الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ترمذي
كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے احکامات اور فیصلے
16. باب مَا جَاءَ فِي الرُّقْبَى
16. باب: رقبیٰ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1351
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ , عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ , عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْعُمْرَى جَائِزَةٌ لِأَهْلِهَا , وَالرُّقْبَى جَائِزَةٌ لِأَهْلِهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ , وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ , عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ , بِهَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ جَابِرٍ , مَوْقُوفًا وَلَمْ يَرْفَعْهُ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , أَنَّ الرُّقْبَى جَائِزَةٌ مِثْلَ الْعُمْرَى , وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ , وَإِسْحَاق , وَفَرَّقَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ , بَيْنَ الْعُمْرَى , وَالرُّقْبَى , فَأَجَازُوا الْعُمْرَى , وَلَمْ يُجِيزُوا الرُّقْبَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَتَفْسِيرُ الرُّقْبَى: أَنْ يَقُولَ هَذَا الشَّيْءُ لَكَ مَا عِشْتَ , فَإِنْ مُتَّ قَبْلِي فَهِيَ رَاجِعَةٌ إِلَيَّ , وَقَالَ أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق , الرُّقْبَى مِثْلُ الْعُمْرَى , وَهِيَ لِمَنْ أُعْطِيَهَا , وَلَا تَرْجِعُ إِلَى الْأَوَّلِ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمریٰ جس کو دیا گیا اس کے گھر والوں کا ہے اور رقبیٰ ۱؎ بھی جس کو دیا گیا ہے اس کے گھر والوں کا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اور بعض نے اسی سند سے ابوزبیر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے اسے جابر سے موقوفاً نقل کیا ہے، اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع نہیں کیا ہے،
۳- رقبیٰ کی تفسیر یہ ہے کہ کوئی آدمی کہے کہ یہ چیز جب تک تم زندہ رہو گے تمہاری ہے اور اگر تم مجھ سے پہلے مر گئے تو یہ پھر میری طرف لوٹ آئے گی،
۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ عمریٰ کی طرح رقبیٰ بھی جسے دیا گیا ہے اس کے گھر والوں ہی کا ہو گا۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ اور اہل کوفہ وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے عمریٰ اور رقبیٰ کے درمیان فرق کیا ہے، ان لوگوں نے عمریٰ کو تو معمر (جس کے نام چیز دی گئی تھی) کی موت کے بعد اس کے ورثاء کا حق بتایا ہے اور رقبیٰ کو کہا ہے کہ ورثاء کا حق نہیں ہو گا بلکہ وہ دینے والی کی طرف لوٹ جائے گا۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1351]
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 2705) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2383)

17. باب مَا ذُكِرَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصُّلْحِ بَيْنَ النَّاسِ
17. باب: لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے سلسلے میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات۔
حدیث نمبر: 1352
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ , حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيُّ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ , أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ , إِلَّا صُلْحًا حَرَّمَ حَلَالًا , أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا , وَالْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ إِلَّا شَرْطًا حَرَّمَ حَلَالًا , أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عمرو بن عوف مزنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صلح مسلمان کے درمیان نافذ ہو گی سوائے ایسی صلح کے جو کسی حلال کو حرام کر دے یا کسی حرام کو حلال۔ اور مسلمان اپنی شرطوں کے پابند ہیں۔ سوائے ایسی شرط کے جو کسی حلال کو حرام کر دے یا کسی حرام کو حلال۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1352]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الأحکام 23 (2353)، (تحفة الأشراف: 10775) (صحیح) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ ”کثیر بن عبداللہ“ ضعیف راوی ہیں، دیکھئے: الارواء رقم 1303)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2353)

18. باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَضَعُ عَلَى حَائِطِ جَارِهِ خَشَبًا
18. باب: پڑوسی کی دیوار پر لکڑی رکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1353
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ , عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ الْأَعْرَجِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا اسْتَأْذَنَ أَحَدَكُمْ جَارُهُ أَنْ يَغْرِزَ خَشَبَهُ فِي جِدَارِهِ , فَلَا يَمْنَعْهُ ". فَلَمَّا حَدَّثَ أَبُو هُرَيْرَةَ , طَأْطَئُوا رُءُوسَهُمْ , فَقَالَ: مَا لِي أَرَاكُمْ عَنْهَا مُعْرِضِينَ , وَاللَّهِ لَأَرْمِيَنَّ بِهَا بَيْنَ أَكْتَافِكُمْ , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , وَمُجَمِّعِ بْنِ جَارِيَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ , وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ , وَرُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ , مِنْهُمْ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ , قَالُوا لَهُ: أَنْ يَمْنَعَ جَارَهُ أَنْ يَضَعَ خَشَبَهُ فِي جِدَارِهِ , وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جب تم میں سے کسی کا پڑوسی اس کی دیوار میں لکڑی گاڑنے کی اس سے اجازت طلب کرے تو وہ اسے نہ روکے۔ ابوہریرہ رضی الله عنہ نے جب یہ حدیث بیان کی تو لوگوں نے اپنے سر جھکا لیے تو انہوں نے کہا: کیا بات ہے، میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ اس سے اعراض کر رہے ہو؟ اللہ کی قسم میں اسے تمہارے شانوں پر مار کر ہی رہوں گا یعنی تم سے اسے بیان کر کے ہی رہوں گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عباس اور مجمع بن جاریہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ شافعی بھی اسی کے قائل ہیں،
۴- بعض اہل علم سے مروی ہے: جن میں مالک بن انس بھی شامل ہیں کہ اس کے لیے درست ہے کہ اپنے پڑوسی کو دیوار میں لکڑی گاڑنے سے منع کر دے، پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1353]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المظالم 20 (2463)، صحیح مسلم/المساقاة 29 (البیوع 50)، (1609)، سنن ابی داود/ الأقضیة 31 (3634)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 15 (2335)، (تحفة الأشراف: 13954)، وط/الأقضیة 26 (32)، و مسند احمد (2/396) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2335)

19. باب مَا جَاءَ أَنَّ الْيَمِينَ عَلَى مَا يُصَدِّقُهُ صَاحِبُهُ
19. باب: قسم اسی چیز پر واقع ہو گی جس پر مدعی قسم لے رہا ہے۔
حدیث نمبر: 1354
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ الْمَعْنَى وَاحِدٌ , قَالَا: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْيَمِينُ عَلَى مَا يُصَدِّقُكَ بِهِ صَاحِبُكَ " , وقَالَ قُتَيْبَةُ: " عَلَى مَا صَدَّقَكَ عَلَيْهِ صَاحِبُكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ , لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ هُشَيْمٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ , وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي صَالِحٍ: هُوَ أَخُو سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ , وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق , وَرُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ , أَنَّهُ قَالَ: إِذَا كَانَ الْمُسْتَحْلِفُ ظَالِمًا , فَالنِّيَّةُ نِيَّةُ الْحَالِفِ , وَإِذَا كَانَ الْمُسْتَحْلِفُ مَظْلُومًا , فَالنِّيَّةُ نِيَّةُ الَّذِي اسْتَحْلَفَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم اسی چیز پر واقع ہو گی جس پر تمہارا ساتھی (فریق مخالف) قسم لے رہا ہے (توریہ کا اعتبار نہیں ہو گا)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- ہم اسے ہشیم ہی کی روایت سے جانتے ہیں جسے انہوں نے عبداللہ بن ابی صالح سے روایت کی ہے۔ اور عبداللہ بن ابی صالح، سہیل بن ابی صالح کے بھائی ہیں،
۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں،
۴- ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ جب قسم لینے والا ظالم ہو تو قسم کھانے والے کی نیت کا اعتبار ہو گا، اور جب قسم لینے والا مظلوم ہو تو قسم لینے والے کی نیت کا اعتبار ہو گا۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1354]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الأیمان والنذور 4 (1653)، سنن ابی داود/ الأیمان والنذور 8 (3255)، سنن ابن ماجہ/الکفارات 14 (2120)، (تحفة الأشراف: 12826)، و مسند احمد (2/228)، و سنن الدارمی/النذور 11 (2394) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2121)

20. باب مَا جَاءَ فِي الطَّرِيقِ إِذَا اخْتُلِفَ فِيهِ كَمْ يُجْعَلُ
20. باب: راستے کے سلسلہ میں جب اختلاف ہو تو اسے کتنا چھوڑا جائے؟
حدیث نمبر: 1355
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ الْمُثَنَّى بْنِ سَعِيدٍ الضُّبَعِيِّ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اجْعَلُوا الطَّرِيقَ سَبْعَةَ أَذْرُعٍ ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: راستہ سات ہاتھ (چوڑا) رکھو۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1355]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12218)، وانظر ما یأتي (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2338)

