15. باب فِي الْحَيَوَانِ بِالْحَيَوَانِ نَسِيئَةً
15. باب: جانور کے بدلے جانور کو ادھار بیچنا منع ہے۔
سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور کے بدلے جانور ادھار بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 3356]
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/البیوع 21 (1237)، سنن النسائی/البیوع 63 (4624)، سنن ابن ماجہ/التجارات 56 (2270)، (تحفة الأشراف: 4583)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/12، 21، 22)، سنن الدارمی/البیوع 30 (2606) (صحیح) حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء 2416)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
16. باب فِي الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ
16. باب: جانور کے بدلے جانور کو ادھار بیچنے کے جواز کا بیان۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک لشکر تیار کرنے کا حکم دیا، تو اونٹ کم پڑ گئے تو آپ نے صدقہ کے جوان اونٹ کے بدلے اونٹ (ادھار) لینے کا حکم دیا تو وہ صدقہ کے اونٹ آنے تک کی شرط پر دو اونٹ کے بدلے ایک اونٹ لیتے تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 3357]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 8899)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/171، 216) (ضعیف)» (اس کے رواة مسلم، ابو سفیان اور عمرو سب مجہول ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
17. باب فِي ذَلِكَ إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ
17. باب: ایک جاندار کو دوسرے جاندار کے بدلے نقد بیچنا جائز ہے۔
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غلام دو غلام کے بدلے خریدا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 3358]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساقاة 23 (1602)، سنن الترمذی/البیوع 22 (1239)، السیر 36 (1596)، سنن النسائی/البیعة 21 (4189)، البیوع 64 (4625)، سنن ابن ماجہ/الجھاد 41 (2869)، (تحفة الأشراف: 2904)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/349، 372) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
18. باب فِي التَّمْرِ بِالتَّمْرِ
18. باب: کھجور کے بدلے کھجور بیچنے کا بیان۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّ زَيْدًا أَبَا عَيَّاشٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَأَلَ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنِ الْبَيْضَاءِ بِالسُّلْتِ، فَقَالَ لَهُ سَعْدٌ: أَيُّهُمَا أَفْضَلُ؟، قَالَ: الْبَيْضَاءُ فَنَهَاهُ عَنْ ذَلِكَ، وَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُسْأَلُ عَنْ شِرَاءِ التَّمْرِ بِالرُّطَبِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيَنْقُصُ الرُّطَبُ إِذَا يَبِسَ؟، قَالُوا: نَعَمْ، فَنَهَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ إِسْمَاعِيل بْنُ أُمَيَّةَ نَحْوَ، مَالِكٍ.
عبداللہ بن یزید سے روایت ہے کہ زید ابوعیاش نے انہیں خبر دی کہ انہوں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ گیہوں کو «سلت» (بغیر چھلکے کے جو) سے بیچنا کیسا ہے؟ سعد رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ان دونوں میں سے کون زیادہ اچھا ہوتا ہے؟ زید نے کہا: گیہوں، تو انہوں نے اس سے منع کیا اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے (جب) سوکھی کھجور کچی کھجور کے بدلے خریدنے کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا جا رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تر کھجور جب سوکھ جائے تو کم ہو جاتی ہے؟“ لوگوں نے کہا: ہاں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے منع فرما دیا ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسماعیل بن امیہ نے اسے مالک کی طرح روایت کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 3359]
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/البیوع 14 (1225)، سنن النسائی/البیوع 34 (4559)، سنن ابن ماجہ/التجارات 53 (2264)، (تحفة الأشراف: 3854)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/البیوع 12 (22)، مسند احمد (1/175، 179) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوعیاش نے خبر دی کہ انہوں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تر کھجور سوکھی کھجور کے عوض ادھار بیچنے سے منع فرمایا ہے“ ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے عمران بن انس نے مولی بنی مخزوم سے انہوں نے سعد رضی اللہ عنہ سے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 3360]
