کھوکھلی چیزیں: منہ اور شرمگاہ۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 294]
تخریج الحدیث: «حسن: تقدم تخريجه برقم: 289»

قال الشيخ الألباني: حسن

حدیث نمبر: 295
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا مَعْنٌ، عَنْ مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ نَوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ الأَنْصَارِيِّ، أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْبِرِّ وَالإِثْمِ‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”الْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ، وَالإِثْمُ مَا حَكَّ فِي نَفْسِكَ وَكَرِهْتَ أَنْ يَطَّلِعَ عَلَيْهِ النَّاسُ‏.‏“
سیدنا نواس بن سمعان انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اور گناہ کے متعلق دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نیکی حسن اخلاق کا نام ہے، اور گناہ وہ ہے جو تیرے سینے میں کھٹکے اور تو ناپسند کرے کہ لوگ اس پر مطلع ہوں۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 295]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب البر و الصلة و الآداب: 15، 2553 و الترمذي: 2389»

قال الشيخ الألباني: صحيح

139. بَابُ الْبُخْلِ
139. بخل کی مذمت کا بیان
حدیث نمبر: 296
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِي الأَسْوَدِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ الأَسْوَدِ، عَنِ الْحَجَّاجِ الصَّوَّافِ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا جَابِرٌ قَالَ‏:‏ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”مَنْ سَيِّدُكُمْ يَا بَنِي سَلِمَةَ‏؟“‏ قُلْنَا‏:‏ جُدُّ بْنُ قَيْسٍ، عَلَى أَنَّا نُبَخِّلُهُ، قَالَ‏:‏ ”وَأَيُّ دَاءٍ أَدْوَى مِنَ الْبُخْلِ‏؟‏ بَلْ سَيِّدُكُمْ عَمْرُو بْنُ الْجَمُوحِ“، وَكَانَ عَمْرٌو عَلَى أَصْنَامِهِمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ يُولِمُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا تَزَوَّجَ‏.‏
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنو سلمہ! تمہارا سردار کون ہے؟ ہم نے عرض کیا: جد بن قیس، اگرچہ ہم اسے بخیل سمجھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بخل سے بڑی بھی کوئی بیماری ہے؟ بلکہ تمہارے سردار عمرو بن جموح ہیں۔ اور عمرو بن جموح زمانہ جاہلیت میں ان کے بتوں کے نگران تھے۔ بعد ازاں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم شادی کرتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ولیمے کا انتظام کرتے تھے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 296]
تخریج الحدیث: «صحيح: الروض النضير: 484 - أخرجه بتمامه أبوالشيخ فى الأمثال: 92 و البيهقي فى الشعب: 289/13 و أبونعيم فى معرفة الصحابة: 1986/4»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 297
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلامٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا وَرَّادٌ كَاتِبُ الْمُغِيرَةِ قَالَ‏:‏ كَتَبَ مُعَاوِيَةُ إِلَى الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ‏:‏ أَنِ اكْتُبْ إِلَيَّ بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ الْمُغِيرَةُ‏:‏ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْهَى عَنْ قِيلَ وَقَالَ، وَإِضَاعَةِ الْمَالِ، وَكَثْرَةِ السُّؤَالِ، وَعَنْ مَنْعٍ وَهَاتِ، وَعُقُوقِ الأُمَّهَاتِ، وَعَنْ وَأْدِ الْبَنَاتِ‏.‏
سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ کے سیکرٹری وراد سے روایت ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ مجھے کوئی ایسی حدیث لکھ بھیجو جو تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو، تو سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے لکھا: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قیل و قال سے منع کرتے تھے، مال ضائع کرنے، کثرت سوال سے روکتے تھے، نیز خود روک لینے اور لوگوں سے خرچ کرنے کے مطالبے، ماؤں کی نافرمانی اور بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے سے بھی منع کرتے تھے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 297]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الرقاق، باب ما يكره من قيل و قال: 6473 و مسلم: 593»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 298
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ ابْنَ عُيَيْنَةَ قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ ابْنَ الْمُنْكَدِرِ، سَمِعْتُ جَابِرًا‏:‏ مَا سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْءٍ قَطُّ فَقَالَ‏:‏ لَا‏.‏
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی کوئی چیز طلب کی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں نہیں دوں گا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 298]
تخریج الحدیث: «صحيح: تقدم تخريجه برقم: 279»

قال الشيخ الألباني: صحيح


Previous    1    2    3    4    5    Next