حدیث نمبر: 1356
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ بُشَيْرِ بْنِ كَعْبٍ الْعَدَوِيِّ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا تَشَاجَرْتُمْ فِي الطَّرِيقِ , فَاجْعَلُوهُ سَبْعَةَ أَذْرُعٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ وَكِيعٍ. قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ بُشَيْرِ بْنِ كَعْبٍ الْعَدَوِيِّ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , وَهُوَ غَيْرُ مَحْفُوظٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب راستے کے سلسلے میں تم میں اختلاف ہو تو اسے سات ہاتھ (چوڑا) رکھو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ (سابقہ) وکیع کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،
۲- بشیر بن کعب کی حدیث جسے انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے حسن صحیح ہے، اور بعض نے اسے قتادہ سے اور قتادہ نے بشیر بن نہیک سے اور بشیر نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے اور یہ غیر محفوظ ہے،
۳- اس باب میں ابن عباس سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1356]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المظالم 29 (2473)، صحیح مسلم/المساقاة 31 (البیوع 52)، (1613)، سنن ابی داود/ الأقضیة 31 (3633)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 16 (2338)، (تحفة الأشراف: 12223)، و مسند احمد (2/466) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

21. باب مَا جَاءَ فِي تَخْيِيرِ الْغُلاَمِ بَيْنَ أَبَوَيْهِ إِذَا افْتَرَقَا
21. باب: ماں باپ کی جدائی کی صورت میں بچے کو اختیار دئیے جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1357
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ زِيَادِ بْنِ سَعْدٍ , عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ الثَّعْلَبِيِّ , عَنْ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيَّرَ غُلَامًا بَيْنَ أَبِيهِ وَأُمِّهِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , وَجَدِّ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَأَبُو مَيْمُونَةَ اسْمُهُ: سُلَيْمٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , قَالُوا: يُخَيَّرُ الْغُلَامُ بَيْنَ أَبَوَيْهِ إِذَا وَقَعَتْ بَيْنَهُمَا الْمُنَازَعَةُ فِي الْوَلَدِ , وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ , وَإِسْحَاق , وَقَالَا: " مَا كَانَ الْوَلَدُ صَغِيرًا , فَالْأُمُّ أَحَقُّ , فَإِذَا بَلَغَ الْغُلَامُ سَبْعَ سِنِينَ , خُيِّرَ بَيْنَ أَبَوَيْهِ " , هِلَالُ بْنُ أَبِي مَيْمُونَةَ: هُوَ هِلَالُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ أُسَامَةَ وَهُوَ مَدَنِيٌّ , وَقَدْ رَوَى عَنْهُ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ , وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ , وَفُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو اختیار دیا کہ چاہے وہ اپنے باپ کے ساتھ رہے اور چاہے اپنی ماں کے ساتھ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو اور عبدالحمید بن جعفر کے دادا رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب ماں باپ کے درمیان بچے کے سلسلے میں اختلاف ہو جائے تو بچے کو اختیار دیا جائے گا چاہے وہ اپنے باپ کے ساتھ رہے اور چاہے وہ اپنی ماں کے ساتھ رہے۔ یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب بچہ کم سن ہو تو اس کی ماں زیادہ مستحق ہے۔ اور جب وہ سات سال کا ہو جائے تو اس کو اختیار دیا جائے، چاہے تو باپ کے ساتھ رہے یا چاہے تو ماں کے ساتھ رہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1357]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطلاق 35 (2277)، سنن النسائی/الطلاق 52 (3526)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 22 (2351)، (تحفة الأشراف: 15463)، و مسند احمد (2/447)، وسنن الدارمی/الطلاق 15 (2339) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2351)