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 3854) (شاذ)» (اصل حدیث (3358) کے مطابق ہے لیکن «نسیئة» کا لفظ ثابت نہیں ہے، یہ یحییٰ بن ابی کثیر کا اضافہ ہے، جس پر کسی ثقہ نے موافقت نہیں کی ہے) ملاحظہ ہو: ارواء الغلیل (5؍200) «قال أبو داود رواه عمران بن أبي أنس عن مولى لبني مخزوم عن سعد عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه (صحیح) » (اس میں نسیئتہ کا ذکر نہیں ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح ليس فيه نسيئة
19. باب فِي الْمُزَابَنَةِ
19. باب: مزابنہ کا بیان۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت پر لگی ہوئی کھجور کا اندازہ کر کے سوکھی کھجور کے بدلے ناپ کر بیچنے سے منع فرمایا ہے، اسی طرح انگور کا (جو بیلوں پر ہو) اندازہ کر کے اسے سوکھے انگور کے بدلے ناپ کر بیچنے سے منع فرمایا ہے اور غیر پکی ہوئی فصل کا اندازہ کر کے اسے گیہوں کے بدلے ناپ کر بیچنے سے منع فرمایا ہے (کیونکہ اس میں کمی و بیشی کا احتمال ہے)۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 3361]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البیوع 14 (1542)، (تحفة الأشراف: 8273، 8131)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/البیوع 82 (2185)، سنن النسائی/البیوع 30 (4537)، 37 (4553)، سنن ابن ماجہ/التجارات 54 (2265)، موطا امام مالک/البیوع 8 (10)، مسند احمد (2/7، 168) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
20. باب فِي بَيْعِ الْعَرَايَا
20. باب: بیع عرایا جائز ہے۔
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خشک سے تر کھجور کی بیع کو عرایا میں اجازت دی ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 3362]
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/البیوع 31 (4541)، (تحفة الأشراف: 3723، 3705)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/البیوع 75 (2173)، 82 (2184)، 84 (2188)، المساقاة 17 (2380)، صحیح مسلم/البیوع 14 (1539)، سنن الترمذی/البیوع 63 (1302)، سنن ابن ماجہ/التجارات 55 (2268)، موطا امام مالک/البیوع 9 (14)، مسند احمد (5/181، 182، 188، 192)، سنن الدارمی/ البیوع 24 (2600) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (درخت پر پھلے) کھجور کو (سوکھے) کھجور کے عوض بیچنے سے منع فرمایا ہے لیکن عرایا میں اس کو «تمر» (سوکھی کھجور) کے بدلے میں اندازہ کر کے بیچنے کی اجازت دی ہے تاکہ لینے والا تازہ پھل کھا سکے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 3363]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 83 (2191)، المساقاة 17 (2384)، صحیح مسلم/البیوع 14 (1540)، سنن الترمذی/البیوع 64 (1303)، سنن النسائی/البیوع 33 (4548)، (تحفة الأشراف: 4646)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/2) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
21. باب فِي مِقْدَارِ الْعَرِيَّةِ
21. باب: بیع عریہ کس مقدار تک درست ہے؟
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ وسق سے کم یا پانچ وسق تک عرایا کے بیچنے کی رخصت دی ہے (یہ شک داود بن حصین کو ہوا ہے)۔ ابوداؤد کہتے ہیں: جابر کی حدیث میں چار وسق تک ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 3364]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 83 (2190)، والمساقاة 17 (2382)، صحیح مسلم/البیوع 14 (1541)، سنن الترمذی/البیوع 63 (1301)، سنن النسائی/البیوع 33 (4545)، (تحفة الأشراف: 14943)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/237) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
22. باب تَفْسِيرِ الْعَرَايَا
22. باب: عرایا کی تفسیر۔
عبدربہ بن سعید انصاری کہتے ہیں عرایا یہ ہے کہ ایک آدمی ایک شخص کو کھجور کا ایک درخت دیدے یا اپنے باغ میں سے دو ایک درخت اپنے کھانے کے لیے الگ کر لے پھر اسے سوکھی کھجور سے بیچ دے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 3365]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 18951) (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد مقطوع