22. باب مَا جَاءَ أَنَّ الْوَالِدَ يَأْخُذُ مِنْ مَالِ وَلَدِهِ
22. باب: باپ بیٹے کے مال میں سے لے سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 1358
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ , عَنْ عَمَّتِهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أَطْيَبَ مَا أَكَلْتُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ , وَإِنَّ أَوْلَادَكُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ جَابِرٍ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ , وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا , عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ , عَنْ أُمِّهِ , عَنْ عَائِشَةَ , وَأَكْثَرُهُمْ قَالُوا: عَنْ عَمَّتِهِ , عَنْ عَائِشَةَ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , قَالُوا: إِنَّ يَدَ الْوَالِدِ مَبْسُوطَةٌ فِي مَالِ وَلَدِهِ , يَأْخُذُ مَا شَاءَ , وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا يَأْخُذُ مِنْ مَالِهِ إِلَّا عِنْدَ الْحَاجَةِ إِلَيْهِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے پاکیزہ چیز جس کو تم کھاتے ہو تمہاری اپنی کمائی ہے اور تمہاری اولاد بھی تمہاری کمائی میں سے ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- بعض لوگوں نے عمارہ بن عمیر سے اور عمارہ نے اپنی ماں سے اور ان کی ماں نے عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کی ہے، لیکن اکثر راویوں نے «عن أمّه» کے بجائے «عن عمته» کہا ہے یعنی عمارہ بن عمیر نے اپنی پھوپھی سے اور انہوں نے عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کی ہے،
۳- اس باب میں جابر اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ باپ کو بیٹے کے مال میں کلی اختیار ہے وہ جتنا چاہے لے سکتا ہے،
۵- اور بعض کہتے ہیں کہ باپ اپنے بیٹے کے مال سے بوقت ضرورت ہی لے سکتا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1358]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 79 (3528)، سنن النسائی/البیوع 1 (4454)، سنن ابن ماجہ/التجارات 1 (2137)، (تحفة الأشراف: 17992)، و مسند احمد (6/31، 42، 127، 162، 193، 220)، سنن الدارمی/البیوع 6 (2579) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2137)

23. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ يُكْسَرُ لَهُ الشَّىْءُ مَا يُحْكَمُ لَهُ مِنْ مَالِ الْكَاسِرِ
23. باب: جس کی کوئی چیز توڑ دی جائے تو توڑنے والے کے مال سے اس کا تاوان لیا جائے گا۔
حدیث نمبر: 1359
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ , حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ , عَنْ حُمَيْدٍ , عَنْ أَنَسٍ , قَالَ: أَهْدَتْ بَعْضُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا فِي قَصْعَةٍ , فَضَرَبَتْ عَائِشَةُ الْقَصْعَةَ بِيَدِهَا , فَأَلْقَتْ مَا فِيهَا , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " طَعَامٌ بِطَعَامٍ , وَإِنَاءٌ بِإِنَاءٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی نے آپ کے پاس پیالے میں کھانے کی کوئی چیز ہدیہ کی، عائشہ رضی الله عنہا نے (غصے میں) اپنے ہاتھ سے پیالے کو مار کر اس کے اندر کی چیز گرا دیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھانے کے بدلے کھانا اور پیالے کے بدلے پیالہ ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1359]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 677)، وراجع: صحیح البخاری/المظالم 34 (2481)، والنکاح 107 (5225)، سنن ابی داود/ البیوع 91 (3567)، سنن النسائی/عشرة النساء 4 (3407)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 14 (2334)، مسند احمد (3/105، 263)، سنن الدارمی/البیوع 58 (2640) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2334)

حدیث نمبر: 1360
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ , أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ , عَنْ حُمَيْدٍ , عَنْ أَنَسٍ , " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعَارَ قَصْعَةً , فَضَاعَتْ فَضَمِنَهَا لَهُمْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ , وَإِنَّمَا أَرَادَ عِنْدِي سُوَيْدٌ الْحَدِيثَ الَّذِي رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ، وَحَدِيثُ الثَّوْرِيِّ أصح اسم أبي داود عمر بن سعد.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیالہ منگنی لیا وہ ٹوٹ گیا، تو آپ نے جن سے پیالہ لیا تھا انہیں اس کا تاوان ادا کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث محفوظ نہیں ہے،
۲- سوید نے مجھ سے وہی حدیث بیان کرنی چاہی تھی جسے ثوری نے روایت کی ہے ۱؎،
۳- ثوری کی حدیث زیادہ صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1360]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 688) (ضعیف جداً) (سند میں ”سوید بن عبد العزیز“ سخت ضعیف ہے، صحیح واقعہ وہ جو اگلی حدیث میں مذکور ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد جدا


Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next